نظم مناجات بیوہ تشریح

0
اے سب سے اول اور آخر
جہاں تہاں، حاضر اور ناظر
اے سب داناؤں سے دانا
سارے تواناؤں سے توانا
اے بالا، ہر بالاتر سے
چاند سے سورج سے امبر سے

یہ اشعار الطاف حسین حالی کی نظم “مناجات بیوہ” سے لیے گئے ہیں۔ اس نظم میں شاعر نے ہمدردی نسواں کے ذیل میں ایک بیوہ عورت کی مناجات کو بیان کیا ہے ۔جس میں وہ بیوہ عورت اللہ کے حضور بہت بے کسی اور عاجزی سے اپنی التجا پیش کرتی ہے۔ اس بند میں وہ اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرتے ہوئے اس ذات کو مخاطب کرتی ہے اور کہتی ہے کہ اے اول و آخراور ہر جگہ حاضر و ناظر صفات والے رب اس دنیا میں سب داناؤں سے دانا تیری ذات ہے۔ اللہ کی ذات سب سے زیادہ توانا و طاقتور ہے۔اللہ کی ذات اس دنیا کی ہر ایک شے سے برتر اہمیت رکھتی ہے اور وہ چاند ، سورج ، آسمان ، فضا اور بادلوں سے بھی بڑی ذات ہے۔

اے سمجھے بوجھے بن سوجھے
جانے پہچانے بن بوجھے
سب سے انوکھے سب سے نرالے
آنکھ سے اوجھل دل کے اجالے
اے اندھوں کی آنکھ کے تارے
اے لنگڑے لولوں کے سہارے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ بیوہ اللہ سے مناجات کرتے ہوئے اس کی مبارک ذات کو یوں پکارتی ہے کہ اللہ کی ذات تو بغیر کچھ بتائے بھی ہماری کیفیات کو جان لیتی ہے اور اس ذات کو کچھ پہچاننے کے کیے کوئی اشارہ بھی درکار نہیں ہے۔ اے اللہ آپ کی ذات سب سے انوکھی اور نرالی ہے ہمارے دلوں کو روشن کرنے والی ذات بھی اللہ کی ہے وہی اندھوں کی آنکھوں کو نور عطا کرنے والا اور لولوں لنگڑوں کا بھی سہارا ہے۔

ناتیوں سے چھوٹوں کے ناتی
ساتھیوں سے بچھڑوں کے ساتھی
ناؤ جہاں کی کھینے والے
دکھ میں تسلی دینے والے
جب اب تب تجھ سا نہیں کوئی
تجھ سے ہیں سب تجھ سا نہیں کوئی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ہمارے ناتے ناتیوں کا سہارا تیری ذات ہے اور بچھڑے ہوئے لوگوں کا ساتھی بھی اللہ تعالیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہم سب کی کشتی کو چپو کی مدد سے چلا کر پار لگا سکتا ہے یعنی اس دنیا میں ہم سب کچھ اسی ذات کی مدد سے کر سکتے ہیں۔اللہ کی ذات ہی ہمیں دکھ میں تسلی دیتی ہے۔ اس پاک ذات جیسا نہ کوئی اور ہے اور نہ کبھی ہو گا۔ بعض نیک انسانوں میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی صفات کا ایک ذرہ حصہ تو پایا جاتا ہے لیکن اللہ کی ذات جیسا کوئی نہیں ہے۔

جوت ہے تیری جل اور تھل میں
باس ہے تیری پھول اور پھل میں
ہر دل میں ہے تیرا بسیرا
تو پاس اور گھر دور ہے تیرا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جل ہو یا تھل وہاں کچھ بھی اللہ کے وجود کے بنا نا ممکن نہیں ہے اور اس دنیا کے پھول ہو یا پھل ہر ایک شے میں اس کی ذات اور عظمت خوشبو بن کر اپنی موجودگی کا پتا دیتی ہے۔ہر انسان کے دل میں اللہ کا بسیرا ہے۔ اللہ تو انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہےاگرچہ اس کا گھھر انسان کی دسترس سے دور ضرور ہے۔

راہ تری دشوار اور سکڑی
نام ترا رہ گیر کی لکڑی
تو ہے ٹھکانا مسکینوں کا
تو ہے سہارا غمگینوں کا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ تک پہنچنے کا راستہ بلا شبہ بہت تنگ و تاریک ہے لیکن اگر انسان اللہ کے نام سے آغاز کرتے ہوئے منزل کی جانب قدم اٹھاتا ہے تو ایک مسافر اپنی لکڑی کے سہارے بھی اپنی منزلِ مقصود کو پا سکتا ہے۔اللہ کی ذات مسکینوں کا ٹھکانا اور غمگین لوگوں کا سہارا ہے۔

تو ہے اکیلوں کا رکھوالا
تو ہے اندھیرے گھر کا اجالا
لاگو اچھے اور برے کا
خواہاں کھوٹے اور کھرے کا
بید نراسے بیماروں کا
گاہک مندے بازاروں کا
سوچ میں دل بہلانے والے
بپتا میں یاد آنے والے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ کی ذات ہی اکیلے لوگوں کا واحد سہارا اور رکھوالا ہے۔ جبکہ ہمارے اندھیروں میں اجالا بھی یہی ذات بکھیرتی ہے۔اچھے اور برے کام کرنے والے سب اسی ذات کے زیر سایہ ہیں۔ کھرے اور کھوٹوں کی پہچان بھی وہی ذات ہے۔ جو بیما روں کی مدد کرنے اور مندے بازاروں کو عروج بخشنے والی ذات ہے۔اس ذات کا خیال بھی انسان کے دل کو بہلا کر جاتا ہے اور جب ہم کسی مشکل یا تکلیف کا شکار ہوتے ہیں تو صرف اسی ذات کو پکارتے ہیں۔

اے بے وارث گھروں کے وارث
بے بازو بے پروں کے وارث
بے آسوں کی آس ہے تو ہی
جاگتے سوتے پاس ہے تو ہی
بس والے ہیں یا بے بس ہیں
تو نہیں جن کا وہ بے کس ہیں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے اللہ تیری ذات بے وارث گھروں کی وارث ہے اور جن کا کوئی بازو (قوت/سہارا) نہیں ہے ان کا وارث بھی تو ہے۔ بے آسوں کی آسیں تیری ذات سے جڑی ہوئی ہیں اور کوئی جاگ رہا ہے یا سو رہا ہے اس کے ساتھ تیرا خیال ہر لمحہ موجود ہے۔ کوئی کسی کام کی قدرت رکھتا ہے چاہے کوئی بے بس ہے۔ اگر اس کے پاس تیری ذات کا سہارا نہیں ہے تو وہ بے کس و لاچار ہی کہلائے گا۔

