نظم کسان کی تشریح

0

جوش ملیح آبادی کی نظم “کسان” 54 اشعار پر مشتمل نظم ہے۔ یہ پابند نظم کی ہیت میں لکھی گئی ہے۔ اس نظم میں شاعر نے ہندوستانی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھنے والے طبقے یعنی کسان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

جھٹپٹے کا نرم رو دریا شفق کا اضطراب
کھیتیاں میدان خاموشی غروب آفتاب
دشت کے کام و دہن کو دن کی تلخی سے فراغ
دور دریا کے کنارے دھندلے دھندلے سے چراغ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ شام کے منظر کی دلکشی و خوبصورتی کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آسمان پہ شام کی سرخی پھیلی ہوئی ہے اور یہ سرخی دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا ہے کہ کوئی نرم رو دریا اپنا راستہ بنا رہا ہے۔ شام کا وقت ہو جانے کی وجہ سے سب میدان اور کھتیاں خاموش ہیں اور سورج غروب ہو چکا ہے۔دن بھر کے کام کاج کو اب دن کی تلخی سے آرام مل چکا ہے۔ شام کے وقت کی سرخی کا عکس دریا میں یوں جھلک دکھا رہا ہے کہ جیسے دریا میں دھندلے چراغوں کا عکس جگمگا رہا ہو۔

زیر لب ارض و سما میں باہمی گفت و شنود
مشعل گردوں کے بجھ جانے سے اک ہلکا سا دود
وسعتیں میدان کی سورج کے چھپ جانے سے تنگ
سبزۂ افسردہ پر خواب آفریں ہلکا سا رنگ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ شام کا وقت ہوتے ہی منظر کچھ یوں ہو گیا ہے۔زمین اور آسمان کی وسعتیں ملتی ہوئی دکھائی دینے لگیں یوں محسوس ہو رہا کہ وہ دونوں آپس میں گفتگو کر رہے ہوں۔ دوسری طرف روشنیوں کا بجھنے کا وقت قریب آ پہنچا۔ وہ میدان جو دن کی روشنی میں وسیع و عریض میدان دکھائی دیتے تھے سورج کی روشنی چھپ جانے کی وجہ سے وہ تنگ دکھائی دینے لگے۔اندھیرا چھا جانے کی وجہ سے سبزہ بھی افسردہ ہو چکا تھا اور اس کا رنگ مدھم ہو کرکسی خواب کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔

خامشی اور خامشی میں سنسناہٹ کی صدا
شام کی خنکی سے گویا دن کی گرمی کا گلا
اپنے دامن کو برابر قطع سا کرتا ہوا
تیرگی میں کھیتیوں کے درمیاں کا فاصلا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ شام چھا جانے کی وجہ سے ہر جانب خاموشی کا سناٹا تھا اور خاموشی میں ایک ہلکی سنسناہٹ کی صدا سنائی دے رہی تھی۔ جیسی ہی شام چھائی تو فضا میں ہلکی خنکی دوڑ گئی جس کے باعث دن بھر کی گرمی کا گلہ دھل گیا۔ تاریکی میں کھیتوں کا درمیانی فاصلہ بھی ختم یو کر رہ گیا تھا۔

خار و خس پر ایک دردانگیز افسانے کی شان
بام گردوں پر کسی کے روٹھ کر جانے کی شان
دوب کی خوشبو میں شبنم کی نمی سے اک سرور
چرخ پر بادل زمیں پر تتلیاں سر پر طیور

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ہر کانٹا اور جھاڑی ایک درد انگیز افسانے کی سی شان رکھنے والی کہانی بیان کر رہے تھے۔ آسمان ایسا منظر پیش کر رہا ہے کہ جیسے وہ ہم سے روٹھ چکا ہو۔نرم و ملائم گھاس میں ایک عجب طرح کی خوشبو اور سرور موجود ہے۔ آسمان پہ بادل منڈلا رہے ہیں تو زمین پہ خوبصورت تتلیاں جبکہ ہمارے سروں پہ پرندے منڈلا رہے ہیں۔

