نظم صبحِ آزادی کی تشریح

0

فیض احمد فیض کی نظم ” صبحِ آزادی ” ان کے مجموعہ کلام “دستِ صبا” سے لی گئی ہے۔قریباً 12 اشعار پر مشتمل اس نظم میں فیض احمد فیض نے تقسیم کے بعد کے ابتدائی حالات کو موضوع بنایا ہے۔

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ جو داغ داغ (ہلکا ہلکا) اجالا اور رات کے بعد گزری ہوئی صبح ہے یہ وہ صبح ہر گز نہیں ہے کہ جس کے ہم سب منتظر ہیں۔ یہ تو وہ صبح ہی نہیں ہے کہ جس کی امید باندھ کر ہم سب چلے تھے کہ کہیں نہ کہیں ہمیں یہ صبح ضرور ملے گی۔ (ان اشعار میں شاعر کی صبح سے مراد وہ ملک ہے کہ جس کی امید لے کر کئی لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہجرت پہ مجبور ہو گئے مگر فیض تقسیم کے بعد کے حالات کو دیکھنے کے بعد یہ کہنے پہ مجبور ہو گئے کہ یہ تو وہ ملک ہی نہیں ہے کہ جس کی ہم سب نے توقع کی تھی)

فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غم دل
جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے
چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیار حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پکارتی رہیں باہیں بدن بلاتے رہے
بہت عزیز تھی لیکن رخ سحر کی لگن
بہت قریں تھا حسینان نور کا دامن
سبک سبک تھی تمنا دبی دبی تھی تھکن

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ہمیں یہ امید تھی کہ آسمان پر تاروں کے پاس ہماری آخری منزل ہو گی۔ ہماری اس سست شب کا اب کہیں تو کنارا موجود ہو گا۔ہمارے دل کے غموں کا یہ پروانہ اب کہیں تو جا کر تھمے گا۔اس وطن کے لئے کئی لوگوں نے قربانیاں پیش کیں، کئی جوانوں نے اس کے لیے اپنا خون قربان کیا اور جب ہم ان راستوں پہ چلے تو اس وقت احساس ہوا کہ کتنے لوگوں کے ہاتھ ہمارے دامن پہ ہیں یعنی کتنے لوگ اپنی ان قربانیوں کا حساب مانگ رہے ہیں۔ اس وطن کی بے صبر خواب گاہوں میں سے کئی لوگوں کے بدن اور بازو ہمیں پکارتے ہیں۔ یہ سب اگرچہ بہت عزیز تھے لیکن صبح کا چہرہ دیکھنے کی لگن اور نور کا یہ دامن ان کے لیے بہت قیمتی تھا۔ان کے دل کی تمنا بہت تیز تھی اور اس تمنا کی تیز رفتاری کے سامنے ان کی تھکن کی رفتار بہت دھیمی تھی۔

سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراق ظلمت و نور
سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصال منزل و گام
بدل چکا ہے بہت اہل درد کا دستور
نشاط وصل حلال و عذاب ہجر حرام

شاعر کہتا ہے کہ میں نے یہ سنا ہے کہ تاریکی اور نور کی علیحدگی بھی ہو چکی ہے اور یہ بھی سنا ہے کہ قدموں نے اپنی منزل کو پالیا ہے یعنی ان کا وصال بھی ممکن ہو چکا ہے۔ اس درد کو محسوس کرنے والوں کا قانون اب بدل چکا ہے۔ ان کی خوشی حلال کو پانے میں اور حرام سے جدائی ان کے لیے عذاب ہے۔

جگر کی آگ نظر کی امنگ دل کی جلن
کسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے آئی نگار صبا کدھر کو گئی
ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ان کے دل کی آگ، آنکھوں کی امید اور دل کی جلن کسی چیز پہ بھی جدائی کے علاج کا کوئی اثر نہیں ہے۔ صبح کی تصویر کہاں سے آئی اور کدھر کو گئی ابھی اس بات کی راستے کے چراغ کو بھی خبر نہیں ہے۔ابھی رات کے بھاری پن میں بھی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ابھی دل اور آنکھ کی نجات کا وقت نہیں آیا ہے۔ ابھی اس سفر کو جاری رکھو کہ تمھاری منزل ابھی نہیں آئی ہے۔