ساتھی جن کا دھیان ہے تیرا
دسرایت کی وہاں نہیں پروا
دل میں ہے جن کے تیری بڑائی
گنتے ہیں وہ پربت کو رائی
بیکس کا غم خوار ہے تو ہی
بری بنی کا یار ہے تو ہی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جو تیری ذات کو اپنا دوست بنا لیتا ہے اور جن کا دھیان تیرے ساتھ لگا ہو انھیں کسی دوسری بات کی پروا نہیں رہتی ہے۔جس کے دل میں اللّٰہ کی عظمت کا خیال موجود ہو ان کے سامنے اونچے پہاڑ بھی رائی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ کی ذات بے کسوں اور لا چاروں کی غم خواری کرنے والی ہے اور وہی ذات ہر بنی نوع کی دوست اور مدد گار ہے۔

دکھیا دکھی یتیم اور بیوہ
تیرے ہی ہاتھ ان سب کا ہے کھیوا
تو ہی مرض دے تو ہی دوا دے
تو ہی دوا دارو میں شفا دے
تو ہی پلائے زہر کے پیالے
تو ہی پھر امرت زہر میں ڈالے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ بیوہ جو اللہ کی ذات کے سامنے اپنی حاجت بیان کر رہی ہے وہ اللہ کی ذات کی تعریف کرنے اور اسے اس کی رحمت اور بڑائی کا احساس دلوانے کے بعد کہتی ہے کہ اے اللہ میں دکھوں اور غموں کی ماری ہوئی ایک یتیم اور بیوہ رورت ہوں۔اس دنیا کو چلانے کا اختیار اور ہر انسان کا اختیار تیری ذات کے پاس ہے۔ تکلیف بھی تیری عطا کرتی ہوتی ہے اور اس تکلیف کا مدوا کرنے والا بھی تو ہی ہے۔اگر کوئی بیمار ہوتا ہے تو اس کی دوا کو شفا میں بدلنے والی بھی تیری ذات ہے۔ اگر کوئی زہر کا پیالہ پیتا ہے تو وہ بھی پلانے والی تیری ذات ہے اور اس زہر کو امرت میں بدلنے کا اختیار بھی تیرے پاس ہی ہے۔

تو ہی دلوں میں آگ لگائے
تو ہی دلوں کی لگی بجھائے
چمکارے چمکار کے مارے
مارے مار کے پھر چمکارے
پیار کا تیرے پوچھنا کیا ہے
مار میں بھی اک تیری مزا ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ بیوہ اللہ کے سامنے یہ التجا کرتی ہے کہ اے اللہ تیری ذات دلوں میں آگ لگانے والی اور دلوں میں موجود بے چینیوں کو ختم کرنے والی ہے۔تیری ذات ہمیں دلاسا دیتی ہے اور جب ہم کسی تکلیف میں ہوں تو بھی یہی ذات ہمارا سہارا بنتی ہے۔ تیرے پیاراور مار کا بھی اپنا مزا ہے۔

اے رحمت اور ہیبت والے
شفقت اور دباغت والے
اے اٹکل اور دھیان سے باہر
جان سے اور پہچان سے باہر
عقل سے کوئی پا نہیں سکتا
بھید ترے حکموں میں ہیں کیا کیا

اس بند میں شاعر اللہ کی ذات کی صفات بیان کرتے ہوئے اسے رحمت اور ہیبت والی ذات کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔اللہ کی ذات شفیق اور رعب والی ہے۔اللہ کی ذات ہر وقت ہر لمحہ ہمارے دھیان میں ہے۔ اللہ کی ذات کئی طرح کے پردوں میں چھپی ہے کہ جتنا بھی جان لیں ایک پردہ ہمارے درمیان حائل ہے۔ہماری عقل کبھی مکمل طور پر اس پاک ذات تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی ہے۔اللہ کے ہر حکم میں کوئی نہ کوئی راز پوشیدہ ہے اور وہ راز جاننے والی وہی ذات ہے۔

ایک کو تو نے شاد کیا ہے
ایک کے دل کو داغ دیا ہے
اس سے نہ تیرا پیار کچھ ایسا
اس سے نہ تو بیزار کچھ ایسا
ہر دم تیری آن نئی ہے
جب دیکھو تب شان نئی ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے اللہ ہر ایک کو شاد کرنے اور خوشیاں عطا کرنے والی تیری ذات ہے۔ کسی کو اس کے حصے کی خوشیاں تو کسی کو اس کے نصیب کا دکھ دیا گیا ہے۔ اللہ کی ذات ہر بندے کو چاہتی ہے مگر وہ کسی سے بیزار نہیں ہے۔ ہر دم ہر لمحہ اس کی شان الگ ہے اور جب دیکھیں اس کی شان نئی ہے۔

یہاں پچھوا ہے وہاں پروا ہے
گھر گھر تیرا حکم نیا ہے
پھول کہیں کملائے ہوئے ہیں
اور کہیں پھل آئے ہوئے ہیں
کھیتی ایک کی ہے لہراتی
ایک کا ہر دم خون سکھاتی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ کی ذات کے احکام ہر جگہ جاری و ساری ہیں اور وہ ہر تردد ، غم کا خیال رکھنے والا ہے۔ اللہ کا حکم گھر گھر پہنچایا جا چکا ہے۔ اس کے حکم سے ہر کام ہوتا ہے اسی کا حکم ہے کہ کہیں پھول کھلے ہوئے ہیں تو کہیں مرجھائے ہوئے ہیں اسی کے حکم سے کسی کی کھیتی لہراتی ہے تو کسی کی کھیتی ایک دم سوکھی ہوئی ہے وہ اپنے بندوں کو ہر طرح سے آزماتا ہے۔

ایک پڑے ہیں دھن کو ڈبوئے
ایک ہیں گھوڑے بیچ کے سوئے
ایک نے جب سے ہوش سنبھالا
رنج سے اس کو پڑا نہ پالا
ایک نے اس جنجال میں آ کر
چین نہ دیکھا آنکھ اٹھا کر

