نظم خدا کی صنعت کی تشریح

0

خدا کی صنعت “اسماعیل میرٹھی” کی مثنوی ہے۔ یہ نظم 40 اشعار پر مشتمل ہے اور اسماعیل میرٹھی کے مجموعے “کلیاتِ اسماعیل میرٹھی” کے حصہ اول مثنویات میں سے لی گئی ہے۔اس نظم میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کی کارگری اور صناعی کا ذکر کیا ہے کہ اللہ نے مناظر فطرت مثلاً پھول ، پودوں ، جانوروں ، پرندوں اور اس کائنات کے ذریعے قاری کو غور و فکر کی جانب مائل کیا ہے۔

جو چیز خدا نے ہے بنائی
اس میں ظاہر ہے خوشنمائی

اللہ تعالیٰ کی صنعت گری کا ذکر کرتے ہوئے شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ اس کائنات موجود تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ہیں اور سبھی اس کی قدرت کے کرشمے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جوبھی شے تخلیق کی ہے اس میں اللہ کی قدرت کی خوشنمائی و خوبصورتی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

کیا خوب ہے رنگ ڈھنگ سب کا
چھوٹی بڑی جس قدر ہیں اشیا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں ہر طرح کی اشیاء کو تخلیق کیا ہے اور اس میں بڑی چیزیں بھی ہیں اور چھوٹی چیزیں بھی ہیں یہ تمام اشیاء خواہ وہ چھوٹی ہیں یا بڑی ہیں اللہ نے ہر چیز کو خوب طریقے سے تخلیق کیا کہ ہر چھوٹی بڑی چیز اس کی قدرت کا منھ بولتا ثبوت بن جاتی ہے۔

روشن چیزیں بنائیں اس نے
اچھی شکلیں دکھائیں اس نے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس قدرت میں اپنی قدرت کے بے بہا جلوے بکھیرے ہیں اور کئی روشن چیزیں تخلیق کی ہیں۔ ان روشن کرشمات کی ایک نشانی کئی ایک اچھی شکلیں ہیں یہ اچھی اور خوبصورت شکلیں کائنات میں روشن انسانی چہروں کی صورت میں بھی بکھری ہوئی ہیں اور ویسے بھی قدرت کی ہر ایک شے میں جلوہ گر ہیں۔

ہر چیز کی ادا ہے نرالی
حکمت سے نہیں ہے کوئی خالی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس کائنات میں قدرت کی تخلیق کی ہوئی ہر ایک چیز نرالی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی کوئی بھی شے بلا ضرورت اور بلاوجہ تخلیق نہیں کی بلکہ ہر ایک چیز کے پیچھے اس کی کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہے۔ اس حکمت کو مکمل اور بہترین طور پر جاننے والی ذات بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔اللہ کی ذات نے ایک پتہ بھی بلاوجہ یا بے مقصد تخلیق نہیں کیا ہے۔

ہر چیز ہے ٹھیک ٹھیک لاریب
ہیں اس کے تمام کام بے عیب

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس بات میں شک اور شبہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر شے بالکل ٹھیک تخلیق کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی گئی ہر ایک چیز اور اس کی ذات سب کچھ مکمل طور پر بے عیب ہیں۔

ننھی کلیاں چٹک رہی ہیں
چھوٹی چڑیاں پھدک رہی ہیں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ باغ میں بھی قدرت کے کرشموں کا ایک عجب سماں جلوہ گر دکھائی دیتا ہے کہ پھولوں کی ننھی کلیاں چٹک کر پھول بن رہی ہیں جبکہ ان پھولوں اور پودوں پر خوبصورت اور ننھی منی سی چڑیاں ایک شاخ سے دوسری شاخ پہ پھدکتی پھر رہی ہیں۔

