نظم برق کلیسا کی تشریح

0

برق کلیسا 29 اشعار پر مشتمل اکبر الہ آبادی کی نظم ہے جسے مثنوی کی ہیت میں لکھا گیا ہے۔ نظم میں شاعر نے کلیسا کو بطور علامت پیش کرتے ہوئے عیسائیوں کے مذہب کو پیش کیا ہے جبکہ مسلم لڑکے کے کردار کی صورت میں مسلمانوں کے مذہب میں سے جذبہ ایمانی کو مفقود ہوتے دکھایا گیا ہے۔اس نظم میں مسلم نوجوانوں کی اسلام سے دوری اور لاعلمی و بے دینی کو طنز کا نشانہ بناتے ہوئے مسلمانوں کے بگڑے ہوئے معاشرے کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔

رات اس مس سے کلیسا میں ہوا میں دو چار
ہائے وہ حسن وہ شوخی وہ نزاکت وہ ابھار

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ایک نوجون لڑکا یہ کہتا ہے کہ رات میں جوں ہی چرچ (کلیسا جیسے عیسائیوں کی عبادت گاہ کہاں جاتا ہے) میں داخل ہوا تو وہاں پہ ایک خوبصورت عیسائی لڑکی پہ میری نظر پڑی۔ وہ لڑکی اس قدر حسین تھی کہ اس کے حسن اور شوخی کی ایک ایک ادا سے اس کی نزاکت ظاہر ہو رہی تھی۔ وہ لڑکی اس نوجوان لڑکے دل کو خوب بھائی۔

زلف پیچاں میں وہ سج دھج کہ بلائیں بھی مرید
قدر رعنا میں وہ چم خم کہ قیامت بھی شہید

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس نوجوان نے جس لڑکی کو دیکھا اس کی بل دار زلفیں اس قدر خوبصورت تھیں کہ بلائیں بھی اس کی دیوانہ ہو رہی تھیں۔ اس کی خوبصورتی اور رعنائی اس قدر فریب نظر اور سحر طاری کرنے والی تھی کہ اس کے حسن کے سامنے قیامت بھی شہید ہو سکتی تھی۔

آنکھیں وہ فتنۂ دوراں کہ گنہ گار کریں
گال وہ صبح درخشاں کہ ملک پیار کریں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس لڑکی کا حسن ایسا دلفریب تھا کہ اس کی آنکھیں وہ حشر برپا کر رہی تھیں کہ اپنے وقت کا بڑے سے بڑا منصف بھی ان کو دیکھ کر گنہ گار ہو جائے اور اس کے گال صبح کی طرح ایسے روشن اور چمکدار تھے کہ فرشتے بھی ان سے پیار کرنے لگیں۔

گرم تقریر جسے سننے کو شعلہ لپکے
دلکش آواز کہ سن کر جسے بلبل جھپکے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس کی گفتگو اور انداز بیان میں اس قدر گرمی تھی کہ اس کی آواز سننے کو شعلے بھی اس کی جانب لپکیں جبکہ اس کی آواز میں ایک ایسا سحر اور دلکشی تھی کہ اس کی آواز سن کر بلبل بھی اس کے سامنے جھجھک کا شکار ہو سکتی تھی۔

دل کشی چال میں ایسی کہ ستارے رک جائیں
سرکشی ناز میں ایسی کہ گورنر جھک جائیں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس کے چلنے کا انداز اس قدر دلکش تھا کہ اس کی چال دیکھ کر ستارے اپنج چال بھول رہے تھے اور وہ وہیں رک سے جاتے تھے جبکہ اس کے نازو ادا میں اس قدر سر کشی تھی کہ بڑے بڑے گورنر بھی اس کے سامنے با آسانی جھکنے کو تیار ہوں۔

