نظم رامائن کا آخری سین کی تشریح

0

برج نرائن چکبست کی نظم “رامائن کا آخری سین” مسدس کی ہیت میں لکھی گئی نظم ہے۔ یہ نظم 22 بندوں پر مشتمل ہے۔ اس نظم میں رام کے رامائن کے لیے جانے کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔

رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام
راہ وفا کی منزل اول ہوئی تمام
منظور تھا جو ماں کی زیارت کا انتظام
دامن سے اشک پونچھ کے دل سے کیا کلام
اظہار بے کسی سے ستم ہوگا اور بھی
دیکھا ہمیں اداس تو غم ہوگا اور بھی

یہ اشعار”چکبست نرائن” کی نظم “رامائن کا ایک سین” سے لیے گئے ہیں۔ اس نظم میں شاعر نے رام چندر جی کے اس کی ماں کو شیلا سے جدائی کے منظر کو بہت پر درد انداز میں بیان کیا ہے۔ شاعر اس بند میں کہتا ہے کہ رام چندر نے جب خدا کا نام لے کر اپنی منزل کی جانب جانے کا ارادہ کیایہاں پر اس کی منزل وفا تمام ہو چکی تھی۔ انھوں نے جانے سے قبل اپنی ماں کوشیلا سے ملنے کا ارادہ کیا۔یہ سوچتے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔وہ اپنی قمیض کے دامن سے اپنے آنسو خشک کرنے لگے اور دل ہی دل میں یہ بات کی کہ ماں کے سامنے اس کمزوری کا اظہار ماں پر ایک ظلم ہو گا اور وہ مجھے اس حالت میں دیکھ کر مزید اداس ہو جائے گی۔

دل کو سنبھالتا ہوا آخر وہ نونہال
خاموش ماں کے پاس گیا صورت خیال
دیکھا تو ایک در میں ہے بیٹھی وہ خستہ حال
سکتا سا ہو گیا ہے یہ ہے شدت ملال
تن میں لہو کا نام نہیں زرد رنگ ہے
گویا بشر نہیں کوئی تصویر سنگ ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ رام چندر جب اپنے دل کی حالت پر قابو پاتے ہوئے اپنی ماں کے حضور پہنچا تو دیکھا کہ وہ ان کے خیال کی تصویر کی عکاس بنی ہوئی بہت خستہ حال ایک دروازے میں بیٹھی ہے۔دکھ کی شدت سے اس پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہے۔اس کا جسم ایسا زدر پڑا ہوا ہے کہ جیسے اس میں لہو کی ایک بوند بھی باقی نہ ہو۔گویا وہ کوئی انسان نہیں بلکہ پتھر کی کوئی مورتی ہو۔

کیا جانے کس خیال میں گم تھی وہ بے گناہ
نور نظر یہ دیدۂ حسرت سے کی نگاہ
جنبش ہوئی لبوں کو بھری ایک سرد آہ
لی گوشہ ہائے چشم سے اشکوں نے رخ کی راہ
چہرہ کا رنگ حالت دل کھولنے لگا
ہر موئے تن زباں کی طرح بولنے لگا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ نہ جانے وہ ماں کس خیال میں گم تھی۔اس نے حسرت بھری نگاہوں سے اپنے بیٹے یعنی نور نظر کو دیکھا۔اس کے ہونٹوں میں ذرا سی جنبش ہوئی اور اس کے ہونٹوں سے ایک آہ جدا ہوئی۔اس کی آنکھوں کے کونوں نے اس کے بیٹے کے چہرے کو دیکھا۔ اس کے چہرے کا رنگ دیکھ کر اس کے دل کی حالت بدلنے لگی۔ اس کا رواں رواں زبان کی طرح بولنے لگا۔