پارہ پارہ ابر سرخی سرخیوں میں کچھ دھواں
بھولی بھٹکی سی زمیں کھویا ہوا سا آسماں
پتیاں مخمور کلیاں آنکھ جھپکاتی ہوئی
نرم جاں پودوں کو گویا نیند سی آتی ہوئی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ آسمان پہ بادل ٹکڑیوں میں پھیلا ہوا تھا اس بادل میں سرخی اور کچھ دھواں منڈلا رہا تھا۔ اس سارے منظر نامے میں زمین بھولی بھٹکی اور آسمان کھویا کھویا سا محسوس ہو رہا تھا۔ درختوں اور پھولوں کی پتیاں مخمور دکھائی دے رہی تھیں جبکہ کلیاں آنکھ جھپک رہی تھیں۔ اس سارے منظر کا فسوں ایسا طاری تھا کہ گویا نرم جان پودوں کو نیند آتی محسوس ہو رہی تھی۔

یہ سماں اور اک قوی انسان یعنی کاشت کار
ارتقا کا پیشوا تہذیب کا پروردگار
طفل باراں تاجدار خاک امیر بوستاں
ماہر آئین قدرت ناظم بزم جہاں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس سارے منظر نامے میں ایک بہادر انسان موجود تھا جسے کاشتکار کہتے ہیں۔ یہ کاشت کار شاعر کی نظر میں کوئی عام انسان نہیں بلکہ اس دنیا میں تہذیب کے ارتقا کا امام ہے۔ یہ انسان یعنی کسان موسم کی پرواہ کیے بنا بھی اپنے کام میں مصروف ہے اور بادلوں کا بادشاہ بنا ہوا ہے۔ یہ اک کا سلطان بنا ہوا ہے۔ یہ قدرت کا ماہر اور اس زمئن پہ اللہ کی جانب سے ناطم بنا کر اتارا گیا انسان ہے۔

ناظر گل پاسبان رنگ و بو گلشن پناہ
ناز پرور لہلہاتی کھیتیوں کا بادشاہ
وارث اسرار فطرت فاتح امید و بیم
محرم آثار باراں واقف طبع نسیم

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ انسان (کسان) پھولوں کی حفاظت کرنے والا اور باغات میں موجود پھولوں کے رنگ اور خوشبو کو اپنی پناہ میں لیے ہوئے ہے۔ اس زمین پہ نازو و انداز سے لہلاتی کھتیوں کا بادشاہ بھی یہی کسان ہے۔ یہ قدرت کے رازوں کا وارث ہے اور امید اور نا امیدی کے درمیان میں جھومتے ہوئے فتح یاب ہونے والا انسان ہے۔ کیونکہ کسان کی فصل کو ہر طرح کے موسم کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ کسان کو اللہ نے بادلوں اور ہوا کی فطرت کے رازوں سے واقف کرکے دنیا میں بھیجا ہے۔ کسان بادلوں اور ہوا کی نوعیت اور اس کے اپنی فصل پر اثرات کو بخوبی جانتا ہے۔

صبح کا فرزند خورشید زر افشاں کا علم
محنت پیہم کا پیماں سخت کوشی کی قسم
جلوۂ‌ قدرت کا شاہد حسن فطرت کا گواہ
ماہ کا دل مہر عالم تاب کا نور نگاہ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کسان صبح سویرے بیدار ہوتا ہے اس لحاظ سے یہ ایک طرح سے صبح کا فرزند کہلانے کا مستحق ہے۔ اس صبح کے وقت سورج کی پھیلنے والی سرخی کی قیمت کا اندازہ ہے۔ کسان نے ایک نہ ختم ہونے والی محںت کا وعدہ اور تکا لیف کو برداشت کرنے کی قسم کھائی ہے۔یہ قدرت کے تمام تر جلوؤں اور فطرت کے حسین مناظر کا گواہ ہے۔ کسان چاند کا دل اور سورج کی کرنوں کا نور ہے۔

قلب پر جس کے نمایاں نور و ظلمت کا نظام
منکشف جس کی فراست پر مزاج صبح و شام
خون ہے جس کی جوانی کا بہار روزگار
جس کے اشکوں پر فراغت کے تبسم کا مدار