اس کی قدرت سے پھول مہکے
پھولوں پہ پرند آ کے چہکے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ہر جانب اللہ تعالیٰ کی قدرت دعوت نظارہ پیش کرتی ہے اور ہر طرف صرف اس ذات کی قدرت کے پھول مہکتے دکھائی دے رہے ہیں اور یہی نہیں بلکہ پھولوں پہ موجود چرند اور پرند بھی آ آ کر چہکتے ہیں اور ان کی یہ چہک اللہ تعالیٰ کی عظمت کا بیان ہے۔وہ اپنے تخلیق کرنے والے یعنی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرتے ہیں۔

چڑیوں کے عجیب پر لگائے
اور پھول ہیں عطر میں بسائے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ نے ہر ایک شے کو اس قدر خوبصورتی اور تنوع سے تخلیق کیا ہے کہ چڑیوں کو بھی کئی طرح سے اور کئی اقسام میں بنایا ہے ان کے کئی طرح کے خوبصورت اور رنگ برنگے پر ہیں جبکہ اللہ تعالٰی نے پھولوں کے اندر بھی خوشبو (عطر بھری خوشبو) کو بسایا ہے۔

چڑیوں کی ہے بھانت بھانت آواز
پھولوں کا جدا جدا ہے انداز

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ کی قدرت کی بڑائی یہ ہے کہ اس نے ہر ایک شے کو بہت متنوع انداز میں تخلیق کیا ہے۔ چڑیوں کی ہی کئی طرح کی اقسام تخلیق کردہ ہیں۔ سب کی نہ صرف شکل و صورت ایک دوسرے سے جدا ہے بلکہ ایک کی آواز بھی دوسرے سے منفرد ہے۔ اسی طرح پھولوں کی بھی کئی طرح ہی اقسام ہیں مگر ہر ایک کی قسم اور رنگ ایک دوسرے سے جدا ہیں اور یہ سب تخلیق کرنے والے یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کرشمے ہیں۔

محلوں میں امیر ہیں بہ آرام
ہے در پہ کھڑا غریب ناکام

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ کی تخلیق کردہ مخلوق میں ایک رویہ یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ لوگوں کی زندگیوں اور رہن سہن میں بھی ایک تفریق پائی جاتی ہے۔ امیر لوگ جو محلوں میں امارت اور عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں تو وہ خود کو وہاں بے آرام محسوس کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف غریب لوگ ان کے در پہ ناکامی کا شکار ہو کر کھڑے ہوئے ہیں اور وہ اپنی ضرورت کے لیے کہیں نہ کہیں ان کے دستِ نگر ہیں۔

ہے کوئی غنی تو کوئی محتاج
بے گھر ہے کوئی کسی کے گھر راج

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ تفریق اس دنیا کی بنیادی خصوصیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس معاشرے میں موجود ہر ذی روح کو ساخت اور مرتبے کی بنا پر دوسرے سے جدا تخلیق کیا ہے۔ کوئی یہاں پہ غنی ہے کہ اسے ہر طرح سے نوازا گیا ہے تو کئی اپنی بنیادی ضروریات کے لیے کسی نہ کسی کا محتاج ہے۔ کوئی رہنے کے لیے گھر کو ترس رہا ہے تو کوئی محل نما گھروں میں راج کر رہا ہے اور ٹھاٹ بھری زندگی گزار رہا ہے۔

روزی دونوں کو دی خدا نے
معمور ہیں قدرتی خزانے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ نے بلاشبہ انسان کو ایک دوسرے سے الگ ساخت اور مرتبے پہ تخلیق کیا ہے مگر دونوں کو رزق عطا کرنے والی ایک ہی ذات ہے یعنی اللہ تعالیٰ اور دونوں کو قدرتی نے اپنے عطا کیے ہوئے خزانوں پہ معمور کر رکھا ہے۔

تاروں بھری رات کیا بنائی
دن کو بخشی عجب صفائی

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ نے قدرت کے کئی نظاروں میں اپنے جلوے ظاہر کیے ہیں۔ انسان کے لیے تاروں سے بھرپور ایک خوبصورت رات کو تخلیق کیا ہے تو دوسری طرف ایک شدید اندھیرے کے بعد ایک روشن اور خوبصورت دن تخلیق کیا اور اس دن کو صفائی عطا کرنے کی قدرت بھی اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے۔