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ایک طرف کچھ لوگ اپنی دولت کو ڈبو کر بیٹھے ہیں تو دوسری طرف کچھ لوگ انتہائی لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھوڑے بیچے سو رہے ہیں۔ ایک شخص نے جب سے ہوش سنبھالا ہے تو اس کو دکھوں اور غموں سے واسطہ پڑا ہے تو دوسری طرف ایک شخص ایسا بھی ہے جس کو اس گھر میں آنکھ کھولنا نصیب ہوئی جہاں اسے ایک لمحے کا چین بھی نصیب نہیں ہو سکا ہے۔

مینہ کہیں دولت کا ہے برستا
ہے کوئی پانی تک کو ترستا
ایک کو مرنے تک نہیں دیتے
ایک اکتا گیا لیتے لیتے
حال غرض دنیا کا یہی ہے
غم پہلے اور بعد خوشی ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کسی کے گھر پر دولت بارش کی طرح برس رہی ہے تو کہیں لوگ پانی تک کے لیے ترس رہے ہیں۔ کوئی اگر مرنا چاہتا ہے تو اسے مرنے نہیں دیا جاتا اور کوئی لیٹے لیٹے تھک چکا ہے۔ غرض تمام دنیا اسی طرح کے حالات سے دوچار ہے۔ غم اورخوشی دونوں زندگی کا حصہ ہے کسی کو غم پہلے مل جاتا ہے اور خوشی بعد میں تو کسی کو خوشی پہلے عطا کر دی جاتی ہے۔

رنج کا ہے دنیا کے گلا کیا
تحفہ یہی لے دے کے ہے یاں کا
یہاں نہیں بنتی رنج سہے بن
رنج نہیں سب ایک سے لیکن
ایک سے یہاں رنج ایک ہے بالا
ایک سے ہے درد ایک نرالا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ دنیا کے دکھوں کا کیا گلہ کیا جائے۔ اس دنیا میں لے دے کے انسان کو یہی رنج اور خوشیاں مل سکتی ہیں۔ اس دنیا میں دکھ سہے بنا گزارا ممکن نہیں ہے۔سب کے دکھ ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں ان کی نوعیت الگ ہوتی ہے۔ یہاں ملنے والی تکالیف ایک سے بڑھ کر ایک ہیں اور اس دنیا میں ملنے والا ہر درد نرالا ہے۔

گھاؤ ہے گو ناسور کی صورت
پر اسے کیا ناسور سے نسبت
تپ وہی دق کی شکل ہے لیکن
دق نہیں رہتی جان لیے بن
دق ہو وہ یا ناسور ہو کچھ ہو
دے نہ جو اب امید کسی کو

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ہمیں ملنے والے زخم اگرچہ ناسور کی طرح ہوتے ہیں لیکن انھیں ناسور سے کیا نسبت دی جائے کہ جس طرح تپ یعنی تیز بخار دق کی ایک صورت ہے اور دق وہ جان لیوا مرض ہے کہ جو انسان کی جان لے لیتا ہے بالکل اسی طرح دق ہو یا ناسور(زخم) یہ دونوں مرض ہی انسان کو کوئی امید نہیں دیتے ہیں اور جان لیوا ثا بت ہوتے ہیں۔

روز کا غم کیوں کر سہے کوئی
آس نہ جب باقی رہے کوئی
تو ہی کر انصاف اے مرے مولا
کون ہے جو بے آس ہے جیتا
گو کہ بہت بندے ہیں پر ارماں
کم ہیں مگر مایوس ہیں جو یاں

اس بند میں شاعر کہتا تھا کہ کوئی انسان ہر روزانہ کا غم کیوں برداشت کرے گا۔ جب کوئی امید باقی نہیں رہتی ہے اور انسان مایوسی کا شکار ہونے لگتا ہے تو اللہ کی ذات اس کے لیے ایک واحد امید کی کرن بن کر جگمگاتی ہے اور شاعر بھی بیوہ کی مناجات کی صورت میں کہتا ہے کہ اے اللہ تو انصاف کر کہ کوئی انسان بھی نا امید ہو کر نہیں جی سکتا ہے اس دنیا میں اگرچہ بہت لوگ ہیں اور سب نے اپنے ارمان بھی پال رکھے ہیں۔ لیکن وہ لوگ بھی یہاں موجود ہیں جو مایوسی کا شکار ہیں اگرچہ یہ تعداد میں کم ہیں۔

خواہ دکھی ہے خواہ سکھی ہے
جو ہے اک امید اس کو بندھی ہے
کھیتیاں جن کی کھڑی ہیں سوکھی
آس وہ باندھے بیٹھے ہیں مینہ کی
گھٹا جن کی اساڑی میں ہے
ساونی کی امید نہیں ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ چاہے کوئج دکھی ہے یا سکھی اس نے اللہ کی ذات سے جو امید باندھ رکھی ہے اور وہ لوگ جن کی کھیتیاں ویران ہو چکی ہیں اور کھڑے کھڑے سوکھ چکی ہیں وہ اللہ کی ذات سے بارش کے برسنے کی امید باندھے بیٹھے ہوئے ہیں۔ موسم کی گھٹائیں اساڑھ کے مہینے میں داخل ہو چکی ہیں جبکہ کچھ لوگوں کو ساون کے برسنے کی امید نہیں ہے۔

ڈوب چکی ہے ان کی اگیتی
دیتی ہے ڈھارس ان کو پچھیتی
ایک ہے اس امید پہ جیتا
اب ہوئی بیٹی اب ہوا بیٹا
ایک کو جو اولاد ملی ہے
اس کو امنگ شادیوں کی ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کچھ لوگوں کی وقت سے قبل بوئی ہوئی فصل ڈوب چکی ہے جبکہ بعد میں رہ جانے والی فصل انھیں ایک ڈھارس بندھاتی ہے۔ایک شخص اس امید پہ جی رہا ہے کہ اب کی بار اس کے گھر بیٹے کی پیدائش ہوگی یا بیٹی کی جبکہ دوسری طرف وہ لوگ جن کے ہاں اولاد ہو چکی ہے وہ اس کی خوشیاں (شادی کی صورت میں) دیکھنے کے ارمان دل میں پال رہے ہیں۔

