نظم جنگل کی شہزادی کی تشریح

0

جوش ملیح آبادی کی نظم “جنگل کی شہزادی” پابند نظم کی ہیت میں لکھی گئی ہے۔ اس نظم کے اشعار کی تعداد 60 ہے۔ اس نظم میں شاعر نے جنگل کی ایک شہزادی کے روپ سروپ اور سراپے کو بیان کیا ہے۔یہ شہزادی کوئی اور نہیں بلکہ ریل گاڑی کے سفر کے دوران جنگل میں شاعر کو ملتی ہے۔ شاعر نے اس نظم کے ذریعے اس شہزادی کی سراپا نگاری کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔

پیوست ہے جو دل میں ، وہ تیر کھینچتا ہوں
اک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں
گاڑی میں مُسکُراتا ، مسرور جا رہا تھا
اجمیر کی طرف سے ، جے پُور جا رہا تھا

اس بند میں شاعر ابتدائی تمہید باندھتے ہوئے کہتا ہے کہ آج میرے دل میں جو ایک تیر سا چھبا ہوا ہے میں اس کو کھینچ کر آزاد کرتے ہوئے اپنے دل کی بات بیان کرنے جا رہا ہوں۔ میں اپنے ریل گاڑی میں کیے گئے ایک سفر کی رودار کو تصویری انداز میں بیان کر رہا ہوں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں ریل گاڑی میں مسکراتا ہوا اور خوشی خوشی جا رہا تھا اور میری منزل اجمیر شریف سے جے پور کی جانب تھی۔

تیزی سے جنگلُوں میں ، یُوں ریل جا رہی تھی
لیلی ستار اپنا ، گویا بجا رہی تھی
خُورشید چُھپ رہا تھا ، رنگیں پہاڑیُوں میں
طاؤس پر سمیٹے ، بیٹھے تھے جھاڑیوں میں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ ریل جنگل میں بہت تیزی سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ اس کے چلنے کی آواز سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا کوئی لیلی اپنا ستار بجا رہی ہو۔ رات کا سماں ہونے کی وجہ سے چاند بھی رنگیں پہاڑیوں میں چھپ رہا تھا جبکہ تمام پرندے اپنے پر سمیٹے ہوئے جھاڑیوں اور اپنے گھونسلوں میں دبکے بیٹھے تھے۔ ہر جانب رات کا سںاٹا طاری تھا۔

کچھ دُور پر تھا پانی ، موجیں رُکی ہوئی تھیں
تالاب کے کنارے ، شاخیں جُھکی ہوئی تھیں
لہرُوں میں کوئی جیسے ، دل کو ڈبُو رہا تھا
میں سُو رہا ہوں ، ایسا محسُوس ہو رہا تھا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس جنگل میں ریل سے کچھ ہی فاصلے پہ پانی موجود تھا مگر یہ پانی ایسا تھا کہ گویا اس کی موجیں رکی ہوئی تھیں۔ اس پانی کے تالاب کنارے درختوں کی شاخیں جھکی ہوئی تھیں۔ ان جھکی شاخوں کا منظر کچھ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے پانی کی ان لہروں میں کوئی اپنے دل کو ڈبو رہا ہے۔اس سارے منظر کا شاعر پہ ایسا فسوں طاری تھا کہ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ سو رہا ہو۔

اک موجِ کیف پر ور ، دل سے گزر رہی تھی
ہر چیز دلبری سے ، یوں رقص کر رہی تھی
تھیں رُخصتی کرن سے ، سب وادیاں سُنہری
ناگاہ چلتے چلتے ، جنگل میں ریل ٹہری

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ایک سرور بخشنے والی لہر ایسے منظر میں میرے دل سے بھی گزری اور اس کے بعد یہ محسوس ہوا کہ کوئی چیز پورے دل سے جیسے رقصاں ہو۔کرنوں کے رخصت ہونے کے باعث سب وادیاں سنہری رنگ میں رنگی ہوئی تھیں۔ اچانک چلتے چلتے یہ ریل گاڑی جنگل میں ٹھہر سی گئی۔

