نظم لینن خدا کے حضور میں کا خلاصہ

0

نظم “لینن خدا کے حضور میں” علامہ اقبال کے شعری مجموعے “بال جبرئیل” میں شامل ہے۔ اس نظم کے کل 22 اشعار ہیں۔ اس نظم میں اقبال نے روس کے عظیم انقلابی لینن کے اشتراکی فکر و فلسفہ کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اے ذات کریم انفس وآفاق میں تیری نشانیاں ہیں۔

اے خدا !میں اس حقیقت سے تو آشنا ہوں کہ عالم ارواح اورعالم اجسام دونوں مقامات پرتیری نشانیاں واضح اورنمایاں ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تیری ذات ، تیرا وجود ہمیشہ زندہ وپائندہ رہنے والا ہے۔یعنی تو ’’حی وقیوم ‘‘ہے۔میں یہ بات کیونکر سمجھتا کہ تیرا وجود ہے یانہیں ، اس عالم آب وگل میں فلسفہ و دانش نے جو نظریے قائم کیے تھے، وہ ہر لمحہ بدلتے رہتے ہیں۔ اور اس نے ایک تذبذب کی کیفیت پیدا کردی ہے۔

اگر یہ تبدیلی نہ ہوتی یا کوئی ایک نظریہ برقرار رہتا تو میں اسے سچا جان لیتا،لیکن ایسا نہ ہوسکا اورمیں بے یقینی کاشکار رہا اورتیر ے وجود کے بارے میں شک وشبہ کا شکار رہا۔ اورکوئی واضح شکل سامنے نہ آسکی۔بات یہ ہے کہ کوئی انسان بے شک بینائے کواکب ہو یا دانائے نباتات یعنی علم ہئیت ونجوم کے ماہر ہوں یا ماہرین فطرت۔ وہ خود بھی فطرت کے ازلی نغمہ سے آگاہ نہیں ہے۔ یعنی حقیقت کاصحیح ادراک نہیں رکھے۔

اول الذکر توستاروں کی گردش پراکتفاکرتے ہیں اور دوسرے یعنی ماہرین نباتات آئے دن نئی نئی باتیں سناتے ہیں لیکن دیکھا جائے تو ان کو فطرت کے مظاہر سے کوئی آگاہی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ خود بھی تیری ذات کے عرفان سے محروم ہے۔ اوردوسروں کوبھی محروم رکھا۔ آج جب میں نے خود اپنی آنکھ سے دیکھا تو وہ حقیقت (دنیائے آخرت )مجھ پر واضح ہو گئی جسے میں کل تک کلیسا کی تعلیم اور پادریوں کی باتوں کوبے معنی سمجھ کرنظر انداز کرتا رہا لیکن اب عالم آخرت میں سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تومعلوم ہوا کہ وہ تمام باتیں توحقیقت پر مبنی تھیں، جنہیں میں بیکار سی باتیں سمجھتا تھا، بے شک ہم انسان توشب وروز کے چکروں میں پھنسے ہوئے ہیں، بے بس ومجبور ہیں اور اے باری تعالی جہاں تک تیری ذات اقدس کاتعلق ہے وہ تو زمانوں کاخالق اورایک ایک لمحے کی واردات کومحفوظ رکھنے والا ہے۔

اگر تو مجھے اجازت دے تو میں اور ایک بات پوچھنے کی جسارت کروں جسے آج تک فلسفیوں کے مقالات اوران کی ضخیم تصانیف حل نہ کرسکیں‌۔ جب تک میں روئے زمین پر زندہ رہا یہ بات میرے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہی۔اپنا مدعا بیان کرنے سے قبل یہ ضرور تسلیم کروں گا کہ جب روح کے اندر خیالات کا طوفان برپا ہو تو اس صورت میں انسان کو اپنی گفتگو کرنے کے سلیقے پر قابو نہیں رہتا۔ چنانچہ اس جسارت کے لیے پہلے سے معذرت خواہ ہوں۔

وہ بات یہ ہے کہ اے خالق کائنات بس اتنا بتادے کہ وہ کون سا انسان ہے کہ تو جس کامعبود ہے؟کیا اس انسان کا جوخاک سے تخلیق ہوا؟ اورآسمانوں کے نیچے یعنی دنیا میں آباد ہے ؟اب یہاں انسانوں کے مختلف انداز زندگی کی بات ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ اہل مشرق کے خدا تو مغرب کے سفید فام لوگ بنے ہوئے ہیں۔ جنھوں نے اس علاقے پر اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے اورجبکہ ان فرنگیوں یورپین لوگوں نے ان چمکتی دھاتوں کو اپنا خدا بنا رکھا ہے۔قوتوں نے اپنی عیاری ومکاری سے مشرق پر قبضہ جمارکھا ہے اورخود مشینوں ہی کو اپنا سب کچھ سمجھ رکھا ہے۔ اورآج بھی یہ سلسلہ مختلف النوع شکلوں میں جاری وساری ہے۔