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کسان ہی وہ واحد ہستی ہے کہ جس کے دل پر روشنی اور اندھیروں کا نظام اور راز نقش ہے اور کی عقلمندی پہ صبح اور شام کے مزاج کے تمام راز آشکار ہوتے ہیں۔اس کی رگوں میں دوڑتا اس کی جوانی کا خون ہی اس کے روزگار کی بہار ہے۔ کسان کی اس مسلسل محنت اور اس کے اشکوں پہ ہی ہم سب کی خوشی اور مسرت کا دارومدار ہے۔

جس کی محنت کا عرق تیار کرتا ہے شراب
اڑ کے جس کا رنگ بن جاتا ہے جاں پرور گلاب
قلب آہن جس کے نقش پا سے ہوتا ہے رقیق
شعلہ خو جھونکوں کا ہمدم تیز کرنوں کا رفیق

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کسان کی مسلسل محںت سے حاصل ہونے والے پھل کا نتیجہ ایک فرحت انگیز شراب کی صورت میں ملتا ہے۔کسان اپنی پروا کیے بنا محنت کرتا ہے اور اس کا ہی یہ رنگ اڑ اس کی فصل کو ایک خوبصورت گلاب سا رنگ عطا کرتا ہے۔ سخت دل پتھر بھی اس کی بدولت نرم و ملائم ہو جاتے ہیں۔ کسان شعلے کی مانند چلنے والے تیز و تند جھونکوں کا ساتھی اور سورج کی کرنوں کے ساتھ بیدار ہونے والا یعنی ان کرنوں کا دوست ہے۔

خون جس کا بجلیوں کی انجمن میں باریاب
جس کے سر پر جگمگاتی ہے کلاہ آفتاب
لہر کھاتا ہے رگ خاشاک میں جس کا لہو
جس کے دل کی آنچ بن جاتی ہے سیل رنگ و بو

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کسان کے اندر ایک ایسا تیز لہو دوڑتا ہے کہ جو بجلیوں کی محفل تک رسائی پاتا ہے اور روشنی کا باعث بنتا ہے۔ اس کے سر پہ سورج کی کرنیں تاج بن کر جگمگاتی ہیں۔ اس کا خون اس دھرتی کے معمولی سے تنکے میں بھی لہر بن کر دوڑتا ہے اور اس کے دل کی آنچ رنگ و بو کا ایک طوفان بن جاتی ہے۔

دوڑتی ہے رات کو جس کی نظر افلاک پر
دن کو جس کی انگلیاں رہتی ہیں نبض خاک پر
جس کی جانکاہی سے ٹپکاتی ہے امرت نبض تاک
جس کے دم سے لالہ و گل بن کے اتراتی ہے خاک

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ رات کوجس کی نظر ہر وقت آسمان پہ دوڑتی رہتی ہے اور دن میں بھی اس کی انگلیاں مٹی کی نبض کو ٹٹولتی رہتی ہیں۔ یعنی رات کو وہ موسم کا اندازہ جبکہ دن کو زمین کی صحت کا اندازہ لگانے میں مصروف رہتا ہے۔ اس کی محنت و مشقت سے یہ دھرتی اس کے لیے آب حیات ٹپکاتی ہے اور اسی کے دم سے یہ مٹی اور زمین بھی خوبصورت لالہ اور پھول بن کر اتراتی ہے۔

ساز دولت کو عطا کرتی ہے نغمے جس کی آہ
مانگتا ہے بھیک تابانی کی جس سے روئے شاہ
خون جس کا دوڑتا ہے نبض استقلال میں
لوچ بھر دیتا ہے جو شہزادیوں کی چال میں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کسان کی مسلسل محنت ہی دولت مندوں کے نغموں کو ساز بخشتی ہے۔ بڑے بڑے بادشاہ بھی اپنی شہنشاہت کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کسان کے محتاج ہیں کہ کسان کی محنت اود فصل کے بعد ہی وہ لگان پائیں گے اور ان کی سلطنت کا عروج قائم رہ پائے گا۔اس ملک کی ترقی اور استقلال کی رگوں میں بھی اسی کی محنت کا خون دوڑتا ہے اور اس کسان کی محںت ہی شہزادیوں کی چال میں لچک لاتی ہے۔

