اسماعیل میرٹھی کی نظم آثار سلف کی تشریح

0

”آثار سلف“(مشعر کیفیت قلعہ اکبر آباد موسوم بہ آثار سلف) اسماعیل میرٹھی کی نظم ہے جسے مثمن (وہ نظم جس میں آٹھ مصرعے ہوتے ہیں) کی ہیت میں تخلیق کیا گیا ہے۔ اس نظم میں کل 70 بند شامل ہیں۔ نظم چونکہ مثمن ہیت میں ہے اس لیے اس کے اشعار کی تعداد 280 ہے۔اس نظم میں انھوں نے قلعہ اکبر سے منسلک ادیبوں ، شاعروں ، بادشاہوں اور بزرگانِ دین کی سرگرمیوں اور اس سلطنت کے زوال پذیر ہونے کا نقشہ شعری انداز میں کھینچا ہے۔یہ مثنوی 1896ء میں نامی پریس میرٹھ سے شائع ہوئی۔

یا رب ؛ یہ کسی مشعل کشتہ کا دھواں ہے
یا گلشن برباد کی یہ فصل خزاں ہے
یا برہمی بزم کی فریاد و فغاں ہے
یا قافلہ رفتہ کا پس خیمہ رواں ہے
ہاں دور گزشتہ کی مہابت کا نشاں ہے
بانی عمارت کا جلال اس عیاں ہے
اڑتا تھا یہاں پرچم جم جاہی اکبر
بجتا تھا یہاں کوس شہنشاہی اکبر

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے اللہ یہ کسی جلی ہوئی مشعل کا دھواں ہے یا کسی برباد گلشن پہ خزاں وارد ہوئی ہے، یا کیا یہ کسی غم و غصے سے برہم محفل کی فریاد کی آواز ہے، یا کسی راستے میں جانے والے قافلے کا خیمہ اس کے پیچھے رواں ہے۔ پھر شاعر خود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ تو گزرے ہوئے دور کے غم و غصّے کا اعلان ہے۔ جس سے اس کے بنانے والی کی عمارت کا جلال اور رعب و دبدبہ ظاہر ہو رہا ہے اور یہ وہ ہے کہ جہاں کبھی جمشید کا ہم مرتبہ اور اکبر بادشاہ کس شان و شوکت والا پرچم لہراتا تھا۔ یہاں پر اکبر کی شہنشاہی کا نقارہ بجا کرتا تھا۔

باہر سے نظر ڈالئے اس قلعہ پہ یک چند
برپا ہے لب آب جمن صورت الوند
گویا کہ ہے اک سورما مضبوط تنو مند
یا ہند کا رجپوت ہے یا ترک سمرقند
کیا بارہ سنگین کا پہنا ہے قزاگند
رینی کا قزاگند پہ باندھا ہے کمر بند
مسدود ہے خندق سے رہ فتنہ و آشوب
ارباب تمرد کے لئے برج ہیں سرکوب

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جیسے ہی اچانک قلعے کے دروازے پر باہر سے نظر ڈالیں تو الوند کے پہاڑ کی طرح سے جمنا کا پانی جاری و ساری ہے۔یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے کوئی بہادر و مضبوط سورما موجود ہو۔ یا ہند کا راجپوت ہو یا سمر قند کا کوئی ترک ہو۔جیسے بارہ طرح کا مضبوط لڑائی کے وقت پہنے جانا والا لباس زیب تن کر رکھا ہو۔اور اس حفاظتی پوشاک کے اوپر ایک رنگا ہوا کمر بند باندھ رکھا ہوا ہو۔ایک خندق کے ذریعے سے اس نے فتنوں اور لڑائیوں کو روک رکھا ہو۔گستاخ افراد کے لیے یہ اونچے برج کسی توپ خانے کی سی حیثیت رکھتے تھے جو ان کی سر کوبی کر سکتے ہیں۔

تعمیر در قلعہ بھی البتہ ہے موزوں
پر شوکت و ذی شان ہے اس کا رخ بیروں
کی ہے شعرا نے صفت طاق فریدوں
معلوم نہیں اس سے وہ کمتر تھا کہ افزوں
گو ہم سر کیواں ہے نہ ہم پلہ گردوں
محراب کی ہیئت سے ٹپکتا ہے یہ مضموں
پیلان گراں سلسلہ با ہودج زرین
اس در سے گزرتے تھے بصد رونق و تزئیں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ البتہ پورے قلعہ کی تعمیر بھی اچھے اور موزوں طریقے سے کی گئی ہے لیکن اس کا بیرونی دروازہ اپنی الگ شان و شوکت رکھتا ہے۔اس قلعے کے بیرونی دروازے کی تعریف شعرا نے بھی بیان کی ہے اور اسے فریدوں کے محل سے جا ملایا ہے۔ یہ آسمان کی بلندیوں کے ہم پلہ ہے۔ اس کی محراب کو جس طرح سے بنایا گیا ہے اس سے ایک مضمون ٹپکتا ہے کہ اس کا کجا وہ بلند اور سونے کے حوض سے مشابہت رکھتا ہے۔ اور اس دروازے کی رونق سو طرح کی تزئین و آرائش اور یہاں سے گزرنے والے جلوسوں کی مدد سے تھی۔

اکبر سا کبھی مخزن تدبیر یہاں تھا
یا طنطنہ دور جہاں گیر یہاں تھا
یا شاہ جہاں مرجع توقیر یہاں تھا
یا مجمع ذی رتبہ مشاہیر یہاں تھا
القصہ کبھی عالم تصویر یہاں تھا
دنیا سے سوا جلوہ تقدیر یہاں تھا
بہتا تھا اسی کاخ میں دولت کا سمندر
تھے جشن ملوکانہ اسی قصر کے اندر

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کبھی اس محل میں اکبر جیسا سوچوں اور غور وفکر کو مجتمع کرنے والا شخص یہاں پہ موجود تھا بلکہ اس کا رعب و دبدبہ ہر جگہ چھایا ہوا تھا۔اکبر کے علاوہ یہ شاہ جہان جیسے بلند مرتبہ شخص کی رہائش بھی رہا ہے۔یہاں پہ اس وقت کے عالی مرتبہ اور نامور لوگوں کا مجمہ لگتا تھا۔ مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ یہاں محل دنیا میں ایک مثال / تصویر کی سی حالت رکھتا تھا۔ دنیا میں یہاں تقدیر اپنے جلوے دکھاتی تھی۔ اسی محل میں دولت کا ایک سمندر جاری و ساری تھا اور اسی محل کے اندر بادشاہوں کے جشن ہوا کرتے تھے۔

وہ قصر معلی کہ جہاں عام تھا دربار
آئینہ نمط صاف ہیں جس کے در و دیوار
اور سقف زراندود ہے مانند چمن زار
اور فرش ہے مرمر کا مگر چشمہ انوار
اب بانگ نقیب اس میں نہ چاؤش کی للکار
سرہنگ کمر بستہ نہ وہ مجمع حضار
کہتا ہے کبھی مرکز اقبال تھا میں بھی
ہاں ؛ قبلہ گہہ عظمت و اجلال تھا میں بھی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس بلند مرتبہ محل میں جس جگہ عام دربار سجتا تھا آئینے کی طرح سے اس کے در و دیوار صاف و شفاف تھے۔ اس کی چھت کو سونے سے ملمع کیا گیا تھا جو کہ ایک چمن زار کی مانند لگتا تھا۔جبکہ اس جگہ سنگ مرمر کا فرش بچھایا گیا تھا جس سے روشنیوں کے جلوے پھوٹتے تھے۔اس میں کسی لشکر کے سردار یا نقیب کی آواز کی ضرورت نہ تھی۔نہ ہی یہاں کوئی سپہ سالار کمر بستہ تھا اور نہ کوئی مدد گاروں کا مجمع موجود تھا۔ یہ ساری باتیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ کبھی میں بھی بلندیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔اور میں بھی عظمت و جلال کا مرکز ہوا کرتا تھا۔

جب تک کہ مشیت کو مرا وقر تھا منظور
نافذ تھا زمانہ میں مری جاہ کا منشور
شاہان معاصآر کا معین تھا یہ دستور
کرتے تھے سفیران ذوی القدر کو مامور
تا میری زیارت سے کریں چشم کو پرنور
آوازہ میری شان کا پہونچا تھا بہت دور
اکناف جہاں میں تھا مرا دبدبہ طاری
تسلیم کو جھکتے تھے یہاں ہفت ہزاری

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ محل یہ کہتا ہے کہ جب تک قدرت کو میرا عزت ومرتبہ منظور تھا اس وقت تک زمانے میں میرے جلال کا منشور نافذ رہا۔ اس زمانے میں ہم عصر تمام بادشاہوں کا بھی یہی دستور طے شدہ تھا کہ وہ اعلی مرتبہ اور قابل قدر لوگوں کو قاصد کے منصب پہ بھی فائز کرتے تھے۔ تاکہ وہ لوگ اس محل کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو پر نور کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ دور دراز سے آنے والے قاصدوں کے ذریعے سے اس محل کی شہرت دور دور تک پہنچی۔ یوں ہر سمت اس محل کا رعب و دبدبہ طاری تھا اور اس کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے بڑے بڑے سرادر بھی اس کے سامنے جھکتے تھے۔

وہ چتر وہ دیہم وہ سامان کہاں ہیں
وہ شاہ وہ نوئین ۔ وہ خاقان کہاں ہیں
وہ بخشی و دستور ۔ وہ دیوان کہاں ہیں
خدام و ادب اور وہ دربان کہاں ہیں
وہ دولت مغلیہ کے ارکان کہاں ہیں
فیضی و ابوالفضل سے اعیان کہاں ہیں
سنسان ہے ، وہ شاہ نشین آج صد افسوس
ہوتے تھے جہاں خان و خوانین زمیں بوس

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اب وہ عقلمند لوگ ، شاہ ایراں کا تاج رکھنے والے سب کہاں ہیں۔اب وہ شاہ ، نوئین اور سلطان کا لقب رکھنے والے لوگ کہاں ہیں۔ اس وقت جو رواج و ثقافت یا دستور بخشا گیا تھا اور وہ دیوان اور ادب و تعظیم سے جھکنے والے دربان اب کہاں ہیں۔ عہد مغلیہ کی دولت اور سب رکن اب کہاں ہیں۔فیضی ( جلال الدین اکبر کا وزیر) اور ابوالفضل ( فیضی کے بھائی شیخ مبارک کا بیٹا جس نے آئین اکبری اور اکبر نامہ وغیرہ تخلیق کیے) جیسے سر بر آوردہ شخصیات اب کہاں ہیں۔ نہایت افسوس کہ آج وہ بادشاہوں کی نشستیں سنسان ہیں جہاں پہ کل ان بڑے بڑے باشاہوں اور خان و خوانین کو دفن کیا گیا تھا۔

وہ بارگہہ خاص کی پاکیزہ عمارت
تاباں تھے جہاں نیر شاہی و وزارت
بڑھتی تھی جہاں نظم و سیاست کی مہارت
آتی تھی جہاں فتح ممالک کی بشارت
جوں شحنہ مغرول پڑی ہے وہ اکارت
سیاح کیا کرتے ہیں اب اس کی زیارت
کہتا ہے سخن فہم سے یوں کتبہ دروں کا
تھا مخزن اسرار یہی تاج وروں کا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ دربار عام کے جلوے تو نرالے تھے ہی مگر وہ دیوان خاص کی پاکیزہ عمارت جہاں پہ بادشاہی اور وزرات کے عہدے رکھنے والے روشن ستارے اپنی چمک دکھاتے تھے۔ اس جگہ پہ انتظام و سیاست کی مہارتیں نہ صرف بڑھتی تھیں بلکہ یہاں پہ بادشاہت کے طویل ہونے اور نئے ملکوں کو فتح کرنے کی خوش خبریاں بھی ملا کرتی تھیں۔ یہاں پہ اب ان کی کی گئی یہ تمام محنت اب بالکل ضائع ہو چکی ہے اور اب سیاح اس جگہ کی زیارت کرنے کی غرض سے آتے ہیں۔ اب ان کی قبروں کے کتبے ان سخن فہم لوگوں سے یوں بات کرتے ہیں کہ پہلے راز رکھنے والے اور بڑے بڑے تاج وروں کا یہی ذخیرہ ہوا کرتا تھا۔