آتش حسن سے تقوے کو جلانے والی
بجلیاں لطف تبسم سے گرانے والی

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس کی حسن کی آگ ایسی تھی کہ وہ بڑے سے بڑے پرہیزگار کو اپنی جانب مائل کر سکتی تھی اور اس کی پرہیز گاری کو آگ کی طرح سے جلا کر راکھ کر سکتی تھی۔ وہ اپنی ہنسی کی برسات سے ہر جانب بجلیاں بکھیرتی دکھائی دیتی تھی۔

پہلوئے حسن بیاں شوخیٔ تقریر میں غرق
ترکی و مصر و فلسطین کے حالات میں برق

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس کے برابر اس کے حسن کے چرچوں کا بیان اس کے بولنے کے انداز میں غرق تھا جبکہ اس کا اندازِ تقریر کچھ ایسا تھا کہ ترقی، مصر اور فلسطین میں یہ حالات ایک بجلی کی طرح گر سکتے تھے۔

پس گیا لوٹ گیا دل میں سکت ہی نہ رہی
سر تھے تمکین کے جس گت میں وہ گت ہی نہ رہی

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ وہ نوجوان اس لڑکی کو دیکھ کر پوری طرح اس پہ فدا ہو گیا اور اس کے دل میں اس کے حسن کی تاب لانے کی سکت باقی نہ رہی اور جس شان و شوکت اور جاہ و جلال کا احساس تھا اسے دیکھ کر وہ حالت اور احساس ہی باقی نہ رہا۔

ضبط کے عزم کا اس وقت اثر کچھ نہ ہوا
یا حفیظ کا کیا ورد مگر کچھ نہ ہوا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس لڑکے نے خود پہ قابو پانے کی بھرپور کوشش کی مگر کسی صورت بھی اس کا خود پہ قابو نہ رہا اور اس نے اللہ کے صفاتی نام یا حفیظ (اے اللہ مجھے اپنی حفاظت میں رکھ) کا ورد بھی کیا مگر اس پہ کسی شے کا کوئی اثر نہ ہوا۔

عرض کی میں نے کہ اے گلشن فطرت کی بہار
دولت و عزت و ایماں ترے قدموں پہ نثار

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ نوجوان اس لڑکی کی جانب بڑھا اور اس سے جا کر کہا کہ اس باغ کی رونق اور باغ میں قدرت کی بہار تم سے ہے میں اپنی دولت ، عزت اور اپنا ایمان تک تم پہ لٹا چکا ہوں اور اپنا سب کچھ تمھارے قدموں میں قربان کرتا ہوں۔

تو اگر عہد وفا باندھ کے میری ہو جائے
ساری دنیا سے مرے قلب کو سیری ہو جائے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ نوجوان نے اس لڑکی سے اظہار محبت کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم وعدہ کرو اور مجھ سے وفا کا عہد نبھاتے ہوئے میری ہو جاؤ تو میرے دل میں موجود تمام خواہشات پوری ہو جائیں گیں اور میں یوں محسوس کروں گا کہ میرے دل کو اس دنیا کی ہر خوشی اور نعمت سے نواز دیا گیا ہو۔

شوق کے جوش میں میں نے جو زباں یوں کھولی
ناز و انداز سے تیور کو چڑھا کر بولی

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ وہ نوجوان کہتا ہے کہ اپنی محبت اور شوق کے جوش میں آ کر جو میں نے اس سے محبت کا اظہار کیا تو وہ کچھ یوں جواب دینے لگی کہ اس نے بڑی ناز و اداؤں کے ساتھ اور اپنی تیوری چڑھا کر مجھے کہا کہ۔

غیرممکن ہے مجھے انس مسلمانوں سے
بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے انسانوں سے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ وہ لڑکی جس سے نوجوان نے اظہارِ محبت کیا تھا وہ تیوری چڑھا کر اس سے کہنے لگی کہ مجھے غیر محسوس طریقے سے مسلمانوں سے محبت ضرور ہے کہ اس قوم یا طبقے کے انسانوں سے خوں کی بو محسوس ہوتی ہے۔

