نظم تاج محل کی تشریح

0

ساحر لدھیانوی کی نظم “تاج محل” ایک تیرہ اشعار پر مشتمل پابند نظم کی ہیت میں لکھی گئی نظم ہے۔ساحر لدھیانوی کو گیت نگاری میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ انھوں نے یہ نظم 1964ء میں ایک فلم غزالہ کے گیت کے طور پر تحریر کی۔ یہ نظم 10 بندوں پر مشتمل ہے۔اس نظم میں شاعر نے شاہجان بادشاہ کے اپنی ملکہ ممتاز بیگم کے لیے بنائے گئے مقبرے تاج محل کے لیے اپنے جذبات کو پیش کیا ہے۔اس نظم میں وہ اپنی محبت کو غریب کی محبت کہہ کر اس کا موازنہ شاہجان کے تاج محل سے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادیٔ رنگیں سے عقیدت ہی سہی
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی

اس بند میں شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تاج محل جو کہ عشق و محبت کی ایک لازوال تصویر ہے بلاشبہ یہ تمھارے لیے محبت کی ایک علامت ہو گی اور تمھیں تاج محل کی اس رنگین وادی سے محبت اور عقیدت بھی ضرور ہو گی لیکن میرے محبوب مجھے کہیں اور ملا کرو اور ملاقات کے لیے یہاں مت بلایا کرو کیونکہ یہ بادشاہوں کی محفل ہے اور میں غریب لوگوں کو کوئی ٹھکانہ یا گزر نہیں ہے۔ اس لیے مجھے یہاں ملاقات کے لیے مت بلایا کرو۔

ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی
میری محبوب پس پردہ تشہیر وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ راستہ جہاں پہ بادشاہوں کی شان و شوکت کے نشان ثبت کیے گئے ہوں جہاں ان بادشاہوں کا جلال بولتا ہو وہاں بھلا محبت بھری روحوں کی آمد کا سفر کیا معنی رکھتا ہے۔اے میرے محبوب وفا اور محبت کے پسِ پردہ جو تشہیر کی جاتی ہے اس سطوت اور شان و شوکت کے نشانات کو بھی دیکھا ہوتا۔

مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا
ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ مردہ بادشاہوں سے بہلنے والی محبت پہلے اپنے تاریک مکانوں کو دیکھا ہوتا کیونکہ اس دنیا میں لاکھوں لوگوں نے محبت کی ہے مگر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ ان کی محبت کے جذبوں میں صداقت نہیں تھی۔

لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں

اس۔ بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے محبت کی اور ان کی محبت کا جذبہ سچا تھا ان لوگوں کے پاس اپنی محبت کے جذبے کے اظہار کی نمود و نمائش کا سامان موجود نہیں تھا۔ کیونکہ وہ لوگ غریب لوگ تھے۔ تاج محل جیسی عمارات بڑے بڑے مقبرے اور قلعے تعمیر کرنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ یہ محل فصلیں اور مقبرے تو جابر حکمرانوں اور شہنشاہوں کی عظمت کے ستونوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔

سینۂ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں
میری محبوب انہیں بھی تو محبت ہوگی
جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس زمانے کے سینے میں جو ایک ناسور نما زخم ہے وہ خاصا پرانا ناسور پے۔ان سینوں میں میرے اور تمھارے آباؤ و اجداد کا خون جذب ہو چکا ہے۔ کیونکہ میرے محبوب ان لوگوں نے بھی تو محبت کی ہو گی اور انھی کی محبت کاریگری اور فن مہارت نے ہی اس محبت کو ایک خوبصورت اور حسین و جمیل شکل عطاکی ہے۔

ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ان کے پیاروں لوگوں کے مقبرے تب سے لے کر اب تک بے نشان ہی رہے ہیں۔ ایک طرف تاج محل جیسی عمارات ہے تو دوسری جانب ان کے مقبروں پہ آج تک کسی نے ایک شمع بھی روشن نہیں کی ہے۔ یہ باغ، جمنا کا کنارا اور یہ محل اور سونے چاندی سے سجائی کی دیواریں ، دروازے اور کھڑکیاں وغیرہ سب کچھ ان کے پاس نہیں ہے۔

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنی دولت کا سہارا لے کر ہم سب غریبوں کی محبت کا مذاق اڑایا ہے کہ ہم غریب لوگ اپنے محبوب سے محبت کے اظہار کے لیے تاج محل کھڑا نہیں کر سکتے ہیں۔اس لیے میرے محبوب مجھے کہیں اور ملا کرو۔