نظم چکلے کا خلاصہ

0

ساحر لدھیانوی کی نظم “چکلے” پابند نظم کی ہیت میں لکھی گئی ہے۔نظم چکلے ایک احتجاجی نظم ہے، جس میں ساحر نے سماج کے ان لوگوں سے احتجاج کیا ہے جو خودی کے محافظ، مذہب کے ٹھیکیدار ہیں۔ یہ عورت کو بازار کی زینت بننے پر مجبور تو کر سکتے ہیں لیکن اسے انصاف نہیں دلا سکتے۔ ساحر نے اپنی نظم میں ایسے ہی ثنا خوان تقدیس مشرق کو تلاش کیا ہے، ان کے ذہن کو جھنجھوڑا ہے، احساس کو بیدار کیاہے، جو عورت کے استحصال کے ذمہ دار ہیں۔

ساحر نے اس نظم میں چکلے کا نقشہ اس طرح پیش کیا ہے کہ معاشرے کی تصویر ذہن میں رقص کرنے لگتی ہے۔اس نظم میں شاعر نے تقدیس مشرق کے ثنا خواں کو تلاش کیا ہے، ان کے ذہن کو جھنجھوڑا ہے، احساس کو بیدار کیاہے، جو عورت کے استحصال کے ذمہ دار ہیں۔شاعر کہتا ہے کہ یہ گلی کوچے اور نیلام گھر جو دل کشی کا سامان بنتے ہیں دراصل یہ زندگی کے لٹتے ہوئے قافلے ہیں۔ان قافلوں اور اس خودی کی حفاظت کرنے والے محافظ کون ہیں۔ یہ محافظ دراصل مشرق کی تقدیس کرنے والے ثنا خوان ہیں۔

اس دنیا کی یہ تنگ و تاریک گلیاں اور ان گلیوں کے وہ بازار جو کبھی سوتے نہیں ہیں۔مگر ان راستوں کے مسافر گمنام راہی ہوتے ہیں جن کے چہروں پہ ہر وقت سکون کی ایک جھنکار موجود ہوتی ہے۔یہ عورت کی عزت کا محض سودا نہیں کرتے ہیں بلکہ اس سودے پہ بحث و تکرار بھی کرتے ہیں۔یہ عورت کی عزت کو سربازار رسوا کیا لیکن ثنا خوان تقدیس مشرق ہمیشہ خاموش رہے۔شاعر کہتا ہے کہ یہ گلیاں وہ گلیاں ہوتی ہیں جہاں بدبو کے بھبوکے اٹھ رہے ہوتے ہیں اور روشنی بہت کم ہوتی ہے۔یہاں عورت ذات جو کہ معصومیت اور بے گناہی کا مظہر ہے۔

اس ادھ کھلی کلی کو مسل کر رکھ دیا جاتا ہے۔یہاں پر جذبات سے خالی کھوکھلی رنگ رلیاں سرِ بازار بک رہی ہوتی ہیں۔ اس تمام سودے بازیوں کے وقت مشرق کے تقدیس ثنا خوان کہاں ہوتے ہیں۔یہاں کے اجلے اور صاف شفاف دریچوں میں پائل کی چھن چھن کی آواز کی گونج سنائی دیتی ہے تو دوسری طرف یہاں کے لوگوں کے تنفس پر کشمکش اور طبلے کی ایک دھن سوار ہوتی ہے۔ان کے بے روح کمروں سے کھانسی کی آواز کسی ٹھن ٹھن کی طرح سے آ رہی ہوتی ہے۔اس وقت مشرق کی تقدیس کے ثنا خواں کہاں ہوتے ہیں۔

عورت ا س وقت کتنی بے بس ہوتی ہے جب امرا و رؤسا اس کی الجھن و بے کسی پر خوشی سے قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں، ایسے میں عورت کو بے ردا کرنے منظرکھنچتے ہوئے آنچل کا مذاق، یہ سب عورت کی پامالی و بربادی کی وہ دردناک تصویریں ہیں جسے دیکھ کر لوگ اس کی مدد نہیں کرتے بلکہ قہقہہ لگاتے ہوئے راستوں سے گزر جاتے ہیں۔ اس وقت مشرق کی عزت کے علمبردار کہاں ہوتے ہیں۔یہاں ان کی گلیوں اور محلوں میں پھولوں کے گجرے ہوتے ہیں تو دیواروں پہ پیک کی چھینٹیں پڑی ہوتی ہیں۔ یہاں سے گزرنے والوں کی نظریں بہت بے باک اور غلیظ ہوتی ہیں جبکہ ان کی زبان پہ بہت گستاخ فقرے ہوتے ہیں۔

ان لوگوں کے بدن ڈھلکے ہوئے جبکہ چہرہ دق کے مریض کا سا ہوتا ہے۔نجانے اس وقت مشرق کے تقدیسِ خواں کہاں ہوتے ہیں۔ان عورتوں کی جانب ان اشخاص کی بھوکی نگاہیں اٹھتی ہیں۔ان کے ہاتھ اپنے سینوں کی جانب بڑھنے لگتے ہیں اور یہ ان کے زینوں کی جانب لپکتے ہوئے بڑھے چلے آتے ہیں۔ نجانے اس وقت مشرق کے یہ تقدیس خواں کہاں ہوتے ہیں۔یہ وہ جگہ ہے جہاں جوان اور بوڑھے دونوں آ چکے ہیں۔ صحت مند بیٹے اور ابا میاں کی عمر کے لوگ بھی یہاں آتے ہیں۔سامنے موجود عورت کسی کی بیوی ، بہن اور ماں بھی ہوتی ہے لیکن نجانے اس وقت مشرق کے یہ تقدیس خواں کہاں ہوتے پیں۔

شاعر کہتا ہے کہ حوا کی یہ بیٹی اپنی عزت کے بچاؤ کے لیے مدد چاہتی ہے۔یہ حوا کی بیٹی سیک عورت ہے جو اماں یشودھا کی طرح ایک عورت ہے اور رادھا کی بھی ہم جنس ہے۔اس کا تعلق پیغمبروں کی امت سے بھی رہا ہے اور یہ زلیخا کی بیٹی بھی ہے۔لیکن نجانے اس وقت مشرق کی تقدیس کے ثنا خواں کہاں ہیں جو ان کی پکار کو کوئی سن نہیں پا رہا ہے۔ اب یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد دین کے خداؤں کو بلایا جائے اور انھیں ان کوچوں اور گلیوں میں انجام پانے والے یہ مناظر دکھائے جائیں۔ مشرق کی عزت کے ان ٹھیکے داروں کو بلایا جائے کہ آخر اب وہ کہاں ہیں؟ساحر نے انہی خیالات کا اظہار اس نظم میں کیا ہے۔ اور چیخ چیخ کر ثنا خوانِ تقدیسِ مغرب کو آواز دی ہے۔