لن ترانی کی یہ لیتے ہیں نمازی بن کر
حملے سرحد پہ کیا کرتے ہیں غازی بن کر

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ وہ نوجوان لڑکی یہ کہتی ہے کہ یہ نمازی بن کر اپنے رب سے سب کچھ کہہ اور سن لیتے ہیں مگر پھر یہ غازی بن کر جہاد کے نام پہ سرحدوں پہ حملہ آور ہوتے ہیں یہی وجہ ہے اس لڑکی کو مسلم طبقہ کے انسانوں سے خون کی بو آتی ہے۔

کوئی بنتا ہے جو مہدی تو بگڑ جاتے ہیں
آگ میں کودتے ہیں توپ سے لڑ جاتے ہیں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جب کوئی ان کا ہادی یا رہنما بننے کی کوشش کرتا ہے تو یہ اس کے خلاف بگڑ کر اعلان جنگ کرتے ہیں اور اس میں یہ آگ میں کودنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں اور توپ کے گولوں سے بھی لڑ جاتے ہیں۔

گل کھلائے کوئی میداں میں تو اترا جائیں
پائیں سامان اقامت تو قیامت ڈھائیں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ لڑکی یہ کہتی ہے کہ اگر کوئی بھی اگر کوئی عمل سر انجام دیتا ہے تو یہ اس کے خلاف میدان جنگ میں اتر آتے ہیں اور اگر کسی جماعت کو ساتھ پائیں تو اس کے خلاف یہ قیامت کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں۔

مطمئن ہو کوئی کیوں کر کہ یہ ہیں نیک نہاد
ہے ہنوز ان کی رگوں میں اثر حکم جہاد

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اگر یہ مسلمان اس طرح کا کوئی کام سر انجام نہ بھی دے رہے ہوں تو یہ ہر گز نیک نام نہیں ہیں کیونکہ پھر بھی ہمیشہ سے ان کی رگوں میں وہ خون گردش کر رہا ہے کہ جسے حکم جہاد ہے جو کبھی جوش مار سکتا ہے۔

دشمن صبر کی نظروں میں لگاوٹ آئی
کامیابی کی دل زار نے آہٹ پائی

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جیسے ہی یہ اپنے دشمن کی نظر میں ذرا سا لگاؤ دیکھتے ہیں تو ان کے دل کامیابی سے کھل اٹھتے ہیں کہ انھوں نے اپنے دشمن کو زیر کر لیا ہے۔وہ حدف کو پہچاننے لگتے ہیں۔

عرض کی میں نے کہ اے لذت جاں راحت روح
اب زمانے پہ نہیں ہے اثر آدم و نوح

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ نوجوان لڑکا اس عیسائی لڑکی کو جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اے میرے دل کی سکون اور میری روح پہ قابض لڑکی اب اس دنیا میں وہ مسلمان یا آدم و نوح کی وہ نسل نہیں ملتی ہے جس کا تمھارے دل و دماغ میں تصور موجود ہے۔

شجر طور کا اس باغ میں پودا ہی نہیں
گیسوئے حور کا اس دور میں سودا ہی نہیں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ نوجوان لڑکا اپنی محبوبہ کو بتاتا ہے کہ جن لوگوں پہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی کا ظہور کیا تھا اب اس نسل کا کوئی پودا اس باغ میں موجود نہیں ہے بلکہ اس دور میں حور کے گیسو کے لالچ میں کوئی اپنے جذبہ جہاد کا سودا نہیں کرتا ہے۔

اب کہاں ذہن میں باقی ہیں براق و رفرف
ٹکٹکی بندھ گئی ہے قوم کی انجن کی طرف

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ وہ نوجوان بتاتا ہے کہ اب اس زمانے کے لوگوں کے ذہن میں براق کی تیزی اور حضور صلی و علیہ وسلم کی سواری براق کا تصور کسی کے ذہن میں موجود نہیں رہا ہے۔ بلکہ سب کی نظریں موجودہ دور کے تیز رفتار انجن کی طرف بندھ گئی ہیں۔