موتی سے پڑے ہوئے ہیں لاکھوں
ہیرے سے جڑے ہوئے ہیں لاکھوں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ کی تخلیق کردہ تاروں بھری خوبصورت رات کو دیکھ کر انسان کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے لاکھوں طرح کے موتی آسمان میں جڑ دیے گئے ہوں یا یہ موتی نہیں بلکہ لاکھوں طرح کے ہیرے آسمان میں جڑے ہوئے ہوں جو رات کے اندھیرے میں جگمگا کر اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔

کیا دودھ سی چاندنی ہے چھٹکی
حیران ہو کر نگاہ ٹھٹکی

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رات کو صرف ہیرے جیسوں جگمگاتے تاروں کے حسن سے نہیں نوازا ہے بلکہ رات کے دبیز پردےمیں اور بھی کئی رنگ پوشیدہ ہیں جیسے کہ رات کو چاند کے روشن ہونے سے دودھ سی شفاف چاندنی ہر سو چھا جاتی ہے جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا کسی نے دودھ کا چھٹکا لگایا ہو اور ہر نگاہ اس منظر کی جانب حیران ہو کر اٹھتی ہے۔

تارے رہے صبح تک نہ وہ چاند
آگے سورج کے ہو گئے ماند

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جیسے ہی رات آخری پہر میں داخل ہوتی ہے تو اس کے بعد صبح کا سویرا چھا جاتا ہے جس کے بعد آسمان سے رات میں جگمگانے والے تارے اور چاند دن کی روشنی میں یکسر غائب ہو جاتے ہیں اور ان سے زیادہ روشن اور طاقت ور سورج آسمان پہ نمودار ہو جاتا ہے جس کی روشنی کے سامنے چاند اور تاروں کی چمک ماند پڑ جاتی ہے۔

نیلا نیلا اب آسمان ہے
وہ رات کی انجمن کہاں ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس سب کے بعد آسمان نیلی چادر تان لیتا ہے اور تا حد نگاہ آسمان پہ نیلی چادر ہی چھائی دکھائی دیتی ہے اور انسان اس کو دیکھ کر یہ سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ رات تاروں اور چاند سے آسمان پہ جو انجمن قائم تھی وہ اب کہاں گئی ہے۔

شام آئی تو اس نے پردہ ڈالا
پھر صبح نے کر دیا اجالا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ رات سے قبل شام آئی جس نے ہر جانب ایک دھندلا اندھیرا طاری کر دیا۔ اس شام کے بعد گہری رات چھائی اور اس کے بعد پھر صبح کا سویرا چھا گیا۔ صبح ہوتے ہی ہر جانب اجالا چھا گیا اور یہ سب اللہ کی قدرت کے کرشمے ہیں۔

جاڑا ، گرمی ، بہار ، برسات
ہر رت میں نیا سماں نئی بات

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی جھلک محض دن اور رات کے آنے جانے میں نہیں جھلکتی بلکہ اللہ تعالیٰ نے موسموں میں بھی ایک تغیر پیدا کیا ہے۔ سردی اور گرمی پھر بہار اور برسات اس طرح کے متنوع موسموں کی تخلیق محض اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ اور ہر موسم ایک نیا انداز ایک نیا سماں طاری کرنے والا ہوتا ہے۔

جاڑے سے بدن ہے تھرتھراتا
ہر شخص ہے دن میں دھوپ کھاتا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جب سردی کا موسم آتا ہے تو جاڑے کی آمد کی وجہ سے جسم تھرتھرانے لگ جاتا ہے۔ اس سردی کا توڑ دھوپ کی صورت میں ملتا ہے اور جاڑے کے دنوں میں ہر شخص دن پھر دھوپ میں بیٹھتا اور دھوپ سینکتا ہے۔

