نظم دربار دہلی کی تشریح

0

نظم “دربار دہلی” اکبر الہ آبادی کی نظم ہے جسے قطعہ بند ہیت میں لکھا گیا ہے۔ اس نظم میں 24 بند شامل ہیں۔نظم میں شاعر نے دہلی کے شاہی دربار کی سیر اور اس دربار کے جلوے اور تمکنت کو منفرد شعری انداز میں بیان کیا ہے۔

سر میں شوق کا سودا دیکھا
دہلی کو ہم نے بھی جا دیکھا
جو کچھ دیکھا اچھا دیکھا
کیا بتلائیں کیا کیا دیکھا

نظم کے اس بند میں شاعر اکبر الہ آبادی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے دہلی شہر دیکھنے کا شوق ہوا تو میں دہلی کو دیکھنے جا پہنچا۔جب میں نے شہر کی سیر کی تو یہاں پر جو کچھ دیکھا وہ بہت خوب اور اچھا تھا۔اب میں کیا بتاؤں کہ یہاں میں نے کیا کیا دیکھا تھا۔

نظم ہے مجھ کو بادہ صافی
شغل یہی ہے دل کو کافی
مانگتا ہوں یاروں سے معافی
خیر اب دیکھئے لطفِ قوافی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ نظم میرے لیے ایک بے ریا شراب کی طرح ہے۔میرے دل کو بہلانے کے لیے مجھے کسی شراب کی ضرورت نہیں ہے بلکہ میرے لیے شاعری کا یہ شغل ہی کافی ہے۔ میں اپنے دوستوں سے معافی کا طلب گار ہوں۔لیکن اب میرے قافیے کا لطف دیکھیے۔

جمنا جی کے پاٹ کو دیکھا
اچھے ستھرے گھاٹ کو دیکھا
سب سے اونچے لاٹ کو دیکھا
حضرت ”ڈیوک کناٹؔ” کو دیکھا

اس بند میں شاعر نے کہا ہے کہ جب وہ دہلی آئے تو انھوں نے دریائے جمنا کے پاک اور صاف ستھرے گھاٹ دیکھے، سب سے اونچے لاٹ (لارڈ) اور ڈیوک کناٹ کے دیدار کیے۔

پلٹن اور رسالے دیکھے
گورے دیکھے کالے دیکھے
سنگینیں اور بھالے دیکھے
بینڈ بجانے والے دیکھے

وہ دور چونکہ انگریزوں کا دور تھا تب شاعر نے دہلی میں سب سے اونچے لاٹ (لارڈ) اور ڈیوک کناٹ کے دیدار کیے۔ پلٹن، فوجی رسالے، ہتھیاربنداور یہاں گورے، کالے فوجی تھے اور انہیں کے ساتھ بینڈ باجے والے بھی موجود تھے۔

خیموں کا اک جنگل دیکھا
اس جنگل میں منگل دیکھا
برھما اور ورنگل دیکھا
عزت خواہوں کا دنگل دیکھا

دہلی میں شاعر نے دیکھا کہ دور تک (کشمیری گیٹ تا کنگزوے کیمپ) خیموں کا جنگل تھا، جدھر نظر جاتی تھی، خیمے ہی خیمے تھے۔ اس دربار دہلی کے لئے بلند مرتبہ، عزت دار لوگوں کے درمیان مقابلہ ہو رہا تھا کہ وہ کس مقام پر رہے گا، اس کا خیمہ کہاں ہوگا، وہ انگریز حکمراں کس قدر نزدیک رہے گا۔

سڑکیں تھیں ہر کمپ سے جاری
پانی تھا ہر پمپ سے جاری
نور کی موجیں لیمپ سے جاری
تیزی تھی ہر جمپ سے جاری

اس بند میں شاعر نے ان کیمپوں کے لگنے کی منظر کشی کرتے ہوئے بتایا کہ خیمے لگانے میں یہ اہتمام کیا گیا تھا کہ ہر کیمپ کا الگ راستہ تھا جو سڑک کی طرف جاتا تھا، ہرطرف پانی کے پمپ لگے ہوئے تھے، روشنی کے لئے لیمپ تھے، ہر شخص تیزی سے دوڑ دوڑ کر کام کر رہا تھا۔

کچھ چہروں پر مردی دیکھی
کچھ چہروں پر زردی دیکھی
اچھی خاصی سردی دیکھی
دل نے جو حالت کر دی دیکھی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہاں کچھ چہروں پہ میں نے مردانگی اور انسانیت کا جلوہ دیکھا جبکہ کچھ چہرے ایسے تھے کہ جن پر مکمل طور سے زردی چھائی ہوئی تھی۔ وہاں پہ اچھی خاصی سردی تھی اور دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر دربار کا یہ جلوہ دیکھنے آئے ہوئے لوگوں کو میں نے دیکھا کہ مارے سردی وہاں ان کی کیا حالت ہو رہی ہے۔

ڈالی میں نارنگی دیکھی
محفل میں سارنگی دیکھی
بیرنگی بارنگی دیکھی
دہر کی رنگا رنگی دیکھی

