نظم ساقی نامہ تشریح

0

ساقی نامہ نظم علامہ محمد اقبال کے شعری مجموعے “بال جبرئیل” کی طویل ترین نظم ہے۔یہ نظم 1935ء میں تخلیق ہوئی اور کل سات (7) بندوں اور ننانوے اشعار پر مشتمل ہے۔ اس نظم میں شاعر نے رازِ حیات اور انسانی خودی کے فلسفے کو بیان کیا ہے۔

ہوا خیمہ زن کاروانِ بہار
ارم بن گیا دامنِ کوہسار
گل و نرگس و سوسن و نسترن
شہیدِ ازل لالہ خونیں کفن
جہاں چھپ گیا پردہَ رنگ میں
لہو کی ہے گردش رگِ سنگ میں
فضا نیلی نیلی، ہوا میں سرور
ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور
وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی
اٹکتی ، لچکتی، سرکتی ہوئی
اچھلتی، پھسلتی، سنبھلتی ہوئی
بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی
رُکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ
ذرا دیکھ اے ساقیِ لالہ فام
سناتی ہے یہ زندگی کا پیام
پلا دے مجھے وہ مئے پردہ سوز
کہ آتی نہیں فصلِ گل روز روز
وہ مے جس سے روشن ضمیرِ حیات
وہ مے جس سے ہے مستیِ کائنات
وہ مے جس میں ہے سوز و سازِ ازل
وہ مے جس سے کھلتا ہے رازِ ازل
اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ موسم بہار کی آمد آمد ہے اور پہاڑوں کے دامن میں اس طرح سے رنگ برنگے پھول نشوونما پا رہے ہیں کہ ان کو دیکھ کر باغ ارم کا گمان ہوتا ہے۔ اس باغ ارم میں گلاب، نرگس ، سوسن، و نسرین کے علاوہ لالے کے پھول اپنی بہار دکھا رہے ہیں ۔ ان کا وجود نگاہوں کو خیرہ کیے دیتا ہے۔ساری کائنات انہی رنگارنگ پھولوں میں چھپ کر رہ گئی ہے۔ ان کے حسن نے اس کو مسرور و مسحور کر دیا ہے۔ بہار کے پھولوں نے چار سو رنگ و نور پھیلا رکھا ہے۔اس منظر سے ساری فضا رنگ برنگی ہو کر رہ گئی ہے۔ پھولوں کی مہک اور عطربیز ہوائیں دل و نظر کو سرور بخش رہی ہیں۔ انسان تو انسان، پرندے تک جھومتے ہوئے اپنے آشیانوں سے باہر نکل کر اس کیفیت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

اس موسم میں پہاڑوں میں سے برآمد ہونے والے ندی نالوں کا یہ عالم ہے کہ کبھی تو وہ دھیرے دھیرے اور خراماں خراماں رواں دواں ہوتے ہیں اور کبھی رکتے ہوئے اور سرسراتے ہوئے گزر رہے ہیں ۔یہی نہیں ندیاں ان پہاڑوں سے اچھلتی اور اچھل کر سنبھلتی ہوئی آ رہی ہیں۔ وہ پیچ دار پہاڑی راستے سے بل کھاتے ہوئے گزر کر آتی ہیں۔ ندیاں اس قدرتیز رفتاری سے بہتی ہوئی آ رہی ہیں کہ اگر تیز روانی کے سبب جب ان ندی نالوں کی راہ میں کوئی پتھر آ جائے تو ان کو ریزہ ریزہ کر ڈالتے ہیں۔ اس لمحے یوں لگتا ہے جیسے وہ پہاڑوں کے دل چیر رہے ہوں۔

اقبال اپنے موضوع کے بنیادی کردار ساقی سے مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اور باتوں کے علاوہ اس جانب بھی توجہ دے کہ زندگی تجھے کیا پیغام دے رہی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اے ساقی! فصل گل اور موسم بہار کا مخصوص وقت ہوتا ہے۔ اس سے حقیقی طور پر لطف اندوز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ تو مجھے ایسا نشہ آور مشروب دے جو اس پردے کو جلا کر خاک کر دے کہ جو میرے اور تیرے درمیان حائل ہیں۔ مجھے وہ نشہ پلا جو ضمیر حیات کی روشنی اور تازگی بخشتا ہے اور جس کے سرور سے ساری کائنات و جد میں آ جاتی ہے۔ ایسا نشہ جو آغاز کائنات کے سوز و ساز سے متعلق ہے یہی نہیں بلکہ عشق حقیقی کے حوالے سے آغاز کائنات کے بھید کھولنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اے ساقی! جب تو راز عشق سے پردہ اٹھا دے گا تو مجھ ایسا کمزور و ناتواں شخص بھی اپنے انتہائی طاقتور دشمن سے اس طرح روبرو ہو سکے گا جس طرح کہ ایک ننھی چڑیا عقاب کے مقابلے پر سر دھڑ کی بازی لگا دے۔

زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے، ساز بدلے گئے
ہُوا اس طرح فاش رازِ فرنگ
کہ حیرت میں ہے شیشہ بازِ فرنگ
پرانی سیاست گری خوار ہے
ز میں میر و سلطاں سے بیزار ہے
گیا دَور سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
دلِ طورِ سینا و فاراں دو نیم
تجلی کا پھر منتظر ہے کلیم
مسلماں ہے توحید میں گرم جوش
مگر دل ابھی تک ہے زُنّار پوش
تمدّن، تصوف، شریعت، کلام
بتانِ عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اُمت روایات میں کھو گئی
لبھاتا ہے دل کو کلامِ خطیب
مگر لذتِ شوق سے بے نصیب
بیاں اس کا منطق سے سُلجھا ہوا
لغت کے بکھیڑوں میں اُلجھا ہوا
وہ صوفی کہ تھا خدمتِ حق میں مرد
محبت میں یکتا، حمیّت میں فرد
عجم کے خیالات میں کھو گیا
یہ سالک مقامات میں کھو گیا
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

اس بند میں علامہ اقبال نے اپنے عہد میں عالمی سطح پر جن تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ان کو اپنے افکار و تجربات کی روشنی میں بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ آج کا عہد انقلابی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ جس طرح کسی گیت کے لیے نئے راگ اور نئے سازوں سے کام لے کر موسیقار روایت سے ہٹ کر نئی دھن ترتیب دیتا ہے اسی طرح معاشرتی سطح پر تمام دنیا میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ان انقلابی تبدیلیوں کے سبب یورپ کا راز کھل چکا ہے کہ یورپ اپنے استعماری نظام کو زندہ رکھنے کے لیے کس طرح دوسرے ممالک کا عیاری اور مکاری کے ساتھ استحصال کرتا ہے۔

اس راز کے اچانک افشاء ہونے سے خود استعمار پسند یورپی ممالک حیرت زدہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان بدلتے ہوئے حالات کی بدولت سیاست کے قدیم ہتھکنڈے ناکارہ اور ذلیل و خوار ہو کر رہ گئے ہیں اور پوری دنیا بادشاہی ملوکیت ، آمریت سے بیزار ہو چکی۔ اب کوئی بھی اس فرسودہ نظام کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔سرمایہ دار کا استحصالی نظام کا خاتمہ ہوا۔ایک ایسے مداری کی طرح جو تماشا دکھاتا ہے اور تماشائیوں سے اس کا معاوضہ وصول کر کے اپنی راہ لیتا ہے۔مغرب کے مفاد میں استعمال ہونے والے اہل چین اور دیگر لوگ شعوری سطح پر بیدار ہونے لگے ہیں اور اپنے حقوق کے حصول کی خاطر مغرب کے خلاف نبرد آزمائی کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ یہی کیفیت ہمالہ کے نواحات کی ہے۔ یعنی ہندوستان اوراس کے قرب کے ممالک میں بھی استعماریت سے آزادی کی لہریں اٹھ رہی ہیں۔

جس طرح کوہ طور پر حضرت موسیٰ اور فاران کی چوٹی پر حضور سرور کائنات نے معجز نمائی کی آج بھی پوری ملت اس طرح کے معجزوں کی منتظر ہے۔ خود کسی قسم کی عملی جدوجہد سے گریزاں ہے۔مسلمان توحید الہٰی کے جذبے سے سر شار تو ہے لیکن غلامی کے دور میں اس کے عقائد میں جس طرح سے ردوبدل ہوا آج بھی وہ اس کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔مسلمانوں کا معاشرت اور رہن سہن ہی نہیں تصوف، شریعت اور علم کلام غرض آج کے مسلمانوں میں اسلام کے نظریات کی بجائے عجمی معتقدات کا رنگ زیادہ غالب ہے۔اس سب کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اسلام کی حقیقی تعلیم، فضول اور لغو معاملات سے ہم آہنگ ہو کر رہ گئی ہے اور پوری ملت اسلامیہ جو انقلابی نظریات کی آئینہ دار تھی اب وہ محض توہمی روایات میں دب کر رہ گئی ہے۔