اورنگ سیہ رنگ جو قائم ہے لب بام
بوسہ جسے دیتا تھا ہر اک زبدہ عظام
اشعار میں ثبت اس پہ جہاں گیر کا ہے نام
شاعر کا قلم اس کی بقا لکھتا ہے ما دام
پر صاف نظر آتا ہے کچھ اور ہی انجام
سالم نہیں چھوڑے گی اسے گردش ایام
فرسودگی دھر نے شق اب تو کیا ہے
آیندہ کی نسلوں کو سبق خوب دیا ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ چھت کے کنارے پر جو رنگ سیاہ قائم ہے اور جسے ہر خاص و عام بوسہ دیتے تھے۔ ان کی شاعری پہ بھی جہاں گیر کا نام مہر کی طرح ثبت کیا گیا ہے۔ شاعر کا قلم ہر وقت ان کی سلامتی اور بقا میں مادام لکھا کرتا تھا۔ لیکن ان کا انجام بھی ایک صاف اور طے شدہ تھا کیونکہ زمانے کی گردش کبھی کسی کو ایک سا نہیں رہنے دیتی ہے۔ اب ان پرانے وقتوں کو ظاہر کیا جائے اور دیکھا جائے تو اس میں آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہت اچھا سبق پوشیدہ ہے۔

ہاں ؛ کس لئے خاموش ہے او تخت جگر ریش
کس غم میں سیہ پوش ہے ؟ کیا سوگ ہے درپیش
کملی ہے تیرے دوش پہ کیوں صورت درویش
جوگی ہے ترا پنتھ کہ صوفی ہے ترا کیش
بولا کہ زمانہ نے دیا نوش کبھی نیش
صدیاں مجھے گزری ہیں یہاں تین کم و بیش
صدقے کبھی مجھ پر گہر و لعل ہوئے تھے
شاہان معظم کے قدم میں نے چھوئے تھے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ دکھے ہوئے دل والے افراد اب خاموش ہیں انھوں نے کس غم میں سیاہ لباس زیب تن کر رکھا ہے اور انھیں کیا سوگ در پیش ہے۔ کسی درویش کی طرح سے کندھے پہ چادر کو کیوں ڈال رکھا ہے اور تم کسی جوگی کے پیروکار یا ہم مذہب ہو یا تمھارا طور طریقے کسی صوفی کے سے ہیں۔جواب دیتے ہوئے وہ شخص کہنے لگا کہ وقت اسے یہ غم اور یہ زخم دیا ہے۔ مجھے اس جگہ پہ کم و بیش تین صدیاں گزر چکی ہیں۔کسی زمانے میں یہاں کی دولت ،ہیرے جوہرات میرے واری صدقے ہوتے تھے اور یہاں کے معظم اور قابلِ تعظیم بادشاہوں کے قدموں کو میں نے چھوا ہے۔

وہ رنگ محل برج مثمن کا وہ انداز
صفت میں ہے بے مثل تو رفعت میں سرافراز
یاں مطرب خوش لہجہ کی تھی گونجتی آواز
گہہ ہند کی دھرپت تھی کبھی نغمہ شیراز
اب کون ہے بتلائے جو کیفیت آغاز
زنہار کوئی جاہ و حشم پر نہ کرے ناز
جن تاروں کے پرتو سے تھا یہ برج منور
اب ان کا مقابر میں تہ خاک ہے بستر

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس محل کے رنگ اور آٹھ برج اور ان کا خوبصورت انداز اپنی صفات میں اگر یہ بے مثال ہے تو اپنی اپنی رفعت و بلندی میں بھی بلند مرتبہ ہیں۔ یہاں پہ ہر وقت سریلی آواز رکھنے اور خوش رکھنے والوں کی گونج سنائی دیتی تھی۔ کبھی یہ اپنی آواز کے جادو میں ہند کی سر زمین کے چھپے راز آشکار کرتے تھے تو کبھی شیراز کے رہنے والوں کے نغمے بیان کرتے۔ کوئی بھی اپنے جاہ و حشم پر غرور نہ کرے کیونکہ جن روشن لوگوں کی مدد سے اس برج کو منور کیا گیا تھا اب ان کے بستر اور مقبرے مٹی کی تہوں تلے بچھا دیے گئے ہیں۔

اس عہد کا باقی کوئی ساماں ہے نہ اسباب
فوارے شکستہ ہیں تو سب حوض ہیں بے آب
وہ جام بلوریں ہیں نہ وہ گوہر نایاب
وہ چلمن زرتار نہ وہ بستر کمخواب
ہنگامہ جو گزرا ہے سو افسانہ تھا یا خواب
یہ معرض خدام تھا وہ موقف حجاب
وہ بزم نہ وہ دور نہ وہ جام نہ ساقی
ہاں طاق و رواق اور در و بام ہیں باقی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اب اس عہد کا کوئی سامان بھی باقی موجود نہیں ہے اور اس عہدے میں بنائے گئے فوارے شکستہ حال ہو کر ٹوٹ چکے ہیں۔ کسی حوض میں پانی موجود نہیں ہے نہ تو وہ صاف و شفاف پانی موجود ہیں اور نہ ہی وہ نایاب لوگ یا ہیرے ہمارے درمیان موجود ہیں۔ نہ توسونے کی تاروں کے بںے ہوئے پردے موجود ہیں اور نہ ہی وہ بستر موجود ہیں کہ جن پہ انسان سو نہ سکے۔ اس گزشتہ صدی میں جو ایک ہنگامہ جاری تھا نجانے وہ کوئی کہانی تھا یا خواب انسان اس کا یقین نہیں کر پاتا ہے۔یہ سب امر خدا کے کسی معجزے کی بنا پہ ظاہر ہوا یا کوئی حجاب حائل کیا گیا تھا کہ نہ تو وہ محفلیں رہیں اور نہ ان محفلوں کے وہ دور یا رونقیں اور نہ جام پلانے والا ساقی باقی رہا نہ ان محفلوں میں جام (شرب) پینے والے بادہ خوار موجود رہے۔ ہاں ایک چیز اب بھی باقی ہیں اور وہ وہاں کے دروازے ، کھڑکیاں اور مکان موجود ہیں۔

مستور سرا پردہ عصمت میں تھے جو گل
سو دودہ ترک اور مغل ہی نہ تھے کل
کچھ خیری فرغانہ تھے کچھ لالہ کابل
پھر مولسری ہند کی ان میں گئی مل جل
تعمیر کے انداز کو دیکھو بہ تامل
تاتاری و ہندی ہے بہم شان و تجمل
سیاح جہاں دیدہ کے نزدیک یہ تعمیر
اکبر کے خیالات مرکب کی ہے تصویر

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ عورتیں جو پھولوں کی طرح سے عزت کے ایک پردے میں موجود رہتی تھیں اب وہ ترک نسل اور مغل خاندان ہی باقی نہیں رہے ہیں۔ان میں کچھ فرغانہ کے خیر خواہ جبکہ کچھ کابل کے پھول تھے۔جب یہ لوگ ہندوستان کی سر زمین میں آئے تو مولسری کے پھول کی طرح سے یہ ہند کی سر زمین میں رچ بس گئے۔ان کے طرز و تعمیر کے انداز کو دیکھا جائے تو غور کرنے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ تاتاریوں اور ہندیوں دونوں کی شان اور طرز تعمیر کی جھلک ان کے ہاں پائی جاتی ہے۔ایک جہاں دیدہ سیاح کے سامنے یہ فن تعمیر محض ایک عمارت نہیں بلکہ اکبر بادشاہ کے مزاج کی ایک عملی تصویر ہے۔

درشن کے جھروکے کی پڑی تھی یہیں بنیاد
ہوتی تھی تلا دان میں کیا کیا دہش و داد
وہ عدل کی زنجیر ہوئی تھی یہیں ایجاد
جو سمع شہنشاہ میں پہونچاتی تھی فریاد
وہ نوجہاں اور جہاں گیر کی افتاد
اس کاخ ہمایوں کو بہ تفصیل ہے سب یاد
ہر چند کہ بے کار یہ تعمیر پڑی ہے
قدر اس کی مورخ کی نگاہوں میں پڑی ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کھڑکیوں اور جھروکوں سے جھانکنے کی بنیاد بھی یہیں سے پڑی تھی اور امداد و مدد کے نام پر یہاں طلائی سکے وغیرہ تقسیمِ کیے جاتے تھے۔ انصاف کے لیے آکر بادشاہ کی زنجیر کھینچنے کا رواج بھی یہیں قائم ہوا تھا۔جو کہ شہنشاہوں تک ان کی فریاد پہنچانے کا ذریعہ تھی۔ یہاں پہ تمام لوگوں کی ناگہانی مشکلات کو سنا جاتاتھا۔ ہمایوں کی ان بلند و بالا عمارات کو ایک ایک چیز تفصیل کے ساتھ یاد ہے۔بے شک اس وقت ان کی تعمیر کردہ یہ عمارت اس وقت بے کار ہے لیکن ایک مورخ یعنی تاریخ دان کی نظر میں اس کی بہت قدر اور اہمیت ہے۔

اب دیکھئے وہ مسجد و حمام زنانہ
وہ نہر ۔ وہ حوض اور وہ پانی کا خزانہ
صنعت میں ہر اک چیز ہے یکتا و یگانہ
ہے طرز عمارت سے عیاں شان شہانہ
کیا ہو گئے وہ لوگ کہاں ہے وہ زمانہ؟
ہر سنگ کے لب پر ہے غم اندوز ترانہ
چغتائیہ گلزار کی یہ فصل خزاں ہے
ممتاز محل ہے نہ یہاں نورجہاں ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس عمارت میں موجود مسجد اور عورتوں کے حمام( غسل خانے) اب دیکھے جائیں یہاں موجود ںہر، حوض اور ان موجود جو چمکتا صاف و شفاف خزانے کی طرح کا پانی تھا غرض اس عمارت کی ایک ایک ادا سے اس کی شاہانہ طرز تعمیر ظاہر ہوتی ہے۔ اب وہ لوگ کہاں چلے گئے ہیں اور وہ کیا زمانے ہو کرتے تھے کہ اب ایک ایک پتھر کی زبان سے بھی غم کا نوحہ جاری و ساری ہے۔ چغتائی فن تعمیر کا یہ فن پارا جس پہ اب خزاں منڈلا رہی ہے اب یہاں پہ نہ تو ممتاز محل موجود ہے اور نہ کوئی نور جہاں ہے۔

وہ قصر جہاں جودھپوری رہتی تھی بائی
تھی دولت و ثروت نے جہاں دھوم مچائی
دیکھا اسے جا کر تو بری گت نظر آئی
صحنوں میں جمی گھاس تو دیواروں پہ کائی
گویا درو دیوار پہ دیتے ہیں دہائی
ممکن نہیں طوفان حوادث سے رہائی
جس گھر میں تھے نسریں و سمن یا گل لالہ
اب نسل ابابیل میں ہے اس کا قبالہ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ محل جس جگہ پہ جودھپوری بائی رہتی تھی اور جہاں پہ دولت اور شہرت نے اپنی دھومیں مچا رکھی تھیں اب جب اس جگہ کو پلٹ کر واپس دیکھا تو وہاں کی حالت بری تھی۔ اس محل کے صحنوں میں گھاس اگ کر اسے ویرانے میں بدل چکی تھی اور اس کی دیواروں پہ کائی کی تہیں جمی ہوئی تھیں۔گویا اس محل کے درو دیوار بھی یہ دہائی دے رہے ہیں کہ یہ ہر گز ممکن نہیں ہے کہ کوئی طوفان اور حادثات سے خود کو بچا سکے۔ وہ گھر جہاں پہ سفید گلاب اور لالہ جیسے لال پھول کھلا کرتے تھے اب اس جگہ پہ ابابیلوں نے اپنا ٹھکانہ بنا رکھا ہے۔