شاعر کہتا ہے کہ کہیں سجاوٹ زیادہ تھی اور کہیں کم، ماحول کو خوبصورت بنانے کے لئے درختوں، ٹہنیوں پر مصنوعی نارنگیاں لگائی گئی تھیں، محفل میں موسیقی میں سارنگی بج رہی تھی۔ ہر جانب رنگا رنگ جلوے موجود تھے۔

اچھے اچھوں کو بھٹکا دیکھا
بھیڑ میں کھاتے جھٹکا دیکھا
منہ کو اگرچہ لٹکا دیکھا
دل دربار سے اٹکا دیکھا

شاعر یہاں کے ہجوم کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس قدر لوگ تھے اور رونق تھی کہ معلوم ہو رہا تھا کہ پوری دنیا یہاں سمٹ آئی ہے۔ لوگوں کے ہجوم میں اچھے اچھے بھٹک رہے تھے، بھیڑ میں دھکے لگ رہے تھے۔ اس وجہ سے لوگوں کے چہرے لٹکے ہوئے تھے مگر دل دربار میں اٹکا ہوا تھا۔

ہاتھی دیکھے بھاری بھرکم
ان کا چلنا کم کم تھم تھم
زریں جھولیں نور کا عالم
میلوں تک وہ چم چم چم چم

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ دہلی کی اس رونق میں میں نے دیکھا کہ بھاری بھرکم ہاتھیوں کی کمر پر سنہری کام والی جھولیں پڑی ہوئی تھیں۔ وہ ٹھہر ٹھہر کر آہستہ آہستہ چل رہے تھے، جدھر نظر جاتی تھی، میلوں تک رونق نظر آ رہی تھی۔ سنہری روشنیاں چم چم کر رہی تھیں۔

پر تھا پہلوئے مسجد جامع
روشنیاں تھیں ہر سو لامع
کوئی نہیں تھا کسی کا سامع
سب کے سب تھے دید کے طامع

شاعر اکبر الہ آبادی نے دہلی میں دیکھا کہ جامع مسجد کے اطراف میں بھی لوگ موجود تھے، ہر طرف روشنی سے علاقہ جگمگا رہا تھا۔ اس قدر بھیڑ تھی کہ کوئی کسی کی بات سننا نہیں چاہتا تھا۔ سب کے سب اس بات کے خواہش مند تھے کہ کسی طرح دربار کا جلوہ دیکھیں۔

سرخی سڑک پر کٹتی دیکھی
سانس بھی بھیڑ میں گھٹتی دیکھی
آتش بازی چھٹتی دیکھی
لطف کی دولت لٹتی دیکھی

دہلی میں دربار کی شان و شوکت بڑھانے کے لیے سڑکوں پر سرخ بجری کوٹ کر ڈالی گئی تھی۔ بھیڑ میں سانس لینا محال تھا۔ آتش بازی چھوڑی جارہی تھی۔ مفت میں لطف اندوز ہونے کے سامان تھے۔ لطف کی دولت لٹتی دیکھی سے مراد ہے کہ لوگ یہاں بغیر کوئی پیسہ خرچ کئے لطف حاصل کررہے تھے۔

چوکی اک چولکھی دیکھی
خوب ہی چکھی پکھی دیکھی
ہر سو نعمت رکھی دیکھی
شہد اور دودھ کی مکھی دیکھی

دہلی میں دربار کے لئے ایک بہت قیمتی چوکی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہر طرف نعمتیں رکھی ہوئی تھیں (کھانے پینے کا سامان) اسی کے ساتھ ساتھ شہد اور دودھ پر بیٹھنے والی مکھی بھی موجود تھی۔

ایک کا حصہ من و سلویٰ
ایک کا حصہ تھوڑا حلوا
ایک کا حصہ بھیڑ اور بلوا
میرا حصہ دور کا جلوا

شاعر نے اس محفل کے کھانے کی کیفیت کو یوں بیان کیا ہے کہ یہاں موجود تو طرح طرح کے کھانے تھے مگر عالم یہ تھا کہ کسی کے حصّے میں لذیذ کھانے آرہے تھے تو کسی کو صرف حلوے پر اکتفا کرنا پڑ رہا تھا۔ کوئی بھیڑ اور ہنگاموں کا حصہ بنا ہوا تھا۔ اکبر کہتے ہیں کہ ان کے حصے میں دور کا جلوہ آیا یعنی انہوں نے دور ہی سے دربار دہلی منعقد ہوتے دیکھا۔

اوج برٹش راجا دیکھا
پرتو تخت و تاج کا دیکھا
رنگ زمانہ آج کا دیکھا
رخ کرزن مہراج کا دیکھا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس موقع پر برٹش حکومت کا عروج نظر آیا۔ تخت و تاج کی چمک دیکھ کر آج کے زمانے کے رنگ کا خیال آیا (وقت کس قدر بدل گیا ہے) کبھی یہاں مغلوں کی حکومت تھی اور اب تخت پر لارڈ کرزن تشریف فرما ہیں۔

پہنچے پھاند کے سات سمندر
تحت میں ان کے بیسوں بندر
حکمت و دانش ان کے اندر
اپنی جگہ ہر ایک سکندر