رنج ہے یا قسمت میں خوشی ہے
کچھ ہے مگر اک آس بندھی ہے
غم نہیں ان کو غمگیں ہیں
جو دل ناامید نہیں ہیں
کال میں کچھ سختی نہیں ایسی
کال میں ہے جب آس سمیں کی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کچھ لوگوں کے نصیب میں دکھ اور کچھ لوگوں کے نصیب میں خوشیاں لکھ دی گئی ہیں۔ سب کی کچھ نا کچھ امید جڑی ہوئی ہے۔ وہ لوگ جن کو غم نہیں ہیں وہ پھر بھی کہیں نہ کہیں غمگین ہیں اور کچھ وہ لوگ ہیں جن کے دل نا امید نہیں ہیں۔ کچھ لوگوں کے نصیب میں زیادہ سختی نہیں ہے جب کہ کچھ سنے جانے کی آس میں جی رہے ہیں۔

سہل ہے موجوں سے چھٹکارا
جب کہ نظر آتا ہے کنارا
پر نہیں اٹھ سکتی وہ مصیبت
آئے گی جس کے بعد نہ راحت
شاد ہو اس رہ گیر کا کیا دل؟
مر کے کٹے گی جس کی منزل

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس وقت سمندر کی موجوں سے چھٹکارا پانا زیادہ آسان ہو جاتا ہے کہ جب سامنے کنارا دکھائی دینے لگے یعنی امید کی کرن جگمگانے لگتی ہے۔لیکن وہ مصیبت کبھی ختم نہیں ہوتی ہے جس کے بعد کوئی راحت یا سکھ نہ دکھائی دے۔ اس مسافر کا دل کیسے خوش ہو سکتا ہے جس کی منزل ہی اسے گردن کٹوا کر حاصل ہو گی۔

ان اجڑوں کو کل پڑے کیوں کر
گھر نہ بسے گا جن کا جنم بھر
ان بچھڑوں کا کیا ہے ٹھکانا؟
جن کو نہ ملنے دے گا زمانہ
اب یہ بلا ٹلتی نہیں ٹالی
مجھ پہ ہے جو تقدیر نے ڈالی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ایسے اجڑے ہوئے لوگوں کو سکون کیسے نصیب ہو سکتا ہے کہ جن کا کبھی زندگی بھر بھی گھر نہ آباد ہوا ہو۔اسی طرح ان بچھڑے ہوئے لوگوں کو بھی کبھی کوئی ٹھکانہ میسر نہیں آ سکتا ہے جن کو زمانہ کبھی ملنے نہ دے۔اسی طرح میری یہ مشکل بھی کوشش کے باوجود ختم نہیں ہو پارہی ہے جو تقدیر کی صورت میں مجھ پر مسلط کی گئی ہے(یہ الفاظ مظلوم بیوہ اللہ تعالیٰ کے حضور گوش گزار کر رہی ہے)۔

آئیں بہت دنیا میں بہاریں
عیش کی گھر گھر پڑیں پکاریں
پڑے بہت باغوں میں جھولے
ڈھاک بہت جنگل میں پھولے
گئیں اور آئیں چاندنی راتیں
برسیں کھلیں بہت برساتیں

اس بند میں شاعر بیوہ عورت کی زبانی اس کی مناجات کی صورت میں کہتا ہے کہ اس دنیا میں بہت سی بہاریں آئی ہیں۔ ہر گھر میں عیش و عشرت کا سامان ہوا۔ کئی باغوں میں چین کے جھولے جھول رہے ہیں اور بہت سے جنگلوں میں خوبصورت پھول کھلے ہیں۔ کئی روشن اور خوبصورت چاندنی راتیں آئیں اور چلی گئیں جبکہ بہت سی برساتیں خوب کھل کر برس چکی ہیں۔

پر نہ کھلی ہرگز نہ کھلے گی
وہ جو کلی مرجھائی تھی دل کی
آس ہی کا بس نام ہے دنیا
جب نہ رہی یہی تو رہا کیا؟
ایسے بدیسی کا نہیں غم کچھ
جس کو نہ ہو ملنے کی قسم کچھ

اس بند میں بیوہ اللہ سے مناجات کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس دنیا میں اتنی رونقیں آ جانے کے باوجود میری قسمت نہ تو کھلی ہے اور نہ ہی آگے کھلنے والی ہے کیونکہ میرے دل کی کلی مرجھا چکی ہے۔ اب یہ دنیا محض ایک امید کا نام ہے جب یہ امید ہی دم توڑ چکی ہے تو اب کچھ باقی نہیں رہا ہے۔میرا غم بھی کچھ ایسے پردیسی کی طرح کا ہے جو کو کچھ بھی ملنے کی امید باقی نہیں رہتی ہے۔

رونا ان بن باسیوں کا ہے
دیس نکالا جن کو ملا ہے
حکم سے تیرے پر نہیں چارہ
کڑوی میٹھی سب ہے گوارا
زور ہے کیا پتے کا ہوا پر
چاہے جدھر لے جائے اڑا کر

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ لوگ یا باسی جن کو ان کے دیس سے نکال دیا گیا ہو ان کی تکلیف پہ رونا آتا ہے۔لیکن چونکہ تیرے حکم کے بنا ایک پتا بھی حرکت نہیں کر سکتا ہے اس لیے انسان اس کیفیت کے سامنے بے بس ہے اور کڑوی ہو یا میٹھی ہر بات کو برداشت کر لیتے ہیں۔ جیسے کہ کسی پتے کا کبھی ہوا پہ زور نہیں چل سکتا ہے کیوں کہ ہوا زور آور جب کہ پتا کمزور ہے اور ہوا اسے جہاں چاہے اڑا کر لے جا سکتی ہے۔ اسی طرح انسان اللہ تعالیٰ کے حکم اور مرضی کے تابع ہے۔

تنکا اک اور سات سمندر
جائے کہاں موجوں سے نکل کر
قسمت ہی میں جب تھی جدائی
پھر ٹلتی کس طرح یہ آئی؟
آج کی بگڑی ہو تو بنے بھی
ازل کی بگڑی خاک بنے گی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ایک کمزور تنکا سمندر کی زور آور موجوں سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں پاتا ہے۔اسی طرح جب قسمت میں جدائی لکھ دی گئی ہو تو یہ مصیبت کسی صورت میں نہیں ٹل سکتی ہے۔اگر کوئی مشکل آج کی آئی ہو تو اس کا ٹلنا ممکن بھی ہے لیکن جس کی ہمیشہ سے بگڑی ہوئی ہو تو اس کی کبھی کسی صورت نہیں بن سکتی ہے۔

