Nazm Ka Aghaz o Irtiqa | اردو میں نظم نگاری کا آغاز و ارتقاء

0

اردو نظم نگاری کی ابتدا / آغاز:

اردو نظم نگاری کے آغاز کی بات کی جائے تو اس کی کڑی سر زمین دکن سے جا ملتی ہے۔ نظم نگاری کی ابتدا نویں صدی ہجری میں ہوئی۔ اس وقت کی دکنی شاعری کو عموماً دو ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔سر زمین دکن کا پہلا دور بہمنی جبکہ دوسرا قطب شاہی کہلاتا ہے۔

ادبی نقطہ نظر سے قطب شاہی دور اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دور سولہویں سے سترہویں صدی تک محیط ہے۔ اس دور میں محمد قلی قطب شاہ ، عبداللہ قطب شاہ ، ملا وجہی ، غواصی ، ابن نشاطی اور نوری جیسے قابل ذکر شعرا گزرے ہیں۔ اسی دور میں دکن کے ایک مشہور صوفی بزرگ حضرت بندہ نواز گیسو دراز بھی تھے۔ جنھوں نے تصوف کے حوالے سے رسائل ترتیب دینے کے ساتھ کچھ نظمیں بھی لکھیں۔ ان کی نظم “چکی نامہ ” کو اردو ادب میں خاصی اہمیت حاصل ہے اور یہی نہیں بلکہ چکی نامہ کو اردو کی پہلی نظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ فنی لحاظ سے یہ ایک معمولی نظم ہے مگر اردو ادب میں اس کی تاریخی اہمیت ہے۔

خواجہ بندہ نواز گیسو دراز ہی کی طرح اردو ادب کے پہلے صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ نے بھی کئی نظمیں یادگار چھوڑی ہیں۔ ان کی نظموں میں موسموں ، تہواروں ، اس عہد کی عمارتوں اور ان کی عشقیہ داستانوں کا خوب ذکر ملتا ہے۔ انھوں نے اپنی نظموں میں ہندوستانی ثقافت ، رسم ورواج کا ذکر کیا ہے جس سے ان کی نظمیں مکمل طور پر اس عہد کی ہندوستانی تہذیب کی عکاس دکھائی دیتی ہیں۔ نظم کا ابتدائی دور ہونے کی بنا پر ان کی نظموں میں زیادہ گہرائی کا عنصر نہیں پایا جاتا ہے۔

اس دکنی عہد میں ان شعرا کے علاوہ برہان الدین جانم اور علی عادل شاہ ثانی جیسے شعرا نے بھی نظم کی صنف میں طبع آزمائی کی۔ دکنی عہد میں مثنوی کی صنف کو عروج ملا۔ ان شعرا میں نصرتی ، ملا وجہی ، جنیدی ، رستمی اور ابن نشاطی کے نام نمایاں ہیں۔ وجہی مقیمی اور جنیدی نے طبع زاد مثنویاں تخلیق کیں۔ قلی قطب شاہ علی عادل شاہ اور نصرتی قصیدہ نگاری میں نمایاں رہے۔

دکنی مثنویوں کی روایت نے فارسی روایت سے فائدہ لیتے ہوئے اُردوادب میں مثنوی کے رجحان کو تقویت دی۔ دکنی دور کے بعد لکھی جانے والی مثنویوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔ اردو مثنویوں کی اس بڑی تعداد میں میر تقی میر کی مثنویوں کے علاوہ میرحسن ، دیا شنکر نیم ، میراثر ،مومن اور مرزا شوق دہلوی کی مثنویاں نمایاں حیثیت کی حامل ہیں۔شعرائے مذکورہ نے مثنوی نگاری کے اس رجحان کو مزید تقویت دی۔ دکنی دور کے بعد کے ادوار میں مثنوی کے علاوہ قصائد ، ہجویات اور مرثیے بھی خاصی تعداد میں لکھے گئے۔

نظم نگاری کے ذیل میں اگر شمالی ہند کی بات کی جائے تو یہاں افضل جھنجھانوی کی بکٹ کہانی کو یہاں کی ابتدائی نظم قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر دلی میں دیوان ولی کی آمد سے یہاں کی شاعری کا مزاج تبدیل ہو گیا۔ یہاں کے شعراء نئے رجحانات کی جانب راغب ہونے لگے اور ایسے میں غزل گوئی کو رواج حاصل ہوا۔لیکن اسی دور کی پیدوار نظیر اکبر آبادی جیسے شعراء بھی ہیں جنھوں نے روایت سے ہٹ کر شاعری کی اور نظم نگاری کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا اور خواص کو چھوڑ کر عوام کے لیے شاعری کرنے لگے۔