وہ مسجد زیبا کہ ہے اس بزم کی دلہن
خوبی میں یگانہ ہے ولے سادہ و پر فن
محراب و در و بام ہیں سب نور کا مسکن
موتی سے ہیں دالان تو ہے دود سا آنگن
کافور کا تودہ ہے کہ الماس کا معدن
یا فجر کا مطلع ہےکہ خود روز ہے روشن
بلور کا ہے قاعدہ یا نور کا ہے راس
باطل سی ہوئی جاتی ہے یاں قوت احساس

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ خوبصورت مسجد جو کہ اس محفل میں دلہن کی حیثیت رکھتی تھی جو اپنی خوبیوں اور فن میں سادگی کی بنا پہ یکتہ و یگانہ تھی۔ اس کے محراب اور دروازے کھڑکیاں سب نور کا مسکن ہوا کرتے تھے۔ جبکہ اس کے دالان موتیوں کی طرح چمکدار اور آنکھ دودھ کی طرح سفید ہوتا تھا۔ اس کو دیکھ کر انسان یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ آیا یہ کوئی کافود کا تودہ ہے یا ہیروں کی کان ہے۔ اس میں موجود شیشہ ہونے کی وجہ سے یہ چمکدار ہے یا اس پہ نور کی چادر تنی ہوئی ہے۔ یا یہ نور فجر کے وقت چھانے والے مطلع کی بدولت ہے کہ جس کی وجہ سے سب کچھ روز روشن کی طرح چمک رہا ہے۔ یہاں پہ احساس اور اس شے کی اصل کو محسوس کرنے کی ہر قوت جھوٹی پڑ رہی ہے۔

ہاتھوں نے ہنرمند کے اک سحر کیا ہے
سانچہ میں عمارت کو مگر ڈھال دیا ہے
یا تار نظر سے کہیں پتھر کو سیا ہے
مرمر میں مہ و مہر کا سا نور و ضیا ہے
گو شمع نہ فانوس نہ بتی نہ دیا ہے
ہاں ؛ چشمہ خورشید سے آب اس نے پیا ہے
چلئے جو یہاں سے تو نظر کہتی ہے فی الفور
نظارہ کی دو مجھ کو اجازت کوئی دم اور

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس جگہ پہ ہنر مندوں کا ہاتھوں کا جادو دکھائی دے رہا جنھوں نے دیکھنے والوں پہ ایک سحر طاری کر دیا۔ اگرچہ انھوں نے عمارت کو ایک سانچے میں ڈھالا ہے یا کسی نہ نظر آنے والی تار کی بدولت پتھروں کو سی دیا ہے۔ اس جگہ پہ سنگ مرمر چاند اور سورج جیسا نور جھلک دکھاتا ہے۔اس جگہ پہ گویا کوئی شمع، فانوس یا دیے جیسی روشنی موجود نہ تھی مگر اس جگہ نے محسوس ہوتا ہے کہ سورج کی روشنی کے چشمے سے پانی پیا ہو اور اگر یہاں سے نکلا جائے تو آپ کی نظر فوری طور پہ آپ سے یہ کہتی ہے کہ مجھے کچھ دیر اور یہہاں ٹہراؤ اور اس جگہ کا نظارہ کرنے دو۔

مسجد نے اشارہ کیا پتھر کی زبانی
اس قلعہ میں ہوں شاہجہاں کی میں نشانی
کچھ شوکت ماضی کی کہی اس نے کہانی
کچھ حالت موجودہ بایں سحر بیانی
ان حجروں میں ہے شمع نہ اس حوض میں پانی
فواروں کے دل میں بھی ہے اک درد نہانی
تسبیح نہ تہلیل نہ تکبیر و اذاں ہے
بس گوشہ تنہائی ہے اور قفل گراں ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ مسجد نے پتھر کی زبان کے ذریعے ایک یہ اشارہ ظاہر کیا ہے کہ میں اس قلعے میں شاجہان کے عہد کی نشانی ہوں اس نے کچھ ماضی کی عظمت کے قصے بھی بیان کیے اور کچھ موجودہ دور کی کہانیاں بھی سناتی ہے۔ اب ان حجروں میں نہ تو کوئی شمع کی روشنی ہے اور نہ ہی اس کے حوض میں پانی موجود ہے یا نہ یہاں سے کسی نے پانی پیا ہے۔اس پانی کے نہ ہونے کا درد ان حوضوں میں موجود فواروں کے دلوں میں بھی تروتازہ ہے۔اس مسجد میں اب نہ تو کوئی تسبیح پڑھی جاتی ہے نہ ہی تکبیر اور اذان کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ بس یہ اب تنہائی کا ایک کونہ بن چکا ہے کہ جہاں پہ ایک بھاری تالا پڑا ہوا ہو۔

جمگھٹ تھا کبھی یاں وزرا و امرا کا
مجمع تھا کبھی یاں صلحا و علما کا
چرچا تھا شب و روز یہاں ذکر خدا کا
ہوتا تھا ادا خطبہ سدا حمد و ثنا کا
اک قافلہ ٹھیرا تھا یہاں عز و علا کا
جو کچھ تھا ۔ گذر جانے میں جھونکا تھا ہوا کا
ہیں اب تو نمازی میرے باقی یہی دو تین
یا دھوپ ہے یا چاندنی یا سایہ مسکیں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کبھی اس جگہ پہ وزیروں اور امیروں کا ہجوم ہوا کرتا تھا اور کبھی اس جگہ پہ مشاورت دینے والے اور علماء کا ہجوم رہتا تھا۔ہر وقت یہاں پہ اللہ کا ذکر بلند ہونے کا چرچا ہوا کرتا تھا اور اللہ کی حمد و ثنا کے خطبے کی آوازیں بلند ہوتی تھیں۔ یہاں بہت قابل مرتبہ اور قابل عزت لوگوں کے قافلے ٹھہرتے تھے۔لیکن جو بھی یہ سارے عروج تھے یہ کسی ہوا کے جھونکے کی طرح نہایت تیزی سے گزر گئے۔مسجد کہتی ہے کہ اب یہاں آکر نماز پڑھنے والے نمازی اگرچہ دو تین افراد ہی ہیں اور ان کے علاوہ یا تو دھوپ ہے یا پھر چاندنی مسکینوں کی طرح سے مجھ پہ اپنا سایہ کرتی ہے۔

وہ دور ہے باقی نہ وہ ایام و لیالی
جو واقعہ حسی تھا سو ہے آج خیالی
ہر کوشک و ایوان ہر اک منزل عالی
عبرت سے ہے پر اور مکینوں سے ہے خالی
آقا نہ خداوند ۔ اہالی نہ موالی
جز ذات خدا کوئی نہ وارث ہے نہ والی
یہ جملہ محلات جو سنسان پڑے ہیں
پتھر کا کلیجہ کئے حیران کھڑے ہیں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اب نہ تو وہ دور باقی رہا اور نہ ہی وہ دن اور راتیں پہلے سی رہی ہیں۔ پہلے جو کچھ عقلی بنیادوں پہ اور حقیقت میں یہاں پہ ہوا ہے وہ اب خیالات کا حصہ بن چکا ہے۔ اب یہاں کا ہر سیک کونہ ہر منزل اور ہر ایوان خالی ہے یہاں کی ہر ایک چیز نشان عبرت بن چکی ہے اور ان جگہوں پہ کوئی مکین نہیں ہیں۔اب یہاں پہ کوئی آقا نہ خدا اور ہی کوئی سوالی ہے۔ یہ تمام محل جو کہ اب ویران پڑے ہیں۔ ان کا کلیجہ پتھر ہو چکا ہے اور یہ بھی حیران ہیں۔

جب کند ہوئی دولت مغلیہ کی تلوار
اور لوٹ لیا جاٹ نے ایوان طلاکار
تب لیک جو تھا لشکر انگلش کا سپہدار
افواج مخالف سے ہوا بر سر پیگار
یہ بارہ و برج اور یہ ایوان یہ دیوار
کچھ ٹوٹ گئے ضرب سے گولوں کی بہ ناچار
ہے گردش ایام کے حملوں کی کسے تاب
پھر قلعہ اکبر ہی میں تھا کیا پر سرخاب

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جس دن مغلیہ عہد کی تلوار کو زنگ لگا اور وہ کند ہوئی اس روز جاٹوں نے تمام تخت و تاج لوٹ لیا۔ اس وقت انگریزوں کا لشکر جو کہ ایک پہرے دار کی طرح یہاں پہ داخل ہوا تھا اس نے بھی ایک مخالف سمت سے اس محل پہ دھاوا بول دیا۔اس وقت یہ بارہ ستارے اور اس ایوان کے درو دیوار ان کے برسائے جانے والے گولوں کی تاب نہ لا سکے اور ٹوٹ گئے۔ کیوں کہ زمانے کی گردش کی تو کوئی بھی تاب نہیں لا سکتا ہے پھر اکبر کے قلعے کو بھلا کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے تھے کہ وہ زمانے کی گردش سے محفوظ رہ پاتا۔

آخر کو لٹیروں کی شکستہ ہوئی قوت
اونچا ہوا سرکار کے اقبال کا رایت
لہرانے لگا پھر علم امن و حفاظت
آثار قدیمہ کی لگی ہونے مرمت
یہ بات نہ ہوتی تو پہونچتی وہی نوبت
دیوار گری آج ۔تو کل بیٹھ گئی چھت
حکام زماں کی جو نہ ہوتی نگرانی
رہ سکتی نہ محفوظ یہ مغلیہ نشانی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ آخر کو لوٹنے والوں کی طاقت میں بھی کمی آئی اور حکومت کا اقبال بلند ہوا۔ پھر سے معاشرے میں حفاظت اور علم و امن کا بول بالا ہوا۔ اب ان محلات کی مرمت آثار قدیمہ کہہ کر کروائی جانے لگی ۔ اگر پھر سے امن و امان کا یہ دور دورہ نہ ہوتا تو پھر سے اس محل کی وہی حالت ہوتی کہ آج اس کی دیوار گر رہی ہے تو کل اس کی چھت زمین بوس ہوگئی۔ اگر اس وقت کے حکمران اس کی نگرانی نی کرواتے تو آج یہ مغلیہ عہد کی نشانی محفوظ صورت میں کبھی بھی ہمارے پاس موجود نہ ہوتی۔

ارباب خرد چشم بصیرت سے کریں غور
اکبر کی بنا اس سے بھی پائندہ ہے اک اور
سردی کی جفا جس پہ نہ گرمی کا چلے جور
ہر چند گزر جائیں بہت قرن بہت دور
برسوں یونہیں پھرتے رہیں برج حمل و ثور
اس میں نہ خلل آئے کسی نوع کسی طور
انجینیروں کی بھی مرمت سے بری ہے
وہ حصن حصیں کیا ہے ؟ فقط ناموری ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ عقل مند لوگ اگر اپنی باطن کی آنکھ سے دیکھیں تو اکبر کے نام کے زندہ رہنے کی ایک وجہ اور بھی ملتی ہے کہ جس پہ سردی گرمی کسی موسم کا اثر نہیں ہوتا۔ چاہے کئی صدیاں اور کئی ادوار ہی کیوں نہ گزر جائیں۔ برج حمک اور ثور یوں ہی مسلسل ایک گردش میں نہیں ہیں بلکہ اس میں کوئی بھی چیز کسی طرح کا خلل نہ لا سکے اس وجہ سے وہ گردش میں ہیں۔ اسی طرح جو انجینئر مرمت کرتے ہیں اس سے بھی بری شے یہ ہے کہ کیا حصار اور کیا قلعے رہ جائیں بلکہ یہ سب تو ناموری کا ذریعہ ہیں۔

او اکبر ذیجاہ ؛ تیری عزت و تمکیں
محتاج مرمت ہے نہ مستلزم تزئیں
کندہ ہیں دلوں میں تری الفت کی فرامیں
ہے تیری محبت کی بنا اک دژ رو میں
پشتوں سے رعایا میں بہ آئین وراثت
قائم چلی آتی ہے تیرے نام کی عظمت