تو جو چاہے وہ نہیں ٹلتا
بندے کا یاں بس نہیں چلتا
مارے اور نہ دے تو رونے
تھپکے اور نہ دے تو سونے
ٹھہرے بن آتی ہے نہ بھاگے
تیری زبردستی کے آگے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ سب کچھ اللہ کے بس میں ہے جب کوئی مشکل آ جاتی ہے تو اللہ نہ چاہے وہ ٹل نہیں سکتی ہے اور اللہ جس مشکل کو حل کرنا چاہے وہ فوراً حل ہو جاتی ہے۔بندے کا ان معاملات پر بس نہیں چلتا ہے۔وہ اپنے بندوں کو تکلیف بھی دیتا ہے لیکن اس کا سہارا بن کر اس کو رونے بھی نہیں دیتا ہے۔ مشکل میں گھرے ہوؤں کو وہ تھپک کر سلاتا ہے۔انسان کسی مشکل کو کتنا بھی روکنا چاہے وہ نہ تو رک سکتی اور نہ ہی کوئی اور مشکل آ سکتی ہے۔اللہ کی ذات کے آگے کس کا بس اور زور زبردستی نہیں چل سکتی ہے۔

تجھ سے کہیں گر بھاگنا چاہیں
بند ہیں چاروں کھونٹ کی راہیں
تو مارے اور خواہ نوازے
پڑی ہوئی ہوں میں تیرے دروازے
تجھ کو اپنا جانتی ہوں میں
تجھ سے نہیں تو کس سے کہوں میں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے اللہ تیری ذات سے دور اگر کوئی بھاگنا بھی چاہے تو یہ ممکن نہیں ہے کیوں کہ چاروں طرف کے راستے بند ہیں۔ اللہ کی ذات چاہے تو ہمیں مارے یعنی تکلیف دے اور چاہے تو ہمیں نوازے۔مظلوم بیوہ اللہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتی ہے کہ اے اللہ میں آپ کے در پہ پڑی ہوئی ہوں اور آپ کو اپنا ہمدرد و غم گسار جانتی ہوں۔ میں اپنا درر اور اپنی تکالیف، اپنے دل کی بات آپ سے نہیں تو کس سے کروں گی۔

ماں ہی سدا بچہ کو مارے
اور بچہ ماں ماں ہی پکارے
اے مرے زور اور قدرت والے
حکمت اور حکومت والے
میں لونڈی تیری دکھیارے
دروازے کی تیری بھکاری

اس بند میں مظلوم بیوہ عورت اپنی مناجات بیان کرتے ہوئے کہتی ہے کہ جیسے ایک ماں ہمیشہ اپنے بچے کو مارے تو بھی اس کا بچہ ماں کی محبت میں بے چین ہو کر ماں ماں پکارتے ہوئے اس کے پیچھے ہوتا ہے۔اسی طرح اگر تیری طرف سے ہمیں کوئی مشکل بھی آتی ہے تو بھی ہم تجھے ہی پکاریں گے اور تیرے در پہ ہی سوالی بن کر آئیں گے۔اے طاقت اور قدرت والے رب جب جگہ تیری ہی حکمت و حکومت ہے اور میں ایک دکھی و دکھیاری عورت ہوں جو تمھارے در پر ایک بھکاری بن کر آئی ہوں۔

موت کی خواہاں جان کی دشمن
جان اپنی ہے آپ اجیرن
اپنے پرائے کی دھتکاری
میکے اور سسرال پہ بھاری
سہہ کے بہت آزار چلی ہوں
دنیا سے بیزار چلی ہوں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ عورت اللہ تعالیٰ سے کہتی ہے کہ میں اپنی جان کی دشمن بنے ہوئے موت کی خواہش مند ہوں۔ میری جان اور زندگی اجیرن بن چکی ہے۔ اپنے اور پرائے سب لوگوں نے مجھے دھتکار دیا ہے۔ میں اپنے شوہر کی وفات کے بعد سے اپنے میکے اور سسرال دونوں کے کیے بوجھ بن چکی ہوں۔ میں نے بہت سی تکالیف کو برداشت کیا ہے اور اب دنیا کے ان رویوں سے بیزار ہو چکی ہوں۔

دل پر میرے داغ ہیں جتنے
منہ میں بول نہیں ہیں اتنے
دکھ دل کا کچھ کہہ نہیں سکتی
اس کے سوا کچھ کہہ نہیں سکتی
تجھ پہ ہے روشن سب دکھ دل کا
تجھ سے حقیقت اپنی کہوں کیا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ عورت اللہ سے فریاد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ میرے دل پہ بے شمار داغ ہیں اور میں گناہوں کی پتلا ہوں ۔جتنے میرے دل پہ داغ ہیں ان کو شمار کرنے کے لیے اتنے الفاظ بھی میرے منھ میں موجود نہیں ہیں۔میں اپنے دل کا دکھ بیان نہیں کر پا رہی ہوں اور اس کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتی ہوں کہ میرے دل کا تمام حال تجھ پہ ظاہر کیے بنا بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اس کے سوا میں اپنی کیا حقیقت بیان کروں۔

بیاہ کے دم پائی تھی نہ لینے
لینے کے یاں پڑ گئے دینے
خوشی میں بھی دکھ ساتھ نہ آیا
غم کے سوا کچھ ہات نہ آیا
ایک خوشی نے غم یہ دکھائے
ایک ہنسی نے گل ہی کھلائے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ عورت یہ کہتی ہے کہ جب مجھے بیاہا گیا تو اس وقت ایک پائی بھی مجھے نہ دی گئی الٹا مجھے لینے کے دینے پڑ گئے۔ میری کوئی خوشی ایسی نہیں جس کے ساتھ مجھے دکھ نہ ملا ہو۔ غم کے سوا مجھے زندگی میں کبھی کچھ میسر نہیں آیا۔ کچھ خوشیوں نے تو مجھے ایسے غم دکھائے ہیں کہ خوشی کا معنی ہی باقی نہ رہا۔ جبکہ ایک ہنسی نے کچھ گل بھی کھلائے ہیں۔

کیسا تھا یہ بیاہ نناواں
جوں ہی پڑا اس کا پرچھاواں
چین سے رہنے دیا نہ جی کو
کر دیا ملیامیٹ خوشی کو
رو نہیں سکتی تنگ ہوں یاں تک
اور روؤں تو روؤں کہاں تک