نظیر اکبرآبادی نے جدید نظم کو اپنا کر اپنی نظموں میں عوام کے معاملات نصیحتوں ،طنز وظرافت پر بھر پور توجہ دی۔ جس کی بنا پر اسے عوامی شاعر کے لقب سے نوازا گیا۔ وہ اپنی موضوعاتی نظموں کے حوالے سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔شب برات کے موقع کی تصویر کشی کرتے ہوۓ لکھتے ہیں:

اگر کسی کے سر پر چھچھوندر کی کڑی
اوپر سے اور ہوائی کی اگر پڑی چھڑی
ہو گئی گلے کا ہار پٹانے کی ہر لڑی
پاؤں سے لپٹی شور مچا کر قلم تڑی

نظیر کی نظموں کا ایک اہم موضوع میلوں ٹھیلوں ، تہواروں اور تقریبوں پر اظہار خیال ہے۔ خاص طور پر وہ تہوار مثلاً ہولی ،عید، شب برات نسبت بیساکھی کا میلہ وغیرہ جوعوام کے میلے ہیں اور جن میں عوام شریک ہوتے ہیں ، ان کی جیتی جاگتی تصویریں جتنی نظیر کے یہاں ملتی ہیں ، اردو شاعری میں کہیں اور نہیں ملتیں۔یہیں سے اردو شاعری کا دھارا بدلا اور نظم نگاری کو رواج حاصل ہونے لگا۔

اردو نظم نگاری کا ارتقائی سفر:

ہندوستان کی سرزمین پر اردو غزل نے ایک عرصہ تک بادشاہت کی تھی۔ غزل کی نشو ونما اور فروغ میں مسلمان حکمرانوں کی سر پرستی کا بڑا عمل دخل تھا۔ ساڑھے چھ سو سالہ مسلم حکمرانی کا طویل دور آہستہ آہستہ ختم ہونا شروع ہوا۔مسلمانوں کی ساری شان وشوکت اقتدار کی وجہ سے تھی چناں چہ اقتدار کی منتقلی سے زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا۔

ہندوستان کا سیاسی ، سماجی اور معاشی ڈھانچہ بکھر کر رہ گیا۔بکھرے ہوئے اس سماج میں نظم سے قبل غزل نے پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا تھا۔ 1857ء سے قبل ہی ایسٹ انڈیا کمپنی بڑی مہارت سے ہندوستان پر اپنی گرفت مضبوط کر چکی تھی۔ فورٹ ولیم کی بنیاد اور دلی کالج کا قائم کرنا انگریزوں کا اپنے مفادات کے تحفظ اور ترویج کوعملی جامہ پہنانے کا ایک آسان راستہ تھا۔ انجمن پنجاب مطالب مفید و پنجاب کے نام سے 1857ء میں ڈاکٹر لائٹرز اور کرنل ہالرائڈ کی سر پرستی میں قائم کیا گیا۔

جنگ آزادی سے زندگی میں ایک ہلچل پیدا ہوگئی۔شاعروں اور ادیبوں نے جدید خیالات اور نظریات کو اردو ادب کا حصہ بنایا۔سرسید تحریک نے اردو ادب کو بڑا متاثر کیا اسی وجہ سے اردو شاعری پر حالی نے کھل کر تنقید کی جس سے اردو شاعری میں مقصدیت کو فروغ ملا اور ساتھ ہی انگریزی نظموں کے ترجمے سے اردو شاعری کے باب میں اضافے کی راہیں استوار کیں۔

دھیرے دھیرے ایک قافلہ تیار ہوا جو آگے کی طرف بڑھتا رہا۔ پرانے لوگ اور پھر نئے لوگ اس قافلہ کو بڑھاتے رہے۔ محمد حسین آزاد، حالی، شبلی، اسماعیل میرٹھی ،عظمت اللہ خاں، نظم طباطبائی ، سرور جہاں ، چکبست، اکبر، شرر، اقبال وغیرہ نے سفر ہمیشہ جاری رکھا، اور یوں اردو شاعری میں نظم نے ہندوستان کی ادبی فضا کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔