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے بلند مرتب اکبر بادشاہ آپ کی عزت اور مرتبہ بلند ہو۔جو کہ نہ تو کسی مرمت اور نہ ہہی آرائش و تزئین کی محتاج ہے۔ اس کی محبت کے فرمان لوگوں کے دلوں میں کندہ ہو چکے ہیں۔اس کی محبت کے بنا یہ سب ادھورا ہے۔ رعایا میں اکبر کی کئی پشتوں سے یہ روایت قائم چلی آ رہی ہے کہ اس کے بعد اس کی اولاد وارث ہے۔

بکرم کی سبھا کو تیری صحبت نے بھلایا
اور بھوج کا دورہ تیری شہرت نے بھلایا
ارجن کو تیری جرات و ہمت نے بھلایا
کسری کا ترے دور عدالت نے بھلایا
اسکندر و جم کو تری شوکت نے بھلایا
پچھلوں کو غرض تیری عنایت نے بھلایا
آتے ہیں زیارت کو تو اب تک ہے یہ معمول
زائر تری تربت پہ چڑھا جاتے ہیں دو پھول

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ دربار اور محفل میں اکڑنے کی عادات کو ہم نے بادشاہ کی سادگی دیکھنے کے بعد سے بھلا دیا۔ جبکہ بادشاہ کی شہرت نے ہمارے کھانے کی فکروں کو بھی ختم کر دیا۔بادشاہ کی جرات و بہادری نے ہمیں ارجن کی بہادری بھلا دی۔ قیص و کسری کے درباروں کی عدالت کو اکبر کے دربار اور عدالت نے بھلا دیا۔ اسکندر اعظم کی شان و شوکت اکبر کی شوکت کے سامنے ہیچ دکھائی دینے لگی۔ غرض اس سے پہلے گزرے تمام لوگ اکبر بادشاہ کی شان و شوکت نے ہمیں بھلا دیے۔ہم نے یہ معمول بنا لیا اور اب تک لوگ ان کی زیارت کو آتے ہیں اور زیادت کو آتے والے زائرین ان کی قبروں پہ پھول چڑھاتے ہیں۔

ہو کہنہ و فرسودہ ترا قلعہ تو کیا غم
شہرت ہے تیرے نام کی سو قلعوں سے محکم
بھرتا ہے ہر اک فرقہ محبت کا تری دم
لکھتے ہیں مورخ بھی تجھے اکبر اعظم
رتبہ ہے ترا ہند کے شاہوں میں مسلم
یہ ٍفخر ترے واسطے زنہار نہین کم
گو خاک میں مل جائے ترے عہد کی تعمیر
ہے کتبہ عزت ترا ہر سینہ میں تحریر

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اگر تمھارا قلعہ پرانا ہو بھی چکا ہے تو اس میں غم کی کیا بات ہے۔ اکبر کی شہرت اس کے قلعوں سے بھی کئی گنا بڑی ہے۔ ہر فرقے کے لوگ اس کی محبت کا دم بھرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے تاریخ دان بھی اس کا ذکر کرتے ہوئے اکبر اعظم جیسے القابات سے یاد کرتے ہیں۔ ہندوستان کے تمان بادشاہوں میں اکبر کا رتبہ سب سے بلند ہے۔اور یہ فخر بادشاہ کے لیے کسی طور بھی کم نہیں ہے۔ اگر اکبر کے عہد کی تعمیرات خاک میں بھی مل جائیں تو اس کی عظمت و محبت کا کتبہ ہمارے دلوں پہ تحریر کردہ ہے۔

ہاں ؛ قوم کے نو عمر جوانو ادھر آؤ
ہے دیدہ بینا تو اسے کام میں لاؤ
آثار صنادید کی عینک کو لگاؤ
عبرت کی نگاہوں کو پس و پیش پھراؤ
راہ طلب و شوق میں اک شمع جلاؤ
گنجینہ اعزاز کو پانا ہے تو پاؤ
یہ نقش و نگار در و دیوار شکستہ
دیکھو تمہیں دکھلاتے ہیں آیندہ کا رستہ

اس بند میں شاعرقوم کے نو عمر نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر تم دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہو تو اسے کام لاؤ اور پرانی عمارات کو دیکھنے والی آنکھ کھولو وہ عینک لگاؤ۔ اپنے اردگرد عبرت کی نگاہ کو دوڑاؤ اور اپنے اندر شوق اور جستجو کی ایک شمع روشن کرو۔ اگر تم نے اعزازات کے خزانے کو حاصل کرنا ہے تو یہ ٹوٹی ہوئی دیواریں اور ان پہ بنے ہوئے نقش و نگار ان کو غور سے دیکھو یہ تمھیں آنے والے وقت کا پتہ دیتے ہیں اور اس منزل کا راستہ دکھاتے ہیں۔

اسلاف نے اگر کی تھی ملکوں پہ چڑھائی
یا کاخ حکومت کی تھی بنیاد اٹھائی
یا طرح کئے کوشک سیمیں و طلائی
یا بحر میں کشتی تجارت تھی چلائی
یا کشور تہذیب میں کی قلعہ کشائی
کس برتے پہ یہ کام تھے آخر میرے بھائی
جب بحر مصائب کو شنا کر کے ہوئے پار
تب دہر مخالف بھی ہوا غاشیہ بردار

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اگر ہمارے آباؤ اجداد نے ملکوں پہ چڑھائی کی تھی یا حکمرانوں کی حکومت کی بنیادوں کو ہلایا تھا۔یا انھوں نے محلوں کو سونے اور چاندی سے رنگا یا سمںدر میں تجارتوں کو فروغ دیا۔ یا ملک کی تہذیب میں قلعہ کی نئی بنیادیں ڈالیں۔ آخر کو بھائی آپ نے کس کھاتے میں یہ کام کیے تھے۔ جب انھوں نے سمندر کی مشکلات کو سہہ کر اسے پار کر لیا تو اس وقت زمین جو کہ اس کے مخالف تھی وہ بھی اس کی مطیع و فرمانبردار ہو گئی۔

عزت کی ملی تھی انھیں جاگیر دوامی
دولت کے طرفدار تھے اور دین کے حامی
خصلت میں خوشامد تھی نہ عادت میں غلامی
رسموں میں خرابی تھی نہ اطوار میں خامی
گر فہم و فراست کی مجالس میں تھے نامی
تدبیر ممالک میں تھے وہ صدر گرامی
گر فتح و ظفر میں تھے سکندر سے بھی زیادہ
تھے دانش و حکمت میں ارسطو کے بھی دادہ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ انھیں ہمیشہ کے لیے عزت کی جاگیر و سلطنت ملی تھی۔ وہ لوگ ہمیشہ سے دولت کی طرف داری کرتے تھے اور دین کی حمایت کرنے والے تھے۔ ان کی عادات میں نہ تو خوشامد کرنا شامل تھا اور نہ ہی کسی کی غلامی کرنا۔ ان کے عہد کے رسم ورواج اود طور طریقوں میں کوئی برائی نہ تھی۔ اور عقل و شعور کی مجالس میں بھی ان کا ایک بڑا نام و مرتبہ تھا۔ اور ملکوں کی تدابیر کرنے میں اور صدارت کی حیثیت رکھتے تھے۔ اگرچہ فتح یاب کرنے اور کامیابیاں دینے میں سکندر اعظم سے بڑا ان کا مرتبہ تھا۔ جبکہ دانائی اور عقل و حکمت میں وہ ارسطو کے بھی باپ تھے۔

کیا کیا طلب علم میں کرتے تھے جگر خوں
لیلی تھا اگر علم تو وہ لوگ تھے مجنوں
کچھ بو علی سینا ہی نہ تھا رشک فلاطوں
بہتوں نے کدایا یوہیں تحقیق کا گلگوں
مدت کی کہانی ہے اگر سیرت ماموں
تاریخ میں دیکھو سبب مرگ ہمایوں
اکبر بھی تھا آخر اسی تہ جرعہ کا مخمور
تھا فیضی علامہ اس کام پہ مامور

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ان لوگوں کو حصولِ علم کا کس قدر شوق تھا اور وہ اس کے کیا کیا جتن نہ کرتے تھے۔ حصول علم کے جنون کی مثال ان کے لیے ایسی تھی کہ اگر لیلی علم ہوتی تو وہ مجنوں کی مانند اس کے دیوانے تھے۔ لوگوں کو صرف بو علی سینا اور افلاطون کے علم پہ ہی رشک نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان میں سے بھی بہت سے لوگوں نے تحقیق اور جستجو کے پھول کھلائے۔اگر مامون کی سیرت ایک پرانی کہانی ہے تو تاریخ میں ہمایوں کی موت کا سبب بھی تلاش کرو۔ اکبر بھی اسی جنون کی آگ میں مدہوش تھا اور لوگوں کو فیض یاب کرنے والا ایک علامہ اس کام پہ معمور کیا گیا تھا۔

یہ کہنہ عمارات کہ ہیں وقف تباہی
اسلاف کے اوصاف پہ دیتی ہیں گواہی
صرف اصل و نسب ہی پہ نہ تھے اپنی مباہی
مکتب میں تھے استاد ریاضی و آلہی
میدان مساعی میں تھے اک مرد سپاہی
زیبا تھا انھیں چتر جہاں بانی و شاہی
کنیاتے تھے محنت سے نی آلام سے تھکتے
کوشش کی گھٹا میں تھے وہ بجلی سے کڑکتے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ پرانی اور شکستہ عمارت تباہی سے دوچار ہونے کے بعد بھی ان کی رویات اور اسلاف کی خوبیوں کی گواہی پیش کرتے ہییں۔ کہ یہ لوگ اپنی نسل اور ان کا اصل کیا ہے صرف اس پہ ناز نہ کرتے تھے بلکہ علم گاہوں میں یہ ءساب کے استاد تھے تو میدان جنگ میں ایک بہادر سپاہی تھے۔انھیں بادشاہوں والی یہ عقلمندی زیب دیتی تھی ۔ کیوں کہ یہ نہ تو محںت کرنے سے کتراتے ہیں تھے اور نہ ہی مشکلات اور مصیبتوں سے تھکتے تھے۔وہ ہر وقت کوشش کرنے میں مشغول رہتے اور بجلی جیسی کڑک رکھتے تھے۔

وہ عیش کے مملوک تھے نے بندہ راحت
گلگشت چمن زار تھی گویا انھیں عزت
برداشت جفا کرتے تھے سہتے تھے صعوبت
اوروں کے بھروسے پہ نہ کرتے تھے معیشت
دنیا کے کسی کام میں ہیٹی نہ تھی ہمت
بے غیرتی زنہار نہ تھی ان کی جبلت
ہمت میں تھے شاہین تو جرات میں تھے شہباز
عزت کی بلندی پہ کیا کرتے تھے پرواز

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ نہ تو وہ عیش و عشرت کی غلامی کرتے تھے اور نہ ہی آرام طلب تھے۔انھیں اس باغ جیسی دنیا میں بہت عزت و مرتبہ حاصل تھا۔وہ ہر طرح کی تکلیف اور وفاؤں کو سہتے تھے۔وہ اپنی حکومت اور ملکی انتظام دوسروں کے بھروسے نہیں چھوڑتے تھے۔انھیں دنیا کا کوئی کام نہ تو چھوٹا بڑا لگتا تھا اور نہ ہی وہ اس سے ہمت ہارتے تھے۔ان کی عادات میں بے غیرتی ہر گز شامل نہ تھی۔شاہین کی بلند پروازی جیسی ہمت اور شہباز جیسی بہادری کی صفات رکھتے تھے۔ اور ان کی بلندی ان کا وقار اور عزت تھی جس پہ یہ پرواز کرتے تھے۔