جس کے ماتھے کے پسینے سے پئے عز و وقار
کرتی ہے دریوزۂ تابش کلاہ تاجدار
سرنگوں رہتی ہیں جس سے قوتیں تخریب کی
جس کے بوتے پر لچکتی ہے کمر تہذیب کی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کسان وہ ہستی ہے کہ اس کے ماتھے سے بہنے والا مسلسل پسینہ ہی اس کی عزت و وقار کو بڑھاتا ہے۔اس کا یہ پسینہ اور محنت ہی بڑے بڑے بادشاہوں کو اس کے سامنے جھکنے پر مجبور کرتی ہیں۔جس کی وجہ سے بغاوت اور تخریب کاریوں کی طاقت کا سر جھکا رہتا ہے اور اس کی بدولت ہی معاشرے میں تہذیب اور وقار کی کمر لچکاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

جس کی محنت سے پھبکتا ہے تن آسانی کا باغ
جس کی ظلمت کی ہتھیلی پر تمدن کا چراغ
جس کے بازو کی صلابت پر نزاکت کا مدار
جس کے کس بل پر اکڑتا ہے غرور شہریار

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کسان کی محنت سے ہماری زندگیوں میں آسانیوں کا دخل ہے۔ اس کی اندھیر بھری ہتھیلی پہ ہماری تہذیب و تمدن کا چراغ جگمگاتا ہے۔ یعنی یہ خود کا نقصان کرکے ہمیں ایک فائدہ بخش زندگی بخشتا ہے۔اس کی بازو کی سختی یرنی کسان کی محنت پر ہم سب کی ترقی اور محنت کا دارومدار ہے۔اس کی محنت کے بل بوتے پر بڑے بڑے بادشاہ اپنی بادشاہت پہ اکڑتے پھرتے ہیں کہ انھی کسانوں کے لگان کی بدولت ان کا نظام حکومت چلتا ہے۔

دھوپ کے جھلسے ہوئے رخ پر مشقت کے نشاں
کھیت سے پھیرے ہوئے منہ گھر کی جانب ہے رواں
ٹوکرا سر پر بغل میں پھاوڑا تیوری پہ بل
سامنے بیلوں کی جوڑی دوش پر مضبوط ہل

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کسان موسم کی شدت کی پرواہ کیے بنا محنت کرتا ہے اور اس دھوپ میں جھلسے ہوئے بدن پہ اس کی محنت کے نشان دکھائی دیتے ہیں۔ جب وہ کھیت سے اپنے گھر کی جانب روانہ ہوتا ہے تو اس کے سر پہ ایک ٹوکرا جبکہ بغل میں زمین کھودنے کا پھاوڑا دبا ہوتا ہے اور دن بھر کی محنت اور تھکن کے باعث اس کی تیوری پہ بل پڑے ہوتے ہیں۔ اس کے آگے آگے دن بھر کی ہل چلاتی بیلوں کی جوڑی چل رہی ہوتی ہے جس کے پیچھے ایک مضبوط ہل جوتی گئی ہوتی ہے۔

کون ہل ظلمت شکن قندیل بزم آب و گل
قصر گلشن کا دریچہ سینۂ گیتی کا دل
خوش نما شہروں کا بانی راز فطرت کا سراغ
خاندان تیغ جوہر دار کا چشم و چراغ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کسان کی یہ ہل اندھیروں کو ختم کرنے اور پانی اور پھولوں کی محفل کو روشن کرتی ہے۔یہی بڑے محلوں کا دریچہ اور اس دنیا کے سینے کا دل ہے۔یہ کسان ہی بڑے بڑے شہروں کو بسانے کا باعث ہے کہ اگر یہ اناج نہ اگائے یا ان شہروں کو اناج تک رسائی نہ دے تو ان کا وجود ممکن نہ ہو اور کسان ہی وہ ہستی ہے جو فطرت کے رازوں کا امین ہے۔کسان ایک جلالی صفات رکھنے والے خاندان کا چشم و چراغ ہے۔