علی گڑھ اور انجمن پنجاب کی تحریکوں کے زیر اثر جد ید نظم نگاری کا آغاز ہوا۔ حالی اور آزاد نے جدیدنظمیں تخلیق کر کے دوسرے شاعروں کو بھی اپنا ہم نوا بنالیا۔ حالی نے اردو میں پہلی بارطویل نظم مد و جزر اسلام لکھی ، جو مسلمانوں کے بلندی و پستی کی داستان ہے۔ انجمن پنجاب کے زیر اہتمام مشاعروں کا یہ سلسلہ تقریباً گیارہ ماہ تک جاری رہا، مگر یہ قلیل مدت بھی جدید اردو نظم پر ایسے اثرات مرتب کر گئی جس کے آثار آج تک موجود ہیں۔

تحر یک انجمن پنجاب کو کامیاب بنانے میں اس کے مشاعروں کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ آغا محمد باقر کی تحقیق کے مطابق نئی شاعری کے دس مشاعرے منعقد ہوئے۔ ان مشاعروں میں موضوعاتی نظمیں پڑھی گئیں۔ برسات ، زمستان ، امید ،امن ، حب وطن ،انصاف ،مروت ،قناعت،تہذیب اخلاق وغیرہ ان مشاعروں کے موضوعات تھے۔ تمام شعرا ان موضوعات پر نظم کی صورت میں اظہار خیال کرتے تھے۔

حالی نے اپنی نظموں میں نئے موضوعات اور نئے خیالات سے اردو نظم کو جدیدیت کی طرف موڑ کر اسے جدید اردو نظم کا امتیازی نشان بھی بنا دیا۔ محمد حسین آزاد کی نظمیں ان کا تخلیقی اظہار ہیں۔ ہیتی لحاظ سے آزاد نے قدیم اصناف میں نئے تجربوں کو آزمایا اور مثنوی کے امکانات کا دائرہ وسیع کر دیا۔ ہیت کے زاویے سے آزاد نے ردیف اور قوافی ترک کرنے کا تجر بہ بھی کیا۔ حالی مشاعرہ انجمن کے کامیاب ترین شعراء میں سے تھے۔ان کے علاوہ اسماعیل میرٹھی کی نظمیں بھی اہم ہیں۔

اسماعیل میرٹھی نے اس تحر یک سے پہلے بھی موضوعاتی نظمیں کہیں۔ان نظموں کی سادگی اور پر کاری سے انکار نہیں جس نے عام انسان کی سوچ وفکر کو نئےتخلیقی آہنگ سے روشناس کرایا اور نظم کو جد ید طرز پر استوار کر دیا۔

حالی اور آزاد کے بعد اردو نظم نگاری کی تاریخ کا ایک اہم نام اکبرالہ آبادی ہے، اکبر الہ آبادی تحریک علی گڑھ اور انجمن پنجاب کے ردعمل کی آواز کہے جا سکتے ہیں۔وہ مشرقی وضع کے آدمی تھے اور مغربی جدت کا دامن پکڑنے کی بجائے اپنے جذبات کے اظہار کے لیے اپنا طرز خود ایجاد کیا، جو بذات خود’ جدید‘ تھا۔ انھوں نے بے قافیہ نظمیں لکھ کر اس ارتقائی عمل میں شمولیت اختیار کی۔ طنز کی شوخی ، ظرافت کی چاشنی اور بندش کوا کبر کی شاعری کا خاصہ کہا جاسکتا ہے۔

یقیناً اکبر نے ہیت کے حوالے سے کلاسیکی روایت کی پاسداری بھی کی اور اس میں جدت بھی پیدا کی لیکن ان کے خیالات نیا رنگ لیے ہوئے تھے۔ اکبر الہ آبادی نہ صرف سرسید اور ان کی تحریک کے مخالفین میں شمار ہوتے ہیں بلکہ شاعری میں انگریزی الفاظ کا استعمال تحریف پیروڈی کی بدولت انھیں ایک رحجان ساز اور تحریف کے اولین تخلیقی شاعروں کی صف میں شمار کیا جا تا ہے۔

سرسید تحر یک اور انجمن پنجاب کے زیر اثر نظم نگاروں کے علاوہ اس دور میں اردو کے اولین مزاحیہ رسالے اودھ پنج میں بھی نئی ہیت میں نظمیں لکھی گئیں۔اگر چہ یہ طنز ومزاح کے پیرائے میں تھیں لیکن ان میں ایک واضح جد ید شعور موجود تھا۔