بے شک مسلمان علماء اور واعظین کی پرزور خطابت سننے والوں کے دل کو تو لبھا لیتی ہے مگر ان تقریروں میں حقیقت کی وہ چاشنی موجود نہیں ہوتی جو قلب و روح کو منور کرتی ہے۔ان علما کا واعظ منطق اور فلسفے کے علوم سے آراستہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عام عوام کی سمجھ سے باہر ہوتا ہے۔ایک وقت تھا کہ اسلام کا مرد حق وہ تھا کہ اس کے دل میں بندگانِ خدا سے بھی بے پناہ جذبہ محبت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ غیرت مندی اور جرات اس کے کردار کی بنیادی خصوصیت ہوتی تھی۔لیکن موجود دور میں وہ صوفی اب غیر اسلامی اور غیر حقیقی روایات میں گم ہو کر رہ گیا ہے اور اپنی روایات سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ در حقیقت مسلمانوں کے دلوں میں عشق حقیقی کا جو شعلہ روشن تھا وہ بجھ چکا ہے اور عملاً ملت اسلامیہ راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گئی ہے۔

شرابِ کہن پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا
مجھے عشق کے پَر لگا کر اڑا
مری خاک جگنو بنا کر اڑا
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
ہری شاخِ ملت ترے نم سے ہے
نفس اس بدن میں ترے دم سے ہے
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دلِ مرتضیٰ سوزِ صدیق دے
جگر سے وہی تیر پھر پار کر
تمنّا کو سینوں میں بیدار کر
ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر
زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عشق، میری نظر بخش دے
مری ناوَ گرداب سے پار کر
یہ ثابت ہے تو اس کو سیّار کر
بتا مجھ کو اسرارِ مرگ و حیات
کہ تیری نگاہوں میں ہے کائنات
مرے دیدہَ تر کی بے خوابیاں
مرے دل کی پوشیدہ بیتابیاں
مرے نالہَ نیم شب کا نیاز
مری خلوت و انجمن کا گداز
امنگیں مری، آرزوئیں مری
امیدیں مری، جستجوئیں مری
مری فطرت آئینہ روزگار
غزالانِ افکار کا مرغزار
مرا دل مری رزم گاہِ حیات
گمانوں کے لشکر، یقیں کا ثبات
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
مرے قافلے میں لُٹا دے اسے
لٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے

اس بند میں شاعر ساقی کو کہتا ہے کہ مجھے ایک مرتبہ پھر سے عشق کا پرانا جام پلادے۔ درحقیقت شاعر رب ذوالجلال سے درخواست کرتے ہیں کہ خداوندا! مجھے ایک بار پھر عشق محمد مصطفی کی دولت سے نواز دے کہ یہی عہد قدیم سے روز حشر تک میرا سرمایہ حیات اور جزو ایمان ہے۔ عشق حقیقی کی انتہائی معراج میرے قلب و روح کا سرمایہ ہو اور میری خاک کا ہر ذرہ جگنو کی طرح پرواز کرے۔ مسلمانوں کو ذہنی غلامی سے آزاد کر کے ان میں انقلاب برپا کر دے تا کہ وہ غیروں کی غلامی سے آزاد ہو جائیں۔جبکہ اس قوم کے نوجوانوں کو وہ دینی اور انسانی سطح پر اپنے آباؤ اجداد سے بھی بازی لے جائیں۔مسلمان قوم تیری عنایات کے طفیل ہی زندہ و پائندہ ہے اور تیرے ہی لطف و کرم کے سبب تمام تر مشکلات کے باوجود اسے فروغ حاصل ہے۔

اے اللہ مجھے ایسی توفیق دے کہ علی مرتضیٰ جیسا جرا ء ت ، ہمت اور حوصلہ سے بھرپور دل اور ابوبکر صدیق جیسا سوز و گداز حاصل ہو۔ یہی وہ عوامل ہیں جو کامیابی کے ضامن بن سکتے ہیں۔ اے اللہ ملت کے قلب و روح کو پھر سے عشق رسول اللہ ﷺ سے ہمکنار کر اور منزل تک رسائی کے جذبے سے پھر اسے سرشار کردے۔اے اللہ اس آسمان کے ستارے ہمیشہ سلامت رہیں اور دنیا میں وہ لوگ جو راتوں کی نیندیں قربان کر کے تیری بارگاہ میں سجدہ نیاز بجا لاتے ہیں وہ بھی زندہ سلامت رہیں۔ شاعر دعائیہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ملت کے نوجوانوں کو سوز و گداز سے آشنا کر اور جس طرح میں عشق حقیقی کا پرستار ہوں اور جیسے میری نظریں نور حقیقی سے منور ہیں یہ صلاحتیں نوجوانوں میں بھی پیدا کر دے۔