کانٹُوں پہ خُوبصُورت اک بانسری پڑی تھی
دیکھا کہ ایک لڑکی ، میدان میں کھڑی تھی
زاہد فریب ، گُل رُخ ، کافر دراز مژگاں
سیمیں بدن ، پری رُخ ، نوخیز ، حشر ساماں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ریل کے رکنے سے اچانک سے جو شے سامنے آئی وہ دیکھ کہ یوں محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے کانٹوں پہ ایک خوبصورت بانسری کو رکھ چھوڑا ہو لیکن یہ کوئی بانسری نہیں بلکہ ایک لڑکی میدان میں کھڑی ہوئی تھی۔یہ لڑکی بہت دلکش و دلربا ، پریوں سی خوبصورت ، جس کی پلکیں بے پناہ لمبی اور خوبصورت تھیں۔چاندی کی طرح چمکتا ہوا خوبصورت اس کا بدن تھا۔ پری رخ ،نو عمر یہ لڑکی کھڑی اپنی حشر سمانیاں بکھیر رہی تھی۔

خُوش چشم ، خوبصُورت ، خُوش وضع ، ماہ پیکر
نازُک بدن ، شکر لب ، شیریں ادا فسُوں گر
کافر ادا ، شگفتہ ، گُل پیرہن ، سمن بُو
سروِ چمن ، سہی قد ، رنگیں جمال ، خُوش رُو

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ لڑکی خوبصورت آنکھوں والی تھی۔ جو انتہائی خوبصورت لباس پہنے ہوئے تھی اور اس لباس میں وہ کسی چاند کی تصویر محسوس ہو رہی تھی۔ اس کا بدن نازک ، لب شکر کی طرح میٹھے اور پھول کی طرح لال و سفید تھے۔ یہ بلند قد و قامت والی ، رنگین مزاج اور ایک خوش رو لڑکی۔

گیسُو کمند ، مہوش ، کافُور فام قاتل
نظارہ سُوز ، دل کش ، سر مست ، شمعِ محفل
ابرُو ہلال ، مے گُوں ، جاں بخش ، روح پرور
نسریں بدن ، پری رُخ ، سیمیں عذار ، دلبر

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس کے بال انتہائی لمبے اور یہ چاند کی طرح خوبصورت تھی۔ ان سے کافور کی طرح قاتل مہک آتی تھی۔ اس کا نظارہ نہایت دلکش ، سر مست اور محفل کی شمع کی مانند تھا۔اس کے ابرو خوبصورت ہلال کے چاند کی مانند، یہ شراب کی طرح جاں بخش تھے۔اس کابدن سفید جنگلی پھول کی طرح، چہرہ پری کی طرح خوبصورت ، شعلے جیسی حسین اور خوبصورت تھی۔

آہُو نگاہ ، نو رس ، گُلگُوں ، بہشت سیما
یاقُوت لب ، صدف گُوں ، شیریں ، بلند بالا
غارت گرِ تحمُل ، دل سُوز ، دُشمنِ جاں
پروردۂ مناظر ، دُوشیزۂ بیاباں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس کی نگاہ ہرن جیسی تھی اور یہ کسی تازہ پھل کی مانند تھی۔ گلاب رنگ اور جنت جیسی تھی۔ اس کے ہونٹ یاقوت کی طرح خوبصورت ، موتیوں کی طرح خوبصورت ، میٹھے اور بلند و بالا تھے۔ ان کی خوبصورتی قتل کرنے والی ، دل سوز اور جان کی دشمن تھی۔ یہ قدرتی مناظر کی پلی ہوئی اور جنگل کی دوشیزہ تھی۔

گُلشن فروغ ، کمسن ، مخمُور ، ماہ پارا
” دلبر کہ کفِ اُو ، مُوم است سنگِ خارا “
ہر بات ایک افسُوں ، ہر سانس ایک جادُو
قُدسی فریب مژگاں ، یزداں شکار گیسُو