اسی دور میں نظم نگاری کے افق پر اقبال نامی ستارہ جلوہ افروز ہوا۔اقبال نے آزاد اور حالی کی طرح فقط مظاہر فطرت کے سپاٹ بیان پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ انھوں نے فطرت کے خارجی زاویے پر حیرت استعجاب کا اظہار کیا اور اس کی داخلی حقیقت سے آگہی حاصل کرنے کی سعی کی۔ اقبال نے نظم کو جس انداز میں فروغ دیا اس میں صورت پرستی کا رجحان نہیں۔

اقبال کی شاعری میں ”مخزن“ کا کردار کلیدی ہے یہی نہیں بلکہ جدید اردو نظم کی تشکیل میں مخزن کا کردار کلیدی رہا۔ مخزن کی بدولت جو شعراء وادباء انگریزی تراجم اور اردو نظم کے حوالے سے ابھرے، وہ جدید اردو نظم کی ایک مضبوط کڑی قرار پاتے ہیں۔ اقبال اور ابوالکلام آزاد کو بھی مخزن کی ادبی تحریک نے متعارف کرایا۔اقبال نے اپنے افکار وخیالات کے بیان کے لیے جو اسلوب اپنایا ، وہ سب سے منفرد ہے۔انھوں نے لفظوں کو اس کاری گری سے استعمال کیا ہے، کہ اجنبیت کا کہیں بھی احساس نہیں ہوتا، بلکہ لفظوں کونئی معنویت عطا کر کے جدیداردو نظم کا دامن وسیع کیا ہے۔

بانگ درا میں انگریزی سے ماخوذ نظموں میں اقبال کا منفرد اسلوب ،مطالعہ الفاظ کی خوب صورتی ،تازگی اور تاثریت خوب نظر آتی ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا اقبال کو جدید اردو نظم کا پیش روقراردیتے ہیں۔اقبال نے اردونظم کو خارجی عکاسی سے ہٹا کر حسن کی اعلی قدروں کو اجاگر کر نے پر مائل اور ناظر اور منظور کے درمیان عشق کے وجدانی رشتے کو قائم کیا۔اقبال نے نظم کے جس انداز کو فروغ دیا اس میں صورت پرستی کا رجحان نہیں۔نظم میں بالعموم فرد کے ذاتی تجربات کو اہمیت دی جاتی ہے لیکن اقبال نے اسے اجتماع اور پوری قوم سے خطاب کا ذریعہ بنایا۔ یوں ہم کہ سکتے ہیں کہ اقبال نے لفظ و معنی میں نیا آہنگ پیدا کیا۔ ان کی نظم ان کی فکری سوچ کی آئینہ دار ہے۔

تقسیمِ ہندوستان کی صورت میں ادب کے پیرائے میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ کئی تحریکیں سر اٹھانے لگیں۔ ترقی پسند تحریک بھی ایک ایسی ہی تحریک ہے جس کا آغاز تقسیم سے قبل ہو چکا تھا۔ لیکن آزادی کے بعد اب انقلاب اور اجتماعی فلاح اور یکجہتی کے نعرے کھوکھلے لگنے لگے۔لہذا، ایسی قومی اور عالمی صورت حال میں شاعروں کو کسی نئے پیرایۂ اظہار کی تلاش تھی۔وہ کسی تازہ ہوا کے جھونکے کے منتظر تھے۔

اسی دوران شاعروں کے ایک گروہ نے ’’ حلقۂ اربابِ ذوق ‘‘ کی بنیاد ڈالی جس کے شعراء فکر وفن کی آزادی کے حامی تھے۔وہ ترقی پسندوں کے سیاسی منشور سے آزادی کا اعلان کر رہے تھے۔یہیں سے اردو میں ترقی پسندی کے خلاف بغاوت کا باقاعدہ آغاز ہوا اور اردو شاعری میں نظموں کو فروغ حاصل ہوا۔

’’ حلقہ ارباب ذوق ‘‘ نے نظموں کو اظہار کا وسیلہ بنایا۔اگرچہ ترقی پسند تحریک نے بھی نظموں کو ہی اپنے سماجی اور سیاسی پیغامات کی ترسیل کے لئے وسیلہ بنایا مگر انکے یہاں پابند نظموں کو زیادہ تر اپنایا گیا اور اس کی ہئیت میں محدود تجربے کیے گئے۔ ترقی پسند شعرا کا ادبی نقطہ نظر مقصدی تھا جبکہ ہیت کے تجربات ان کی بنیادی ترجیح میں شامل نہیں تھے۔ان کا ماننا تھا کہ ہیت کے تجربات مقصد کی تبلیغ کی راہ میں حائل ہو سکتے ہیں۔