ملت اسلامیہ کے ہر پیر و جواں کو مشکلات سے نکال کر ان کی منزل تک پہنچا دے۔ ان کی جو کشتی میری طرح گرداب میں پھنسی ہوئی ہے اسے بھی پار لگانے کا اہتمام کر۔ اور مجھے بھی موت اور زندگی کے تمام اسرار و رموز سے آگاہ کر دے اس لیے کہ یہ محض تیرا ہی وجود ہے جو تمام کائنات کے احوال سے باخبر ہے۔ امت مسلمہ جس زوال سے دوچار ہے میرا دل خون کے آنسو روتا رہتا ہے ۔ یہی اذیت مجھے شب بھر بیدار رکھتی ہے۔ لیکن افسوس اس امر پر ہے کہ میری اس حالت سے کوئی واقف نہیں۔اے اللہ اس لیے میں تیری بارگاہ میں نصف شب کے وقت نالہ و فغاں میں مصروف رہتا ہوں۔ تنہا ہوں یا کسی اجتماع کے مابین! ہر لمحے میرا قلب اسی کرب کا شکار رہتا ہے۔

میری امنگیں اور آرزوئیں سب میری ذات تک محدود نہیں بلکہ پوری ملت کے لیے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ میں اس کے لیے ہی بہتری کی امید اور جستجو کرتا رہتا ہوں۔ شاعر کہتا ہے کہ میں ہر وقت فطرتاً کائنات کے حقائق کا ادراک حاصل کرنے میں مصروف رہتا ہے اور میرا دل ہر نوع کے خیالات کا خزینہ ہے۔ میرا دل تو حیات انسانی کے جملہ مسائل کی آماجگاہ ہے جہاں ہر لمحے نیک و بد میں تصادم رہتا ہے اور ہر نوع کے یقین و گمان کا مرکز ہے۔میں تو ایک فقیر و درویش کے مانند ہوں لیکن تو نے میری ذات میں جو خصوصیات پیدا کی ہیں انھی کی بدولت میں فقیری میں امیری کی زندگی جی رہا ہوں۔شاعراس بند کے آخر میں دعائیہ رنگ اپناتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے یہ جذبے ملت مسلمہ کے سینوں میں بھی داخل کر دے کہ تو اس عمل پر قادر ہے۔

دمادم رواں ہے یمِ زندگی
ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی
اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود
کہ شعلے میں پوشیدہ ہے موجِ دود
گراں گرچہ ہے صحبتِ آب و گل
خوش آئی اسے محنتِ آب و گل
یہ ثابت بھی ہے اور سیّار بھی
عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی
یہ وحدت ہے، کثرت میں ہر دم اسیر
مگر ہر کہیں بے چگوں ، بے نظیر
یہ عالم، یہ بت خانہَ شش جہات
اسی نے تراشا ہے یہ سومنات
پسند اس کو تکرار کی خو نہیں
کہ تو میں نہیں اور میں تو نہیں
من و تو سے ہے انجمن آفریں
مگر عینِ محفل میں خلوت نشیں
چمک اس کی بجلی میں ، تارے میں ہے
یہ چاندی میں ، سونے میں ، پارے میں ہے
اسی کے بیاباں ، اس کے ببول
اسی کے ہیں کانٹے اسی کے ہیں پھول
کہیں اس کی طاقت سے کہسار چور
کہیں اس کے پھندے میں جبریل و حور
کہیں جرّہ شاہین سیماب رنگ
لہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ
کبوتر کہیں آشیانے سے دور
پھڑکتا ہوا جال میں ناصبور

اس بند میں شاعر علامہ محمد اقبال نے زندگی کے ان اسرار و رموز سے پردہ اٹھایا ہے جن کا ہر فرد کو ادراک نہیں ہے۔ فرماتے ہیں کہ زندگی کا تمام کاروبار ہر لمحے جاری و ساری ہے۔ افراد کی عملی جدوجہد نے اس میں جوش و خروش پیدا کر دیا ہے۔ اسی کے سبب ہر شعبے میں ترقی کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔جس طرح سے آگ کے ایک شعلے میں دھوئیں کی ایک رو پوشیدہ ہوتی ہے اسی طرح جسم حیات انسانی میں چھپا ہوا ہوتا ہے اور یہ زندگی ہی ہے جو اسے وجود عطا کر کے نمایاں کرتی ہے۔ اگرچہ زندگی کو ٓآگ ، پانی ، مٹی اور ہوا جیسے جملہ عناصر کی حدود میں رہنا گوارا نہیں لیکن یہ عناصر انسانی وجود میں جدوجہد میں ا رتقاء کی علامت ہیں۔