وہ صولت و سطوت میں تھے جوں شیر نیستاں
عزت کے لئے جاں بھی کیا کرتے تھے قرباں
تھا انجمن عیش سے خوشتر انھیں میداں
محنت کے بودے تھے نہ مشقت سے گریزاں
دشوار تھی بے حرمتی اور ننگ مگر ہاں
آسان تھی نیزہ کی انی ۔ تیر کا پیکاں
خیرات کے ٹکڑے پہ نہ گرتے تھے وہ حاشا
تھا نعل بہا ان کو یہ دولت کا تماشا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ رعب اور دبدبے میں جنگل کے شیر والی صفات رکھتے تھے اور عزت کرلیے اپنی جان تک قربان کرنے سے گریز نہ کرتے تھے ان کا مقابلہ عیش و عشرت کی محافل سے تھا۔ یہ نہ تو محںت کرنے سے گھبراتے تھے اور نہ ہی مشقت سے بھاگتے تھے۔بے حرمتی اور ننگ پن اگرچہ مشکل تھا مگر ان کے لیے نیزہ اور تیر کی نوک پہ لڑنا آسان تھا۔وہ کبھی خیرات کے ٹکڑوں پہ بلا وجہ نہیں گرتے تھے۔ ان کے لیے یہ بیش بہا دولت کسی تماشا سے کم نہ تھی۔

وہ کعبہ مقصود تھے یا قبلہ حاجات
کس منہ سے بزرگوں پہ کریں فخر و مباہات
سر اپنے گریباں میں ذرا ڈالئے ہیہات
اوصاف اضافی سے نہیں کچھ شرف ذات
تلوار میں جب کوئی اصالت کی نہ ہو بات
گاہگ تو نہ پوچھے گا یہ کس کان کی ہے دھات
بندوق دم صید گر اچھی نہ چلی ہو
مردود ہے گو لندن و پیرس میں ڈھلی ہو

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ کعبے کے آرزو مند تھے یا دوسروں کی تکالیف کو دور کرنے والے تھے۔ ہم اپنے ان بزرگوں کی روایات پر کس کس طرح سے فخر کریں۔ اگر ہم ذرا دیر کے لیے اپنے گریباں میں جھانک لیں تو ہماری ذات میں کوئی اضافی خوبی موجود نہیں پائی جاتی ہے۔تلوار میں جب کوئی اصل پن کی خوبی ہی باقی نہ رہے تو گاہگ تو ہر گز اس کی جانب متوجہ نہ ہو گا اور نہ ہی اس کی دھات کے بارے میں سوال کرے گا۔ اسی طرح اگر شکاری کی بندوق نشانے کو نہ پکڑے تو پھر چاہے وہ لندن و پیرس میں ہی کیوں نہ بنی ہو بے فائدہ ہے۔

دل اپنی ستایش سے نہ بہلائیے حضرت
اس راہ میں دھوکا نہ کہیں کھائیے حضرت
شیخی کو بہت کام نہ فرمائیے حضرت
شعلہ کو تعلی کے نہ بھڑکائیے حضرت
آبا کی بزرگی پہ نہ اترائیے حضرت
یہ گو ہے یہ میدان ادھر آئیے حضرت
اب بھی تو وہی خیر سے نسل شرفا ہے
آخر سبب اس نیک سر انجام کا کیا ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اپنا دل اپنی تعریف سے نہیں بہلانا چاہیے اس راستے میں دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ شیخی میں آ کر بڑی بڑی باتیں بھی نہیں کرنی چاہیے۔ نہ ہیں کسی شعلے کو تعریف سے بھڑکانا چاہیے۔ ہمیں اپنے آباؤ اجداد کی عظمت پہ نہیں اترانا چاہیے اصل میدان یہ ہے تو جناب اس طرف آئیے۔ اب بھی تو انھی شریفوں کی نسل جاری و ساری ہے۔تو اس نیک سر وجہ کا انجام کیا ہو گا۔

کیوں قوم کی حالت میں تنزل کا پڑا ڈھنگ
کیوں انجمن عیش پرستی کا جما رنگ
کیوں تیخ شرافت کو دنائت کا لگا زنگ
مغلوب سفاہت ہوئے کیوں دانش و فرہنگ
روباہ بنے کس لئے شیران صف جنگ
کیوں بارگی عزم ہوا دون خر لنگ
کیوں ٹوٹ گئے باز عمل کے پر و بازو
کیوں ذروہ عزت پہ لگا بولنے الو

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کیوں اس کی حالت زوال پذیر ہوئی اور کیوں ان کی محفلیں عیش و عشرت میں رنگی جانے لگیں۔کیوں ان کی شرافت اور عزت کو کمینے پن نے آ لیا۔ جب کہ بڑے بڑے عقل مند کیوں حماقتوں کی زد میں آنے لگے۔ شیروں جیسی صفات رکھنے والے لومڑی سی چالاکی کیوں پالنے لگے۔کیوں اچانک سے ان کی عظمت کم ہونے لگی۔ کیوں کام پر ان کے عمل کرنے والے پر و بازو ٹوٹ گئے اور کیوں ان کی عزت و عظمت کے میناروں پہ ویرانی چھائی اور الو بولنے لگے۔

جڑ پہلے زمانہ میں جمی جیسے شجر کی
لذت ہمیں چکھنی ہے ضرور اس کے ثمر کی
بے شک ہے یہ پاداش اسی شور کے شر کی
ہاں مستحق اولاد ہے میراث پدر کی
تفتیش کرو دوستو ۔ اخبار و سیر کی
فہرست مرتب کرو ہر عیب و ہنر کی
دو ڈیڑھ صدی پہلے سے جو اپنا ڈھچر تھا
انصاف سے دیکھو اسے کیا پوچ و پچر تھا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جیسے زمانے میں کسی درخت کی جڑ نے زمین میں جگہ پائی اور ہمیں اس پھل کی لذت چکھنی ہے۔ بے شک یہ سزا اسی شور اور شر کی ہے ۔ کہ اولاد ان بزرگوں کی وراثت کی حقدار ہے بھی کہ نہیں۔ اے دوستوں ان پرانی خبروں کی تفتیش کرو اور آباؤاجداد کے ہنر اور عیبوں کی ایک فہرست مرتب کرو۔یہ معلوم کرو کہ آج سے ڈیڑھ دو صدی قبل جو ہمارا طریقہ کار تھا اس میں انصاف سے معلوم کرو کہ کیا غلط اور صحیح موجود تھا۔

جو راہنمائی کو چلے آپ تھے گمراہ
حالات سے واقف نہ مقامات سے آگاہ
شیروں کی جگہ جمع ہوا گلہ روباہ
ہر کرمک شب تاب بنا مدعی ماہ
ہر شخص کو تھی خود غرضی سے طلب جاہ
ویسے ہی امیرالامرا جیسے شہنشاہ
رسم حسد و بغض و عداوت ہوئی تازہ
آخر کو اٹھا دولت و عزت کا جنازہ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جو ان کی رہنمائی کرنے چلے تھے وہ خود گمراہی کا شکار تھے۔ نہ تو وہ ان حالات سے واقف تھے اور نہ ہی ان مقامات کو جانتے تھے۔ جس کی وجہ سے شیروں کی جگہ پہ لومڑیوں کا گلہ جمع ہو گیا۔ ہر جگںو اور رات کو روشن ہونے والا پتنگا ان کا گواہ بنا۔ اس وقت ہر شخص کو دولت کی طلب کی خود غرضی نے آ لیا تھا۔ جیسے بادشاہ تھے وہی حیثیت امیروں کی بھی ہو چکی تھی۔لوگوں کے درمیان حسد اور نفرت بڑھنے لگی جس کا نتیجہ دولت اور عزت کا جنازہ اٹھنے کی صورت میں برآمد ہوا۔

وہ غور کے غزنیں کے دلیران ظفر مند
وہ شاہ سواران بخارا و سمرقند
جو ہند کے خطے میں ہوئے خاک کے پیوند
جی اٹھتے دوبارہ اگر ان میں سے تنے چند
ہاں ہلہ اول میں تو ہوتے ہی وہ خرسند
پھولے نہ سماتے کہ ہمارے ہیں یہ فرزند
پر دیکھتے جب ان کے برے فعل برے قول
جا بیٹھتے قبروں ہی میں پڑھتے ہوئےلاحول

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ غزنی کے بہادر اور فتح یاب لوگ تھے یا پھر سمر کند اور بخارا کے شہسوار تھے سب ہندوستان کی سر زمین میں خاک میں جا سوئے۔اگر ان میں سے کچھ لوگ بھی دوبارہ زندہ ہو جاتے تو پہلے ہلے میں ہی وہ خوش و خرم ہو جاتے اور اس بات سے پھولے نہ سماتے کہ ہماری یہ اولاد ہے۔مگر جب اس اولاد کے یہ برے فعل اور برے قول دیکھتے تو واپس لا حول ولا پڑھتے ہوئے یہ اپنی قبروں میں جا لیٹتے۔

کیا حال تھا حضرات ملوک اور امرا کا
انبوہ تھا بیہودہ مشاغل کی بلا کا
یا فوج کنیزوں کی تھی اک قہر خدا کا
یا بولتا طوطی تھا کسی خواجہ سرا کا
یا شور خوشامد کا تھا یا مدح و ثنا کا
سفلے تھے مشیر اور مصاحب تھے چھچھورے
وہ عقل کے دشمن تو حضور ان سے بھی کورے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ان بادشاہوں اور امیروں کا کیا حال تھا کہ بیہودہ مشاغل کی کثرت تھی۔ ایک طرف کنیزوں کی ایک فوج تھی اور ان پہ خدا کا ایک قہر تھا۔ یا اس وقت کسی خواجہ سرا کو شہرت حاصل تھی۔ یا پھر لوگ ایک دوسرے کی خوشامد کرتے اور انھیں تخلیق کرنے والی کی حمد و ثنا بیان کرتے تھے۔ مشورہ دینے والے مشیر کم ظرف تھے تو ان کے مصاحب چھچھورے تھے۔ اگر یہ سب ان کے کی عقل کے دشمن تھے تو بادشاہ حضور ان سب سے بھی کم عقل تھے۔

کاسد ہوا بازار ہر اک طرز عمل کا
عالم نظر آتا ہے بتر آج سے کل کا
مفلس ہیں تو پیشہ ہے فریب و دغل کا
اندیشہ نہیں کچھ انھیں ایماں کے خلل کا
مدت سے ڈھانچ بگڑا اہل دول کا
چکھا ہے مزہ خوب ہی اسراف کے پھل کا
اب کوئی اگر دولت قومی کی کرے جانچ
ٹٹ پونجیئے البتہ نکل آئیں گے دس پانچ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ہر ایک طور طریقہ اس وقت بے عمل ہو گیا۔ آج کا حال تو کل سے بھی بدتر نظر آتا ہے۔ اگر کوئی غریب ہے تو اس نے دھوکہ دہی کا پیشہ اپنا لیا ہوا ہے انھیں اپنے ایمان کے خراب ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ایک طویل عرصے سے ان کا یہ حال بگڑ چکا ہے۔ انھوں نے فضول خرچی کے اس پھل کا خوب مزا چکھا کہ اب اگر قوم کی دولت یا خزانے کی کوئی جانچ پڑتال کرے تو تھوڑی بہت جمع پونجی رکھںے والے پانچ دس لوگ ان میں سے نکل آئیں گے۔

اب نام کو ہم میں جو گروہ شرفا ہے
سو حالت افلاس میں جینے سے خفا ہے
یا شامت اعمال سے پامال جفا ہے
کچھ حسن معیشت نہ کہیں صدق و صفا ہے
کچھ دولت دنیا ہے تو بے مہر و وفا ہے
کچھ دین کا چرچا ہے تو وہ روبہ قفا ہے
چھائے گی تنزل کی ابھی ہم پہ گھٹا اور
ہم اور ہوا میں ہیں زمانہ کی ہوا اور

