نظم برکھارت کا خلاصہ

0

نظم برکھارت میں “الطاف حسین حالی“گرمی کی شدت کو بیان کرتے ہوئے برسات کے آنے اور اس سے موسم میں ہونے والی تبدیلیوں کو بیان کیا ہے۔ شاعر نے اس برسات کو موسم کی جان ، قدرت کی شان ، مور و ملخ کی جان اور صاحب عرفان کے لیے فیض قرار دیا۔ جس کی آمد کے لیے سب نے خوب ساری دعائیں کی اور یہ برسات سینکڑوں التجاؤں کی دین ہے کہ اس سے قبل موسم کی یہ صورت حال ہو چکی تھی کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا سب لوگ کچھ لمحوں کے مہمان ہوں۔ کیوں کہ گرمی کی شدت میں اس قدر اضافہ ہو چکا تھا کہ انسان اور حیوان سبھی بے حال تھے۔

گرمی کی وجہ سے بازار بے رونق ہو چکے تھے کاروبار زندگی معطل ہو گیا۔ بازاروں میں اکا دکا نظر آنے والوں کا ہجوم بھی برف اور سبیل کے گرد دکھائی دیتا تھا۔ گرمی کا اثر بڑوں پہ ہی نہیں بچوں پہ بھی ہوا تھا کہ ان کی پیاس مٹنے کو نہ آتی تھی جہاں ہی وہ پانی کو دیکھتے تو مم مم کی پکار کرنے لگتے تھے۔لوگوں کا بسر چھاؤں اور ٹٹی تلے ہو رہا تھا۔ محض انسان ہی نہیں جانور بھی اس گرمی کے ستائے ہوئے تھے۔

شیر اپنی کچھار میں دبکے ہوئے تھے جبکہ لومڑیاں گرمی سے بے حال تھی۔ مگرمچھ پانی میں بے سدھ پڑے ہوئے تھے۔ گرمی کا یہ عالم تھا کہ گویا جنگلوں میں آگ لگی ہوئی ہو اور دریا کا پانی کھول رہا تھا۔ ہر طرف خشک سالی اور گرد کے طوفان اٹھ رہے تھے۔ بڑے اور بچوں سب کے چہرے کملائے ہوئے تھے۔

صبح سورج کے طلوع ہونے سے شام تک گرمی کا یہی عالم رہتا تھا اور ایسی صورت میں پنکھوں کی ہوا بھی آگ برساتی تھی۔ شدید لو کا عالم تھا۔ شام تک یہی عالم تھا کہ اچانک سے آسمان پہ بادل آئے جس سے ہوا میں تبدیلی آئی اور پچھم سے آسمان پہ جوق در جوق بادل نمودار ہونے لگے۔جس سے موسم یکسر بدل گیا اور رات سوتے وقت جو اساڑھ کا عمل تھا وہ صبح تک ماہ میں بدل چکا تھا کہ گویا رات تو لاہور میں آئی ہو اور دن کشمیر میں چڑھا ہو۔

اس اچانک تبدیلی سے انسان سے لے کر جمادات و نباتات تک میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی اور تمام لوگ اپنے عقائد کے مطابق موسم کی اس خوشگوار تبدیلی پر شکر کے کلمات ادا کرنے لگے۔ موسم کی اس تبدیلی سے سب پہ قدرت کا راز کھلا کہ ہر تکلیف یا مشکل کے بعد راحت ضرور ملتی ہے۔ اس سے ہر جانب سبزہ لہلانے لگا درختوں نے گویا غسل صحت کیا ہو۔باغوں میں پھول کھل گئے تمام اشجار ہرے ہوگئے وہ باغ جہاں گرد اڑتی وہاں جھولے جھولتے دکھائی دینے لگے جبکہ وہ درخت جنھیں جانور چر جاتے تھے اب آسمان سے باتیں کررہے تھے۔

ہر چیز حمد و ثنا میں مشغول اور موسم کی اس تبدیلی سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ لڑکیاں باغوں میں جھولے جھول اور گیت گا رہی تھیں۔ دریاؤں اور ندیوں میں پانی زوروں پہ تھا جسے دیکھ کر تیراکی کے ماہرر لوگوں کے حوصلے بلند ہو چکے تھے اور سمند کے درمیان میں ایک طوفان کا سماں تھا کہ جس سے مچھلیوں کی جان کو بھی خطرہ تھا۔

ایسے میں وہ شخص جو تلاش روزگار کی خاطر اپنے پیاروں سے بچھڑا اور پردیس میں پریشان تھا لیکن جیسے ہی موسم نے کروٹ لی اس کا مزاج بھی بدلا اور اس پہ چھائی اداسی ایک لمحے کو تو دور ہوئی لیکن اگلے ہی لمحے اس موسم کی خوبصورتی میں اسے اپنے محبوب لوگوں کی یاد ستانے لگی اور اس نے موسم کے سنگ یہ پیغام بھیجا کہ تمھارے بغیر برکھا کی جو بوند جسم پہ پڑتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا جسم پہ کوئی چنگاری گری ہو۔

اگر جسم کو ٹھنڈی ہوا لگتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ٹھنڈی ہوا نہیں گویا کسی نے دل میں آگ کو سلگا دیا ہو۔اپنوں سے دور پردیس میں دل نے کیا خوش ہونا ہوتا ہے وہ بھی ایسی صورت میں کہ جب دل میں اپنے وطن کی یاد بھری ہوئی ہو۔ یہ یاد دل میں کسی تیر کی طرح سے چھبتی اور اس یاد کی درد ناک فریاد میں ایک ایسا درد اور سوز موجود ہوتا ہے کہ اس کو سن کر کوئی اپنا دل پکڑنے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔آخر میں شاعر نے اس پریشان حال مسافر پہ غور کیا تو وہ حالی کا دوست نکلا۔