نظم چاند تاروں کا بن کی تشریح

0

مخدوم محی الدین کی نظم “چاند تاروں کا بند” آزاد نظم کی ہیت میں لکھی گئی نظم ہے۔ یہ نظم چار بندوں پر مشتمل ہے۔ان کی اس نظم میں موضوع کی تلخی کے باوجود اسلوب میں نغمگی اور غنائیت پائی جاتی ہے۔ اس نظم میں انھوں نے ملک سے بیرونی سماج (انگریزوں) کو نکالنے اور مقامی حکومتوں سے چھٹکارا پانے کا تصور پیش کیا ہے۔

موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن
رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن
رات بھر جگمگاتا رہا چاند تاروں کا بن
تشنگی تھی مگر
تشنگی میں بھی سرشار تھے
پیاسی آنکھوں کے خالی کٹورے لیے
منتظر مرد و زن
مستیاں ختم، مد ہوشیاں ختم تھیں، ختم تھا بانکپن
رات کے جگمگاتے دھکتے بدن

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ہم شہیدوں کے تن بدن موم کی طرح جلتے رہے کہ جیسے موم دھیرے دھیرے پگھلتی ہے ایسے ہی ہم بھی اندر ہی اندر جل کر پگھل رہے ہیں۔ وطن کی صبح کی شمع رات بھر جھلملاتی رہی اور چاند تاروں کا باغ رات بھر روشن رہا۔ ہمیں کسی چیز کی کمی اور خالی پن سا محسوس ہو رہا تھا مگر اس خالی پن میں بھی ایک لذت کا احساس موجود تھا۔ ہم اپنی پیاسی آنکھوں کے خالی کٹورے لیے تمام مرد اور عورتیں انتظار میں تھے۔ ہماری مستیاں ، مدہوشیاں اور بانکپن ختم ہو چکے تھے۔جبکہ رات کا بدن دہک اور جگمگا رہا تھا۔

صبح دم ایک دیوار غم بن گئے
خار زار الم بن گئے
رات کی شہ رگوں کا اچھلتا لہو
جوئے خوں بن گیا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ رات بھر جو ہم جلتے رہے صبح ہم ایک دم سے دیوارِ غم بن چکے تھے۔ ہم دکھوں اور غموں کا ایک کانٹوں بھرا جنگل بن چکے تھے۔رات بھر جو خون ہماری رگوں میں اچھلتا رہا وہ اب خون کے آنسو بن چکے تھے۔

کچھ امامان صد مکر و فن
ان کی سانسوں میں افعی کی پھنکار تھی
ان کے سینے میں نفرت کا کالا دھواں
اک کمیں گاہ سے
پھینک کر اپنی نوک زباں
خون نور سحر پی گئے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کئی سالوں سے موجود کچھ اپنے مکر و فریب کے امام موجود تھے۔ان کی سانسوں میں ناگ جیسی زہریلی پھنکار موجود تھی۔ ان کے سینوں میں نفرتوں کا کالا دھواں ہے۔ یہ لوگ ایک پوشیدہ مقام سے اپنی زبان کے تیر برسا کر آپ پہ حملہ آور ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ ہماری صبحوں کا نور پی گئے ہیں۔

رات کی تلچھٹیں ہیں اندھیرا بھی ہے
صبح کا کچھ اجالا بھی ہے
ہمدمو!
ہاتھ میں ہاتھ دو
سوئے منزل چلو
منزلیں پیار کی
منزلیں دار کی
کوئے دل دار کی منزلیں
دوش پر اپنی اپنی صلیبیں اٹھائے چلو

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ رات کا کچھ اثر بھی موجود ہے اور کہیں اندھیرا بھی ہے۔صبح کی روشنی بھی ہے اور میرے دوستوں آؤ اور ہاتھ میں اپنا ہاتھ دو اور اپنی منزل کی جانب چل پڑو۔ یہ منزلیں پیار کی اور قربانیوں کی منزلیں ہیں۔کوئی منزل دل دار کی منزل ہے۔اس لیے اپنی اپنی غلطیوں پر اپنی صلیبیوں کو اٹھاؤ اور منزل کی جانب چلے چلو۔