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ دنیا کو چمک دینے والی، کمسن ، مست اور چاند کا ٹکڑا دکھائی دے رہی تھی۔یہ کبھی جھاگ کی اور موم کی طرح نرم اور کہیں پتھر اور کانٹے کی مانند ہو جاتی تھی۔اس کی ہر ایک بات افسانہ تھی اور ہر ایک سانس میں جادو تھا۔ اس کی پلکیں کسی نیک آدمی کی طرح جھکی ہوئیں جبکہ اس کے بال خیر کا شکار بننے جیسے حسین تھے۔

صحرا کی زیب و زینت ، فطرت کی نُور دیدہ
برسات کے مُلائم ، تارُوں کی آفریدہ
چہرے پہ رنگِ تمکیں ، آنکُھوں میں بے قراری
ایمائے سینہ کُوبی ، فرمانِ بادہ خُواری

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ صحرا کی خوبصورتی اور فطرت کی نور نظر تھی۔ یہ برسات کی نرم تاروں کی پیدا کردہ محسوس ہوتی تھی۔ جس کے چہرے پہ تمکنت کے رنگ اور آنکھوں میں بے قراری دکھائی دے رہی تھی۔ یہ سینہ پیٹے پر رضا مند اور کسی بادہ خوار کا فرمان دکھائی دے رہی تھی۔

لوہا تپانے والی ، جلوؤں کی ضو فشانی
سکے بٹھانے والی ، اُٹھتی ہوئی جوانی
ڈُوبے ہوئے سب اعضا ، حُسنِ مُناسبت میں
پالی ہوئی گلُوں کے آغُوشِ تربیت میں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس کا حسن ایسا تھا کہ جیسے یہ لوہے کو گرما دے اور سورج کی روشنی بکھیر کے جلوے کر دے گا۔ اس کی جوانی اٹھتی ہوئی اور دوسروں پہ دھاک بٹھانے والی تھی۔ اس کے تمام اعضاء اس کے حسن کی مناسبت سے ڈھلے ہوئے تھے۔ اس کا سراپا دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اسے پھولوں کی آغوش میں پالا گیا ہو۔

حُسنِ ازل ہے غلطاں ، شاداب پنکھڑی میں
یا جان پڑ گئی ہے ، جنگل کی تازگی میں
حُوریں ہزار دل سے قربان ہو گئی ہیں
رنگینیاں سمٹ کر ” انسان ” ہو گئی ہیں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ازل کا حسن میں موجود دکھائی دیتا تھا۔ اس کا سراپا کسی شاداب پنکھڑی کی مانند تھا۔ یا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا جنگل کی تروتازگی میں ہی جان پڑ گئی ہو۔اس کے حسن پہ حوریں ہزار دل و جان سے قربان ہو گئی ہوں اور اس (جنگل) کی یہ تمام رنگینیاں سمٹ کر ایک انسان (جنگل کی شہزادی) کی شکل اختیار کر گئی ہوں۔

چینِ ستمگری سے ، نا آشنا جبیں ہے
میں کون ہوں ؟ یہ اُس کو معلُوم ہی نہیں ہے
ہر چیز پر نگاہیں حیرت سے ڈالتی ہے
رہ رہ کے اُڑنے والی چادر سنبھالتی ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ظلم و ستم سے نا واقف ایک صورت تھی۔ شاعر کے بقول اسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کون ہے۔وہ ہر ایک شے پر حیرت زدہ ہوتے ہوئے نگاہ ڈالتی تھی اور رہ رہ کر وہ اپنے اڑنے کی چادر یعنی پروں کو سنبھال رہی تھی۔

آنچل سنبھالنے میں یوں بل سے کھا رہی ہے
گویا ٹہر ٹہر کر ، انگڑائی آ رہی ہے
کچھ دیر تک تو میں نے ، اُس کو بغور دیکھا
غش کھا رہی تھی عُقبٰی ، چکرا رہی تھی دنیا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ شہزادی نما لڑکی اپنا آنچل سنبھالتے ہوئے اس طرح بل کھا رہی تھی کہ گویا وہ رک رک کہ انگڑائی لے رہی ہو۔ شاعر کہتا ہے کہ کچھ دیر میں نے رک اس کا بغور جائزہ لیا اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ گویا وہ غش کھا رہی ہے اور دنیا چکرا کر رہ گئی ہو۔