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اب ہم تو بس نام کو شریفوں کے گروہ ہیں اور ہماری حالت ان غربت بھرے حالات میں جینے کی وجہ سے خفا ہے۔یا پھر یہ ہمارے اعمال کی شامت ہے کہ ہماری معیشت میں نہ تو کوئی خوبصورتی ہے اور نہ ہی خلوص جیسی صفات ہیں۔دنیاوی دولت کا کچھ اثر ہے تو کچھ محبت اور وفا کی کمی ہے۔ کچھ دین سے دوری کاے نتائج ہیں۔ ابھی تو ہم پہ زوال کی اور گھٹا بھی چھائے گی کیوں کہ ہم کسی اور ہوا کی رو میں بہہ رہے ہیں جبکہ اس زمانے کی ہوا کچھ اور ہے۔

جو لوگ یہ سمجھے کہ ہیں صرف اپنے لئے ہم
اغراض و مقاصد ہیں فقط اپنے مقدم
یاروں کی انھیں فکر نہ غیروں کا انھیں غم
ہمدرد عشیرت ہیں نہ ہمسائیوں کے ہمدم
وہ فہم و فراست میں بہایم سے بھی ہیں کم
یا سنگ ہیں یا خشت ہیں جائیں بہ جہنم
ان مردہ دلوں سے تو کرو قطع نظر بس
لے ڈوبیں گے تم کو بھی چلے ان کا اگر بس

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم صرف اپنے لیے جی رہے ہیں انھیں صرف اپنی غرض اور مقاصد اہم ہیں۔ نہ تو انھیں دوستوں کی کوئی فکر ہے اور نہ ہی غیروں کا کوئی غم ہے۔ نہ یہ اپنے ہمسائیوں کے دوست ہیں اور نہ ہی انھیں کسی اور کا غم ہے۔عقل اور سمجھ بوجھ میں وہ ان سے بھی جم ہیں۔ چاہے اینٹ ہو یا پتھر ان کے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ ان کی طرف سے سب جہنم میں جائیں۔ مردہ دلوں سے قطع نظر کرکے دیکھا جائے تو اگر ان کا بس چلے تو یہ تمھیں بھی اپنے ساتھ لے ڈوبیں گے۔

جو قوم کے اوصاف تھے سو ان میں سے اکثر
آپس کی کشاکش میں گلا گھٹ کے گئے مر
غمخواری و احسان و مروت کا لٹا گھر
انصاف کا اور دین دیانت کا کٹا سر
نیکوں سے ہوئے بد ۔ تو بدوں سے ہوئے بدتر
کاشانہ دولت کی جگہ رہ گئے چھپر
جو کام تھے یاروں کے سو گردن زدنے تھے
خود اپنے لئے مستعد بیخ کنی تھے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس قوم کی جو خوبیاں تھی ان میں سے اکثر لوگ آپ کی کش مکش میں گلا گھونٹ کر مر گئے۔جس سے ایک دوسرے کا غم بانٹنے ، احساس کرنے اور مروت کا گھر لٹا اور ساتھ ہی انصاف اور دین کی دیانت کا سر بھی کٹ گیا۔ نیک لوگوں میں سے بد اور بد لوگوں میں سے نیک سر اٹھانے لگے۔اور جہاں پہ دولت کے بڑے بڑے محل تھے وہاں محض چھپر باقی رہ گئے۔دوستوں کے کام گردن اڑا دینے والے تھے اور سب اپنے لیے ایک تباہی کا گڑھا کھود رہے تھے۔

جرات تھی سو آپس کی عداوت میں ہوئی صرف
قوت تھی سو رشک اور رقابت میں میں ہوئی صرف
شوکت تھی۔ سو خودبینی و نخوت میں ہوئی صرف
فرصت تھی سو بیکاری و غفلت میں ہوئی صرف
عزت تھی ۔ سو افلاس و فلاکت میں ہوئی صرف
دولت تھی سو عیاشی و عشرت میں ہوئی صرف
اس وقت ہمیں عاقبت الامر ہوا ہوش
جب رہ گئے ہم لوگ بیک بینی و دو گوش

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ان لوگوں کی بہادی آپسی دشمنیوں میں استعمال ہو گئی اور ان کی طاقت ایک دوسرے سے حسد کرنے میں ضائع ہونے لگی۔ ان کی شان و شوکت ان کے اپنے غرور اور گھمنڈ کی ظر ہوگئی۔ان کی تمام فرصت ان کی بیکاری اور غفلت کی نظر ہوئی۔ ان کی دولت عیاشی کی نظر ہونے لگی۔ اس وقت سب کو اپنی آخرت سنوارنے کا ہوش آیا۔کہ جب لوگ محض بیک بین و دو گوش رہ گئے یعنی ختم ہو چکے۔

مدت سے زمانہ میں ترقی کا پھنکا صور
عالم میں بجا اور ہی تحقیق کا طنبور
آفاق میں پھیلا نئی ایجاد کا منشور
خورشید برآمد ہوا بھاگی شب دیجور
ہم دے کے ڈھئی کلبہ احزاں میں بدستور
سوتے رہے غفلت میں پڑے بے خود و مخمور
نا وقت کھلی آنکھ تو حیراں ہیں اب ہم
ہم کون ہیں کیا چیز ہیں اے وائے عجب ہم

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ایک مدت ہوئی ہے کہ زمانے میں ترقی کرنے کا ایک جادو پھونکا گیا ہے۔ اس دنیا میں تحقیق کرنے کا ایک الگ طرح کا طنبورہ بجا۔اس دنیا میں ہر جانب نئی ہونے والی ایجادات کا شور بلند ہونے لگا جیسے ہی سورج نکلاتو اندھیری رات بھاگ گئی۔لیکن ہم ابھی تک ایک غم کدہ میں ہیں۔ ہم ایک غفلت میں ڈوبے رہے۔بروقت آنکھ نہیں کھلی تو اب ہم حیران ہو رہے ہیں ہمیں خود معلوم نہیں کہ نجانے ہم کون ہیں اور کیا چیزیں ہیں۔

ہم چاہتے ہیں عیش بھی اور ناموری بھی
دولت بھی ہمیں چاہئے اور بے ہنری بھی
اعزاز بھی مطلوب ہے بیہودہ سری بھی
آوارگی منظور ہے اور راہبری بھی
مقصود رفو بھی ہے مگر جامہ دری بھی
گر پستی ہمت ہے تو عالی نظری بھی
یہ بات تو ہو گی نہ ہوئی ہے کبھی آگے
پھرتے ہیں محالات کے پیچھے یونہیں بھاگے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ہم عیش و عشرت بھی چاہتے ہیں اور بڑا نام بھی چاہتے ہیں۔ہمیں دولت بھی چاہیے ہیں اور ہم کوئی ہنر بھی نہیں سیکھنا چاہتے ہیں۔ہمیں ہر طرح کا اعزار بھی چاہیے اور اس کے لیے ہمیں بیہودگی کرنا بھی منظور ہے۔ ہمیں آوارگی اور رہبری دونوں منظور ہیں۔ہمارا مقصد لباس کی رفو گری بھی اور ان کے لباسوں کے منتظمین بھی ہم ہی ہیں۔اگر یہ ہمت کی پستی ہے تو ایک طرف یہ اعلیٰ ظرفی بھی ہے کہ یہ بات نہ سب ہوئی ہے اور نہ کبھی آگے ہو گی کہ ہم محلات کے پیچھے یونہی بلاوجہ نہیں بھاگتے پھرتے ہیں۔

خیر اب کوئی تدبیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
کفارہ تقصیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
کچھ چارہ تاخیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
اس حال کو تغیئر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
فریاد مین تاثیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
اس خواب کی تعبیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
کچھ بھی نہیں دشوار اگر ٹھان لو جی میں
گھنٹوں میں ہو وہ کام جو ہوتا ہو صدی میں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اب اگرچہ ہمارے پاس کوئی تدبیر کوئی چارہ باقی نہیں ہے نہ اپنی غلطیوں کا کوئی کفارہ ہے۔اس دیری کا کوئی چارہ یا علاج نہیں ہے اور نہ ہی اس حال میں کوئی تبدیلی ممکن ہے۔ہماری فریاد اور پکار میں تاثیر بھی نہیں ہے اور نہ ہمارے دیکھے گئے اس خواب کی کوئی تدبیر ہے۔ کوئی کام بھی مشکل نہیں ہے اگر اس کو دل سے کرنے کی ٹھان لی جائے تو وہ کام جو صدیوں میں ہوتا ہے اںسان اپنے مصمم ارادے سے اسے منٹوں میں مکمل کر لیتا ہے۔

بے کوشش و بے جہد ثمر کس کو ملا ہے
بے غوطہ زنی گنج گہر کس کو ملا ہے
بے خون پئے لقمہ تر کس کو ملا ہے
بے جورکشی تاج ظفر کس کو ملا ہے
بے خاک کے چھانے ہوئے زر کس کو ملاہے
بے کاوش جاں علم و ہنر کس کو ملا ہے
جو رتبہ والا کے سزاوار ہوئے ہیں
وہ پہلے مصیبت کے طلبگار ہوئے ہیں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ بغیر کوشش اور اور جدوجہد کے کچھ بھی کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ کیوں کہ غوطے لگائے بغیر اںسان کبھی بھی کوئی خزانہ حاصل نہیں کر سکتا ہے۔ بغیر شدید جدوجہد کیے اور خون پیے کبھی کسی انسان کو تر لقمہ نہیں ملا ہے۔تکالیف اور مصائب اٹھائے بغیر کبھی کسی کو تاج نہیں ملا ہے۔خاک چھانے بغیر دولت کسے نصیب ہوئی ہے۔ بغیر محنت اور کوشش کہ اس دنیا میں علم۔کسے نصیب ہوا ہے۔ وہ لوگ جنھوں نے رتبے حاصل کرنے کی سزا ملی انھوں نے ہمیشہ کئی مصیبتوں کو جھیلا اور تب جا کر ان مراتب کو پایا۔

کوشش ہی نے اجرام سماوی کو ہے تولا
کوشش ہی نے طبقات زمیں کو ہے ٹٹولا
کوشش ہی نے رستہ نءی دنیا کا ہے کھولا
کوشش ہی نے گوہر ہے تہہ بحر سے رولا
کوشش ہی کا طوطی ہے سدا دہر میں بولا
کوشش ہے غرض طرفہ طلسمات کا گولا
قدرت نے فتوحات کی رکھی ہے یہی راہ
سعی اپنی طرف سے ہو تو اتمام من اللہ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کوشش نے ہی ہمیشہ آسمان اور ستاروں کو تولا یا گنا ہے اور کوشش ہی سے انسان نے اس زمین کی تہوں اور یہاں موجود اشیاء کو ٹٹولا۔ کوشش کرنے سے انسان نے ایک نئی دنیا کا راستہ تلاش کر لیا اور اس کوشش ہی کی بدولت اس نے سمندر کی تہوں میں بھی خزانے تلاش کر لیے۔ ہر جگہ پہ ہمیشہ کوشش ہی کا بول بالا ہوا ہے۔ کوشش اگرچہ جادو کا ایک گولا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ترقی اور فتوحات حاصل کرنے کے لیے بھی کوشش کا ہی راستہ رکھا ہے اگر انسان اپنی طرف سے کوشش کو جاری رکھے تو اللہ کی ذات اس کی مدد گار بن جاتی ہے۔

ہیں آج کل اسکول کے کمرے صف ہیجا
سرمائیہ عم و ہنر و فضل ہے یغما
ہر قوم کا پر مال غنیمت سے ہے کیسا
لیکن تمہیں کچھ سود و زیاں کی نہیں پروا
کیوں قوم کے اعزاز کی لٹیا کو ڈبویا
کیوں کسب کمالات میں تم ہو گئے پس پا
اوروں سے تو بودے نہ تھے مانا کہ تم ایسے
میدان سے کیوں بھاگ گئے نوک دم ایسے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ آج کل سکول کی عمارات اور کمرے ایک طرح سے ویران ہیں اور خاک اڑا رہے ہیں جبکہ علم و فضل کا سرمایہ لوٹ مار کا سامان بن چکا ہے۔ ہر ایک قوم نے مال و غنیمت کو حاصل کیا ہے لیکن اس قوم کو نفع و نقصان کی کوئی پروا نہیں ہے۔ کیوں تم اس قوم کے اعزاز کی شہرت کو ڈبو رہے ہو اور کیوں اپنے کمالات اور خوبیوں میں تم ہار چکے ہو۔ یہ مانتے مانتے ہیں کہ تم ہر گز بھی دوسروں سے کم تر نہیں تھے مگر عین موقع پہ ایسے میدان جنگ سے کیوں بھاگ گئے۔