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ مظلوم بیوہ التجا کرتے ہوئے یہ کہتی ہے کہ نجانے میرا یہ بیاہ کیسا تھا کہ جیسے ہی اس بیاہ کی پرچھائی مجھ پہ پڑی تو میرے جی کو باکل کو بھی چین نہ آیا۔ اس نے میری ساری خوشیوں کو ملیا میٹ کر دیا۔ میں اب رونے سے بھی قاصر ہوں اور اس قدر تنگ ہو چکی ہوں کہ کچھ سمجھ نہیں آتا۔ اے اللہ میں اپنی تکلیف آپ کے سامنے نہ بیان کروں تو اور کہاں کروں۔

ہنس ہنس دل بہلاؤں کیوں کر
اوسوں پیاس بجھاؤں کیوں کر
ایک کا کچھ جینا نہیں ہوتا
ایک نہ ہنستا بھلا نہ روتا
لیٹے گر سونے کے بہانے
پائنتی کل ہے اور نہ سرہانے

اس بند شاعر کہتا ہے کہ مظلوم عورت آہ و زاری کرتے ہوئے کہتی ہے کہ میں ہنس کر اپنا دل کس طرح بہلاؤں اور اپنی پیاس کس طرح بجھاؤں۔ ایک اکیلے انسان کا جینا کوئی جینا نہیں ہوتا ہے۔ ایک شخص بھلا اکیلے کیا ہنس سکتا ہے اور کیا رو سکتا ہے۔ میرے حالات کچھ ایسے ہیں کہ میں اگر سونے کے بہانے لیٹتی بھی ہوں تو نہ میرے پاس پائنتی ہے اور نہ ہی کوئی سرہانہ موجود ہے۔

جاگیے تو بھی بن نہیں پڑتی
جاگنے کی آخر کوئی حد بھی
اب کل ہم کو پڑے گی مر کر
گور ہے سونی سیج سے بہتر
بات سے نفرت کام سے وحشت
ٹوٹی آس اور بجھی طبیعت

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ عورت یہ اللہ سے شکوہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ جاگنا اب میرے بس میں نہیں ہے کہ اس سے بھی کچھ بن نہیں پڑتا ہے جبکہ جاگنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے ایک حد مقررہ کے بعد انسان اعصابی تھکن کا شکار ہو جاتا ہے۔اب مجھے محض مر کر ہی چین آئے گا۔ میرے سہاگ کے بعد چونکہ میری سیج سونی ہو چکی ہے اس لیے اجڑی ہوئی سیج سے قبر کئی گنا بہتر ہے۔ زندگی سے بیزاری کا یہ عالم ہے کہ مجھے بات کرنے اور زندگی سے نفرت ہو چکی ہے اور میری ہرآس ٹوٹ اور مایوسی کا شکار ہو چکی ہے۔ میری طبیعت مکمل طور پر بجھ چکی ہے یعنی کہ میں مایوسی کا شکار ہوں۔

آبادی جنگل کا نمونہ
دنیا سونی اور گھر سونا
دن ہے بھیانک اور رات ڈرانی
یوں گزری ساری یہ جوانی
بہنیں اور بہنیلیاں میری
ساتھ کی جو تھیں کھیلیاں میری

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ عورت اللہ تعالیٰ سے یہ کہتی ہے کہ اس دنیا میں اتنے لوگ موجود ہیں کہ دنیا کی آبادی جنگل کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود مجھے یہ دنیا اور اپنا گھر ویران اور سونا دکھائی دیتے ہیں۔ دن میرے لیے بھیانک اور رات انتہائی ڈراؤنی ہو چکی ہے۔ میری ساری جوانی اسی طریلح بیت گئی ہے اور میرے ساتھ کھیلنے والی میری بہنیں اور ہم جولی دوستیں بھی کھل کے مجھ سے نہیں مل پائی ہیں۔

مل نہ سکیں جی کھول کے مجھ سے
خوش نہ ہوئیں ہنس بول کے مجھ سے
جب آئیں رو دھو کے گئیں وہ
جب گئیں بے کل ہو کے گئیں وہ
کوئی نہیں دل کا بہلاوا
آ نہیں چکتا میرا بلاوا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ مظلوم عورت شکوہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ میری بہنیں اور دوستیں مجھ سے کھل کے مل نہیں سکی اور نہ ہی وہ مجھ سے مل اور بول کر خوش ہوئیں۔ جب بھی وہ مجھ سے ملنے آئیں رو دھو کے ہی واپس پلٹیں۔ مجھ سے ملنے کے بعد وہ ہمیشہ بے چین ہو کر واپس لوٹیں۔میرے پاس اب دل بہلانے کا کوئی سامان باقی نہیں رہا ہے۔ میتا بلاوا(موت) کیوں نہیں آ جاتی ہے۔

آٹھ پہر کا ہے یہ جلاپا
کاٹوں گی کس طرح رنڈاپا
تھک گئی دکھ سہتے سہتے
تھم گئے آنسو بہتے بہتے
آگ کھلی دل کی نہ کسی پر
گھل گئی جان اندر ہی اندر

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ بیوہ عورت یہ کہتی ہے کہ میری یہ کیفیت ابھی کی نہیں بلکہ آٹھوں پہر میری یہی حالت ہے اور میں اپنا رنڈوا پن اکیلے کس طرح سے بسر کروں گی۔ دکھ سہتے سہتے میں اب تھک چکی ہوں۔اتنا رونے کے بعد اب میرے آنسو بھی بہنا تھم گئے ہیں۔ میرا دل کبھی کس طرف مائل نہیں ہوا ہے جبکہ میری جان اندر ہی اندر گھلتے جا رہی ہے۔ میں اندر ہی اندر گھٹ کر مر رہی ہوں۔

دیکھ کے چپ جانا نہ کسی نے
جان کو پھونکا دل کی لگی نے
دبی تھی بھوبھل میں چنگاری
لی نہ کسی نے خبر ہماری
قوم میں وہ خوشیاں بیاہوں کی
شہر میں وہ دھوئیں ساہوں کی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے دیکھ کر کسی کو بھی میری چپ کا خیال نہ آیا۔میرے دل پر لگنے والے روگ نے رفتہ رفتہ میری جان کو پھونک ڈالا اور راکھ میں دبی چنگاری کی طرح میں اندر ہی اندر سلکننے لگی۔کسی نے میری خبر نہ لی۔ لوگ ہر طرف بیاہ کی خوشیاں منا رہے تھے جب کہ میرے اندر سے ایک غبار اٹھ رہا تھا۔