اگرچہ اس میں شک نہیں کہ یورپ میں علم وہنراورسائنس وفلسفہ نے بڑی ترقی کی اوروہاں ہر سو عقل وفرد کی روشنی ہے لیکن پھر بھی وہاں تاریکی کا دور دورہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کی تاریکیوں میں آب ِحیات کاکوئی چشمہ نہیں ہے۔ یعنی ان کے طورطریقے اورکردار و عمل حقیقی زندگی سے بیگانہ دور ہیں۔وہ حقیقی زندگی حاصل نہ کرسکے۔یورپ میں توصورتحال یہ ہے کہ فن تعمیر ، رونق اورصفائی غرض ہر ایک شے میں دلکشی کا رنگ نمایاں ہے۔

اس ملک میں دولت کی اس قدر پجارت کی جاتی ہے کہ یہاں کے بینکوں کی عمارات یہاں کے گرجوں سے بھی کئی گنا زیادہ خوبصورت ہیں۔تجارت درحقیقت ایک جوا ہے یہاں پہ لوگ دوسروں کو سود کی مد میں رقم فراہم کرتے اور اسے تجارت کا نام دیتے ہیں یہاں پہ ایک شخص کا لیا ہوا سود باقی افراد کے لیے موت کا باعث بن جاتا ہے۔یورپ کی تعلیمات و روایات پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ لوگ علم و حکمت اور دانائی، غورو فکر کرنے کا درس دیتے ہیں۔

ان کی حکومت کی بھی یہی پالیسی ہے لیکن اصل حقیقت اس کے برعکس ہے کہ یہ لوگ عوام کا لہو پی کر انھیں محض برابری کا درس دیتے ہیں۔یورپ کے معاشرے میں بے کاری ، فحشی ، شراب نوشی اور بھوک و غربت نمایاں طور پہ موجود ہیں۔ لیکن انہی فرنگیوں کی شہری زندگی میں یہ سب فتح کہلاتی ہے۔ یورپ وہ قوم ہے کہ جو آسمان سے اتارے گئے فیض سے محروم ہے لیکن اسکے کمالات کی کوئی حد بندی نہیں ہے اور یہ برق اور بخارا تک کے شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں۔

یورپ کے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ دراصل انسانی دل کے لیے ترقی اور مشینی آلات دراصل زہر قاتل ہیں کہ اس سے ایک طرح سے دل کی موت واقع ہوجاتی ہے کیوں کہ یہ انسان کےاحساس مروت یعنی انسانیت ختم ہو جقتی ہے۔آغاز میں تو کچھ علامات ظاہر ہوتی ہیں مگر آخر کار تدبیر یعنی انسانی سمجھ بوجھ کو اسکی تقدیر یعنی قسمت ہرا دیتی ہے۔ مے خانے ( شراب پینے کی جگہ) کی بنیاد کس اصول پہ رکھی گئی اس میں بھی ایک ہلچل رونما ہوئی اور اب اسی تبدیلی کی فکر میں پیران یورپ یعنی اس خرابی کی وجہ بننے والے لوگ سر جوڑے بیٹھے ہیں۔

اہل یورپ کہ چہروں پہ جو صبح و شام ایک لالی سی دکھائی دیتی ہے اس کی بنیادی وجہ کیا ہے کہ یا تو انھوں نے گال رنگنے والی سرخی لگا رکھی ہے یا پھر یہ شراب پینے اور پلانے والے کی کرامات کا اثر دکھائی دیتا ہے۔لینن اللہ سے یہ شکایت کرتا ہے کہ بلا شبہ تیری ذات ہر ایک شے پر قدرت رکھنے والی ذات ہے مگر تیری اس کائنات اور خدائی میں ایک مزدور انسان کی زندگی بہت تلخ اور مشکلات سے بھری ہوئی ہے۔ اس دنیا میں اس کا جینا دشوار ہے(یہاں کارل مارکس کے فلسفے کی جھلک ہے)لینن رب سے یہ سوال کرتا دکھائی دیتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا یہ رواج کب زوال پذیر ہو گا اور کب مزدوروں کو بھی ان کے حقوقِ مے مطابق سہولیات بھری زندگی نصیب ہو گی۔ اے پروردگار یہ دنیا تیرے اس مکافات یعنی بدلے کی منتظر ہے۔