نظم کسان کا خلاصہ

0

جوش ملیح آبادی کی نظم “کسان” 54 اشعار پر مشتمل نظم ہے۔ یہ پابند نظم کی ہیت میں لکھی گئی ہے۔ اس نظم میں شاعر نے ہندوستانی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھنے والے طبقے یعنی کسان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔شاعر نظم کا آغاز شام کے چھا جانے اور اس وقت دکھائی دینے والے نظاروں کی منظر کشی سے کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شام کے وقت کھیت کھلیان سب پر خاموشی طاری ہے۔ آسمان پہ بادل ٹکڑیوں میں پھیلا ہوا تھا اس بادل میں سرخی اور کچھ دھواں منڈلا رہا تھا۔ اس سارے منظر نامے میں زمین بھولی بھٹکی اور آسمان کھویا کھویا سا محسوس ہو رہا تھا۔ درختوں اور پھولوں کی پتیاں مخمور دکھائی دے رہی تھیں جبکہ کلیاں آنکھ جھپک رہی تھیں۔

اس سارے منظر کا فسوں ایسا طاری تھا کہ گویا نرم جان پودوں کو نیند آتی محسوس ہو رہی تھی۔رات کا اندھیرا پھیل رہا ہے ۔اس خاموش فضا میں ارتقا کا پیشوا اور تہذیب کا پروردگار کسان نظر آرہا ہے۔ کسان کے خون میں بجلیاں دوڑتی ہیں۔ کسان کے اندر ایک ایسا تیز لہو دوڑتا ہے کہ جو بجلیوں کی محفل تک رسائی پاتا ہے اور روشنی کا باعث بنتا ہے۔ اس کے سر پہ سورج کی کرنیں تاج بن کر جگمگاتی ہیں۔ اس کا خون اس دھرتی کے معمولی سے تنکے میں بھی لہر بن کر دوڑتا ہے اور اس کے دل کی آنچ رنگ و بو کا ایک طوفان بن جاتی ہے۔رات کے وقت اس کی نظر میں آسمان کا اور دن کو خاک کامشاہدہ کرتی ہیں۔

عام آدمی کی نظر میں کسان ایک جاہل شخص ہے جو دوسروں کے لئے خون پسینہ بہاتا ہے۔ کسان کے دم سے تہذیب وتمدن قائم ہے۔ اس کے ماتھے کا پسینہ قابل احترام ہے ۔ بادشاہ اور دولت مند اپنی عزت و وقار کیلئے اس کے محتاج ہیں ۔ کسان کڑی دھوپ میں سخت محنت کرنے کے بعد گھر جارہا ہے۔ اس کے سر پر ٹوکرا اور بغل میں پھاؤڑا ہے۔سامنے بیلوں کی جوڑی ہے۔کسان محض کھیتی باڑی میں مصروف عمل نہیں ہے بلکہ ملک تعمیر میں بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اپنے ملک کی دولت غیروں کے ہاتھوں میں جاتے دیکھ کر یہ غم کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب اپنا ملک یہ دشمنوں کے ہاتھوں میں جاتا دیکھتا ہے تو اس کی تکلیف بڑھتی ہے۔

یوں اسے احساس ہوتا ہے کہ تاریکیوں اور بد نصیبوں سے اس کی راہ جدا نہیں ہونے والی ہے۔ اس کی مسلسل نگاہ فاقہ کشی کے شکار بچوں کے دھندلے چہروں اور آنسوؤں بھری آنکھوں پہ ہے۔ کسان سر جھکاۓ آہستہ آہستہ قدم اٹھارہا ہے۔ اس کی نظروں کے سامنے بھوک سے بلکتے بچوں اور بے روا بیوی کا چہرہ گھوم رہا ہے۔اس کے گھر میں کھانے پینے کا سامان ہے اور نہ روپے پیسے سرمایہ داری نے کسانوں سے جینے کاحق چھین لیا ہے۔آج اس کا ہاتھ انسانی خون سے رنگا ہوا ہے۔ امن وامان کے حامی اس ظلم پر دانتوں میں انگلیاں دباۓ ہوۓ ہیں۔شاعر کہتا ہے کہ اے سرمایہ داروں اب بھی موقعہ ہے کہ منجل جاؤ ورنہ غریبوں اور مزدوروں کا غصہ طوفان بن کر تمہیں اڑالے جاۓ گا۔