آخر اسیر یاس کا قفل دہن کھلا
افسانۂ شدائد رنج و محن کھلا
اک دفتر مظالم چرخ کہن کھلا
وا تھا دہان زخم کہ باب سخن کھلا
درد دل غریب جو صرف بیاں ہوا
خون جگر کا رنگ سخن سے عیاں ہوا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ بلاآخر ایک قیدی کی طرح بیٹے کی محبت میں اسیر ماں کے منھ کا تالا کھلا جس سے شکایات کا طویل دفتر کھل کر سامنے آ گیا۔آسمان پہ بھی مظالم وشکایات کا دفتر کھل گیا۔ ابھی زخم ہرا ہی تھا کہ بات چیت ہونے لگی۔غریب کے دل کا درد ہی جب بیان ہوا تو اس کے بات کرںے کے انداز سے ہی سخت تکالیف کا اندازہ ہونے لگا۔

رو کر کہا خموش کھڑے کیوں ہو میری جاں
میں جانتی ہوں جس لیے آئے ہو تم یہاں
سب کی خوشی یہی ہے تو صحرا کو ہو رواں
لیکن میں اپنے منہ سے نہ ہرگز کہوں گی ہاں
کس طرح بن میں آنکھوں کے تارے کو بھیج دوں
جوگی بنا کے راج دلارے کو بھیج دوں

اس بند میں شاعر نے رام چندر اور اس کی ماں کے مکالمے کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ رام چندر کی ماں نے رو کر اس سے یہ کہا کہ میری جان تم خاموش کیوں کھڑے ہو۔مجھے معلوم ہے کہ تم کس لیے یہاں کھڑے ہو۔اگر سب کی خوشی اسی میں ہے تو تم صحرا کی جانب روانہ ہو جاؤلیکن میں اپنے منھ سے جانے کی تمھیں ہر گز اجازت نہ دوں گی۔کہ میں کس طرح اپنے آنکھوں کے تارے کو خود سے دور بھیجوں۔اپنے شھزادے کو فقیر بنا کر روانہ کر دوں۔

دنیا کا ہو گیا ہے یہ کیسا لہو سپید
اندھا کیے ہوئے ہے زر و مال کی امید
انجام کیا ہو کوئی نہیں جانتا یہ بھید
سوچے بشر تو جسم ہو لرزاں مثال بید
لکھی ہے کیا حیات ابد ان کے واسطے
پھیلا رہے ہیں جال یہ کس دن کے واسطے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ رام کی ماں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کا خون سفید ہو چکا ہے اور لوگوں کو زیادہ مال و دولت کی حوس اندھا کیے ہوئے ہے۔ اس راز سے سبھی نا واقف ہی کہ آخر ان کا کیا انجام ہو گا۔اگر انسان اس انجام کو سوچے تو بید کی چھڑی کی طرح انسان کا جسم کانپ کر رہ جائے گا۔کیا انھیں موت کا خوف نہیں کہ وہ بالکل بھی ہمیشہ کی زندگی لکھوا کر نہیں لائے ہیں۔لیکن نجانے کیوں وہ اپنی دولت کا وسیع جال پھیلاتے جا رہے ہیں۔

لیتی کسی فقیر کے گھر میں اگر جنم
ہوتے نہ میری جان کو سامان یہ بہم
ڈستا نہ سانپ بن کے مجھے شوکت و حشم
تم میرے لال تھے مجھے کس سلطنت سے کم
میں خوش ہوں پھونک دے کوئی اس تخت و تاج کو
تم ہی نہیں تو آگ لگا دوں گی راج کو

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ رام چندر کی ماں نے اپنے بیٹے سے اظہار محبت کرتے ہوئے ان سے کہا کہ اگر میں کسی کی فقیر کے گھر جنم لیتی تو میری جان کو یہ روگ نہ لگتے۔یہ شان و شوکت اور رعب داب مجھے نہ ڈستے۔ میرے جگر گوشے تم میرے لیے کسی سلطنت اور ریاست سے کم نہیں ہو۔ اگر میرے تخت و تاراج کو کوئی آگ بھی لگا دے تو میں خوش ہوں کہ جہاں تم موجود نہیں ہو وہاں یہ تخت و تاج بامعنی ہیں۔