زندگی مذکورہ چار عناصر کے پھندے میں جکڑی ہوئی بھی ہے اس کے باوجود انہی عناصر کے وسیلے سے چونکہ وجود قائم و دائم ہے۔ اس لیے آگ، پانی جیسے یہ عناصر زندگی کے لیے ناگزیر ہیں۔زندگی تو عملاًظہور وحدت ہے تاہم اس کے منظر نامے میں جو اشیاء موجود ہیں وہ کثرت کی آئینہ دار ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہر شے اور اس کا منظر جدا جدا اور ایک دوسرے سے مختلف ہے۔یہ دنیا ہے وہ ایک ایسے بتکدے کی مانند ہے جو عملاً چھ سمتوں پر مشتمل ہے۔ یہ بھی زندگی کی بدولت وجود میں آیا ہے یعنی زندگی کا وجود نہ ہوتا تو دنیا بھی نہ ہوتی۔یہ ایسی دنیا ہے کہ جس میں موجود ایک فرد کی شبیہ کسی دوسرے سے نہیں ملتی۔ کیا یہ حیرت انگیز امر نہیں ہے کہ ہر فرد دوسرے سے عملاً مختلف ہے۔ اس دنیا کی زندگی بغیر آرائش انجمن بھی ممکن نہیں۔

اس کے باوجود یہ حیرت انگیز بات ہے کہ میری تیری محفل کے دوران بھی وہ تنہائی کے کرب میں مبتلا رہتی ہے۔اس دنیا کی زندگی عجب شے ہے کہ کبھی بجلی کے تاروں میں کبھی ستاروں میں اس کی چمک موجود ہوتی ہے اور کبھی چاندی، سونے اور پارے میں اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔ غرض یہ کہ زندگی اپنے طور پر مختلف اشکال میں موجود ہوتی ہے۔زندگی ہی کی بدولت صحرا اور اس کے کانٹے دار درخت اور پھول نشوونما پاتے ہیں۔اس میں اس قدر قوت موجود ہے کہ یہ پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے۔ جبرئیل علیہ السلام جیسا فرشتہ اور حوران جنت اگر بالمقابل ہوں تو انہیں بھی اپنے جال میں پھانسنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کہیں اس امر کا امکان بھی ہوتا ہے کہ زندگی سے بھرپور کوئی لشکر اور اس کا سپہ سالار اپنے سے کمزور سلطنتوں کے خلاف خوں ریز جنگ کے بعد شکست فاش دے کر ان پر اپنا قبضہ جما لیتے ہیں۔کہیں یہ اپنی ذہانت سے حریفوں کو اپنے دام میں گرفتار کر لیتی ہے۔ غرض زندگی ہی وہ قوت ہے جو ہر شے پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی اہل ہوتی ہے۔

فریبِ نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرہَ کائنات
ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود
کہ ہر لحظہ ہے تازہ شانِ وجود
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی
بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلند
سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند
سفر زندگی کے لیے برگ و ساز
سفر ہے حقیقت، حضر ہے مجاز
الجھ کر سلجھنے میں لذت اسے
تڑپنے پھڑکنے میں راحت اسے
ہُوا جب اسے سامنا موت کا
کٹھن تھا بڑا تھامنا موت کا
اتر کر جہان مکافات میں
رہی زندگی موت کی گھات میں
مذاقِ دُوئی سے بنی زوج زوج
اٹھی دشت و کہسار سے فوج فوج
گل اس شاخ سے ٹوٹتے بھی رہے
اسی شاخ سے پھوٹتے بھی رہے
سمجھتے ہیں ناداں اسے بے ثبات
ابھرتا ہے مٹ مٹ کے نقشِ حیات
بڑی تیز جولاں ، بڑی زود رس
ازل سے ابد تک رمِ یک نفس
زمانہ کہ زنجیرِ ایام ہے
دموں کے الٹ پھیر کا نام ہے