ایسے دور میں اس تحریک کے زیر اثر ن۔م۔راشد، میرا جی، اور دوسرے نظم نگاروں نے آزاد نظمیں لکھیں مگر اعتراضات کا سامنا کر نا پڑا۔ جبکہ اس کے متوازی حلقۂ ارباب ذوق کے شعراء نے نظم میں ہئیتی تجربے کیے اور آزاد نظم، معریٰ نظم، اور نثری نظموں کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا۔قیوم نظرؔ، یوسف ظفرؔ، نصیر احمد جامعی، میرؔاجی، ن۔م۔راشدؔ، مختار صدیقی، اور الطاف گوؔہر اس کے سر گرم رکن تھے۔ میرا ؔجی کی شمولیت بعد میں ہوئی اور انکی شمولیت سے اس حلقے کو تقویت حاصل ہوئی اور نظم کی صنف نے فن کی بلندیوں کو چھوا۔

اس حلقے کے زیر اثر تخلیق پانے والی نظمیں جدید نظمیں کہلائی۔میرا ؔجی، ن۔م۔راشدؔ، مختاؔر صدیقی، قیوم نظرؔ اور ضیاؔء جالندھری نے نظموں میں طرح طرح کے تجربے کئے اور ان میں سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ تہذیبی، مذہبی، اور سیاسی مسائل و موضوعات کو علامتوں اور استعاروں کی مدد سے نظم میں پیش کیا۔ میرا جی نے نظم میں جنسی موضوعات کو بخوبی برتا۔ مذہب کے خلاف ابھرتی آواز بھی میرا جی کی شاعری میں سنائی دیتی ہے۔ ان کی نظم ترغیب ان کے باغیانہ خیالات کی عکاس ہے۔

ادب میں جب جدیدیت وارد ہوئی تو شاعروں کا ایک بڑا طبقہ جدیدیت کے نظرئیے کے تحت نظمیں کہنے لگا۔اس دور میں نظم آزاد اور نظم معرا کو ہئیتی استحکام حاصل ہوا اور شاعروں کا ایک کارواں جدید نظم کی طرف چل پڑا۔ان شاعروں میں منیرؔ نیازی، باقرؔمہدی، محمد علویؔ، کمارؔپاشی، عادلؔ منصوری، ندا فاضلیؔ، بشرؔ نواز، شہریاؔر، بلراج کوملؔ، منیب الرحمان اور خلیل الرحمان اعظمی کا نام قابل ذکر ہے۔ان شعراء نے علامتی، استعارتی اور ایمائی طرز اظہار کو اپنایا اور اپنی نظموں میں تہہ داری اور حسن پیدا کیا۔

اخترالایمان بھی آزادی کے بعد ابھر نے والے نظم گو شعراء میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے اردو نظم کو نئی بلندیوں اور نئی جہتوں سے آشنا کیا اور صنف نظم کو اعتبار و استحکام بخشا۔انکی شاعری میں ان کی زندگی کے نشیب وفراز، محرومی، تنگدستی، اور مسائل کے نہ ختم ہونے والے سلسلے سے بیزاری اور ان کے ذہنی اضطراب کا عکس جا بجا ملتا ہے۔مگر وہ اپنی اس سخت جانی پر بھی حیرانی کا اظہار کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ان پریشانیوں اور مسائل کے بیچ بھی زندہ ہیں۔ جس کا اظہار انکی نظم ’’ایک لڑکا ‘‘ سے ہوتا ہے۔

یہ لڑکا پوچھتا ہے جب، تو میں جھّلا کے کہتا ہوں
وہ آشفتہ مزاج اندوہ پرور، اضطراب آسا
جسے تم پوچھتے ہو، کب کا مر چکا، ظالم !
اسے خود اپنے ہاتھوں سے کفن دے کر فریبوں کا
اسی کی آرزوئوں کی لحد میں پھینک آیا ہوں

فیض احمد فیض اردو نظم نگاری کا ایک بڑا نام ہیں۔ انھوں نے اپنی نظموں میں ترقی پسند خیالات کو ابھارا۔رومانیت اور انقلاب کا امتزاج سے ان کی نظموں میں لطافت اور نزاکت پیدا ہو گئی ہے۔

ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم واطلس و کمخواب میں بُنوائے ہوئے
جا بجا بجھتے ہوئے کوچہ وبازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے

فیض نے محض ترقی پسندی نہیں بلکہ اپنی نظموں میں جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے خیالات کو بھی ابھارا ہے۔

آج شب دل کے قریں کوئی نہیں
آنکھ سے دور طلسمات کے درواہیں
کئی خواب در خواب محلات کے درواہیں
کئی اور مکیں کوئی نہیں

یوسف ظفر بھی جدید اردو نظم کے معماروں میں سے ایک ہیں۔ انکی شعری کائنات زندگی کی تلخ حقیقتوں اور اقدار کی شکست وریخت پر محیط ہے۔ وہ ایک صالح اقدار معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں۔ قیوم نظر جدید اردو نظم کو فروغ دینے میں آگے آگے رہے۔انکی شاعری بحرانی دور کی پیداوار ہے۔جب ہندوستانی معاشرے میں اضطراب اور بے چینی چھائی ہوئی تھی۔

مجید امجد کا شمار اہم نظم گو شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی نظموں میں تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ انہوں نے اردو نظموں کو ایک نیا لہجہ اور نیا اسلوب دیا اور نظموں کو ذات اور کائنات کے پوشیدہ گوشوں کا آئینہ بنادیا۔وہ زندگی کے تلخ حقائق، جدید انسان کے احساس زباں اور ظالم نظام کے جبر تلے پستے ہوئے عوام کے درد و کرب کو اپنی نظموں میں پیش کرتے ہیں۔

عشق پیتا ہے یہاں خوں نابہ دل کے ایاغ
آنسوؤں کے تیل سے جلتا ہے الفت کا چراغ
جس جگہ روٹی کے ٹکڑے کو ترستے ہیں مدام
سیم و زر کے دیوتائوں کے سیہ قسمت غلام

اسی طرح باقر مہدی، منیب الرحمان، خلیل الرحمان اعظمی، شہریار اور زبیر رضوی کے یہاں بھی نظموں کی ایک کائنات ملتی ہے۔ان کا لہجہ اور انکی فکری کائنات مختلف ہوتے ہوئے بھی وہ اپنی نطموں میں اسی معاشرے کے دُکھ سُکھ اور محرومیوں اور مظلومیوں کی داستان سناتے ہیں جس میں وہ سانس لیتے ہیں۔

شہریار جدید صنعتی اور مشینی معاشرے میں انسانوں کے تہذیبی المیوں کو نظموں میں پیش کرتے ہیں تو زبیر رضوی ماضی کی تہذیبی میراث کے امین ہیں اور وہ گزشتہ عظمتوں کی بازیافت اپنی نظموں میں کرتے ہیں۔ بلراج منیرا اپنی نظموں میں انسانیت کی شکست و ریخت پر فکر مند دکھائی دیتے ہیں۔

رونق نعیم کا شمار ان جدید نظم نگاروں میں ہوتا ہے جس نے اپنی شاعری کی ابتدا نظم نگاری سے کی۔فرد کی نفسیاتی پیچیدگیوں اور جنسی کشمکش کا اظہار اپنی نظموں کے پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔شہناز ؔنبی بھی نئی نظموں کی ایک معتبر آواز ہیں۔ انکی نظموں میں عصری آگہی اور جدید دور کے انسانوں کے کرب اوربے بسی اور صنعتی دور کی کھوکھلی اخلاقیات کا عکس ملتا ہے۔ان کی نظمیں زندگی کی تلخ حقیقتوں کے تا نے بانے سے بُنی ہوئی ہیں۔

ندا فا ضلی نے سیاسی و معاشرتی مسائل کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا۔دور حاضر کے جد ید نظم نگاروں میں اشہرؔ ہاشمی، غیر بہرائچی، شفیق فاتمہ، جینت پرمار، پر تپال سنگھ بیتاب، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، جمال اویسی، پرویز، شہریار، عذرا پروین، صبا اکرام، شفق، طارق قمر، ترنم ریاض، راشد انور راشد وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

بحثیت مجموعی جدید اردو نظم متنوع فکری رجحانات کی حامل ہے۔ جدید نظم کے شعرا دیگر فکری زاویوں کے ساتھ ساتھ گہرے سماجی شعور سے بھی متصف ہیں۔ جدید اردو نظم نے بھی زمانی تبد یلی کے ساتھ ساتھ اپنے ادبی شعور کا اظہار کیا۔