کن کن ریاضتوں سے گزارے ہیں ماہ و سال
دیکھی تمہاری شکل جب اے میرے نونہال
پورا ہوا جو بیاہ کا ارمان تھا کمال
آفت یہ آئی مجھ پہ ہوئے جب سفید بال
چھٹتی ہوں ان سے جوگ لیا جن کے واسطے
کیا سب کیا تھا میں نے اسی دن کے واسطے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ماں اپنے بیٹے سے کہتی ہے کہ تمھیں کیا معلوم ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے سال اور مہینے کن کوششوں میں گزارے ہیں۔لیکن جب تمھاری صورت میں اولاد میری جھو لی میں آئی تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میری شادی کا خواب پورا ہو گیا ہو۔ مگر اس پہ بھی یہ مصیبت آئی کہ جب میرے بال سفید ہوئے اور میں اپنے بڑھاپے میں ہوں تو جس کے واسطے میں نے یہ فقیری اپنائی تھی آج وہ ہی مجھ سے جدا ہو رہا ہے۔کیا میری ساری قربانیاں اسی لیے تھیں.

ایسے بھی نامراد بہت آئیں گے نظر
گھر جن کے بے چراغ رہے آہ عمر بھر
رہتا مرا بھی نخل تمنا جو بے ثمر
یہ جائے صبر تھی کہ دعا میں نہیں اثر
لیکن یہاں تو بن کے مقدر بگڑ گیا
پھل پھول لا کے باغ تمنا اجڑ گیا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ رام کی ماں کچھ یوں فریاد کرتی ہےکہ اس دنیا میں بہت سے ایسے نامراد بھی دکھائی دیں گیں کہ جن کے گھر ہمیشہ اندھیرے میں بنا چراغ کی آہوں سےبھرتے رہے ہیں۔ اگر میرا درخت بھی بغیر پھل کے رہتا تو لیکن یہ شاید میرے صبر کا امتحان ہے یا میری دعاؤں میں اثر باقی نہیں رہا ہے کہ میرا نصیب بننے کے بعد بگڑ گیا اور میری خوشیوں ،امیدوں کا باغ پھل لانے کے بعد اجڑ گیا۔ مجھے اولاد ملنے کے بعد مجھ سے میرا بیٹا چھن گیا۔

سرزد ہوئے تھے مجھ سے خدا جانے کیا گناہ
منجدھار میں جو یوں مری کشتی ہوئی تباہ
آتی نظر نہیں کوئی امن و اماں کی راہ
اب یاں سے کوچ ہو تو عدم میں ملے پناہ
تقصیر میری خالق عالم بحل کرے
آسان مجھ غریب کی مشکل اجل کرے

اس بند میں شاعر نے رام چندر جی کی ماں کوشیلا کے مکالمات کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ رام چندر کی ماں اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر کہتی ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ مجھ سے کیا غلطی سرزر ہوئی ہے۔جو یوں میں مشکلات کے طوفان میں گھر چکی ہوں۔مجھے اس مشکل سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ اب اگر موت کی صورت میں،میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں تو ہمیشہ رہنے والی دنیا میں ہی مجھے پناہ مل سکتی ہے۔ میری یہ خطا مجھے تخلیق کرنے والا خالق ہی معاف کرسکتا ہے اور موت ہی میری یہ مشکل آسان کر سکتی ہے۔