اس بند کے اشعار میں علامہ اقبال مزید ایک قدم آگے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی فکر و نظر میں زندگی کی کچھ ایسی حقیقتیں جو انسان سے پوشیدہ ہیں ان سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ ان کے مطابق زندگی میں کہیں کہیں جو یہ سکون اور ٹھہراوَ سا نظر آتا ہے یہ تو دھوکے سے سوا اور کچھ نہیں اس لیے کہ فی الواقع حرکت ہی حقیقی زندگی ہے۔ بے شک ظاہر بیں آنکھ اس مرحلے تک نہ پہنچ سکے۔ لیکن امر واقع یہ ہے کہ کائنات کا ہر ایک ذرہ اضطراب سے دوچار ہے اور حرکت میں ہے۔انسانی وجود بھی ہر لمحے متحرک رہتا ہے اور مختلف جہتوں سے ہم کنار رہتا ہے۔اے انسان تو اب بھی زندگی کو ایک ایسا راز تصور کرتا ہے جبکہ زندگی تو بلند پروازی اور عروج و ارتقاء سے عبارت ہے۔زندگی میں پست و بلند بہت آتے ہیں مگر اسے تو منزل تک رسائی سے زیادہ سفر اور گردش ہی پسند ہے۔جہاں تک سفر کا تعلق ہے سو وہ زندگی کو متحرک اور برسر عمل رکھنے کا دوسرا نام ہے اسی لیے سفر کو ایک حقیقت بھی تصور کر لینا چاہیے اور مجاز بھی، کہ سفر کی یہ دونوں صورتیں زندگی کے ہی بلاشبہ دو رخ ہیں۔

زندگی کو الجھ کر سلجھنے میں راحت ملتی ہے اور متحرک رہنا بھی اس کے لیے باعث راحت ہے۔جس مرحلے پر اسے موت کا سامنا کرنا پڑا تو اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اس سے مقابلہ بڑا سخت تھا۔ اس کے باوجود یہ زندگی میں جرات و ہمت و حوصلہ ہی تھے کہ اس نے بالاخر موت کو شکست سے ہم کنار کر دیا ۔فطرت کے ساتھ امتزاج کے سبب زندگی جنگلوں اورر پہاڑوں میں اپنے تخلیقی رویے کے ساتھ فوج کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ چنانچہ زندگی کو اگر کسی پودے کی شاخ تصور کر لیا جائے تو ایک جانب تو پھول اسی شاخ سے ٹوٹتے رہے دوسری طرف اسی شاخ سے پھولوں کی نمود ہوئی۔ مراد یہ ہے کہ زندگی کا دوہرا عمل یہ ہے کہ اس ہاتھ سے دیتی ہے تو دوسرے ہاتھ سے لے لیتی ہے۔جو نادان اور احمق لوگ ہیں وہ زندگی کو ناپائیدار اور فانی قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔

زندگی تو ایسا نقش ہے جو مٹ مٹ کر ابھرتا ہے ۔زندگی اس قدر تیز رفتار ہے جو آج کی آن میں اس منزل تک رسائی حاصل کر لیتی ہے۔ یہ تو ایسی حقیقت ہے جس نے آغاز کائنات سے سانس کی آمد وشد کے حوالے سے اپنے وجود کا ثبوت پیش کر رہی ہے زمانہ تو دنوں ، مہینوں اور سالوں کے باہمی تسلسل کا دوسرا نام ہے اسی لیے یہ رواں دواں اور متحرک زندگی کی دوسری صورت ہے۔

یہ موجِ نفس کیا ہے تلوار ہے
خودی کیا ہے، تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے رازِ درونِ حیات
خودی کیا ہے بیداریِ کائنات
خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند
سمندر ہے اک بوند پانی میں بند
اندھیرے اجالے میں ہے تابناک
من و تو میں پیدا، من و تو سے پاک
ازل اس کے پیچھے، ابد سامنے
نہ حد اس کی پیچھے نہ حد سامنے
زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
تجسّس کی راہیں بدلتی ہوئی
دمادم نگاہیں بدلتی ہوئی
سبک اس کے ہاتھوں میں سنگِ گراں
پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگِ رواں
سفر اس کا انجام و آغاز ہے
یہی اس کی تقویم کا راز ہے
کرن چاند میں ہے، شرر سنگ میں
یہ بے رنگ ہے ڈوب کر رنگ میں
اسے واسطہ کیا کم و بیش سے
نشیب و فراز و پس و پیش سے
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
ہوئی خاکِ آدم میں صورت پذیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے

