نظم آثارِسلف کا خلاصہ

0

آثار سلف اسماعیل میرٹھی کی نظم ہے جسے مثمن (وہ نظم جس میں آٹھ مصرعے ہوتے ہیں) کی ہیت میں تخلیق کیا گیا ہے۔ اس نظم میں کل 70 بند شامل ہیں۔ نظم چونکہ مثمن ہیت میں ہے اس لیے اس کے اشعار کی تعداد 280 ہے۔اس نظم میں انھوں نے قلعہ اکبر سے منسلک ادیبوں ، شاعروں ، بادشاہوں اور بزرگان دین کی سرگرمیوں اور اس سلطنت کے زوال پذیر ہونے کا نقشہ شعری انداز میں کھینچا ہے۔

یہ مثنوی 1896ء میں نامی پریس میرٹھ سے شائع ہوئی۔اس نظم کا آغاز شاعر نے ایک شکستہ عمارت کا نقشہ دکھاتے ہوئے کیا ہے۔ شاعر نے دور گزشتہ کی عمارت کے نشانات دیکھاتے ہوئے کہا کہ اس سے عمارت کی شان و شوکت اور دبدبے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ وہ ہے کہ جہاں کبھی جمشید کا ہم مرتبہ اور اکبر بادشاہ کس شان و شوکت والا پرچم لہراتا تھا۔ یہاں پر اکبر کی شہنشاہی کا نقارہ بجا کرتا تھا۔

یہ بلند و بالا قلعہ کسی مضبوط سورما کی طرح سے تن کہ کھڑا ہے جس نے ایک خندق کے ذریعے سے فتنوں کو آگے بڑھنے سے روک رکھا ہو۔اس پورے قلعہ کی تعمیر بھی اچھے اور موزوں طریقے سے کی گئی ہے لیکن اس کا بیرونی دروازہ اپنی الگ شان و شوکت رکھتا ہے۔اس قلعے کے بیرونی دروازے کی تعریف شعراء نے بھی بیان کی ہے اور اسے فریدون کے محل سے جا ملایا ہے۔

یہ آسمان کی بلندیوں کے ہم پلہ ہے۔ اس کی محراب کو جس طرح سے بنایا گیا ہے اس سے ایک مضمون ٹپکتا ہے کہ اس کا کجاوہ بلند اور سونے کے حوض سے مشابہت رکھتا ہے۔ اور اس دروازے کی رونق سو طرح کی تزئین و آرائش اور یہاں سے گزرنے والے جلوسوں کی مدد سے تھی۔کبھی اس محل میں اکبر جیسا سوچوں اور غور وفکر کو مجتمع کرنے والا شخص یہاں پہ موجود تھا بلکہ اس کا رعب و دبدبہ ہر جگہ چھایا ہوا تھا۔

اکبر کے علاوہ پہ شاہ جہان جیسے بلند مرتبہ شخص کی رہائش بھی رہا ہے۔یہاں پہ اس وقت کے عالی مرتبہ اور نامور لوگوں کا مجمہ لگتا تھا۔یہ محل بادشاہوں کی جشن گاہ تھا۔اس بلند مرتبہ محل میں جس جگہ عام دربار سجتا تھا آئینے کی طرح سے اس کے درو دیوار صاف و شفاف تھے۔ اس کی چھت کو سونے سے ملمع کیا گیا تھا جو کہ ایک چمن زار کی مانند لگتا تھا۔جبکہ اس جگہ سنگ مر مر کا فرش بچھایا گیا تھا جس سے روشنیوں کے جلوے پھوٹتے تھے۔

محل قاری سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ جب تک قدرت کو میرا عزت ومرتبہ منظور تھا اس وقت تک زمانے میں میرے جلال کا منشور نافذ رہا۔دور دراز ے آنے والے قاصدوں کے ذریعے سے اس محل کی شہرت دور دور تک پہنچی۔ یوں ہر سمت اس محل کا رعب و دبدبہ طاری تھا اور اس کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے بڑے بڑے سرادر بھی اس کے سامنے جھکتے تھے۔

