نظم شکست زنداں کا خواب کا خلاصہ

0

جوش ملیح آبادی کی نظم “شکست زنداں کا خواب” ان کے مجموعۂ کلام “شعلہ و شبنم” میں شامل ہے۔ یہ نظم کل آٹھ (8) اشعار پر مشتمل ہے۔جوش ملیح آبادی کی یہ نظم ان کے انقلابی خیالات کی ترجمان ہے۔ اس کا پسِ منظر تحریک آزادی کے وقت کی گئی جدوجہد اور اس کے نتائج ہے۔

ایک قیدی کے زندان میں دیکھے خواب کو شاعر یوں بیان کرتا ہے کہ ہندوستانی قوم نے آزادی حاصل کرنے کا ایک حسین خواب سجایا۔ لیکن فرنگیوں کی جانب سے انھیں کئی طرح کے مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔ مگر اب اس غلامی کے خلاف جدو جہد کا آغاز ہو گیا ہے۔ان انقلاب کے نعروں سے اور تکبیروں سے ہندوستان کے زندان اور قید خانے بھی گونج اٹھے ہیں۔ اس نہ ختم ہونے والی غلامی کی وجہ سے کچھ قیدی اکتائے ہوئے ہیں اور وہ اس غلامی سے نجات پانے کے لیے اپنی زنجیروں کو توڑنا شروع ہو گئے ہیں۔

وہ قیدی جو فرنگیوں کے ظلم و ستم اور قید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور وہ سپاہی جو ان کی غلامی میں قیدیوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں سب زندان کی دیواروں تلے جمع ہیں اور ان مظالم کو سہہ کر ان کے حوصلے اس قدر بلند ہو چکے ہیں کہ ان کے سینوں میں اب ایک جوش و ولولہ ہے اور ان کی آنکھوں میں آزادی کی چمک کسی تیز دھار تلوار کی طرح جگمگا رہی ہے۔ہندوستان کے وہ بھوکے لوگ جو انگریزوں کی محکومی بھری زندگی گزارنے پر مجبور تھے انگریز ان کے اناج پر بھی قابض تھے اب انھی لوگوں کی آنکھوں میں بجلی بھری ہوئی ہے۔

انگریزوں کی توپوں کے منھ ان کے جوش کے سامنے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں جبکہ تقدیر میں بھی حرکت محسوس کی جا سکتی ہے کہ اب انگریزوں کی کوئی تدبیر کام نہیں آ رہی ہیں اور جلد ہندوستانی قوم آزادی حاصل کرنے والی ہے۔گدا یعنی فقیر کی آنکھوں میں سرخی موجود ہے یعنی وہ غلامی سے نجات کا خواہاں ہے جبکہ دوسری طرف ان پر حکمرانی کرنے والے سلطان کا چہرہ پوری طرح بے نور دکھائی دے رہا ہے۔ تباہی کا پرچم ہر جانب لہرا رہا ہے اور فرنگیوں کی تمام تدبیریں اور تعمیرات اس کے سامنے جھک گئی ہے۔ان لوگوں کو اس چیز کی خبر ہی نہیں تھی کہ جن لوگوں کی روح کو زیر و زبر کر رکھا ہوا تھا۔

اب انقلاب کا ایسا دور آنے والا ہے کہ گویا زمین میں سے بھی سیاہ سانپ نکلیں گے جبکہ ان مظالم کے خلاف گویا آسمان سے تلواریں برسیں گی۔فرنگیوں کو اس انقلاب کی کیا خبر تھی بلکہ وہ تو یہاں کی عوام کا خون اپنے مظالم کے ذریعے نچوڑا کرتے تھے۔ مگر انھوں نے عوام کا جو خون نچوڑ کر ان کو تکلیف سے دوچار کیا ہے اب ہندوستانی عوام کے انھی بے رنگ چہروں سے ہزاروں شکلیں ابھر کر سامنے آئیں گیں اور ہر چہرہ اپنے خون کی سرخی کے ساتھ انقلاب کی داستان رقم کرے گا۔

ان لوگوں کو اس بات کی بھلا کیا خبر ہو سکتی تھی کہ ان لوگوں نے جبرا عوام کے ہونٹوں پہ تالے لگا رکھے تھے۔ کہ جن ہونٹوں کو انھوں نے قفل زدہ کیا انھی سے ایک دن ان کے مظالم کے خلاف تقاریر بلند ہوں گی۔آخر میں شاعر انقلاب کی صدا لگاتے ہوئے کہتا ہے کہ اٹھو اور سنبھل جاؤ کہ انقلاب آ گیا ہے اور اس انقلاب کی صداؤں سے پورا زندان بھی گونج اٹھا ہے۔ تمام قیدی اس زندان کی قید سے چھوٹ گئے ہیں۔ ان کی گونج سے درو دیوار لرز گئے ہیں اور غلامی کی تمام زنجیریں ٹوٹ گئی ہیں۔ہم سب ہر جانب آ زادی کا پرچم لہرا دیں گے۔