نظم نشاطِ امید کا خلاصہ

0

نظم “نشاط امید” میں الطاف حسین حالی نے امید کے پہلو کے انسانی زندگی پر اثرات کو نہایت خوبصورت انداز اور شاعری کے مؤثر پیرائے میں ابھارا ہے۔ وہ امید کو انسانی زندگی کا محور قرار دیتے ہیں۔وہ امید کو دل سوز و کارساز کہتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ درد انگیز و دلگداز دل کی چارہ گر ہے۔

یہ امید ہی میرے دل کی محافظ ہے۔جب میں کسی مصیبت میں ہوتا ہوں تو یہ امید میرے لیے ایک یقین اور بھروسے کی کرن بن کر ابھرتی ہے۔خوشی ہو یا غم یہ میری دوست بن جاتی ہے۔پہاڑ ہوں یا جنگلات یہ امید ہی میری رفیق اور ساتھی بنتی ہے۔اسی امید کا دامن تھام کر انسان اپنے ایام غم کاٹ لیتا ہے اور امید ہی کے سہارے وہ دکھ اور سکھ کے دن باآسانی کاٹ لیتا ہے۔ جب کبھی انسان کسی تکلیف میں ہو تو یہ امید کبھی اس کے سر سے ہاتھ نہیں اٹھاتی ہے۔

یہ محتاج کی نا امیدی کو امید میں بدلنے کا ذریعہ، بیمار کے لیے جینے کی آس اور مفلس و نادار کے لیے چارہ ساز جبکہ جدائی میں تڑپنے والے عاشق کے لیے ملن کی گھڑی کا ایمان بنتی ہے۔ یہ یوسف کے لیے دل آرا ، نوح کے لیے سہارا، جبکہ پانڈو و سیتا کی جنگلوں کی ہمراہی ہے۔اس نے قیس کا دل بہلایا، فرہاد کا قصہ تمام کیا اور رانجھے کو آس لگوائی۔ یہی امید جب کسی انسان کے پسِ پشت ہو تو اسے اپنی مشکلیں آسان دکھائی دینے لگتی ہیں۔

جب امید آ کر انسان کا ہاتھ تھام لیتی ہے تو اسے سات سمندروں میں سے گزرنا بھی نہایت آسان دکھائی دیتا ہے۔ امید کا دامن تھامے جو دو قدم بھی چل لیتا ہے اس شخص کو عرب اور عجم کوئی مشکل نہیں بلکہ ایک سے دکھائی دیتے ہیں۔امید جب کسی کو کوئی جستجو بخشتی ہے تو اسے آسمان کی بلندیوں پر موجود گنبد بھی بہت نیچے یعنی پست دکھائی دینے لگتے ہیں۔

امید نے جب آ کر اس جہان کو ابھارا اور حوصلے بلند کیے تو یہ انسان کو یہ سارا جہان ایک مٹھی میں دکھائی دینے لگا۔اس کے حوصلے بلند ہو گئے۔ دنیا کی زندگی ہو یا آخرت کی دونوں ہی امید کی لڑی میں جڑی ہوئی ہیں۔دین کی اصلیت بھی یہ امید ہی ہے کہ جو ہمیں ثواب اور جنت ملنے کی امید میں نیک کام کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔

جب کہ دنیا میں جس طور پہ ہم زندگی بسر کر رہے ہیں اس میں بھی بڑا دخل اسی امید کا ہے یہ ہمیں دنیا کی مشکلوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔نیکیوں اور نیک عمل کی بنیاد اسی سے جڑی ہے اگر نیکی کے بدلے اجر کی امید نہ ہوتی تو کوئی نیکی کے پاس بھی نہ بھٹکتا۔

امید کے بنا کہیں پر دین کی عملداری بھی نہ کی جاتی اور اگر یہ امید نہ ہو تو کوئی بھی حق کی پرستش ںہ کرتا اور حق کی طرف مائل نہ ہوتا اور نہ ہی نیک کام کرتا۔امید نے درختوں کو لہلہایا، پھول کھلائے اور سب کے دلوں کو حور اور شراب طہور پر کر بہلایا۔

امید کہیں فردوس اور کہیں سورگ کے روپ میں موجود ہے۔ اسی کے دم سے ہمیں ، کوثر و تسنیم کی موجوں کے نظارے میسر آتے ہیں۔ امید گدا کو شاہ کے خواب دکھاتی ہے۔ اسی کے سہارے جھونپرٹے میں رہنے والے محلوں کے خواب دیکھتے ہیں۔بے اولاد ، حصول اولاد کے لیے امید کا دامن تھامے ہوئے ہیں جبکہ صاحب اولاد ، اپنی اولاد کی خوشیاں دیکھنے کے خواہاں ہیں۔

محتاج اور سیاہ بخت لوگوں کے لیے امید آخری جیںے کی وجہ بنتی ہے۔ کیونکہ جس وقت انسان مایوسی کا شکار ہوتا ہے تو دل کرتا ہے کہ انسان زہر کھا لے یا دیوانوں کی طرح سے اپنے کپڑے پھاڑ کر کہیں باہر نکل جائیں۔نا امیدی اس انسان کو کسی چھلاوے کی طرح ڈرانے لگتی ہے۔ اسے کبھی اپنی تقدیر سے شکوہ و شکایت ہوتی ہے تو کبھی وہ تدبیر کے چکروں کا مذاق اڑانے لگتا ہے۔ کبھی تو وہ آسمان سے کڑنے لگتا ہے تو کبھی قسمت کی ستم ظریفی پہ ہنستا دکھائی دیتا ہے۔

شاعر کہتا ہے کہ اے امید ایسے نا امید انسان کی مشکلوں کا واحد حل تو ہی ہے۔ جیسے ہی اسے امید کا کوئی سہارا ملتا ہے اور تیری آہٹ اس کے کانوں کو سنائی دیتی ہے تو وہیں وہ اپنے سفر کا سامان باندھنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کی ساری مایوسی اور انامید ی مٹ جاتی ہے اور کافور کی طرح سے اس کی ساری افسردگی بھی اڑ جاتی ہے۔ آخر میں شاعر خود کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے امید تیرے اندر اس دنیا کے سکون کا راز پوشیدہ ہےا س لیے کبھی حالی (شاعر کا تخلص) کا ساتھ مت چھوڑنا۔