تہواروں کا آئے دن آنا
اور سب کا تہوار منانا
وہ چیت اور پھاگن کی ہوائیں
وہ ساون بھادوں کی گھٹائیں
وہ گرمی کی چاندنی راتیں
وہ ارمان بھری برساتیں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ بیوہ عورت یہ کہتی ہے کہ آئے روز نت نئے تہوار آتے ہیں اور لوگ ان تہواروں کو خوشی خوشی مناتے ہیں۔ ہر طرف چیت ، پھاگن کی ہوائیں چلتی ہیں اور ساون بھادوں کی گھٹائیں چھاتی ہیں۔ گرمیوں کی چاندنی راتوں میں مجھے میرے ارمان اور خوشیاں ستاتی ہیں۔

کس سے کہوں کس طور سے کاٹیں
خیر کٹیں جس طور سے کاٹیں
چاؤ کے اور خوشیوں کے سمے سب
آتے ہیں خوش کل جان کو ہو جب
رنج میں ہیں سامان خوشی کے
اور جلانے والے ہی کے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ مظلوم بیوہ اللّٰہ تعالیٰ سے مناجات کرتے ہوئے کہتی ہے کہ میں اپنا حال کس سے بیان کروں اور اپنی یہ دن کس طرح سے کاٹوں۔ لیکن جس طور سے بھی کٹیں ان دنوں جو کاٹنا ہوگا۔ چاہتوں اور خوشیوں کے سب لمحات اس وقت آتے ہیں کہ جب جب انسان دل و جان سے خوش ہو۔ یہ لمحات ایک طرح سے تو دکھ نیں میں خوشی کا سامان بن کر اترتے ہیں تو ساتھ ہی دل جلانے اور تکلیف کا باعث بھی بنتے ہیں۔

گھر برکھا اور پیا بدیسی
آئیو برکھا کہیں نہ ایسی
دن یہ جوانی کے کٹے ایسے
باغ میں پنچھی قید ہو جیسے
رت گئی ساری سر ٹکراتے
اڑ نہ سکے پر ہوتے سارے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ بیوہ عورت یہ کہتی ہے کہ گھر میں برسات برس رہی ہو جبکہ آپ کا محبوب پردیسی ہو ایسا برکھا(برسات) زندگی میں ہر گز نہیں آنی چاہیے۔ میری جوانی کے دن اس طرح سے کٹے ہیں کہ جیسے کوئی پنچھی کسی باغ میں قید کر دیا گیا ہو۔ جس کی ساری زندگی اس پنجرے کی دیواروں سے سر ٹکراتے گزر گئی ہو اور وہ پر ہوتے ہوئے بھی نہ اڑ سکا ہو۔

کسی نے ہوگی کچھ کل پائی
مجھے تو شادی راس نہ آئی
آس بندھی لیکن نہ ملا کچھ
پھول آیا اور پھل نہ لگا کچھ
رہ گیا دے کر چاند دکھائی
چاند ہوا پر عید نہ آئی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ایسا ضرور ہے کہ اس سب سے کسی نے ضرور خوشیاں پائی ہو گیں لیکن مجھے تو یہ شادی ہر گز نہ راس آئی۔ میں نے ایک امید باندھی لیکن مجھے اس سے کچھ حاصل نہ ہوا۔ میری زندگی میں چند لمحوں کی بہار تو ضرور آئی بالکل ایسے جیسے کہ درخت پہ پھول تو کھلیں لیکن اس پہ پھل نہ لگیں۔چاند تو مجھے دکھائی دیا گیا لیکن اس چاند پہ میں ہر گز عید نہ منا پائی۔

پھل کی خاطر برچھی کھائی
پھل نہ ملا اور جان گنوائی
ریت میں ذرے دیکھ چمکتے
دوڑ پڑی میں جھیل سمجھ کے
چاروں کھونٹ نظر دوڑائی
پر پانی کی بوند نہ پائی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ بیوہ عورت یہ کہتی ہے کہ میں نے پھل حاصل کرنے کی خاطر نیزے کا زخم بھی گیا لیکن مجھے پھل تو نہ ملا البتہ میں نے زخم ضرور کھایا۔ریت میں چمکتے ہوئے ذرات کو دیکھ کر میں بھی جھیل سمجھ کر (چمکتے ذرات کو دور سے دیکھنے پر پانی کا گمان ہوتا ہے) دوڑی۔ میں نے ہر طرف نظر دوڑائی لیکن مجھے پانی کی ایک بوند بھی نہ دکھائی دی۔

میں نہیں آخر پاک بدی سے
بنی ہوں پانی اور مٹی سے
کان اور آنکھیں، ہاتھ اور بازو
جن جن پر تھا، یاں مجھے قابو
سب کو بدی سے میں نے بچایا
سب کو خودی سے میں نے ہٹایا
اُٹھتے بیٹھتے روکا سب کو
سوتے جاگتے ٹوکا سب کو
ہاتھ کو ہلنے دیا نہ بے جا
پاؤں کو چلنے دیا نہ ٹیڑھا
روک کے یوں اور تھام کے آپا
میں نے کاٹا اپنا رنڈاپا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ بیوہ عورت اللہ کے حضور یہ کہتی ہے کہ میں بھی چونکہ پانی اور مٹی سے تخلیق کی گئی ہوں اس لیے میں بھی برائی سے پاک نہیں ہوں۔ میرے کان ، میری آنکھیں ، ہاتھ اور بازو غرض جن اعضاء پہ مجھے قابو تھا میں نے انھیں برائی کرنے سے بچایا۔ میں نے کسی شے کو خود پہ طاری نہ ہونے دیا اور اٹھتے بیٹھتے خود کو غلطی کرنے سے روک کے رکھا۔میں نے نہ تو اپنے ہاتھ کو بے جا اور کسی غلط کام کی جانب ہلنے دیا اور نہ ہی میں نے اپنے پاؤں سے کوئی غلط قدم اٹھایا۔ میں تو اپنے آپ پر کچھ اس طرح سے قابو رکھ کر اور خود کو تھام کر اپنے رنڈاپے کے دن گزار لیے۔