مگر اب اس محل میں وہ بڑی اور قابل شخصیات نہ رہیں اور ان خوانین کو وہیں دفن کیا گیا۔یہاں کے دیوان خاص کی پاکیزہ عمارت جہاں پہ بادشاہی اور وزرات کے عہدے رکھنے والے روشن ستارے اپنی چمک دکھاتے تھے۔ اس جگہ پہ انتظام و سیاست کی مہارتیں نہ صرف بڑھتی تھیں بلکہ یہاں پہ بادشاہت کے طویل ہونے اور نئے ملکوں کو فتح کرنے کی خوش خبریاں بھی ملا کرتی تھیں۔

یہاں پہ اب ان کی کی گئی یہ تمام محنت اب بالکل ضائع ہو چکی ہے اور اب سیاح اس جگہ کی زیارت کرنے کی غرض سے آتے ہیں۔ اب ان کی قبروں کے کتبے ان سے سخن فہم لوگوں سے یوں بات کرتے ہیں کہ پہلے راز رکھنے والے اور بڑے بڑے تاج وروں جا یہی ذخیرہ ہوا کرتا تھا۔ اب اس محل کی رونق لٹنے کے غم میں لوگ سیاہ پوش ہو چکے ہیں۔اس محل کے رنگ اور کے آٹھ برج اور ان کا خوبصورت انداز اپنی صفات میں اگر یہ بے مثال ہے تو اپنی اپنی رفعت ہو بلندی میں بھی بلند مرتبہ ہیں۔

یہاں پہ ہر وقت سریلی آواز رکھنے اور خوش رکھنے والوں کی گونج سنائی دیتی تھی۔ کبھی یہ اپنی آواز کے جادو میں ہند کی سر زمین کے چھپے راز آشکار کرتے تھے تو کبھی شیراز کے رہنے والوں کے نغمے بیان کرتے۔ کوئی بھی اپنے جاہ و حشم پر غرور نہ کرے کیونکہ جن روشن لوگوں کی مدد سے اس برج کو منور کیا گیا تھا اب ان کے بستر اور مقبرے مٹی کی تہوں تلے بچھا دیے گئے ہیں۔اس عہد کی عمارات اور رونقیں اب کچھی بھی باقی نہیں ہے کہ نہ تو وہ بلوریں حوض ہیں اور نہ ان کی رونقیں قائم ہیں۔

انسان معلوم کرنے سے قاصر ہے کہ جو ہنگامہ گزرا ہے وہ کوئی افسانہ ہے کہ خواب جھرکوں کے درشن، عدل کی زنجیر سب اسی جگہ کی دین ہے اور اس ویران عمارے پہ اب بھی مورخ کی گہری نظر ہے۔یہاں کی مسجد ، زنانہ حمام اور حوض یہاں کی موجود سب رونقیں کہاں کھو گئی ہیں۔جودھپوری بائی کا مرکز یہ محفل جا کے صحنوں میں اب گھاس اور دیواروں پہ کائی جم چکی ہے۔یہاں خوبصورت پھولوں کی جگہ اب ابابیلوں کا بسیرا ہے۔یہاں کی خوبصورت مسجد جو کہ اس محفل میں دلہن کی حیثیت رکھتی تھی جو اپنی خوبیوں اور فن میں سادگی کی بنا پہ یکتہ و یگانہ تھی۔

اس کے محراب اور دروازے کھڑکیاں سب نور کا مسکن ہوا کرتے تھے۔ جبکہ اس کے دالان موتیوں کی طرح چمکدار اور آنکھ دودھ کی طرح سفید ہوتا تھا۔ اس کو دیکھ کر انسان یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ آیا یہ کوئی کافود کا تودہ ہے یا ہیروں کی کان ہے۔ اس جگہ پہ سنگ مرمر چاند اور سورج جیسا نور جھلک دکھاتا ہے۔اس جگہ پہ گویا کوئی شمع، فانوس یا دیے جیسی روشنی موجود نہ تھی مگر اس جگہ نے محسوس ہوتا ہے کہ سورج کی روشنی کے چشمے سے پانی پیا ہو۔