ہم میں باقی نہیں اب خالد جاں باز کا رنگ
دل پہ غالب ہے فقط حافظ شیراز کا رنگ

اس شعر میں شاعر نوجوان کی زبانی کہتا ہے کہ اب حضرت خالد بن ولید جیسے جاں باز کا رنگ ہم لوگوں میں موجود نہیں رہا ہے اور ہمارے دلوں پہ محض حافظ اور شیرازی کا کلام چھایا ہوا ہے۔

یاں نہ وہ نعرۂ تکبیر نہ وہ جوش سپاہ
سب کے سب آپ ہی پڑھتے رہیں سبحان اللہ

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اب کے لوگوں میں نہ تو نعرۂ تکبیر کا وہ اثر اور جوش باقی رہا اور نہ ہی سپاہیوں کا سا جوش و جذبہ ہے بلکہ اب تو سبھی محض سبحان اللہ کا ودر کرتے پائے جاتے ہیں۔

جوہر تیغ مجاہد ترے ابرو پہ نثار
نور ایماں کا ترے آئینۂ رو پہ نثار

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ نوجوان اسے بتلاتا ہے کہ اب تو میں مجاہد کی تلوار کی خوبیاں تمھاری ایک آبرو کے اشارے پہ قربان کرنے کو تیار ہوں اور میرا ایمان اور ایمان کا نور پہ تمھارے آئینے جیسے روشن چہرے پہ قربان کرنے کو تیار ہوں۔

اٹھ گئی صفحۂ خاطر سے وہ بحث بد و نیک
دو دلے ہو رہے ہیں کہتے ہیں اللہ کو ایک

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اب تو ہمارے قاعدوں سے وہ نیک اور بد والا فرق ہی ختم ہو چکا ہے۔ ہم بظاہر تو زبانی اللہ کو ایک کہتے اور مانتے ہیں لیکن کہیں اندر سے ہمارا دل کسی اور کی پرستش میں محو ہے۔

موج کوثر کی کہاں اب ہے مرے باغ کے گرد
میں تو تہذیب میں ہوں پیر مغاں کا شاگرد

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اب ہمارے ایمان کے گرد ہرگز کوثر کی موجوں کا دائرہ کار باقی نہیں رہا۔ میں تو اپنی تہذیب کے حوالے سے بھی آتش پرستوں کا شاگرد بن چکا ہوں۔

مجھ پہ کچھ وجہ عتاب آپ کو اے جان نہیں
نام ہی نام ہے ورنہ میں مسلمان نہیں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ وہ نوجوان اس لڑکی کو یقین دہانی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے نوجوان لڑکی تمھیں میری ذات سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ میں تو اب محض نام کا مسلمان باقی رہ گیا ہوں۔

جب کہا صاف یہ میں نے کہ جو ہو صاحب فہم
تو نکالو دل نازک سے یہ شبہ یہ وہم

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ آخر نوجوان نے صاف صاف اس لڑکی کو بتایا کہ اگر تم سمجھ اور عقل رکھتی ہو تو اپنے دل سے یہ شک و شبہ اور وہم مکمل طور پہ باہر پھینک ڈالو۔ان شکوک کو اپنے نازک دل میں جگہ مت دو۔

میرے اسلام کو اک قصۂ ماضی سمجھو
ہنس کے بولی کہ تو پھر مجھ کو بھی راضی سمجھو

نظم کے آخری شعر میں نوجواں لڑکی سے کہتا ہے کہ میرے ایمان اور اسلام کو اب میرے ماضی کا قصہ تصور کرو۔وہ لڑکی نوجوان کی باتیں سننے کے بعد اسے مخاطب کرکے ہنستے ہوئے کہتی ہے کہ اگر ایسی بات ہے تو مجھے بھی راضی سمجھو۔