نظم سمندر کا بلاوا کا خلاصہ

0

میرا جی کی نظم “سمندر کا بلاوا “ان کے مجموعۂ کلام ’’تین رنگ‘‘ میں شامل ہے۔ یہ نظم آزاد نظم کی ہیت میں لکھی گئی نظم ہے۔ اس نظم میں تین بند شامل ہیں۔اس نظم میں زندگی کا اصل انجام سمندر میں ملاپ کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔ یہاں اس سمندر سے مراد زندگی کی وہ حقیقت بھی ہے جو کہ ہم سب کا اصل ہے اور ہمیں ایک ذات کی جانب لوٹ کر جانا ہے۔اس وقت اس دنیا، صحرا ، باغ سب کی حقیقت محض ایک آواز بن رہ جائے گی اور سب ایک ذات میں شامل ہو جائیں گے۔

شاعر اس نظم میں کہتا ہے کہ میری سرگوشیاں کہہ رہی کہ سب آ جاؤکہ تمھیں برسوں سے بلاتے بلاتے اب میرے دل پہ ایک گہری تھکن چھا گئی ہے۔کبھی سیک پل صدا سنائی دیتی ہے اور کبھی ایک عرصے بعد صدا سنائی دیتی ہے مگر اب کی بار یہ ایک انوکھی آواز آ رہی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی کو بلاتے بلاتے نہ تو کوئی آج تک تھکا ہے اور نہ ہی آگے تھکے گا۔لیکن میرے پیارے بچے مجھے چونکہ تم سے بہت محبت ہے اور اگر تم میری پکار سن کر نہ آئے تو مجھ سے برا نہ تو کوئی ہے اور نہ ہی ہو گا۔

شاعر کہتا ہے کہ مجھے پکارنے کے لیے کبھی ایک سسکی ، کبھی ایک چڑھی ہوئی تیوری اور کبھی صرف ایک مسکراہٹ ہوا کرتی تھی۔مگر یہ آوازیں اب بھی آتی ہیں۔انھی سے یہ دو روز کی زندگی ملی ہے۔مگر یہ ایک انوکھی پکار ہے کہ جس پہ گہری تھکن چھائی ہوئی ہے اور یہ تھکن ہر ایک صدا کو مٹانے کی دھمکی دے رہی ہے۔مگر ساتھ ہی شاعر کہتا ہے کہ اب کوئی صدا تو نہیں آرہی ہے محض کلیوں کے چٹکنے کی آواز ہے۔ جبکہ آنکھوں میں کوئی حرکت یا چہرے پہ کوئی مسکراہٹ نہیں ہے۔باغ میں پھول کھلنے کے بعد گر رہے ہیں اور ان پہ میری خواہش کی پریاں ا جا رہی ہیں۔

پہاڑ بھی خاموش اور ساکن ہے لیکن اس پہاڑ کی چٹانوں کے بار ابلتے ہوئے چشمے کبھی کبھار اس سے سوال کرتے ہیں کہ اس سے پار کیا چیز موجود ہے۔یہ پہاڑ ان چشموں کو بتلاتا ہے کہ میرے لیے اس پہاڑ کا دامن کافی ہے کہ اس کے دامن میں ایک وادی ہے اور وادی میں ایک ندی بھی موجود ہے جس میں ایک کشتی بہتی ہے جو کہ اس کا آئینہ ہے۔اس آئینے میں اول تو تمام شکلیں ابھر کر واضح ہوئیں مگر ایک مرتبہ جوں وہ شکلیں مٹیں تو اس کے بعد دوبارہ نہ ابھر پائیں۔اب کہ یہ دنیا ایک صحرا کا منظر پیش کر رہی ہے۔ یہ ایک خشک پتیوں کا صحرا ہے۔جہاں تیز ہوا کے بگولے بھوتوں کی عملی تصویر پیش کرتے ہیں۔

لیکن مجھے ان بگولوں سے کیا لینا کہ میں تو کہیں دور درختوں کے ایک جھرمٹ پہ اپنی نظریں جمائے بیٹھا ہوں۔ میرے لیے نہ تو اب کوئی صحرا موجود ہے۔ نہ کوئی پہاڑ ہے اور نہ ہی کوئی باغ ہے۔نہ ہی میری آنکھوں میں کوئی حرکت ہے نہ میرے چہرے پہ کوئی مسکراہٹ اور نہ میری تیوری پہ کوئی بل موجود ہے۔ بس ایک عجیب طرح کی صدا آ رہی ہے جو مجھ سے کہہ رہی ہے کہ تمھیں بلاتے بلاتے میرے دل ایک گہری تھکن طاری ہو رہی ہے۔ کیونکہ کسی کو بلانے میں نہ تو اب تک کوئی تھکا اور نہ ہی شاید کوئی تھکے گا۔ تو۔ پھر یہ آواز محض ایک آئینہ ہے کہ میں تھک چکا ہوں نہ تو کوئی صحرا ہے، نہ پہاڑ اور نہ ہی باغ مجھے بلا رہے ہیں بلکہ میرا بلاوا کہیں اور سے آ رہا ہے اور مجھے کوئی اور نہیں بلکہ سمندر بلا رہا ہے کہ اس دنیا کی ہر ایک چیز سمندر سے آئی ہے تو آؤ اور سمندر میں مل جاؤ۔