نظم باز آمد۔۔۔۔ایک منتاج کا خلاصہ

0

اختر الایمان کی نظم “باز آمد ۔۔۔ایک منتاج” ایسی نظم ہے جس میں منتاج( یہ ایک ایسی تکنیک ہے جس میں تیز رفتاری اور تسلسل کے ساتھ کئی ایک تصاویر پیش کی جاتی ہیں۔یہ تمام تصاویر کسی ایک خیال کی ترسیل کرتی ہیں) کی تکنیک کو برتا گیا ہے۔یہ نظم 1962ء میں لکھی گئی اور ان کے مجموعہ کلام “بنتِ لمحات” میں شامل ہے۔اس نظم میں کئی ایک تصاویر کو شامل کیا گیا ہے۔

اس نظم میں پہلی تصویر بہار کی منظر کشی کی ہے۔ بہار کی آمد پہ پھول کھلے ہوئے ہیں اور تتلیاں ان پہ ناچتی ہوئی ایک پھول سے دوسرے پھول پہ جارہی ہیں۔ تتلیوں کا یوں ایک پھول سے دوسرے پھول پہ جانا ایسا لگتا ہے جیسے انھیں کوئی بات رازداری سے ان کے کان میں بتانی ہو اور ان کی یہ بات سن کر وہ پھول ہنس پڑتا ہو۔اگلی تصویر میں شاعر نے بہار کے منظر کو آگے بڑھاتے ہوئے جو تصویر پیش کی ہے اس کے مطابق دھوپ میں ہر گز تیزی نہیں ہے اور ہوا کا ہر جھونکا یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی بڑی عمر کی محبوبہ کا محبت بھرا ہاتھ ہو جو میرے میرے شانوں کو یوں ہلا رہا ہو کہ جیسے مجھے نیند سے جگا رہا ہو۔

تیسری تصویر میں موسمِ بہار سے لطف اندوز ہوتی عورتوں کی تصویر کو پیش کیا ہے کہ وہ دھوپ میں چرغے لیے بیٹھی ہیں کچھ اون کات رہی جبکہ کچھ سلائی کے کام میں مصروف ہیں۔جیسے کہ یہی کام ان کا اثاثہ ہواور وہ ایک دوسرے سے بات کرتی ہیں۔ کوئی اپنا قصہ سناتی ہے کہ میری چوڑیاں کھنکیں تو میری ساس بھی بولی۔ کسی کا کہنا ہے کہ اسے بھری چاندنی راس نہیں آتی ہے۔ کوئی اپنی رات کی باتءں ہنس کر سناتی ہے اور کوئی ہر بات ہنس کر سنا رہی ہے۔

کوئی کہتی ہے محبوب سے وصل کی لذت ایک تکلیف دہ عمل ہے جبکہ کسی کا کہنا ہے کہ میں اس وقت بیمار ہونے کا روپ دھار لیتی ہوں۔ لیکن ان کے شیخ محل میں پھر بھی کسی کا دخل ہو جاتا ہے جس پہ سب اپنی ہنسی روکے کہتی ہیں کہ اسے باہر نکالو۔ اس کے بعد شاعر نے جمادات و نباتات پر بہار کے اثر کو دکھایا ہے کہ ایک پرندہ کسی پیڑ کی ٹہنی پہ بیٹھا زمین سے آسمان کی جانب چہکتا ہوا اڑتا جاتا ہے جیسے کسی نے پوری قوت سے کوئی گیند فضا میں اچھال دیاہو۔ایک پرندہ شاخ پر اس طرح خوشی اے پھدک رہا ہے جیسے بہار کی خوشی میں کوئی ناچتا ہو۔

پھل دار درخت اپنے ہی بوجھ سے یوں جھکے ہوئے ہیں کہ جیسے کسی نازنیں نے مہندی سے پیلے کیے ہاتھ جھکا رکھے ہوں۔ کوئلیں کوک رہی ہیں۔ جامن اور آموں پہ بھی بہار آئی ہوئی ہے۔ہر طرف یکجائی کا راک کوک رہا ہے۔ نیم کے پیڑوں میں جھولے ڈلے ہوئے ہیں اور لڑکیاں ساونی گیت گارہی ہیں۔جس کی آواز سے ساری بستی گونج اٹھتی ہے۔ میں (شاعر) کبھی ایک اور کبھی دوسرے جھولے کے قریب جاتا ہوں یہاں پہ سب موجود ہیں لیکن ایک چہرہ کم ہے یعنی بس وہ موجود نہیں ہے۔

شاعر کہتا ہے کہ آخر میں آگے بڑھ کر کسی سے پوچھ لیتا ہوں کہ آج حبیبہ نہیں آئی ہے۔ سب لڑکیاں یہ نام سن کر کھلکھلا کر ہسنے لگتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یوں محسوس ہوتا کہ جیسے یہ ابھی تک خواب میں ہے۔دوسری کہتی ہے کہ پکلی یہ کوئی خواب نہیں بلکہ یہ شہر سے آیا ہے۔ ان میں سے ایک چنبیلی نما لڑکی نے کہا کہ اس کی بہت ٹھاٹ سے بارات آئی تھی۔دیپا بولی کہ اس بارات کے ساتھ بینڈ باجا بھی تھا اور دلہن پہ بہت بحث ہوئی۔شاعر کہتا ہے کہ سب ہی کچھ نہ کچھ کہتی رہیں لیکن میں نے ان سے یہ پوچھا کہ کیا یہ ندی اب بھی بہتی ہے؟جس سے یہ ساری بستی جڑی ہوئی ہے تو چنبیلی کہنے لگی کہ کیوں نہیں بہتی۔

میں نے اس کے کنارے برگد کے پیڑ کا پوچھا تو کہنے لگی کہ کہنے لگی کہ وہ تو اب بھی یو نہی قائم ہے۔شاعر کہتا ہے کہ حبیبہ جب کبھی مجھ سے وعدہ کر کے ملنے نہ آتی تھی تو میں اسی ندی میں جا کر اپنی آنکھیں دھوتا تھا اور اسی برگد کے پیڑ کی گھنی چھاؤں میں سو جایا کرتا تھا۔شاعر کہتا ہے کہ کئی ماہ و سال ا کر گزر جاتے ہیں۔ فصلیں پک کر کٹ بھی جاتی ہیں۔ اس موقع پہ کوئی نہیں روتا ہے۔لوہے کو اگر حلقہ تر حلقہ گرم کر کے نہ ڈھالا جائے تو کوئی بھی زنجیر نہیں بن سکتی۔اسی طرح زندگی کا یہ سلسلہ بھی جاری نہیں رہ سکتا ہے۔

یہ تصویر پھر سے شاعر کی محبوبہ کا عکس لیے ہے۔چھوٹی سی گلی میں بچوں کی بھیڑ ہے۔ اس کی پھینکی ہوئی گیند جب مجھے آکر لگی تو میں نے اسے جا پکڑا مگر اس کی شکل دیکھی بھالی تھی۔ ایک رمضانی نامی قصائی نے بتایا کہ یہ (شاعر کی محبوبہ) حبیبہ کا بچہ ہے۔شاعر کہتا ہے کہ اس کی بھولی صورت پہ مجھے ہنسی آ گئی۔ وہ بھی ہنسنے لگا اور یوں ہم دونوں تا دیر ہنستے رہے۔نظم کی اس آخری تصویر میں شاعر پہلی تصویر کے بہار ککے منظر کو پھر سے دھراتا ہے۔