اس بند میں شاعر ہہتا ہے کہ اگر انسان کے سانس کو ایک تلوار تصور کر لیا جائے تو پھر خودی کو اس تلوار کی دھار سمجھ لینا چاہیے اور اس حقیقت کی وضاحت کی زیادہ ضرورت بھی نہیں ہے کہ دھار کے بغیر تلوار کند اور بے مصرف ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس شعر سے مراد یہ ہے کہ خودی ہی دراصل روح حیات ہے اس کے بغیر زندگی کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ خودی ایک ایسا راز ہے جسے زندگی نے محفوظ اور پوشیدہ رکھا ہوا ہے اور یہ خودی ہی ہے کہ پوری کائنات کو بیداری کا پیغام دیتی ہے۔خودی سے خالی کائنات بے مقصد اور بے معنی بن کر رہ جاتی ہے۔جلوت اور خلوت دونوں صورتوں میں خودی اپنا کمال دکھاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ خودی کی شکل میں سمندر ہے جو محض ایک قطرہ میں بند ہے۔

خودی کی روشنی محض تاریکی ہی کو نہیں اجالے کو بھی زیادہ تابناک بنا دیتی ہے۔خودی کثرت و وحدت میں یکساں طور پر نمودار ہوتی ہے اس کے باوجود ان دونوں عناصر سے خود کو علیحدہ رکھتی ہے۔خودی کا وجود آغاز کائنات سے پہلے بھی تھا اور آئندہ روز حشر تک برقرار رہے گا۔یہ زمانے کی حدود و قیود سے آزاد ہے۔خودی زمانے کے دریا میں بہتے جذبے کی مانند ہے جو اس دریا کی ظالم موجوں کو سہتے ہوئے بڑھتی جا رہی ہے۔خودی کو درجہ کمال تک پہنچنے کے لیے انتہائی کٹھن اور پیچیدہ راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔خودی ایسا جذبہ ہے کہ بھاری پتھر بھی اس کے لیے سبک اور بے وزن ہو کر رہ جاتا ہے حتیٰ کہ اس کی ضربوں سے پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہو کر ریت میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔جذبہ خوری کا انجام و آغاز ہی اس کی وجہ حرکت اور تقویم کا باعث ہے۔خودی کا جذبہ چاند میں کرن کی صورت اختیار کر لیتا ہے اسی طرح وہ پتھر میں چنگاری کا روپ دھار لیتا ہے۔

رنگ میں غوطہ لگانے پر بھی وہ بے رنگ ہی رہتی ہے۔خودی کو بلندی و پستی اور کمی و زیادتی سے کوئی واسطہ نہیں اس لیے کہ اس کا مادی اشیاء سے کوئی تعلق نہیں۔آغاز کائنات سے خودی کشمکش میں مبتلا رہی ہے کہ اس کا حقیقی مسکن کہاں ہے۔ بلاآخر اس پہ منکشف ہوا کہ انسان اور صرف انسان ہی خودی کی اہمیت سے آگاہ ہے۔جس طرح آنکھ آسمان کی وسعتوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے اسی طرح سے یہ جان لینا چاہیے کہ خودی کا حقیقی مقام دل ہے اور یہ کہ انسان خودی میں ڈوب کر ہی کائنات کے علاوہ اپنی ذات کے داخلی بھید پا سکتا ہے۔

خودی کے نگہباں کو ہے زہر ناب
وہ ناں جس سے جاتی رہی اس کی آب
وہی ناں ہے اس کے لیے ارجمند
رہے جس سے دنیا میں گردن بلند
فروفالِ محمود سے درگزر
خودی کو نگہ رکھ، ایازی نہ کر
وہی سجدہ ہے لائق اہتمام
کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام
یہ عالم یہ ہنگامہَ رنگ و صوت
یہ عالم کہ ہے زیرِ فرمانِ موت
یہ عالم، یہ بُت خانہَ چشم و گوش
جہاں زندگی ہے فقط خورد و نوش
خودی کی یہ ہے منزلِ اوّلیں
مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں
تری آگ اس خاکداں سے نہیں
جہاں تجھ سے ہے، تو جہاں سے نہیں
بڑھے جا یہ کوہِ گراں توڑ کر
طلسمِ زمان و مکاں توڑ کر
خودی شیرِ مولا، جہاں اس کا صید
ز میں اس کی صید، آسماں اس کا صید
جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود
کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود
ہر اک منتظر تیری یلغار کا
تری شوخیِ فکر و کردار کا
یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
تو ہے فاتحِ عالم خوب و زشت
تجھے کیا بتاؤں تری سرنوشت
حقیقت پہ ہے جامہَ حرف تنگ
حقیقت ہے آئینہ، گفتار زنگ
فروزاں ہے سینے میں شمعِ نفس
مگر تابِ گفتار کہتی ہے بس
اگر یک سرِ مُوے برتر پرم
فروحِ تجلّی بسوزد پرم