اب اس مسجد میں اب نہ تو کوئی تسبیح پڑھی جاتی ہے نہ ہی تکبیر اور اذان کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ بس یہ اب تنہائی کا ایک کونہ بن چکا ہے کہ جہاں پہ ایک بھاری تالا پڑا ہوا ہو۔کبھی اس جگہ پہ وزیروں امیروں اور مشاورت کرنے والوں کا ہجوم ہوتا تھا مگر اب بمشکل دو چار نمازی میسر ہوں گے۔جس دن مغلیہ عہد کی تلوار کو زنگ لگا اور وہ کند ہوئی اس روز جاٹوں نے تمام تخت و تاج لوٹ لیا۔

اس وقت انگریزوں کا لشکر جو کہ ایک پہرے دار کی طرح یہاں پہ داخل ہوا تھا اس نے بھی ایک مخالف سمت سے اس محل پہ دھاوا بول دیا۔اس وقت یہ بارہ ستارے اور اس ایوان کے درو دیوار ان کے برسائے جانے والے گولوں کی تاب نہ لا سکے اور ٹوٹ گئے۔ کیوں کہ زمانے کی گردش کی تو کوئی بھی تاب نہیں لا سکتا ہے پھر اکبر کے قلعے کو بھلا کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے تھے کہ وہ زمانے کی گردش سے محفوظ رہ پاتا۔

پھر ایک وقت آیا کہ لٹیرے حکمران اس جانب متوجہ ہوئے اور انھوں نے آثار قدیمہ کے نام پہ اس محل کی مرمت کروائی۔جس کی وجہ سے مغلیہ عہد کی یہ نشانی آج محفوظ ہے۔شاعر نے دربار کی رونقوں کو موجودہ دور میں معدوم ہوتے بھی دکھایا ہے کہ ایک وقت میں بادشاہ کی شہرت کھانے کی فکر ختم کرنے اور انصاف کا ذریعہ تھی مگر اب محض لوگ ان کی خبر پہ زیارت کی غرض سے آتے ہیں۔وہ بادشاہ جس کی شان و شوکت نے سکندر اور دارا جیسے حکمرانوں کی چمک کو ماند کر دیا تھا اب لوگ اسے بھول چکے ہیں۔لیکن شاعر کہتا ہے کہ اگر تمھارا قلعہ پرانا ہو بھی چکا ہے تو اس میں غم کی کیا بات ہے۔

اکبر کی شہرت اس کے قلعوں سے بھی کئی گنا بڑی ہے۔ ہر فرقے کے لوگ اس کی محبت کا دم بھرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے تاریخ دان بھی اس کا ذکر کرتے ہوئے اکبر اعظم جیسے القابات سے یاد کرتے ہیں۔ ہندوستان کے تمان بادشاہوں میں اکبر کا رتبہ سب سے بلند ہے۔اور یہ فخر بادشاہ کے لیے کسی طور بھی کم نہیں ہے۔ اگر اکبر کے عہد کی تعمیرات خاک میں بھی مل جائیں تو اس کی عظمت و محبت کا کتبہ ہمارے دلوں پہ تحریر کردہ ہے۔

شاعر قوم کے نوجوانوں کو بھی غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تم دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہو تو اسے کام لاؤ اور پرانی عمارات کو دیکھنے والی آنکھ کھولو وہ عینک لگاؤ۔ اپنے اردگرد عبرت کی نگاہ کو دوڑاؤ اور اپنے اندر شوق اور جستجو کی ایک شمع روشن کرو۔ اگر تم نے اعزازات کے خزانے کو حاصل کرنا ہے تو یہ ٹوٹی ہوئی دیواریں اور ان پہ بنے ہوئے نقش و نگار ان کو غور سے دیکھو یہ تمھیں آنے والے وقت کا پتہ دیتے ہیں اور اس منزل کا راستہ دکھاتے ہیں۔تمھارے اجداد کی عادات میں نہ تو خوشامد کرنا شامل تھا اور نہ ہی کسی کی غلامی کرنا۔

