نظم تنہائی کی تشریح

0

فیض احمد فیض کی نظم “تنہائی” ان کے شعری مجموعے “نقشِ فریادی” سے لی گئی ہے۔اگرچہ 9 مصرعوں پہ مشتمل یہ ایک مختصر سی نظم ہے مگر فیض احمد فیض کی اس نظم میں خیال کی گہرائی موجود ہے۔یہ نظم،نظم معریٰ یا غیر مقفیٰ نظم کی بہترین مثال ہے۔ اس نظم میں شاعر نے تنہائی کے فلسفے کو گہرائی سے پیش کیا ہے۔

پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا

اس نظم میں شاعر احساسِ تنہائی کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے ناتواں دل تم جس کا انتظار آنکھوں میں سجائے ہوئے ہو وہ نہیں آیا اور نہ ہی وہ آئے گا۔ ممکن ہے کہ وہ کسی اور راستے کا مسافر ہوگا اور اسی طرف چلا گیا ہو گا۔اس کا انتظار اب ختم کر دینا چاہیے کہ اب تو رات بھی ختم ہونے کے قریب ہے اور تاروں کا غبار آسمان پہ بکھر کر روشنی پھیلا رہا ہے یعنی صبح کا اجالا ہونے کو ہے۔محلوں میں رات بھر جلنے والے چراغ اب لڑکھڑا کر اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ وہ بجھنے کے قریب ہیں۔ہر ایک راستہ بھی انتظار کرنے کے بعد تھک کر اب سو چکا ہے۔وہ جو رات کے کسی پہر آ رہا تھا اب اس کے قدموں کے نشان بھی اجنبی لوگوں کے قدموں کے نشانوں نے دھندلا دیے ہیں۔اس لیے روشنیوں کو بجھا کر اس کی جگہ شراب پینے کے برتن اور شراب کی مقدار کو بڑھا دو(محبوب کے نہ آنے کے غم کو دور کرنے کے لیے) تم اپنے بے خواب دروازوں کو بند کر لو کیونکہ اب یہاں پہ نہ تو کوئی آیا ہے اور نہ ہی کسی نے آنا ہے۔ انتظار بے سود ہے۔