سردی سے ہیں ہاتھ پاؤں ٹھرتے
سب لوگ الاؤ پر ہیں گرتے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ سردی کی وجہ سے سب کے ہاتھ اورپاؤں ٹھٹھر جاتے ہیں جس کی وجہ سے سردی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سردی سے بچنے کے لیے سب آگ کے الاؤ تاپتے ہیں اور سردی کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سرسوں پھولی بسنت آئی
ہولی پھاگن میں رنگ لائی

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جسے ہی سردی کا موسم جانے کو ہوتا ہے تو موسمِ بہار کی آمد ہوتی ہے۔ بہار کی آمد کے ساتھ ہی ہر طرف سرسوں پھول کر بسنت کا سماں کر دیتی ہے اور یہی نہیں اسی بہار میں ہولی اور پھاگن جے رنگ بھی آتے ہیں۔

پھوٹیں نئی کونپلیں شجر میں
اک جوش بھرا ہوا ہے سرمیں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ بہار کے موسم میں درختوں میں زندگی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے اور ان میں سے نئی نئی اور خوبصورت کونپلیں پھوٹ آتی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان درختوں کے سر میں ایک جوش سا بھر گیا ہو۔

جاڑے کی جو رت پلٹ گئی ہے
دن بڑھ گیا رات گھٹ گئی ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جیسے ہی سردیوں کا موسم جانے کو تیار ہوتا ہے تو موسمی تبدیلی کے ساتھ ایک اور فرق بھی نمودار ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ دن لمبے اور راتیں چھوٹی ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔

گرمی نے زمین کو تپایا
بھانے لگا ہر کسی کو سایہ

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جاڑے کے بعد گرمی کے موسم کی آمد ہوتی ہے اور گرمی کے موسم کے آتے ہیں زمین تپنے لگتی ہے اور ہر ایک شخص کو سایہ اچھا لگتاہے۔ وہی لوگ جو پہلے جاڑے میں دھوپ تاپتے تھے اب سایہ دار جگہ ڈھونڈ کر اس کی جانب بھاگتے ہیں۔

برسات میں دل ہیں بادلوں کے
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ گرمی کے اندر ہی قدرت ایک نئے موسم کا جلوہ دکھاتی ہے جو کہ برسات ہے۔برسات کی امد کے ساتھ ہی ہر طرف بادلوں کے دل منڈلانے لگتے ہیں۔ اور ہر طرف سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کی آمد ہوتی ہے۔

رو آئی ہے زور شور کرتی
دامان زمین کو کترتی

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ برسات کی آمد کے ساتھ ہی زور و شور کی بارش برستی ہے اور اس کی شدت ایسی ہوتی ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ زمین کے دامن کو کاٹتی ہوئی اور شور کرتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہو۔

کس زور سے بہہ رہا ہے نالا
اونچے ٹیلے کو کاٹ ڈالا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے برسات میں جو خوب کھل کہ بارش برسی تو نالے کے بہنے میں شدت سی آگئی اور نالہ اس روانی سے بہنے لگا کہ اس نے اپنے راستے میں آنے والے اونچے ٹیلے کو بھی کاٹ ڈالا۔

بل کھا کے ندی نکل گئی ہے
رخ اپنا ادھر بدل گئی ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ برسات کی بدولت ندیاں رواں دواں ہو گئیں اور ان میں تیزی آ جانے کی بدولت ندی بھی اپنا رخ بدل گئی اور وہ اپنے پرانے راستے کی بجائے نئے راستے سے رخ بدل کر نکل گئی۔

دریا ہے رواں پہاڑ کے پاس
بستی ہے بسی اجاڑ کے پاس

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ برسات کی آمد کا ایک کرشمہ یہ دیکھنے کو ملا کہ پہاڑوں کے پاس دریا رواں دواں دکھائی دیے اور یہی نہیں بلکہ اجاڑ جگہوں پہ بھی بستیاں آباد ملیں جو کہ برسات اور قدرت کے کرشمے ہیں۔