گاڑی سے پھر اُتر کر ، اُس کے قریب آیا
طُوفانِ بیخُودی میں ، پھر یہ زباں سے نکلا
اے درسِ آدمیت ، اے شاعری کی جنت
اے صانعِ ازل کی نازُک ترین صنعت

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ میں گاڑی سے اتر کر اس کے قریب گیا تو طوفانِ بے خودی میں یہ زبان سے نکلا کہ اے آدمیت کو درس دینے والے اور شاعری کی جنت اور اول دن سے بنانے والے یعنی تخلییق کرنے والے خد ا کی ایک نازک ترین صنعت ہو۔

اے رُوحِ صنفِ نازُک ، اے شمعِ بزمِ عالم
اے صبحِ روئے خنداں ، اے شامِ زُلفِ برہم
اے تُو کہ تیری نازُک ہستی میں کام آئی
قُدرت کی انتہائی تخئیلِ دل رُبائی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے صنف نازک کی روح اور دنیا کو روشن کرنے والی شمع۔ جو صبح کی مسکراہٹ کی طرح محسوس ہوتی ہے اور شام کی زلف کی طرح الجھی سی دکھائی دیتی ہے۔ تم ایک وہ نازک ہستی ہو کہ جس کی تخیل دلربائی میں اس قدرت کی جھلک سمٹ آئی۔

چشم و چراغِ صحرا ، اے نُورِ دشت وادی
رنگیں جمال دیوی ، جنگل کی شاہزادی
بستی میں تو جو آئے ، اک شر سا بپا ہو
آبادیُوں میں ہلچل ، شہروں میں غلغلہ ہو

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ لڑکی صحرا کی چشم و چراغ دکھائی دے رہی تھی کہ جو اس جنگل کی وادی کا نور بنی ہوئی تھی۔ یہ رنگین جمال دیوی کوئی اور نہیں بلکہ جنگل کی شہزادی تھی۔ اگر یہ جنگل کی حسین شہزادی کسی بستی کی جانب آ جائے تو ایک طرح سے فساد برپا ہو جائے گا اور آبادیوں میں ہلچل مچ جائے گی اور شہروں میں بھی شور برپا ہو جائے گا۔

رندانِ بادہ کش کے ، ہاتھوں سے جام چُھوٹیں
تسبیحِ شیخ اُلجھے ، توبہ کے عزم ٹوٹیں
نظروں سے اتقا کے ، رسم و رواج اُتریں
زُہاد کے عمامے ، شاہُوں کے تاج اُتریں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس کے حسن کو دیکھ کر شراب خانوں میں شراب پینے والوں کے ہاتھوں سسے شراب کے پیالے بھی چھوٹ جائیں گے۔ اور وہ شیخ جو عبادت اور توبہ کی تسبیح میں الجھے ہوئے ہیں ان کی تسبیح ٹوٹنے کا خدشہ ہے۔ خدا خوفی رکھنے والوں کی نظروں سے تمام رسم و رواج ختم ہو جائیں گے۔ اس کا حسن دیکھ کر پرہیز گاروں کے عمامے اور بادشاہوں کے تاج تک اتر جائیں گے۔

آنکھیں ہوں اشک افشاں ، نالے شرر فشاں ہوں
کیا کیا نہ شاعروں کے ملبُوس دھجیاں ہوں
شہروں کے مہوشوں پر ، اک آسمان ٹوٹے
پروردۂ تمدُن عشؤوں کی نبض چُھوٹے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس کی آنکھیں آنسو بہانے والیں اور اس کی آ ہیں شرر بہاتی تھیں۔ شاعروں کے لباس کی کیا کیا دھجیاں ہو گیں کہ شہروں کے اوپر اگر ایک آسمان اور تہذیب وتمدن کے پروردہ لوگوں کی نبض گویا چھوٹ جائے گی۔