ہر چند کہ دعوی تھا تمھیں سیف و قلم کا
تھا فخر تمھیں نسل عرب و عجم کا
لیکن نہ رہا طرز وہ عادات و شیم کا
سیکھا نہ وتیرہ کوئی ارباب ہمم کا
ناچار ہر اک قوم نے تم کو لیا دھمکا
بے سعی کسی کا بھی ستارہ نہیں چمکا
تم راہ طلب میں ہو اگر اب بھی شتاباں
ہو کوکب عزت افق دہر پہ تاباں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اگرچہ تمھیں اپنی تلوار اور قلم کا بہت دعوی تھا اور تمھیں اپنے اعلیٰ و نسل عرب اور عجمم ہونے پہ بھی ایک فخر تھا۔ مگر تم میں وہ خصلتیں اور عادات ہر گز باقی نہ رہیں اور تم نے ہمت والے لوگوں کی کوئی بھی بات یا خوبی نہ سیکھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ایک قوم نے تمھیں ڈرا اور دھمکا لیا۔ بغیر کوشش کے کبھی کسی کو عروج نہیں ملا اگر اب بھی تم کچھ پانے کی راہ میں رواں دواں ہو تو ہم بھی تمھیں آسمان پہ وہ عزت دار تارہ بنا دیں گے جو ہمیشہ سے آسمان پہ چمک رہا ہے۔

اب تک بھی سکت ہے وہی ہڈی میں تمھاری
اب تک بھی وہی خوں ہے شرائین میں جاری
افغانی و ترکی و حجازی و تتاری
ایرانی و تورانی و بلخی و بخاری
اے دوستو ؛ ہمت ہی مگر تم نے تو ہاری
اس واسطے بس کرکری شیخی ہوئی ساری
مد علما دفتر قومی میں ہے خالی
فارابی و طوسی ہیں نہ رازی و غزالی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اب بھی تمھاری ہڈیوں میں وہی سکت اور تمھاری شریانوں میں وہی خون جاری ہےیعنی تم افغانی، ترکی ، تاتاری ،حجازی ، ایرانی ، تورانی ، بلخ اور بخارا کے فرزند ہو۔لیکن اے دوستوں تم محض ہمت ہار چکے ہویہی وجہ ہے کہ تمھاری سارہ شیخی کا مزا کرکرا ہو کر رہ گیا۔تمھارے دفاتر علما سے خالی ہیں کیونکہ یہاں پہ کوئی فارابی ، طوسی ، راشی اور غزالی نہیں ہے۔

تلواروں کا سایہ تھا جنھیں سایہ طوبی
جولان گہہ ہمت تھی جنھیں وسعت دنیا
تھا ریگ رواں جن کے لئے بستر دیبا
اور خیمہ اطلس تھا یہی قبہ خضرا
ہے تم کو اگر ان کے خلف ہونے کا دعوے
دکھلاؤ حریفوں کے مقابل ہنر اپنا
ترتیب سے جم جاؤ قرینہ بقرینہ
میدان ترقی میں لڑو سینہ بہ سینہ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جنھیں تلواروں کے سائے کی خوشخبری سونپی گئی اور جن کی ہمت و عظمت اس دنیا کی وسعتوں جتنی تھی۔جن کے لیے اس دنیا کے بدلتی چمک دار ریت ہی ان کا بستر تھی۔ اور ان کا سبز محراب دار خیمہ ہی اطلس کی سی اہمیت رکھتا تھا۔ اگر تمھیں ان کے نافرمان ہونے کا دعویٰ ہے تو ان دشمنوں کے مقابلے میں اپنا ہنر دکھاؤ ایک خاص ترتیب اور خوبصورتی سے جم جاؤ اور ترقی کے میدان میں جا کر سینہ بہ سینہ اپنی جنگ لڑو۔

یہ جنگ نہیں توپ کی یا تیغ و تبر کی
اس جنگ میں کچھ جانن کی جوکھوں ہے نہ زر کی
یہ جنگ ہے اخلاق کی اور علم و ہنر کی
یہ جنگ ہے تحصیل عمل اور نظر کی
اس جنگ میں آسودگی ہے نوع بشر کی
آزادی ہے ملکوں کی تو آبادی ہے گھر کی
یہ جنگ نہیں وضع مروت کے منافی
اس جنگ سے مافات کی ممکن ہے تلافی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ جنگ تلوار یا توپ کی نہیں ہے اور نہ ہی یہ جنگ دولت اور جان کو مشکل میں ڈالنے والی ہے بلکہ دراصل یہ جنگ اخلاق اور علم و ہنر کی لڑائی ہے۔ یہ جنگ عمل کرنے اور سیکھنے اور بہترین نظر کی جنگ ہے۔ اس جنگ میں ہر انسان میں ہر انسان کی خوشحالی کا راز پوشیدہ ہے۔اس میں اگر ملکوں کی آزادی کا راز پے تو ساتھ ہی گھروں کے آباد ہونے کی خبر بھی ہے۔یہ جنگ رکھ رکھاؤ اور مروت کے اصولوں کے منافی نہیں ہے بلکہ اس جنگل کی بدولت تو گزرے ہوؤں کی معافی ممکن ہے۔

ہے جنگ سے مقصود بلندی ارادہ
وہ ہم سے زیادہ ہوں تو ہم ان سے زیادہ
رستہ ہو تعصب کا نہ کینہ کا ہو جادہ
نقش حسد و بعض سے افعال ہوں سادہ
دل صاف رہے اور طبیعت بھی کشادہ
اس طور سے حاصل کرو عزت کا وسادہ
گر جوہر ہمت ہے تو سبقت میں کرو کد
نامردی و مردی قدمے فاصلہ دارد

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس جنگ سے ارادوں کی بلندی ممکن ہے کہ کوئی آپ سے آگے ہے تو آپ کو اس سے آگے جانا ہے۔اس جنگ میں تعصب اور کینہ کی کوئی جگہ نہیں ہے بلکہ حسد و بغض کی بجائے آپ کے سادہ افعال زیادہ اہم ہیں۔ اس سے انسان کا دل صاف اور طبیعت خوش رہتی ہے۔ اس لحاظ سے وہ زیادہ عزت بھی حاصل کر سکتا ہے اگر ہمت کی خوبی انسان میں موجود ہے تو برتری لے جانے کی کوشش کرو کیونکہ ایک مرد اور نامرد ہونے کے درمیان کا فاصلہ بہت کم کا ہے۔

باقی ہے اگر جوش حمیت کا حرارہ
تو معرکہ علم میں ہو جاؤ صف آرا
جاں ڈال دو ناموس کے قالب میں دوبارا
پیچھے نہ ہٹاؤ قدم عزم خدارا
ذلت نہیں ہوتی کبھی مردوں کو گوارا
چمکو فلک جاہ پہ تم بن کے ستارا
آبا نے کیا فتح جو بنگال و دکن کو
تسخیر کرو تم عمل و علم کو فن کو

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اگر تم میں جوش اور ہمت کا شوق باقی ہے تو علم کی لڑائی میں اپنی صفیں سجا لو۔ اپنی عزت اور غیرت کے دل میں ایک نئی روح پھونکو اور اپنے ارادوں کو اس قدر مضبوط کر لو کہ تمھارے قدم ہر گز نہ ڈگمگائیں کیونکہ مردوں کو کبھی ذلت برداشت نہیں ہوتی ہے۔ تم آسمان پہ ایک روشن تارے بن کر چمکو تمھارے آباؤ اجداد تو وہ ہیں جنھوں نے بنگال اور دکن کو فتح کیا تو تم بھی اپنے علم اور عمل کے میدانوں کے فاتح بنو۔

ادنی سا بھی ہر کام ہے اب علم کا محکوم
بے علم ہے جو قوم سو حال اس کا ہے معلوم
دولت سے ہے بیگانہ تو عزت سے ہے محروم
اقوال کمینہ ہیں تو افعال ہیں مذموم
ارباب ہنر کی کرہ ارض پہ ہے دھوم
سب حلقہ بگوش ان کے ہیں وہ سب کے ہیں محکوم
دنیا میں اسی قوم کا گلزار ہے پھولا
جو رکھتی ہے دانش میں ہنر میں ید طولا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اب اس دنیا میں ایک چھوٹا سا کام بھی علم کا غلام ہے۔ وہ قومیں جو علم۔کی دولت سے محروم ہیں ان کا حال بھی آپ کو معلوم ہونا چاہیے۔ ایسی قوموں کو نہ دولت میسر ہے اور نہ ہی ان کے پاس عزت موجود ہے۔ ان کے اقوال اگر جھوٹے اور بے بنیاد ہیں تو ان کے ارداے بھی ناپاک ہیں۔ جبکہ ہنر مند لوگوں کی اس کرہ ارض پہ دھوم مچی ہوئی ہے۔سب لوگ ان لوگوں کے ماتحت ہیں ۔ دنیا میں اسی قوم کا باغ پھولا پھلا ہے کہ جو قوم عقلمندی اور ہنر میں اپنی مثال آپ ہیں۔

تم جانتے ہو خوب کہ انسان ہے فانی
فانی ہے بلا شبہ مگر اس کی نشانی
کیا اس کی نشانی ہے سنو میری زبانی
امثال میں مذکور ہے پچھلوں کی کہانی
خوش بخت تھے وہ کر گئے جو فیض رسانی
بدبخت تھے مغلوب صفات حیوانی
گر تم بھی یوہیں اٹھ گئے حیوان سے رہ کر
آیندہ کی نسلیں تمھیں کیا روئیں گی کہہ کر

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ تمھیں یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ یہ دنیا فانی ہے مگر اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جو کہ میں تمھیں اپنی زبانی بیان کروں گا۔مثالوں میں ان پچھلی نسلوں کی قربانیوں ہا ذکر موجود ہے۔وہ لوگ نہایت خوش بخت تھے کہ ان کی بدلوت علم کا دریا رواں تھا۔لیکن کچھ بد بخت لوگ اپنی جوانی کے نیچے میں اپنے اوپر حیوانوں کی صفات طاری کیے ہوئے ہیں۔ اگر تم بھی حیوانوں کی زندگی گزارتے اس دنیا سے رخصت ہو گئے تو آئندہ آنے والی نسلیں تمھارا ذکر کس انداز میں رو کے کریں گے۔

پھل خدمت قومی ہے اگر نخل ہیں اقوال
تن خدمت قومی ہے اگر جامہ ہیں افعال
جان خدمت قومی ہے اگر جسم ہیں اعمال
ملحوظ رکھو خدمت قومی کو بہر حال
پر نفع یہ ہی شغل ہے من جملہ اشغال
جو زندہ جاوید ہیں ان کی ہے یہی چال
پر الفت قومی سے ہے جن کا رگ و ریشہ
مرنے کو تو مرتے ہیں ۔ پر جیتے ہیں ہمیشہ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اگر قوم کی خدمت کرنا ایک پھل ہے تو دانشوروں کے اقوال ایک درخت کی طرح ہیں۔ اگر آپ کا جسم قوم کی خدمت کے کیے وقف ہے تو آپ کے افعال آپ کا لباس ہونا چاہیے۔قوم کی خدمت کرنا اگر جان ہے تو ہمارا جسم ہمارے اعمال ہونے چاہیے۔ ہر صورت میں قوم کی خدمت کو ملحوظِ خاطر رکھو کیونکہ تمام مشاغل میں سے یہ سب سے نفع بخش مشغلہ ہے اور جو لوگ اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی زندہ و جاوید ہیں ان کی بھی یہیں مثال ہے۔وہ لوگ جن کے لیے قوم کی محبت ہی سب سے مقدم ہے اور وہ ان کے پور پور میں بسی ہے ایسے لوگ کہنے کو تو مر جاتے ہیں مگر وہ ہمیشہ قوم کی نظر میں زندہ جاوید رہتے ہیں۔

