نظم فرضی لطیفہ کی تشریح

0

نظم فرضی لطیفہ اکبر الہ آبادی کی نظم ہے۔ جس کے اشعار کی تعداد 11 ہے۔اس نظم میں شاعر نے دورِ حاضر کے عاشقوں کے عشق پہ چوٹ کی ہے۔نظم میں لیلی مجنوں کی ایک فرضی داستان کو بیان کیا گیا ہے۔

خدا حافظ مسلمانوں کا اکبرؔ
مجھے تو ان کی خوشحالی سے ہے یاس

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اکبر الہ آبادی امت سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کا اللہ حافظ ہے۔ ان کے حالات کچھ اس طرح کے ہو چکے ہیں کہ یہ خوشحالی کی بجائے پستی کے راستے پہ جا رہے ہیں اور مجھے ان کی خوشحالی کے لیے ایک دھڑکا لگا ہوا ہے۔

یہ عاشق شاہد مقصود کے ہیں
نہ جائیں گے ولیکن سعی کے پاس

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مسلمان قوم صرف اور صرف ایک ذات سے عشق میں گرفتار ہے اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی واحد و یکتا ذات ہے۔ اللہ کی ذات سے ان کی محبت ہی ہے کہ یہ اس کے سوا کسی اور کی محبت میں گرفتار نہیں ہوتے اور نہ ہی اپنے راستے سے بھٹکتے ہیں۔

سناؤں تم کو اک فرضی لطیفہ
کیا ہے جس کو میں نے زیب قرطاس

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ آج میں تمھیں ایک فرض کی گئی من گھڑت کہانی سنانا چاہتا ہوں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ کہانی جو میں تمھیں سنانے جا رہا ہوں اسے میں نے خود لکھا یعنی تخلیق کیا ہے۔

کہا مجنوں سے یہ لیلیٰ کی ماں نے
کہ بیٹا تو اگر کر لے ایم اے پاس

اس شعر میں شاعر لیلی اور مجنوں کے کرداروں کو کہانی کے فرضی کرداروں کی صورت میں پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک دفعہ مجنوں سے لیلی کی ماں نے یہ کہا کہ بیٹا اگر تم ایم۔اے کی ڈگری حاصل کر لیتے ہو یعنی ایم۔اے تک تعلیم حاصل کر لیتے ہو تو میں تم سے اپنی بیٹی کی شادی کروا دوں گی۔

تو فوراً بیاہ دوں لیلیٰ کو تجھ سے
بلا دقت میں بن جاؤں تری ساس

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ لیلی کی ماں نے مجنوں سے ایم۔اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد کہا کہ وہ جلد ہی اس سے اپنی بیٹی کو بیاہ دے گی اور بغیر کسی پریشانی اور کوئی تکلیف اٹھائے بغیر میں تمھاری ساس کے مرتبے پہ فائز ہو جاؤں گی۔

کہا مجنوں نے یہ اچھی سنائی
کجا عاشق کجا کالج کی بکواس

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجنوں نے لیلی کی ماں کی بات اور فرمائش سننے کے بعد کہا کہ یہ اس نے ایک خوب کہانی سنائی ہے لیکن کالج کی پڑھائی اور عشق کچھ میل نہیں کھاتے کہ کہاں کالج کی پڑھائی اور کہاں عشق جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجنوں کی لیلی کی ماں کی بات بالکل بھی نہ بھائی۔

کجا یہ فطرتی جوش طبیعت
کجا ٹھونسی ہوئی چیزوں کا احساس

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجنوں نے لیلی کی ماں کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ عشق فطری جذبے کی طرح ہے جو کہ خود بخود انسان کے اندر سرایت کرتا جاتا ہے دوسری طرف کالج کی پڑھائی ایک ایسی شے ہے کہ جسے انسان کو ایک جدوجہد اور تگ و دو کے بعد اپنے اندر اتارنا ہوتا ہے۔ اس لیے زبردستی کی ٹھونسی گئی اشیاء میں احساس کا مادہ مفقود ہوتا ہے۔

بڑی بی آپ کو کیا ہو گیا ہے
ہرن پہ لادی جاتی ہے کہیں گھاس

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ لیلی کی ماں کو مخاطب کر کے کہا کہ پڑھائی اور وہ بھی زبردستی کی پڑھائی میری طبیعت سے میل نہیں کھاتے ہیں۔ بڑی بی میرے لیے کالج کی پڑھائی کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے ہرن پہ گھاس لادی جائے۔ جیسے ہرن سامان لادنے کے کام نہیں آ سکتا اسی طرح میرا تعلیم حاصل کرنا بھی ایک نا ممکن بات ہے۔

یہ اچھی قدر دانی آپ نے کی
مجھے سمجھا ہے کوئی ہرچرن داس

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجنوں نے لیلی کی ماں سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ہر گز بھی مجنوں کی قدر نہ کی اور اسے گویا ہر چرن داس فرض کر لیا۔

دل اپنا خون کرنے کو ہوں موجود
نہیں منظور مغز سر کا آماس

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجنوں نے لیلی کی ماں سے کہا کہ وہ اپنے دل کی خواہش اور خوشیوں کا خون کرنے کو تو تیار ہے مگر وہ کبھی بھی اپنے دماغ کا سودا نہیں کرے گا یعنی وہ پڑھائی میں ہر گز بھی مغز ماری نہیں کرے گا۔

یہی ٹھہری جو شرط وصل لیلیٰ
تو استعفیٰ مرا با حسرت و یاس

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجنوں نے اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے لیلیٰ کی ماں سے یہ کہا کہ اگر لیلیٰ کو حاصل کرنے کی شرط میری پڑھائی کی صورت میں ہی ٹھہری ہے تو میں اپنے دل کی اس خوشی اور امید کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوں اور لیلی کی محبت سے دستبردار ہوتا ہوں۔