ایک نہ سنبھلا میرا سنبھالا
تھا بےتاب جو اندر والا
حال کروں میں دل کا بیاں کیا؟
حال ہے دل کا تجھ سے نہاں کیا؟
دھوپ تھی تیز اور ریت تھی تپتی
مچھلی تھی ایک اس میں تڑپتی
جان نہ مچھلی کی تھی نکلتی
اور نہ سر سے دھوپ تھی ٹلتی
گو دم بھر اس دل کی لگی نے
ٹھنڈا پانی دیا نہ پینے
تو ہے مگر اس بات کا دانا
میں نے کہا دل کا نہیں مانا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ بیوہ عورت یہ کہتی ہے کہ ایک چیز جس پہ میں قابو نہ رکھ پائی وہ میرا دل تھا۔ میں اپنے دل کی کیا حالت بیان کروں کہ اے اللہ تجھ سے تو میرے دل کا کوئی حال پوشیدہ نہیں ہے۔ میری حالت تیز اور تپتی دھوپ میں ریت پہ تڑپتی ہوئی مچھلی کی سی تھی کہ جس مچھلی کی نہ تو جان نکل رہی تھی اور نہ ہی سر سے دھوپ ہٹنے کے کوئی آثار نظر آرہے تھے۔ (یعنی بیوہ عورت نے شدید تکلیف اور تڑپ میں زندگی کاٹی) دل کی اس بے چینی نے ایک لمحے کا سکون بھی نہ لینے دیا اور ٹھنڈ پانی پینا بھی نصیب نہ ہوا۔ لیکن اے اللہ تیری ذات یہ جاننے والی ہے کہ میں نے اپنے دل کی کوئی بات نہیں مانی اور خود کو برائی سے ہر ممکن بچا کر رکھا۔

اپنے لیے کچھ کہہ نہیں سکتی
پر یہ کہے بِن رہ نہیں سکتی
میں ہی اکیلی نہیں ہوں دُکھیا
پڑی ہے لاکھوں پر یہی بپتا
بالیاں اک اک ذات کی لاکھوں
بیاہیاں اک اک رات کی لاکھوں
ہوگئیں آخر اسی الم میں
کاٹ گئیں عمریں اسی غم میں
سینکڑوں بے چاری مظلومیں
بھولی، نادانیں، معصومیں
بیاہ سے انجان اور منگنی سے
بنے سے واقف اور نہ بنی سے
دو دو دن رہ رہ کے سہاگن
جنم جنم کو ہوئی بروگن
شرط سے پہلے بازی ہاری
بیاہ ہوا اور رہی کنواری
آئیں بِلکتی، گئیں سِسکتی
رہیں ترستی اور پھڑکتی
کوئی نہیں جو غور کرے اب
نبض پہ ان کی ہاتھ دھرے اب
چوٹ نہ جن کے جی کو لگی ہو
وہ کیا جانیں دل کی لگی کو

اس بند میں شاعر یہ کہتا ہے کہ مظلوم بیوہ یہ کہتی ہے کہ میں اپنے لیے تو کچھ کہہ سکتی ہوں اور نہ ہی مزید کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ لیکن اس دنیا میں محض میں اکیلی دکھی عورت نہیں ہوں بلکہ مجھ جیسی کئی عورتیں اسی کیفیت سے دو چار ہیں۔ اس میں کئی لا ابالی اور کئی ایک رات کی بیاہتا بھی شامل ہیں۔وہ اپنی زندگیاں اسی تکلیف میں کاٹ گئی ہیں کہ وہ معصوم اور نادان عورتیں منگنی اور بیاہ کے رواجوں سے ناواقف تھیں۔ کوشش کے باوجود بھی وہ یہ سب نہ جان سکیں اور دو دن کی سہاگن رہنے کے بعد وہ زندگی بھر کا روگ لے کر بیٹھ گئیں۔کیسی کی کیفیت تو شرط سے پہلے ہی بازی ہار جانے والی جیسی ہے کہ شادی ہو جانے کے باوجود وہ کنواری بیٹھی ہے اور اس کی آہیں اور سسکیاں بلند ہوتی سنائی دیتی ہیں۔ اب بھی ایسا کوئی نہیں جو ان کی تکلیف پہ غور کرکے اس تکلیف کا مدوا کرے۔ جن کے دلوں میں ایسی چوٹ نہیں لگی ہے وہ ان کے کرب اور دکھ کو نہیں سمجھ سکتے ہیں۔

ریت کی سی دیوار ہے دنیا
اوچھے کا سا پیار ہے دنیا
ساتھ سہاگ اور سوگ ہے یاں کا
ناؤ کا سا سنجوگ ہے یاں کا
ہار کبھی اور جیت کبھی ہے
اس نگری کی ریت یہی ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ بیوہ عورت یہ کہتی ہے کہ اس دنیا کی مثال ایک ریت کی دیور کی سی ہے کہ اس دنیا کی زندگی کا اصل سکون سہاگ کے ساتھ میں ہے جس کے ساتھ اس کا تعلق ایک ناؤ کا سا ہے۔ اس دنیا کا یہی رواج چلا آ رہا ہے کہ یہاں کسی کی جیت اور کسی کی ہار ہوتی ہے۔

تیرے سوا اے مرے مولا
کوئی رہا ہے اور نہ رہے گا
چاہتی ہوں اک تیری محبت
اور نہیں رکھتی کوئی حاجت
گھونٹ اک ایسا مجھ کو پِلا دے
تیرے سِوا جو سب کو بھُلا دے
کوئی جگہ اس دل میں نہ پائے
یاد کوئی بھولے سے نہ آئے
دل میں لگن بس اپنی لگادے
سارے غم اپنے غم میں کھپادے

اس بند میں بیوہ عورت اپنی مناجات کرتے ہوئے آخر میں یہ کہتی ہے کہ اے اللہ تیری ذات واحد ہے جسے دوام اور ہمیشگی حاصل ہے۔ اس دنیا میں نہ کوئی رہا ہے اور نہ ہے ہی رہے گا۔ اسی لیے تیری محبت کے سوا میری اور نہ تو کوئی حاجت ہے اور نہ ضرورت ہے۔ مجھے کوئی ایسا گھونٹ پلا دے کہ بس تیری ذات کی یاد باقی رہے اور اس کے سوا میں باقی سب کچھ بھول جاؤں۔میرے دل میں نہ تو تیرے سوا کوئی جگہ پا سکے اور نہ ہی بھولے سے مجھے کسی کی یاد آئے۔اے اللہ میرے دل میں بس اپنی پاک ذات کی لگن جگا دے اور میرے سارے غموں کو اپنی ذات اور محبت کے غم میں گھپا کر ختم کر ڈال۔