دھار پر جس کی چمن پرور شگوفوں کا نظام
شام زیر ارض کو صبح درخشاں کا پیام
ڈوبتا ہے خاک میں جو روح دوڑاتا ہوا
مضمحل ذروں کی موسیقی کو چونکاتا ہوا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کسان کی دھار پہ باغ کی کلیوں کا نظام چلتا ہے۔اس کے لیے شام زمین کے اندر جبکہ صبح روشنیوں بھرے جگمگاتے دن کا پیغام لے کر آتی ہے۔کسان دن بھر دوڑ دھوپ کر کے خود کو خاک میں ملائے رکھتا ہے۔ یہ کائنات کے سست رفتار ذرات کو بھی اپنی محنت کی موسیقی سے بیدار کر دیتا ہے۔

جس کے چھو جاتے ہی مثل نازنین مہ جبیں
کروٹوں پر کروٹیں لیتی ہے لیلائے زمیں
پردہ ہائے خواب ہو جاتے ہیں جس سے چاک چاک
مسکرا کر اپنی چادر کو ہٹا دیتی ہے خاک

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کسان کے چھوتے ہی زمین کسی نرم و نازک اور بے مثال حسینہ کی طرح کروٹیں بدلنے لگ جاتی ہے۔ اس کے پلٹنے سے ایسے خوبصورت خوبصورت پردے چاک ہوتے ہیں کہ جیسے کوئی مسکرا کر اپنی چادر کو ہٹا رہا ہو بالکل اسی طرح زمین بھی اپنی خاک کی چادر ہٹا دیتی ہے۔ یہ سب کسان کی زمین کو جوتنے کی محنت کا ثمر ہے۔

جس کی تابش میں درخشانی ہلال عید کی
خاک کے مایوس مطلع پر کرن امید کی
جس کا مس خاشاک میں بنتا ہے اک چادر مہین
جس کا لوہا مان کر سونا اگلتی ہے زمین

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ زمین کی گرمی اور چمک میں عید پر دکھائی دینے والے ہلال کے چاند جیسی چمک موجود ہے۔اور اس کے خاک کر پردے ہٹنے سے اس کی خاک کے مایوس پردوں سے امید کی ایک نئی کرن جگمگانے لگتی ہے۔جس کی ادنی سی محنت بھی ایک پھل کو سامنے لاتی ہےاور اس کی محنت کا لوہا مان کر زمین کچھ ہی عرصے بعد سونا اگلنے لگتی ہے۔

ہل پہ دہقاں کے چمکتی ہیں شفق کی سرخیاں
اور دہقاں سر جھکائے گھر کی جانب ہے رواں
اس سیاسی رتھ کے پہیوں پر جمائے ہے نظر
جس میں آ جاتی ہے تیزی کھیتیوں کو روند کر

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ شام کو جب یہ کسان اپنے بیل اور ہل لیے گھر کی جانب رواں ہے تو اس کے ہلوں پہ شام کی سرخی اور شفق کے رنگ اس کی محنت کی طرح جگمگا رہے ہیں اور یہ کسان سر جھکائے گھر کی جانب رواں دواں ہے۔یہ کسان اس پہیوں والی گاڑی پہ اپنی نظر جمائے ہوئے ہے جس میں کھیتوں کو روندنے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ روانی اور تیزی آ جاتی ہے۔

اپنی دولت کو جگر پر تیر غم کھاتے ہوئے
دیکھتا ہے ملک دشمن کی طرف جاتے ہوئے
قطع ہوتی ہی نہیں تاریکیٔ حرماں سے راہ
فاقہ کش بچوں کے دھندلے آنسوؤں پر ہے نگاہ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ کسان محض کھیتی باڑی میں مصروف عمل نہیں ہے بلکہ ملک تعمیر میں بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اپنے ملک کی دولت غیروں کے ہاتھوں میں جاتے دیکھ کر یہ غم کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب اپنا ملک یہ دشمنوں کے ہاتھوں میں جاتا دیکھتا ہے تو اس کی تکلیف بڑھتی ہے۔یوں اسے احساس ہوتا ہے کہ تاریکیوں اور بد نصیبوں سے اس کی راہ جدا نہیں ہونے والی ہے۔ اس کی مسلسل نگاہ فاقہ کشی کے شکار بچوں کے دھندلے چہروں اور آنسوؤں بھری آنکھوں پہ ہے۔