ان کے عہد کے رسم ورواج اود طور طریقوں میں کوئی برائی نہ تھی۔ اور عقل و شعور کی مجالس میں بھی ان کا ایک بڑا نام و مرتبہ تھا۔ اور ملکوں کی تدابیر کرنے میں اور صدارت کی حیثیت رکھتے تھے۔ اگرچہ فتح یاب کرنے اور کامیابیاں دینے میں سکندر اعظم سے بڑا ان کا مرتبہ تھا۔ جبکہ دانائی اور عقل و حکمت میں وہ ارسطو کے بھی باپ تھے۔ان لوگوں کو حصولِ علم کا کس قدر شوق تھا اور وہ اس کے کیا کیا جتن نہ کرتے تھے۔ حصول علم کے جنون کی مثال ان کے لیے ایسی تھی کہ اگر لیلی علم ہوتی تو وہ مجنوں کی مانند اس کے دیوانے تھے۔

وہ نہ تو محنت کرنے سے کتراتے ہیں تھے اور نہ ہی مشکلات اور مصیبتوں سے تھکتے تھے۔وہ ہر وقت کوشش کرنے میں مشغول رہتے اور بجلی جیسی کڑک رکھتے تھے۔وہ نہ تو وہ عیش و عشرت کی غلامی کرتے تھے اور نہ ہی آرام طلب تھے۔انھیں دنیا کا کوئی کام نہ تو چھوٹا بڑا لگتا تھا اور نہ ہی وہ اس سے ہمت ہارتے تھے۔ان کی عادات میں بے غیرتی ہر گز شامل نہ تھی۔

شاہین کی بلند پروازی جیسی ہمت اور شہباز جیسی بہادری کی صفات رکھتے تھے۔ اور ان کی بلندی ان کا وقار اور عزت تھی جس پہ یہ پرواز کرتے تھے۔رعب اور دبدبے میں جنگل کے شیر والی صفات رکھتے تھے اور عزت کرلیے اپنی جان تک قربان کرنے سے گریز نہ کرتے تھے ان کا مقابلہ عیش و عشرت کی محافل سے تھا۔ یہ نہ تو محںت کرنے سے گھبراتے تھے اور نہ ہی مشقت سے بھاگتے تھے۔

رفتہ رفتہ وہ لوگ بھی گمراہی کا شکار ہونے لگے۔ جو ان کی رہنمائی کرنے چلے تھے وہ خود گمراہی کا شکار تھے۔ نہ تو وہ ان حالات سے واقف تھے اور نہ ہی ان مقامات کو جانتے تھے۔ جس کی وجہ سے شیروں کی جگہ پہ لومڑیوں کا گلہ جمع ہو گیا۔غزنی کے بہادر اور فتح یاب لوگ تھے یا پھر سمر کند اور بخارا کے شہسوار تھے سب ہندوستان کی سر زمین میں خاک میں جا سوئے۔اگر ان میں سے کچھ لوگ بھی دوبارہ زندہ ہو جاتے تو پہلے ہلے میں ہی وہ خوش و خرم ہو جاتے اور اس بات سے پھولے نہ سماتے کہ ہماری یہ اولاد ہے۔

مگر جب اس اولاد کے یہ برے فعل اور برے قول دیکھتے تو واپس لا حول ولا پڑھتے ہوئے یہ اپنی قبروں میں جا لیٹتے۔یہ بے راہ روی کا شکار ہو چکے تھے۔شاعر کہتا ہے کہ ان کے آج کا حال تو کل سے بھی بدتر نظر آتا ہے۔ اگر کوئی غریب ہے تو اس نے دھوکہ دہی کا پیشہ اپنا لیا ہوا ہے انھیں اپنے ایمان کے خراب ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔شاعر کہتا ہے کہ ان لوگوں نے اپنی بہادری کو دشمنیوں کی نظر اور اپنی طاقت کو حسد کی نظر کر دیا۔

یہی نہیں بلکہ ان کی دولت بھی عیاشیوں کی نظر ہوئی۔ اب زمانے میں ترقی کا صور پھونکا جا چکا ہے۔ ہم ایک غفلت میں ڈوںے ہوئے تھے اس سے جاگنے پہ خود پہ غور کیا تو خود کو وہ پایا کہ جن کو عیش ، ناموری اور دولت کی طلب ہے۔اب اگرچہ ہمارے پاس کوئی تدبیر کوئی چارہ باقی نہیں ہے نہ اپنی غلطیوں کا کوئی کفارہ ہے۔مگرکوئی کام بھی مشکل نہیں ہے اگر اس کو دل سے کرنے کی ٹھان لی جائے تو وہ کام جو صدیوں میں ہوتا ہے اںسان اپنے مصمم ارادے سے اسے منٹوں میں مکمل کر لیتا ہے۔کیوں کہ بغیر کوشش اور اور جدوجہد کے کچھ بھی کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔

سب کچھ کوشش کا ثمر ہے۔خاک چھانے بغیر دولت کسے نصیب ہوئی ہے۔ بغیر محنت اور کوشش کہ اس دنیا میں علم۔کسے نصیب ہوا ہے۔ہر جگہ پہ ہمیشہ کوشش ہی کا بول بالا ہوا ہے۔ کوشش اگرچہ جادو کا ایک گولا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ترقی اور فتوحات حاصل کرنے کے لیے بھی کوشش کا ہی راستہ رکھا ہے۔اج کے دور میں تعلیم کا سرمایہ لوٹ مار کا سامان ہے۔ مگر تمھیں یہ ثابت کرنا ہے کہ تم کسی سے کم نہیں اور میدان چھوڑ کہ نہ بھاگو گے۔آخر میں شاعر کہتا ہے کہ یہ جنگ تلوار یا توپ کی نہیں ہے اور نہ ہی یہ جنگ دولت اور جان کو مشکل میں ڈالنے والی ہے بلکہ دراصل یہ جنگ اخلاق اور علم و ہنر کی لڑائی ہے۔

یہ جنگ عمل کرنے اور سیکھنے اور بہترین نظر کی جنگ ہے۔ اس جنگ میں ہر انسان میں ہر انسان کی خوشحالی کا راز پوشیدہ ہے۔اس میں اگر ملکوں کی آزادی کا راز پے تو ساتھ ہی گھروں کے آباد ہونے کی خبر بھی ہے۔یہ جنگ رکھ رکھاؤ اور مروت کے اصولوں کے منافی نہیں ہے بلکہ اس جنگل کی بدولت تو گزرے ہوؤں کی معافی ممکن ہے۔اس جنگ سے ارادوں کی بلندی ممکن ہے کہ کوئی آپ سے آگے ہے تو آپ کو اس سے آگے جانا ہے۔

اس جنگ میں تعصب اور کینہ کی کوئی جگہ نہیں ہے بلکہ حسد و بغض کی بجائے آپ کے سادہ افعال زیادہ اہم ہیں۔تم مردانہ وار لڑتے ہوئے اپنی عزت اور غیرت کے دل میں ایک نئی روح پھونکو اور اپنے ارادوں کو اس قدر مضبوط کر لو کہ تمھارے قدم ہر گز نہ ڈگمگائیں کیونکہ مردوں کو کبھی ذلت برداشت نہیں ہوتی ہے۔ تم آسمان پہ ایک روشن تارے بن کر چمکو تمھارے آباؤ اجداد تو وہ ہیں جنھوں نے بنگال اور دکن کو فتح کیا تو تم بھی اپنے علم اور عمل کے میدانوں کے فاتح بنو۔

وہ قومیں جو علم کی دولت سے محروم ہیں ان کا حال بھی آپ کو معلوم ہونا چاہیے۔ ایسی قوموں کو نہ دولت میسر ہے اور نہ ہی ان کے پاس عزت موجود ہے۔ ان کے اقوال اگر جھوٹے اور بے بنیاد ہیں تو ان کے ارداے بھی ناپاک ہیں۔ جبکہ ہنر مند لوگوں کی اس کرہ ارض پہ دھوم مچی ہوئی ہے۔سب لوگ ان لوگوں کے ماتحت ہیں ۔ دنیا میں اسی قوم کا باغ پھولا پھلا ہے کہ جو قوم عقلمندی اور ہنر میں اپنی مثال آپ ہیں۔تم اپنی غلطیوں کو سنوارتے ہوئے اور مشکلات سے نہ گھبرا کر اپنی ہمت کو بلند رکھنا اور فتح کے جھنڈے گاڑنے ہیں۔