اس سادگی سے آگے ، نکلیں دلوں سے آہیں
جُھک جائیں دلبروں کی خُود ساختہ نگاہیں
تیری ادا کے آگے ، شرما کے منہ چُھپائیں
ناپے ہوئے کرشمے ، تُولی ہوئی ادائیں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس لڑکی کا حسن دیکھ کر اور اس کی سادگی سے گویا سب کے دلوں سے آہیں جاری ہو جائیں گی۔ اس کے حسن کے آ گے سب دلبروں کی نگاہیں بھی جھک سی جاتی تھیں۔ اس کی ہر ایک ادا کے آگے شرما کر سب منھ جھکاتے تھے۔ کیوں کہ اس کا ایک ایک جلوہ نپا ہوا اور ہر ایک ادا تلی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔

تیری نظر کی رو سے ، ہو جائیں خستہ و گم
مشق و مزاولت کے ، پالے ہوئے تبسُم
امن و اماں کے رخ کو ، بے آب و رنگ کردے
دنیا کو حُسن تیرا ، میدانِ جنگ کر دے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس کی نظر سے سب تقریبا گھائل ہو کر گم ہو جائیں اور روزانہ کی بنیاد پہ کی گئی کوششوں کا تبسم بھی کھو سا جائے گا۔ یہ چہرہ امن و امان کے چہرے کو بھی بے رنگ پانی جیسا کردے گا۔ اس شہزادی کا حسن اس قدر دلفریب ہے کہ یہ دنیا کو میدان جنگ میں بدل دینے کو کافی ہے۔

کتنی ہی قسمتُوں کے ، بدلے فلک نوشتے
خُون اور دوستی کے کٹ جائیں کتنے رشتے
تصنیف ہوں ہزاروں ، چُبھتے ہوئے فسانے
ان انکھڑیُوں کی زد پر ، کانپیں شراب خانے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس کی وجہ سے کتںے ہی لوگ فلک پہ اپنی لکھی گئی قسمتوں کو بدل کر رکھ دیں گے۔خون اور دوستی کے کئی ایک رشتے خراب ہو جائیں گے۔ہزاروں قسم کے نئے اور چھبتے ہوئے افسانے چھپیں گے۔ان آنکھوں کے لیے تو شراب خانے بھی کانپ اٹھیں گے۔

تیرے پُجاریوں میں ، میرا بھی نام ہوتا
اے کاش جنگلوں میں ، میرا قیام ہوتا
یہ بن ، یہ گُل ، یہ چشمے ، مُجھ سے قریب ہوتے
شاعر کے زیرِ فرماں ، یہ سب رقیب ہوتے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے جنگل کی شہزادی تجھے چاہنے یا پوچنے والے کئی ایک لوگ ہوں گے ان میں ایک نام میرا بھی ہے۔ تجھے دیکھنے کے بعد میری چاہت ہے کہ اے کاش میں جنگل میں رہتا ہوتا۔ یہ جنگل ، پھول ، چشمے سب مجھ سے قریب ہوتے اور کسی شاعر کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ سب لوگ میرے دشمن ہوتے۔

کیوں ؟ میری گفتگو سے ، حیرت فروش کیوں ہے
اے زمُزمُوں کی دیوی ، اتنی خمُوش کیوں ہے
بجنے لگیں ، وفا کی محفل میں شادیانے
ہاں ، دے لبُوں کو جنبش ، اے سرمدی ترانے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے لڑکی تم میری گفتگو سے حیرت میں کیوں مبتلا ہو گئی۔ اے دھیمے سروں کی دیوی تم خاموش کیوں ہو۔ اگر تم ایک دفعہ اپنے لبوں کو جنبش دے کر ہاں کر دو تو ہر جانب وفا کے شادیانے بجنے لگیں گے اور خوشیاں ہوں گی۔