اس بند میں شاعر نے فلسفہ خودی کے محاسن اور اوصاف کو واضح کیا ہے۔ کہ جذبہ خودی کو اوج کمال پر پہنچانے کے لیے لازم ہے کہ خودی کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والا شخص رزق حلال سے خود کو آسودہ کرے اس لیے رزق حرام اور ناجائز کمائی سے تو خودی کی موت واقع ہو جاتی ہے۔انسان کے لیے رزق حلال ہی عظمت و سربلندی کا سبب بنتا ہے یہی اس کی خودی کا کمال ہے۔سلطان محمود غزنوی ہر چند کہ بڑا جلیل القدر اور بہار سلطان تھا ۔ اس کے باوجود زندگی میں کامرانی کے لیے لازم ہے کہ اس کی پیروی کرنے کے بجائے اپنی خودی کو بروئے کار لایا جائے ۔ ایسا نہ کیا گیا تو ایاز کی طرح غلامی مقدر بن جائے گی۔

خودی کے اطمینان کے لیے اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کرنا قابل قبول نہیں ہے کہ خودی کے لیے ہر وہ سجدہ حرام ہے جس میں انسان کو غیر اللہ کے سامنے جھکنا پڑے۔یہ دنیا جو بظاہر رنگ و روشنی اور آوازوں کی غنائیت سے ہم آہنگ ہے عملاً اس کا وجود فنا سے عبارت ہے۔یہ دنیا تو وہ مقام ہے جہاں کچھ کہا جائے اس کو سن لیا جائے اور جس شے کا نظارہ ہو اس کو خامشی کے ساتھ دیکھا جائے۔ اس دنیا کی زندگی محض کھانے پینے کی محتاج ہے۔ یہ دنیا جذبہ خودی کی پہلی منزل ہے اور اگر یہ کہا جائے تو بے معنی بات نہ ہو گی کہ یہاں تو انسان ہر دم مسافرت میں ہے اس کا کوئی مستقل گھر اورر ٹھکانہ نہیں ہے۔

انسان کے اندر کی آگ( تڑپ) اس دنیاوی خاک کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ یہ دنیا انسان کے لیے تخلیق کی گئی ہے نہ کہ ہم اس دنیا کے لیے۔اپنی منزل کے حصول کے لیے راہ میں حائل تمام پابندیوں کو توڑ کر آگے بڑھتا جا اور زمان و مکان کے طلسم کو توڑ کر اپنی خودی کو اوج کمال تک لے جا۔خودی ایسے شیر کی مانند ہے جس کا شکار یہ تمام تر عالم رنگ و بو ہے جیسے مولا ئے کائنات حضرت علی شیر خدا ہیں ۔ اس شیر کی گرفت تو زمین اور آسمان دونوں پر ہے۔اس دنیا فانی کے علاوہ دنیائیں اور بھی ہیں جو ابھی تک ہماری بصیرت کی گرفت میں نہیں آ سکیں تاہم ضمیر وجود خلا کا متحمل نہیں ہو سکا۔یہ دنیا تیرے حملے کی منتظر ہے کہ تیرا کردار اور عمل ہی اس کی تسخیر کر سکتا ہے۔یہ جو کائنات کا نظام ہر لمحے متحرک رہتا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ تیری خودی کے سارے بھید تجھ پر کھل جائیں۔

انسان کی حقیقی داستان یہ ہے کہ اس دنیا کے اچھے یا برے سب پر فتح پانے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔سچائی اور حقیقت تو آئینے کی مانند ہے اور ان پر تفصیلی گفتگو اس آئینے پر گرد کی طرح سے ہے۔دل میں ابھی کہنے کو بہت کچھ باقی ہے مگر کچھ کہنے کی طاقت باقی نہیں رہی ہے کہ قادر مطلق کو یہ گوارا نہ ہوگا اور وہ مجھ جلا کر خاک کر دے گا۔ آخری شعر شیخ سعدی کا شعر ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ واقعہ معراج میں جب سدرۃ المنتہا پر پہنچے تو جبرئیل نے آگے جانے سے انکار کر دیا کہ آگے اگر بال برابر بھی بڑھوں گا تو اللہ کے نور کی کثرت سے مرے پر جل جائیں گے۔