نظم جنگل کی شہزادی کا خلاصہ

0

جوش ملیح آبادی کی نظم “جنگل کی شہزادی” پابند نظم کی ہیت میں لکھی گئی ہے۔ اس نظم کے اشعار کی تعداد 60 ہے۔ اس نظم میں شاعر نے جنگل کی ایک شہزادی کے روپ سروپ اور سراپے کو بیان کیا ہے۔یہ شہزادی کوئی اور نہیں بلکہ ریل گاڑی کے سفر کے دوران جنگل میں شاعر کو ملتی ہے۔ شاعر نے اس نظم کے ذریعے اس شہزادی کی سراپا نگاری کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔

شاعر نظم میں ابتدائی تمہید باندھتے ہوئے کہتا ہے کہ آج میرے دل میں جو ایک تیر سا چھبا ہوا ہے میں اس کو کھینچ کر آزاد کرتے ہوئے اپنے دل کی بات بیان کرنے جا رہا ہوں۔ میں اپنے ریل گاڑی میں کیے گئے ایک سفر کی رودار کو تصویری انداز میں بیان کر رہا ہوں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں ریل گاڑی میں مسکراتا ہوا اور خوشی خوشی جا رہا تھا اور میری منزل اجمیر شریف سے جے پور کی جانب تھی۔یہ گاڑی جنگلوں میں سے تیزی سے بڑھ رہی تھی رات کا وقت ہونے کی وجہ پرندے اپنے گھونسلوں میں دبکے ہوئے تھے۔ سورج بھی پہاڑی کے پیچھے جا کر چھپ گیا تھا۔ اچانک سے گاڑی جنگل کے بیچ و بیچ جا کر ٹھہر جاتی ہے۔ جس کے سامنے میدان میں ایک لڑکی کھڑی ہوتی ہے۔

اس کے سراپے کو شاعر بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ انتہائی خوبصورت ، چاند کی تصویر بنی ہوئی تھی۔اس کی نگاہ ہرن جیسی تھی اور یہ کسی تازہ پھل کی مانند تھی۔ گلاب رنگ اور جنت جیسی تھی۔ اس کے ہونٹ یاقوت کی طرح خوبصورت ، موتیوں کی طرح خوبصورت ، میٹھے اور بلند و بالا تھے۔ ان کی خوبصورتی قتل کرنے والی ، دل سوز اور جان کی دشمن تھی۔ یہ قدرتی مناظر کی پلی ہوئی اور جنگل کی دوشیزہ تھی۔اس کا سراپا کسی شاداب پنکھڑی کی مانند تھا۔ یا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا جنگل کی تروتازگی میں ہی جان پڑ گئی ہو۔

اس کے حسن پہ حوریں ہزار دل و جان سے قربان ہو گئی ہوں اور اس (جنگل) کی یہ تمام رنگینیاں سمٹ کر ایک انسان (جنگل کی شہزادی) کی شکل اختیار کر گئی ہوں۔یہ رنگین جمال دیوی کوئی اور نہیں بلکہ جنگل کی شہزادی تھی۔ اگر یہ جنگل کی حسین شہزادی کسی بستی کی جانب آ جائے تو ایک طرح سے فساد برپا ہو جائے گا اور آبادیوں میں ہلچل مچ جائے گی اور شہروں میں بھی شور برپا ہو جائے گا۔اس کے حسن کو دیکھ کر شراب خانوں میں شراب پینے والوں کے ہاتھوں سسے شراب کے پیالے بھی چھوٹ جائیں گے۔ اور وہ شیخ جو عبادت اور توبہ کی تسبیح میں الجھے ہوئے ہیں ان کی تسبیح ٹوٹنے کا خدشہ ہے۔ خدا خوفی رکھنے والوں کی نظروں سے تمام رسم و رواج ختم ہو جائیں گے۔ اس کا حسن دیکھ کر پرہیز گاروں کے عمامے اور بادشاہوں کے تاج تک اتر جائیں گے۔

اس کے حسن کے آ گے سب دلبروں کی نگاہیں بھی جھک سی جاتی تھیں۔ اس کی ہر ایک ادا کے آگے شرما کر سب منھ جھکاتے تھے۔ کیوں کہ اس کا ایک ایک جلوہ نپا ہوا اور ہر ایک ادا تلی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ شاعر کے مطابق اس شہزادی کے حسن کے لیے خون اور دوستی کے کئی ایک رشتے خراب ہو جائیں گے۔ہزاروں قسم کے نئے اور چھبتے ہوئے افسانے چھپیں گے۔ان آنکھوں کے لیے تو شراب خانے بھی کانپ اٹھیں گے۔

شاعر نے اپنے جذبات کا اظہار اس سے کچھ یوں کیا کہ اے جنگل کی شہزادی تجھے چاہنے یا پوچنے والے کئی ایک لوگ ہوں گے ان میں ایک نام میرا بھی ہے۔ تجھے دیکھنے کے بعد میری چاہت ہے کہ اے کاش میں جنگل میں رہتا ہوتا۔ یہ جنگل ، پھول ، چشمے سب مجھ سے قریب ہوتے اور کسی شاعر کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ سب مناظر میرے دشمن ہوتے۔ جس پہ اول تو وہ شرمائی اور آخر اپنی گھائل کر دینے والی ادائیں دکھانے لگی۔اس نے اپنے ہاتھ میں پہنے چاندی کے گنگن کو شرما کر دانتوں میں دبایا۔

اس کو سن کر نہ صرف شاعر کی آنکھوں کی داستانیں مچلیں بلکہ اس کی نگاہ کی زبان میں ڈگمگائی۔اس نے شرما کر دوبارہ اپنی زلفوں پہ ہاتھ پھیرا اور جب میں نے اسے دیکھا تو اس وقت تک میدان میں اندھیرا چھا چکا تھا۔ آخر میں شاعر کہتا ہے کہ وہ میری آنکھوں میں ایک زمانے کو تاریک کر کے یعنی مجھے انکار کرتے ہوئے جنگل سے سر جھکا کر جانے کے لیے روانہ ہوئی۔جب وہ روانہ ہونے لگی تو میرے ارمانوں نے بھی سر جھکا لیا۔ یہ سب دیکھ کر میں بے ہوش ہونے کے قریب تھا اور میرے سینے سے ایک آہ سی نکلی۔ اتنے میں چاند کی روشنی رات کی نوید لے کر آئی اور جب میں نے مڑ کر دیکھا تو اس وقت تک میری امید مر چکی تھی اور ریل کی پٹری چمک رہی رہی تھی اور گاڑی اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی۔