یوں چُپ ہے مُجھ سےگویا کچھ کام ہی نہیں ہے
یہ وہ ادا ہے جس کا ، کچھ نام ہی نہیں ہے
سُننا تھا ، یہ کہ ظالم ، اس طرح مُسکرائی
فریاد کی نظر نے ، ارماں نے دی دُہائی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے شہزادی تم اس طرح سے چپ ہوں کہ گویا جیسے تمھیں مجھ سے کوئی کام نہ ہو۔ تمھاری یہ ادا ایسی ادا ہے کہ جسے کوئی نام بھی نہیں دیا جا سکتا ہے۔یہ بات سنتے ہی وہ ظالم حسینہ ایسا مسکرائی کہ اس کی فریاد بھری نظروں کے ارمان دہائی دینے لگے۔

عشوہ ، جبیں پہ لے کر ، دل کی اُمنگ آیا
چہرے پہ خُون دوڑا ، آنکھوں میں رنگ آیا
شرما کے آنکھ اُٹھائی ، زُلفُوں پہ ہاتھ پھیرا
اتنے میں رفتہ رفتہ چھانے لگا اندھیرا

اس بںد میں شاعر کہتا ہے کہ چہرے پہ نازو ادا لے کر اس کے چہرے پہ دل کی امید آئی اور چہرے پہ خون دوڑا اور آنکھوں میں ایک رنگ آیا۔شرما کر اس نے آنکھیں اٹھائیں اور اپنی زلفوں پہ ہاتھ پھیرا اور اتنی دیر میں آہستہ آہستہ اندھیرا چھانے لگ گیا۔

چمکا دیا حیا نے ، ہر نقشِ دلبری کو
دانتُوں میں یُوں دبایا چاندی کی آرسی کو
سُن کر مری مچلتی آنکھوں کی داستانیں
اُس کی نگاہ میں بھی ، غلطاں ہوئیں زبانیں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ دل لبھانے والے اس دل آویز حیا نے اس نقش کو چمکا دیا۔اس نے اپنے ہاتھ میں پہنے چاندی کے گنگن کو شرما کر دانتوں میں دبایا۔ اس کو سن کر نہ صرف شاعر کی آنکھوں کی داستانیں مچلیں بلکہ اس کی نگاہ کی زبان میں ڈگمگائی۔

شرما کے پھر دوبارہ ، زلفوں پہ ہاتھ پھیرا
دیکھا تو چھا چُکا تھا ، میدان پر اندھیرا
کچھ جسم کو چُرایا ، کچھ سانس کو سنبھالا
کاندھے پر نرم آنچل انگڑائی لے کے ڈالا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس نے شرما کر دوبارہ اپنی زلفوں پہ ہاتھ پھیرا اور جب میں نے اسے دیکھا تو اس وقت تک میدان میں اندھیرا چھا چکا تھا۔کچھ اپنے آپ کو چرایا اور سانس کو بھال کیا۔اس نے اپنے کندھے پے اپنے نرم آنچل کو درست کر کے ڈالا۔

تاریک کر کے میری آنکھوں میں اک زمانہ
جنگل سے سر جُھکا کر ، ہونے لگی روانہ
ہونے لگی روانہ ، ارماں نے سر جُھکایا
دل کی مثال کانپا ، رہ رہ کے بن کا سایا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ میرے آنکھوں میں ایک زمانے کو تاریک کر کے یعنی مجھے انکار کرتے ہوئے جنگل سے سر جھکا کر جانے کے لیے روانہ ہوئی۔جب وہ روانہ ہونے لگی تو میرے ارمانوں نے بھی سر جھکا لیا۔میرا دل جنگل کے سایے کی مثال بن کر کانپ کر رہ گیا۔

بیہوش ہو چلا میں ، سینے سے آہ نکلی
اتنے میں رات لے کر ، قندیلِ ماہ نکلی
مُڑ کر جو میں نے دیکھا ، اُمید مر چکی تھی
پٹری چمک رہی تھی ، گاڑی نکل چُکی تھی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ سب دیکھ کر میں بے ہوش ہونے کے قریب تھا اور میرے سینے سے ایک آہ سی نکلی۔ اتنے میں چاند کی روشنی رات کی نوید لے کر آئی اور جب میں نے مڑ کر دیکھا تو اس وقت تک میری امید مر چکی تھی اور ریل کی پٹری چمک رہی رہی تھی اور گاڑی اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی۔