مثنوی کی تعریف، اجزائے ترکیبی اور آغاز و ارتقا

0
  • اردو کی ادبی اصناف (ثانوی و اعلیٰ جماعت کے لیے)
  • سبق نمبر03:مثنوی

مثنوی اردو کی ایک معروف بیانیہ صنف ہے۔ مثنوی مسلسل اشعار کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جس میں ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ مثنوی میں ردیف کا استعمال نسبتاً کم ہوتا ہے۔ یہ عام طور پر چھوٹی بحر میں لکھی جاتی ہے۔مثنوی میں اشعار کی تعداد بھی مقرر نہیں ہے۔ اردو میں طویل اور مختصر دونوں طرح کی مثنویاں لکھی گئی ہیں۔

موضوعات کے اعتبار سے مثنوی کا دامن بہت وسیع ہے۔ اس میں داستان کی طرح مافوق الفطرت قصے عشق و محبت کی کہانیاں، جنگ اور مہم جوئی کے واقعات کسی معاشرے کے حالات اور نصیحت کے مضامین بھی بیان ہوتے ہیں۔ مثنوی کے اجزائے ترکیبی مقر رنہیں ہیں۔طویل اور عموماً قدیم مثنویوں میں عام طور پر آٹھ اجزا ملتے ہیں۔

حمد و مناجات:

کروں پہلے توحید یزداں رقم
جھکا جس کے سجدے کو اول قلم

نعت:

نبی کون؟ یعنی رسول کریم
نبوت کے دریا کا در یتیم

منقبت:

علی دین و دنیا کا سردار ہے
کہ مختار ہے گھر کا مختار ہے

حاکم وقت کی مدح:

خدیو فلک،شاہ عالی گہر
زمین بوس ہوئی جس کے شمس و قمر

اپنی شاعری کی تعریف:

پلا مجھ کو ساقی!شراب سخن
کہ مفتوح ہو جس سے باب سخن

مثنوی لکھنے کا سبب:

سو میں اک کہانی بنا کر نئی
در فکر سے گوندھ لڑیاں کئی
لے آیا ہوں خدمت میں بہر نیاز
یہ امید ہے کہ پھر ہوں سرفراز

قصہ یا واقعہ:

کسی شہر میں تھا کوئی بادشاہ
کہ تھا وہ شہنشاہ گیتی پناہ

خاتمہ:

رہے گا جہاں میں مرا اس سے نام
کہ ہے یادگار جہاں یہ کلام

یہ ضروری نہیں کہ مثنوی میں یہ تمام اجزا موجود ہوں اور اسی ترتیب سے ہوں۔ انیسویں صدی کے آخر سے ان اجزا کی پابندی نہیں کی گئی۔اردو کی قدیم مثنویوں میں زیادہ تر عشقیہ قصے اور مذہبی و اخلاقی مضامین نظم کیے گئے ہیں۔ ان میں نثری داستانوں کی بیش تر خصوصیات، قصہ درقصہ ، مثالی کردار اور مافوق الفطرت عناصر موجود ہیں۔ مثنویوں میں عام طور پر اپنے زمانے کی تہذیب و معاشرت کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں۔

اردو مثنوی کا ارتقا:

سولھویں صدی میں جب دکن میں اردو شعر گوئی کا آغاز ہوا، اس زمانے میں مثنویاں کہنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ دکن میں جو مثنویاں لکھی گئیں ، ان میں نظامی کی مثنوی کدم راؤ پدم راؤ ، سید شاہ اشرف بیابانی کی مثنوی نوسر ہار، نصرتی کی علی نامہ، ملا وجہی کی مثنوی ‘قطب مشتری اور ابن نشاطی کی پھول بن اہم ہیں۔ سراج اورنگ آبادی کی طویل مثنوی بوستان خیال دکن کی نمائندہ مثنویوں میں سے ایک ہے۔