قوت ہے اگر دل میں دماغوں میں ہے طاقت
پہنچاؤ بہم حسن بیاں اور طلاقت
اصلاح معائب میں کرو صرف لیاقت
دکھلاؤ مریضوں کو مداوا میں حداقت
رکھو نہ غریبوں پہ روا طعن حماقت
قومی ضعفا کی نہ کرو ترک رفاقت
کیا دولت ہستی ہے پئے نفس پرستی
آباد کرو قوم کی اجڑی ہوئی بستی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اگرآپ کے دل و دماغ میں طاقت ہے تو ایسے لوگوں کو بہم اپنے بیان کے حسن کی دوکت پہنچاؤ۔اپنی قوت اپنی غلطیوں کو سنوارنے میں صرف کرو اور مریضوں کی تکالیف دور کر کے اپنی صنعت گری دکھائں۔کبھی بھی غریبوں سے طعنوں کی روایت نہ رکھنا، اس قوم کے ضعیف لوگوں کی دوستی کو ہر گز ترک مت کرو۔ دولت ہمیشہ اپنے پجاریوں پہ ہنستی ہے اس لیے تم اپنے آباؤاجداد کی قوم کو اور اجڑی ہوئی بستیوں کو آباد کرو۔

ہے قوم اگر باغ تو تم اس کے شجر ہو
ہے قوم اگر نخل تو تم اس کے ثمر ہو
ہے قوم اگر آنکھ تو تم نور بصر ہو
ہے قوم اگر چرغ تو تم شمس و قمر ہو
ہے قوم اگر کاں تو تم لعل و گہر ہو
نظارگی ہے قوم ۔ تو تم مدنظر ہو
موسی بنو اور قوم کو ذلت سے بچاؤ
گوسالہ غفلت کی پرستش کو چھڑاؤ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اگر قوم ایک باغ ہو تو تم اس باغ میں لگے ہوئے شجر ہو اور اگر قوم ایک جنت ہو تو تم اس جنت کے پھل کھلاؤ گے۔اگر قوم آنکھ ہو تو تم اس آنکھ کا نور کہلاؤ گے اور اگر قوم چراغ یا روشنی ہو تو تم اس روشنی کے منبع یعنی سورج اور چاند ہو۔اگر قوم کوئی خزانہ ہے تو تم اس کے ہیرے جواہرات ہو۔قوم اگر نظارا ہے تو تم اس کے مد نظر ہو۔اس لیے تم موسی بن کر اپنی قوم کو ذلت سے بچاؤ اور ان کو کئی سالوں کی غفلت سے نجات دو۔

او باغ خزاں دیدہ کے نوخیز نہالو ؛
او ساحت ہستی کے نئے دوڑنے والو
مضبوط کرو دل کو طبیعت کو سنبھالو
کچھ دور نہیں ۔ منزل مقصود کو جا لو
ہاں ؛ مد مقابل بنو ہتھیار نہ ڈالو
میداں ترقی کی زمیں سر پہ اٹھا لو
زنہار گوارا نہ کرو ننگ ہزیمت
موقع ہے ابھی گرم کرو رخش عزیمت

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے خزاں اترے باغ کے نو نہالوں اس زمانے کے لمحات میں نئے دوڑنے والوں اپنے دل کو مضبوط کر کے اپنی طبیعت کو سنبھالو کیونکہ تمھاری منزل اب زیادہ دور نہیں ہے۔ اسے جا کر حاصل کر لو۔ اس سے پانے کے لیے مقابلہ کرو اور ہمت ہارتے ہوئے ہر گز ہتھیار مت ڈالو۔ ترقی کے یہ میدان اور زمین اپنے سر پہ اٹھا لو اور ہر گز بھی اپنی ہار کو برداشت مت کرو بلکہ ابھی بھی ہمت باقی ہے اس لیے اپنی عمر کے گھوڑے ابھی سے گرم کر لو۔

غیرت ہو تو گر کر بھی سنبھلنا نہیں مشکل
جرات ہو تو نرغہ سے نکلنا نہیں مشکل
ہو صبر تو آفات کا ٹلنا نہیں مشکل
ہو آنچ تو پتھر کا پگھلنا نہیں مشکل
ہمت ہو تو حالت کا بدلنا نہیں مشکل
انجن ہو تو گاڑی کا بھی چلنا نہیں مشکل
گرمی سے کرو پہلے بخارات مہیا
پیدا حرکت ہو تو لگے گھومنے پہیا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اگر انسان کے اندر غیرت کا مادہ موجود ہو تو گر کر سنبھلنا بھی ہر گز مشکل نہیں ہے اور اگر انسان بہادر ہے تو اس کے لیے کسی کے جال یا قید نے نکلنا ہر گز مشکل نہیں ہے۔اگر صبر کا مادہ موجود ہو تو مشکل آسانی سے حل ہو جاتی ہے اور اگر آپ میں آنچ یعنی حرارت ہے تو پتھر کو بھی پگھلانا مشکل عمل نہیں ہے۔اگر انسان ہمت کرے تو کسی بھی طرح کے حالات کا بدلنا مشکل نہیں ہے۔ جیسے کہ انجن ہو تو گاڑی کو چلانا مشجل نہیں ہے۔ گرمی سے پہلے ہمیں بخارات مہیا کرنے چاہیے تاکہ حرکت کا عمل واقع ہو جس سے ایک پہیا گھومںے کے قابل ہو جاتا ہے۔

ہمت ہی حرارت ہے وہی ہے حرکت بھی
ہمت ہی سے ہر قوم نے پائی ہے ترقی
گر چیونٹی تیمور کی ہمت نہ بندھاتی
ہتھیار بھی بے کار تھے اور فوج نکمی
ہمت ہے سر انجام مہمات کی کنجی
ہمت ہی حقیقت میں ہے توفیق آلہی
ہمت ہی بنا دیتی ہے مفلس کو تونگر
ہمت کے سفینہ کا اٹھادیجئے لنگر

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ہمت کا جذبہ ہی حرارت اور حرکت کا باعث ہے اور ہمت ہی کی بدولت کسی قوم نے ترقی حاصل کی ہے۔اگر چیونٹی تیمور کو ہمت نہ دیتی تو اس کی فوج اور ہتھیار دونوں بے کار اور نکمے تھے۔ اس لیے ہمت کسی مہم کو سر انجام دینے کی چابی ہے اور دراصل ہمت ہی اللہ کی عطا کردہ توفیق ہے۔ ہمت کسی غریب انسان کو امیر بھی بنا سکتی ہے اس لیے ہمیں ہمت کی کشتیوں کے لنگر اٹھا کر میدان میں اترنا چاہیے۔

ہمت ہے اگر تم میں تو میدان لیا مار
ڈٹ جاؤ کمر باندھ کے ہشیار ؛ خبردار
اوروں ہی کے گنڈے پہ نہ رہنا کبھی زنہار
ہونے نہ دو اعزاز کے جھنڈے کو نگونسار
لو ہاتھ میں اب تم بھی کوئل پین کی تلوار
اس معرکہ سخت میں مردانہ کرو وار
ہاں قوت بازو سے بلا شرکت غیرے
آگے کو بڑھو کھولدو نصرت کے پھریرے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اگر انسان میں ہمت ہو تو وہ کوئی بھی میدان با آسانی مار لیتا ہے۔ اسی لیے تم ہوشیار اور خبردار ہو کر ڈٹ جاؤ اور کبھی بھی دوسروں کے آسرے پہ مت رہنا بلکہ کبھی بھی اپنے اعزازات کے پرچم کق جھکنے مت دو۔اب بھی تم اپنے ہاتھ میں کوئل کی آواز جیسی سریلی تلوار لو اور اس معرکہ میں مردانہ وار لڑو۔ اپنے زور بازو پہ اور بغیر کسی کو اپنا مدد گار ٹھہرائے تم آگے بڑھو اور فتح کے جھنڈے گاڑ دو۔

قسمت کی برائی ہے نہ تقدیر کا ہے پھیر
خود اپنے ہی کرتوت سے برپا ہے یہ اندھیر
تحصیل فضائل میں جوانو ؛ نہ کرو دیر
فرصت کو اگر اور مگر میں نہ کرو تیر
بزدل نہ بنو حق نے بایا ہے تمھیں شیر
کہسار بھی ہو تو اسے کر دو زبر و زیر
یلغار کرو علم کے میداں میں عزیزو
آخر تو ہو تم قوم مسلماں میں عزیزو

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ تمھارے یہ حالات نہ تو بری قسمت اور نہ ہی تقدیر کے پھیر کی بدولت ہیں بلکہ یہ اندھیرا تمھارے اپنے کرتوتوں کی بدولت ہے۔ اس لیے فضلیت حاصل کرنے کی تعلیم میں ہر گز دیر مت کرو اور فرصت کے لمحات کو ہر گز اگر اور مگر کی کشمکش میں مت گنواؤ۔ ہر گز بزدل نہ بنو کیوں کہ حق اور سچ نے تمھیں شیر بنایا ہے۔ اگر پہاڑ بھی ہوں تو انھیں سر کرنے میں پس و پیش سے کام نہ لو۔علم کے میدان میں اپنی یلغار کرو کیونکہ تم ایک مسلمان ہو۔

جس بستی میں دیکھو نحوست ہے برستی
غالب ہے کہ ہو گی وہ اسی قوم کی بستی
گرتی چلی جاتی ہے ابھی جانب پستی
چلتی ہے فضولی کی سند ؛ تیغ و دوستی
لے دے کے یہی جنسا ہے اس دور میں سستی
فاقہ پہ ہے فاقہ مگر اب تک وہی ہستی
مل بیٹھ کے اندیشہ انجام نہ کرنا
روٹی ملے جس کام سے وہ کام نہ کرنا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ بستی جس میں نحوست برستی ہو عین ممکن ہے کہ وہ ایک ایسی قوم کی بستی ہو گی کہ جو پستی میں گرتی چلی جا رہی ہو۔ ایسی جگہ پہ فضول کی ڈگری اور تلوار سے دوستی چلتی ہے۔کیونکہ آخر کو اس دور میں یہی شے سب سے سستی ہے کہ بھوک کے فاقے ہیں مگر اب تک وہی حالات ہیں۔مل بیٹھ کر اس پریشانی کا انجام نہیں سوچنا ہے اور کام جس سے ناحق رزق ملے وہ کام ہر گز مت کرنا۔

خیل علما کی بھی حمیت ہوئی زائل
تبدیل رذائل سے ہوئے جملہ فضائل
مرتے ہیں مشیخت پے تفاخر پے ہیں مائل
چھپتے ہیں فریقین سے پر زہر مسائل
لاکھوں ہیں پڑے خنجر تکفیر کے گھائل
باعث ہیں جدل کے یہی فقیہہ مسائل
برپا ہے شب و روز یہاں چپقلش ایسی
عالم ہے لقب اور بہم کش مکش کیسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ آخر کو ان علما کی غیرت اور شرم بھی ضائع ہو گئی کہ جن کی کمینگی سے تمام جملہ فضائل تبدیل کر دیے گئے۔ ایسے لوگ جھوٹے دعوں اور بزرگی پہ مرتے ہیں اور ہمیشہ ناز کرنے کی جانب مائل ہیں۔ایسے لوگ اپنے زہریلے مسائل کی وجہ سے اپنے فریقین سے بھی چھپتے پھرتے ہیں۔ان جیسے لاکھوں لوگ کفر جیسے فتویٰ کے خنجر سے زخمی پڑے ہیں۔اس جنگ و جدل کی وجہ بھی فقہ کے یہی مسائل ہیں۔ یہاں پہ دن اور رات ایک ایسی لرائی جاری و ساری ہے کہ اسی کا نام دنیا ہے اور اس میں بہم کش مکش کی کیا بات ہے۔