نظم ذوق و شوق کا خلاصہ

0

نظم “ذوق و شوق” علامہ محمد اقبال کے مجموعہ کلام ” بال جبرئیل” سے لی گئی ہے۔ اس نظم میں کل 5 بند شام ہیں۔ یہ نظم پابند نظم کی ہیت میں لکھی گئی ہے۔ یہ نظم کل 31 اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ نظم 1931ء میں لکھی گئی۔ نظم کے اکثر اشعار فلسطین میں لکھے گئے۔ اس نظم کے اشعار حمدیہ و نعتیہ نوعیت کے ہیں۔

نظم میں پیش کی گئی کہانی کچھ یوں ہے کہ شاعر (اقبالؔ) تصوراتی طور پر روضۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گامزن ہے۔ وہ جب مدینہ امینہ کے نزدیک کوہ اضم (مدینہ منور کے نواح میں ایک پہاڑی کا نام ہے) کے مقام پر پہنچتا ہے تو گزر گاہ محبوب کے قدرتی حسن سے از حد متاثر ہوتا ہے۔ صبح کا سہانا سماں ہے، چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں دواں ہیں، ازل کا سارا حسن نگاہوں کے سامنے ہے، شب کا سحاب سرخ اور پتلی بدلیاں چھوڑ گیا ہے، رات کی بارش سے ہوا گرد و غبار سے پاک و صاف ہوگئی ہے، درختوں کے پتے دھل کر نکھر گئے ہیں، نواح کاظمہ (کاظمہ- مدینہ شریف کے اسماء میں ایک نام ہے) کی ریگ ریشم کی طرح نرم ہے۔

سبحان اللہ! ان مناظر میں وہی حسن جلوہ نما ہے جو تخلیق کائنات کے وقت ظاہر ہوا تھا جس سے پردۂ وجود چاک ہوجاتا ہے لیکن اس حسن ازل کو دیکھنے کے لیے ظاہری آنکھ بند کرنی پڑتی ہے-ایسے میں شاعر کو ایک مقام نظر آتا ہے جہاں بجھی ہوئی آگ اور ٹوٹی ہوئی طناب بتاتی ہیں کہ اور بھی قافلے اسی راستے لے قصر محبوب (مدینہ امینہ) کی طرف گئے ہیں۔ اتنے میں شاعر کوصدائے جبریل سنائی دیتی ہے۔ شاعر جسے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر اپنا درد دل بیان کرنا تھا، صدائے جبریل سن کر وہیں رک جاتا ہے لیکن کیفیات قلبی زبان حال سے ظاہر ہوتی ہیں۔

یہاں شاعر ملت اسلامیہ کے زوال، بے علمی و بے عملی اور جذبۂ جہاد سے محرومی کا گلہ کرتا ہے۔ اقبال گلہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج پوری امت مسلمہ میں کوئی حسین نہیں ہے جو غلبۂ اسلام کی خاطر خود کو قربان کردے-شاعر کے نزدیک ملت اسلامیہ کے زوال، بے علمی و بے عملی وغیرہ امراض کا سبب عشق سے محرومی ہے کیونکہ یہ عشق راہبر بھی ہے اور قوت بھی اور یہ عشق نہ ہو تو عقل و دل و نگاہ بتکدۂ تصورات ہیں۔ بدر و حنین کا معرکۂ جہاد بھی عشق ہی کی جلوہ گری ہے۔

شاعر معرکۂ بدروحنین سے خواجہ بدروحنین صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رب قدیر نے سب سے پہلے خلق فرمایا تھا لیکن بعثت میں آپ تمام انبیاء ومرسلین کے آخر میں تشریف لائے-گویا آپ ’’آیہ کائنات کا معنی دیریاب ‘‘ہیں۔چونکہ یہ کائنات آپ ہی کے وسیلے سے اور آپ ہی کی خاطر خلق فرمائی گئی ہے لہذا اول سے ابد تک رنگ وبو کا ہر قافلہ آپ ہی کا متلاشی ہے۔ اس کے بعد شاعر علماء وصوفیہ کی کور نظری ،مردہ ذوقی اور روحانی فقدان کا شکوہ کرتا ہے۔

وہ ان خرابیوں کے سدباب کے لیے اسلاف کرام کے نقوش قدم پر چلنے کی تلقین کرتا ہے اور ’’کھوئے ہوئوں کی جستجو‘‘کو اپنی شاعری کا نصب العین قرار دیتا ہے-شاعر یہ بھی کہتا ہے کہ باد صباچلنے سے خار وخس کی نشوونما ہوتی ہے، میری نوا کی پرورش دل وجگر کے لہو سے ہوئی ہے اور میری ساز کے رگ رگ میں صاحب ساز کا لہو رواں دواں ہے۔آپ صلی و علیہ وسلم ہی لوح و قلم کا مالک ہیں اور آپ وجود کا مظہر قرآن ہے۔

یہاں لوح و قلم کی تراکیب کے حوالے سے رب ذوالجلال کو انسانی تقدیر کا خالق قرار دیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نےاب تک انسانی نظروں سے اپنے وجود کو پوشیدہ رکھا ہے لیکن تیرے جلوے کی علامتیں طلوع آفتاب کی شکل میں سامنے آئی جس کی تابندگی نے ریت کے معمولی ذروں کو بھی منور کر دیا ہے ۔آخر میں شاعر عشق کے فلسفے سے بحث کرتے ہوئے کہتا پے کہ عشق کی ابتدا اور اس کی انتہا دونوں عجیب و غریب ہیں۔

کبھی تو یہ ایسی تدبیروں سے کام لیتا ہے جو فرد کو منزل مراد تک پہنچانے میں مدد دیتی ہیں او کبھی بزور قوت اس کی توجہ اپنی جانب منعطف کراتا ہے جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے مجھے موخر الذکر صورت حال سے واسطہ پڑا۔ یوں عشق نے مجھے عقل و دانش کے دام سے چھڑا کر ایک مثبت کیفیت سے آشنا کر دیا۔ شاعر عشق میں ہجر اور وصال کی بات کرتے ہوئے ہجر کو وصال پر ترجیح دیتا ہے اور کہتا ہے کہ عشق حقیقی میں ہجر و فراق کی کیفیت ہی سب سے اہم شے ہے۔ آرزو اور خواہش اسی کیفیت میں برقرار رہتی ہیں اور تمام نالہ و فریاد بھی اسی کے دم سے زندہ ہیں۔