نظم انقلاب کی تشریح

0

مخدوم محی الدین کی نظم “انقلاب” 12 اشعار پر مشتمل نظم ہے۔اس نظم میں شاعر نے اپنی انقلابی فکر کو بیان کیا ہے۔

مخدوم محی الدین نظم “انقلاب” تشریح:

اے جان نغمہ جہاں سوگوار کب سے ہے
ترے لیے یہ زمیں بے قرار کب سے ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے میری جان اس جہان کا یہ نغمہ کب سے اور کیوں سوگواری میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس وطن کی یہ سر زمین تمھارے لیے (انقلاب) کے لیے کب سے بے چین پھر رہی ہے۔

ہجوم شوق سر رہ گزار کب سے ہے
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ پر شوق لوگوں کا ہجوم سے کب سے تمھارے گزرنے کا منتظر ہے۔ اے وقت اب کہ گزر بھی جاؤ کہ کب سے تمھارا انتظار کیا جا رہا ہے۔

نہ تابناکیٔ رخ ہے نہ کاکلوں کا ہجوم
ہے ذرہ ذرہ پریشاں کلی کلی مغموم

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ چہروں کی چمک کب سے تمھاری منتظر ہے کہ نہ تو چہروں پہ چمک موجود ہے اور نہ ہی چہرے پہ بل دار بالوں کا کوئی ہجوم موجود ہے۔ایک ایک ذرہ پریشان ہے اور اس وطن کی ہر ایک کلی پہ اداسی طاری ہے۔

ہے کل جہاں متعفن ہوائیں سب مسموم
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ وہ ہوائیں جن سے تعفن زدہ بدبو دار مہک اٹھتی تھی اس سے سارا جہان زہر آلودہ ہو رکھا ہے۔اے وقت گزر بھی جاؤ کہ ہم کب سے اب تمھارے منتظر ہیں۔

رخ حیات پہ کاکل کی برہمی ہی نہیں
نگار دہر میں انداز مریمی ہی نہیں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ زندگی کے چہرے پہ سر کے بالوں کا برہم انداز بالکل نظر نہیں آ رہا ہے۔ دنیا کی تصویر میں کہیں بھی مریمی انداز موجود نہیں ہے۔

مسیح و خضر کی کہنے کو کچھ کمی ہی نہیں
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مسیح اور خضر علیہ السلام کو کچھ بھی کہنے کی پابندی موجود نہیں ہے۔اس لیے اے وقت گزر جاؤ کہ تمھارے گزرنے اور انقلاب کا کب سے انتظار کیا جا رہا ہے۔

حیات بخش ترانے اسیر ہیں کب سے
گلوئے زہرہ میں پیوست تیر ہیں کب سے ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہمیں زندگی بخشنے والے ترانے کب سے تمھارے اسیر ہیں۔ صبح کے ستارے کے گلے میں کب سے اور کئی ایک تیر پیوست ہیں۔

قفس میں بند ترے ہم صفیر ہیں کب سے
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ تمھارے ہم آواز لوگ تمھارے جیسا نعرہ بلند کرنے والے لوگ کب سے ایک قید میں موجود ہیں۔ اے وقت گزر بھی جاؤ کہ ہم کب سے تمھارے منتظر ہیں۔

حرم کے دوش پہ عقبیٰ کا دام ہے اب تک
سروں میں دین کا سودائے خام ہے اب تک

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ حرم اب تک آخرت کے دام میں ہے۔ لوگوں کے سروں میں اب تک دین کا خیال موجود ہے۔

توہمات کا آدم غلام ہے اب تک
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ انقلاب کی اشد ضرورت ہے کہ لوگ آج تک توہمات کے غلام ہیں۔ اس لیے اے وقت گزر جاؤ کہ ہم کب سے تمھارے گزرنے کے منتظر ہیں۔

ابھی دماغ پہ قحبائے سیم و زر ہے سوار
ابھی رکی ہی نہیں تیشہ زن کے خون کی دھار

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ لوگوں کے دماغوں میں اب تک دولت و جائیداد کی فحاشی سوار ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب تک سنگ تراش کے تیشے سے لگںے والی خون کی دھار نہیں رک رہی ہے۔

شمیم عدل سے مہکیں یہ کوچہ و بازار
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ خوشبو دار انصاف سے اس وطن کے گلی کوچے مہکیں گے اس لیے اے وقت گزر بھی جاؤ کہ ہم کب سے تیرے گزرنے کے منتظر ہیں۔