شاعر تخت شاہی پر انگریزوں کو براجمان دیکھ کر کہتا ہے کہ انگریز ہندوستان میں سات سمندر پار سے آئے تھے۔ ان کے ساتھ بیسیوں اعلی افسر تھے جن میں عقل کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور ہر ایک اپنی جگہ سکندر تھا۔

اوج بخت ملاقی ان کا
چرخ ہفت طبقاقی ان کا
محفل ان کی ساقی ان کا
آنکھیں میری باقی ان کا

شاعر کہتا ہے کہ اس وقت انگریزوں کی خوش نصیبی پورے عروج پر تھی۔ ان کی وسیع حکومت اور سلطنت کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ ساتویں آسمان تک انگریزوں کی حکومت ہے۔ انگریزوں کی محفل تھی اور اس محفل میں وہی چھائے ہوئے تھے۔ جب کہ شاعر کی آنکھیں یہ سب مناظر دیکھنے پر مجبور تھیں۔

ہم تو ان کے خیر طلب ہیں
ہم کیا ایسے ہی سب کے سب ہیں
ان کے راج کے عمدہ ڈھب ہیں
سب سامان عیش و طرب ہیں

شاعر اکبر الہ آبادی کہتے ہیں کہ وہ تو ان کے خیر خواہ ہیں اور صرف وہ ہی نہیں، سبھی لوگ ان کی طرح بہی خواہ ہیں کیونکہ ان کے حکومت کرنے کے طریقے شاندار ہیں اور عیش و عشرت کے سامان کی کوئی کمی نہیں ہے۔

اگزبشن کی شان انوکھی
ہر شے عمدہ ہر شے چوکھی
اقلیدس کی ناپی جوکھی
من بھر سونے کی لاگت سوکھی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ ایک نمائش لگائی کی تھی جس کی ایک انوکھی ہی شان تھی۔ یہاں ہر چیز کو نہایت عمدہ طریقے سے چوکھٹے پہ سجا کے رکھا گیا تھا۔ان کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اقلیدس کے مخصوص طریقے سے ان چیزوں کو ناپ تول کر جوڑا گیا ہو۔وہاں موجود اشیاء کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ گویا من بھر کے قریب سونے کی قیمت ان پہ صرف کی گئی ہے۔

جشن عظیم اس سال ہوا ہے
شاہی فورٹ میں بال ہوا ہے
روشن ہر اک ہال ہوا ہے
قصۂ ماضی حال ہوا ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس سال دربار دہلی میں ایک عظیم جشن ہوا جس میں شاہی قلعے میں بال نامی ایک مخصوص مغربی ناچ ہوا اور اس قلعے کے ہر ایک ہال کو روشنیوں سے منور کیا گیا۔ جس سے ماضی حال کے تمام قصوں کا بیان ہوا۔

ہے مشہور کوچہ و برزن
بال میں ناچیں لیڈی کرزن
طائر ہوش تھے سب کے لرزن
رشک سے دیکھ رہی تھی ہر زن

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہاں کا ہر ایک گلی کوچہ مشہور ہے اور اس بال کے رقص میں لیڈی کرزن بھی ناچیں۔ ان کے ناچ نے سب کے ہوش اڑا کر رکھ دیے اور وہاں موجود ہر ایک عورت انھیں رشک بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔

ہال میں چمکیں آ کے یکا یک
زریں تھی پوشاک جھکا جھک
محو تھا ان کا اوج سما تک
چرخ پہ زہرہ ان کی تھی گاہک

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اچانک سے سب ہال میں آ کر جگمگانے لگے اور ان کی سونے کی طرح جگمگاتی زریں پوشاکیں اپنی چمک دکھا رہی تھیں۔ ان کی بلندی آسمان تک پہنچی ہوئی تھی۔آسمان پہ ان کا منتظر گاہک صبح میں چمکنے والا ستارہ تھا۔

گو رقاصۂ اوج فلک تھی
اس میں کہاں یہ نوک پلک تھی
اندر کی محفل کی جھلک تھی
بزم عشرت صبح تلک تھی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اگرچہ یہاں اپنا رقص پیش کرنے والی رقصہ مجھ سے اتنی ہی دور تھی کہ جیسے وہ آسمان کی بلندیوں پہ اپنا رقص پیش کر رہی ہو۔اس میں ہم اس کی نوک پلک کس طرح سے سنوار سکتے تھے مگر یہ محض ہال کے اندر کی محفل کی ایک جھلک تھی اور عیش و عشرت کی یہ محفل صبح تک جاری و ساری رہی۔

کی ہے یہ بندش ذہن رسا نے
کوئی مانے خواہ نہ مانے
سنتے ہیں ہم تو یہ افسانے
جس نے دیکھا ہو وہ جانے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ تیز دماغ رکھنے والوں نے اس چیز کی خاصی پکڑ کی ہے مگر کوئی اس بات کو مانے یہ نہ مانے ہم تو ہمیشہ سے یہی کہانیاں سنتے آ رہے ہیں لیکن درحقیقت جس نے یہ سب دیکھا ہے وہی ہی اس جلوہ کی اصلیت کو جان سکتا ہے۔