شمالی ہند میں مرزا محمد رفیع سودا اور میرتقی میر نے مثنوی گوئی کی روایت کو مستحکم کیا۔ میر کی مثنویاں ،’شعلۂ شوق اور دریائے عشق ، میر اثر دہلوی کی مثنوی خواب و خیال اس دور کی اہم مثنویاں ہیں۔ اردو کی سب سے اہم مثنوی سحر البیان ہے۔ یہ مثنوی میر حسن کی ہے۔ اس مثنوی میں میرحسن نے شہزادہ بے نظیر اور شہزادی بدرمنیر کی داستان عشق نظم کی ہے۔ کردار نگاری ، منظر نگاری اور جذبات نگاری کے اعتبار سے یہ مثنوی بے مثال سمجھی جاتی ہے۔ اس میں اپنے عہد کی تہذیب، معاشرت، رہن سہن ، آداب و اطوار اور رسم و رواج کا تفصیلی بیان ملتا ہے۔

سحر البیان زبان و بیان کے اعتبار سے بھی اہم ہے۔ محاورے کی لطافت اور طرز ادا نے اس مثنوی کے لطف واثر کو دوبالا کر دیا ہے۔پنڈت دیا شنکرنسیم کی مثنوی گلزار نسیم بھی ایک بلند پایہ مثنوی ہے۔ اس میں مختلف داستانوں سے ماخوذ ایک مشہور قصہ بیان کیا گیا ہے۔ اس مثنوی کی اہم خوبی اس کا اسلوب اور انداز بیان ہے۔

گلزار نسیم میں رعایت لفظی ، تشبیہ، استعارے اور دوسری صنعتوں کو خوبی کے ساتھ برتا گیا ہے۔ اس کی زبان لکھنو کے مزاج کے مطابق پر تکلف ہے۔ اختصار اور ایجاز اس کی خاص خوبی ہے۔ نسیم کم سے کم الفاظ کا استعمال کرتے ہیں اور بڑی بڑی باتیں کہہ جاتے ہیں۔نواب مرزا شوق نے بھی مثنوی گوئی کی روایت کو فروغ دیا۔ انھوں نے کئی مثنویاں لکھیں جن میں بہار عشق اور زہر عشق کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ اردو کی پہلی مثنویاں ہیں جن کے تمام کردار زمین پر بسنے والے انسان ہیں اور ان میں کوئی مافوق الفطرت واقعہ بیان نہیں کیا گیا ہے۔ زہر عشق کا قصہ سادہ اور پر اثر ہے۔ اس مثنوی کی اہم خوبی اس کی جذبات نگاری ہے۔ شوق کی زبان سادہ اور پرلطف ہے۔ محاوروں اور روز مرہ کے استعمال میں بھی بڑی خوبی برتی گئی ہے۔

انیسویں صدی کے نصف آخر میں انگریزی تعلیم کے اثر سے اردو ادب میں جو تبد یلیاں رونما ہوئیں ان کے زیر اثر اردو مثنوی نے بھی ارتقا کے نئے مراحل طے کیے۔ اس عہد میں مثنوی میں اسلوب اور موضوع کے اعتبار سے نمایاں تبدیلی رونما ہوئی۔ زندگی کے گوناگوں پہلوؤں کو مثنوی کی ہیئت میں سیدھے سادے اسلوب میں بیان کیا جانے لگا۔ جیسے حالی کی مثنویاں برکھا رت ، شکوۂ ہند ، چپ کی داد اور مناجات بیوہ وغیرہ۔اس عہد میں اسمعیل میرٹھی نے بچوں کے لیے مثنوی کی ہیئت میں بھی بہت سی نظمیں لکھیں۔

علامہ اقبال نے مثنوی کی طرف خصوصی توجہ کی اور کئی مثنویاں لکھیں۔ ان کی مثنوی ‘ساقی نامۂ فکروفن کا نادر نمونہ ہے۔ جوش ملیح آبادی ، جمیل مظہری، کیفی اعظمی ، قاضی سلیم اور جاں نثار اختر وغیرہ نے بھی بعض عمدہ مثنویاں لکھی ہیں۔ حفیظ جالندھری کی مثنوی ‘ شاہ نامہ اسلام ایک اہم طویل مثنوی ہے۔ اس کا موضوع اسلام کے عروج کی تاریخ ہے یہ مثنوی چار جلدوں پر مشتمل ہے اور بیانیہ کا عمدہ نمونہ ہے۔