بستی کے ادھر ادھر ہے جنگل
جنگل ہی میں ہو رہا ہے منگل

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ بستی کے اردگرد جنگل بسا ہوا تھا اور جنگل میں اس قدر ہریالی اور خوبصورتی کا سماں تگا کہ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے جنگل میں منگل کا سا سماں ہو رہا ہو۔

مٹی سے خدا نے باغ اگائے
باغوں میں اسی نے پھل لگائے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ کی قدرت کا یہ کرشمہ ہے کہ اس نے مٹی کے اندر سے ایسے خوبصورت خوبصورت باغ اگائے اور محض ان درختوں جو اگایا ہی نہیں بلکہ انھیں پھل دار درخت بنایا اور باغوں میں ان درختوں پہ پھلوں کی موجودگی اس کی رونق کو بڑھاتی ہے۔

میوے سے لدی ہوئی ہے ڈالی
دانوں سے بھری ہوئی ہے بالی

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ باغ میں موجود درخت پھلوں سے اس قدر لدے ہوئے تھے کہ وہ کچھ ایسا منظر پیش کررہے تھے کہ ان درختوں کی ڈالیاں میووں سے لدی ہوئی تھیں جبکہ ہر ایک ڈالی اور بالی دانوں سے بھرپور تھی۔

سبزے سے ہرا بھرا ہے میدان
اونچے اونچے درخت ذی شاں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ برسات کے بعد سے ہر جانب سبزہ جگمگا نے لگا اور سارے میدان سبزے سے بھر گئے جبکہ ان میدانوں میں اونچے اور بلند درخت موجود تھے۔

ہم کھیلتے ہیں وہاں کبڈی
مبری ہے کوئی کوئی ہے پھسڈی

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ وہ میدان کبڈی کے کھیل کے لیے استعمال میں آتے تھے کوئی اس میں مبری اور کوئی پھسڈی کا کردار ادا کر رہا ہوتا تھا۔ یعنی کوئی کھیل کود میں آگے نکل جاتا اور کوئی پیچھے رہ جاتا تھا۔

گائے بھینسیں عجب بنائیں
کیا دودھ کی ندیاں بہائیں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ کی قدرت کے اس نے کئی طرح کی گائے اور بھینسوں کو تخلیق کیا۔ یہ گائیں اور بھینسیں دودھ کی ندیاں بہا دیتی ہیں یعنی بے بہا دودھ دیتی ہیں جن سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے۔

پیدا کیے اونٹ بیل گھوڑے
ہر شے کے بنا دیے ہیں جوڑے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ نے جانوروں میں اونٹ اور بیل تخلیق کیے اور اللہ کی قدرت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے ہر ایک شے کے جوڑے تخلیق کیے تاکہ ان کی افزائش برقرار رہے۔

روشن آنکھیں بنائیں دو دو
قدرت کی بہار دیکھنے کو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ نے انسان کو اس کے کرشمات دیکھنے جو دو روشن آنکھیں دیں۔ ان آنکھوں کی مدد سے انسان قدرت کی بہار کو دیکھتا اور لطف اندوز ہوتا ہے۔

دو ہونٹ دیئے کہ منہ سے بولیں
شکر اس کا کریں زبان کھولیں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو منھ سے اظہار اور اللہ کی عظمت بیان کرنے کے کیے دو ہونٹ عطا کیے تاکہ وہ بولے منھ کھولے اور اللہ کی عظمت بیان کرتے ہوئے اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرے۔

ہر شے اس نے بنائی نادر
بیشک ہے خدا قوی و قادر

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس دنیا میں موجود ہر ایک شے نادر و نایاب ہے اور اپنے بنانے والی کی قدرت کا منھ بولتا ثبوت ہے اور بیشک اسے تخلیق کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے جو ہر چیز پر قادر اور طاقت رکھنے والا ہے۔