پھر رہا ہے خوں چکاں آنکھوں کے نیچے بار بار
گھر کی نا امید دیوی کا شباب سوگوار
سوچتا جاتا ہے کن آنکھوں سے دیکھا جائے گا
بے ردا بیوی کا سر بچوں کا منہ اترا ہوا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس کسان کی خون برساتی آنکھوں میں اپنے گھر یعنی ملک کی ناامید حالت اور سوگواری کی تصویر آنکھوں کے سامنے بار بار لہرا جاتی ہے۔ وہ مسلسل یہ سوچتا ہے کہ وہ اپنی بے چادر بیوی اور پریشان حال بچوں کا اترا ہوا منھ کن آنکھوں سے دیکھے گا۔

سیم و زر نان و نمک آب و غذا کچھ بھی نہیں
گھر میں اک خاموش ماتم کے سوا کچھ بھی نہیں
ایک دل اور یہ ہجوم سوگواری ہائے ہائے
یہ ستم اے سنگ دل سرمایہ داری ہائے ہائے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس کے پاس دولت، روٹی ، نمک ، پانی ، خوراک کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ اس کسان کے گھر ایک خاموش ماتم کے علاوہ کچھ بھی موجود نہیں ہے۔کسان ایک ایسا بہادر کردار ہے کہ وہ ایک اکیلا انسان ہے مگر اس کے گرد پریشان حال اور سوگوار لوگوں کا ایک ہجوم گردش کرتا دکھائی دیتی ہے۔یہ سب ظلم و ستم سرمایہ دارانہ نظام کی دین ہے جس نے انسان کو مشینی زندگی میں داخل کر دیا ہے۔

تیری آنکھوں میں ہیں غلطاں وہ شقاوت کے شرار
جن کے آگے خنجر چنگیز کی مڑتی ہے دھار
بیکسوں کے خون میں ڈوبے ہوئے ہیں تیرے ہات
کیا چبا ڈالے گی او کمبخت ساری کائنات

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے کسان تمھاری آنکھوں میں بد بختی اور بد قسمتی کے شرارے بھڑک رہے ہیں۔یہ شرارے اس قدر طاقت رکھتے ہیں کہ گویا ان کے سامنے پرویز جیسے سورما کی تلوار کی دھار بھی مڑ جائے گی۔اس کے ہاتھ بیکسوں کے خون میں لت پت ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ ساری کائنات کو چبا ڈالے گا۔

ظلم اور اتنا کوئی حد بھی ہے اس طوفان کی
بوٹیاں ہیں تیرے جبڑوں میں غریب انسان کی
دیکھ کر تیرے ستم اے حامئ امن و اماں
گرگ رہ جاتے ہیں دانتوں میں دبا کر انگلیاں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ظلم کے اس طوفان کی کوئی حد نہیں ہے۔ یہ چنگیز جیسا ظالم حکمران جس کے جبڑوں میں غریب کسانوں کی بوٹیاں پھنسی ہوئیں ہیں یعنی وہ ایک طرح سے انھیں نوچ کھاتا تھا۔ چنگیز کے یہ مظالم دیکھ کر بڑے بڑے بھڑیے نما درندنے بھی مارے خوف اور حیرانی کے اپنی انگلیاں اپنے دانتوں تلے چبا لیتے ہیں۔

ادعائے پیروی دین و ایماں اور تو
دیکھ اپنی کہنیاں جن سے ٹپکتا ہے لہو
ہاں سنبھل جا اب کہ زہرے اہل دل کے آب ہیں
کتنے طوفان تیری کشتی کے لیے بے تاب ہیں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ تم جس دین اور ایمان کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہو اپنی کہنیوں کو دیکھو کو جن سے لہو ٹپکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اب سنبھل جاؤ کے لوگوں کے دل زہر سے بھر چکے ہیں اور اے کسان تمھاری کشتی کے لیے کئی طرح کے طوفان سر اٹھا چکے ہیں جو تمھاری منزل کے لیے مشکل کا باعث بنیں گے۔