سن کر زباں سے ماں کی یہ فریاد درد خیز
اس خستہ جاں کے دل پہ چلی غم کی تیغ تیز
عالم یہ تھا قریب کہ آنکھیں ہوں اشک ریز
لیکن ہزار ضبط سے رونے سے کی گریز
سوچا یہی کہ جان سے بیکس گزر نہ جائے
ناشاد ہم کو دیکھ کے ماں اور مر نہ جائے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ رام چندرنے جب اپنی ماں کی یہ دلخراش فریاد سنی تو گویا اس کے دل پر کسی نے تلوار چلا دی ہو۔اس وقت اس کی کیفیت یوں تھی کہ انکھوں سے آنسو بہنے کے قریب تھے۔مگر ہزار کوشش کے باوجود بھی وہ ان کو روک نہ پا رہا تھا۔اس نے یہ سوچا کہ خود سے عاجز آئی ماں یہ صورت حال اور اپنے بیٹے کو نا خوش پا کر جان سے ہی نہ گز جائے۔

پھر عرض کی یہ مادر ناشاد کے حضور
مایوس کیوں ہیں آپ الم کا ہے کیوں وفور
صدمہ یہ شاق عالم پیری میں ہے ضرور
لیکن نہ دل سے کیجیے صبر و قرار دور
شاید خزاں سے شکل عیاں ہو بہار کی
کچھ مصلحت اسی میں ہو پروردگار کی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ رام چندر نے اپنی ناخوش ماں کے حضور یہ درخواست کی کہ اے ماں تم نہ خوش نہ ہو اور اتنا زیادہ دکھ مت کرو۔اس بزرگی میں یہ صدمہ ضرور ہے۔بے شک دل سے بے چینی اور بے قراری کو ختم نہ کرو۔لیکن۔ہو سکتا ہے کہ اسی غم کے ساتھ خوشی پوشیدہ ہو۔اسی خزاں کے بعد کوئھ بہار دکھلائی دے۔اسی میں پروردگار کی کوئی مصلحت پوشیدہ ہوگی۔

یہ جعل یہ فریب یہ سازش یہ شور و شر
ہونا جو ہے سب اس کے بہانے ہیں سر بسر
اسباب ظاہری میں نہ ان پر کرو نظر
کیا جانے کیا ہے پردۂ قدرت میں جلوہ گر
خاص اس کی مصلحت کوئی پہچانتا نہیں
منظور کیا اسے ہے کوئی جانتا نہیں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ رام چںدر ماں سے کہتا ہے کہ یہ دھوکے، فریب ، سازشیں یہ ہنگامے اور فتنے یہ سب معاملات شروع سے آخر تک طے شدہ ہیں اور ان کے لیے بس کسی بہانے کی دیر باقی ہے۔ ظاہری اسباب کی بدولت ان پہ ہر گز توجہ نہ دو کہ قدرت بہتر جاننے والی ہے کہ اس نے قسمت میں کیا رکھا ہے۔اس کی مصلحت کو کوئی پہچان نہیں سکتا ہے۔اللہ کو کیا منظور ہے یا تھا یہ اس سے بہتر طور پہ کوئی بھی نہیں جانتا ہے۔

راحت ہو یا کہ رنج خوشی ہو کہ انتشار
واجب ہر ایک رنگ میں ہے شکر کرد گار
تم ہی نہیں ہو کشتہ نیرنگ روزگار
ماتم کدہ میں دہر کے لاکھوں ہیں سوگوار
سختی سہی نہیں کہ اٹھائی کڑی نہیں
دنیا میں کیا کسی پہ مصیبت پڑی نہیں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ہمیں سکون ملے یا غم اور خوشی ملے کہ بے چینیاں ہمیں ہر حال میں اپنے عطا کرنے والے پرودگار کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ بس وہی ذات تمام عجائبات اور روزگار پہ قدرت رکھنے والی ہے۔ اس دنیا کے ماتم کدے میں اس دنیا کے لاکھوں لوگ غم زدہ ہیں۔ ان میں سے بعض لوگوں نے کبھی زمانے کی کوئی سختی نہ جھیلی تھی اور نہ کوئی کڑی مشکل سے دوچار ہوا تھا۔ اس سے قبل انھیں دنیا میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔

دیکھے ہیں اس سے بڑھ کے زمانے نے انقلاب
جن سے کہ بے گناہوں کی عمریں ہوئیں خراب
سوز دروں سے قلب و جگر ہو گئے کباب
پیری مٹی کسی کی کسی کا مٹا شباب
کچھ بن نہیں پڑا جو نصیبے بگڑ گئے
وہ بجلیاں گریں کہ بھرے گھر اجڑ گئے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ زمانے نے اس بھی زیادہ کئی طرح کے انقلاب دیکھے ہیں جن کی نظر کئی بے گناہ لوگ بھی ہوئے۔ان کے درد اور تکالیف سے گویا ہمارے سینے جل کر کباب ہو گئے۔ کسی کی بادشاہت ختم ہوئی تو کسی کی جوانی کا شباب گیا۔ جب انسان کا نصیب بگڑ جائے تو اس کی کوئی کوشش کام نہیں آتی ہے۔ کیوں کہ ایسے وقت میں وہ آفتیں نازل ہوئیں کہ لوگوں کے بھرے پرے گھر اجڑ کر برباد ہق گئے۔

ماں باپ منہ ہی دیکھتے تھے جن کا ہر گھڑی
قائم تھیں جن کے دم سے امیدیں بڑی بڑی
دامن پہ جن کے گرد بھی اڑ کر نہیں پڑی
ماری نہ جن کو خواب میں بھی پھول کی چھڑی
محروم جب وہ گل ہوئے رنگ حیات سے
ان کو جلا کے خاک کیا اپنے ہات سے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ لوگ جن کے دم سے ان کے والدین کی امیدیں قائم تھیں ان کے والدین ان کا منھ ہی دیکھتے رہ گئے۔ وہ لوگ جن کے دامن پہ کبھی گرد تک ںہیں گری تھی اور کبھی خواب میں بھی ان کو کسی نے پھول کی چھڑی تک سے نہ مارا تھا۔ ایسے لوگوں جب زندگی کی نعمت سے محروم ہوئے تو ان کو اپنے ہاتھوں سے جلا کر مٹی میں ملایا گیا۔

کہتے تھے لوگ دیکھ کے ماں باپ کا ملال
ان بے کسوں کی جان کا بچنا ہے اب محال
ہے کبریا کی شان گزرتے ہی ماہ و سال
خود دل سے درد ہجر کا مٹتا گیا خیال
ہاں کچھ دنوں تو نوحہ و ماتم ہوا کیا
آخر کو رو کے بیٹھ رہے اور کیا کیا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ لوگ ان لوگوں کے ماں باپ کا غم دیکھ کر کہتے تھے کہ اب ان کا جینا یا بچنا نا ممکن ہے۔ لیکن یہ خدا کی قدرت ہے کہ وہ کئی ماہ و سال سے جی رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کے دلوں سے خود ہی جدائی کا خیال مٹتا گیا۔ کچھ عرصہ تو ان لوگوں نے ماتم کیا اور غم منایا مگر آخر کو یہ لوگ رو کر تھک ہار کر بیٹھ گئے۔

پڑتا ہے جس غریب پہ رنج و محن کا بار
کرتا ہے اس کو صبر عطا آپ کردگار
مایوس ہو کے ہوتے ہیں انساں گناہ گار
یہ جانتے نہیں وہ ہے دانائے روزگار
انسان اس کی راہ میں ثابت قدم رہے
گردن وہی ہے امر رضا میں جو خم رہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ رام چندر نے اپنی ماں کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ جس انسان پر غم کا بوجھ پڑتا ہےاس کو پاک پروردگار ہی صبر عطا کرتا ہے۔ مایوسی چونکہ کفر ہے اس لیے وہ انسان کو گناہ کی جانب لے جاتی ہے۔ اللہ کی ذات ہی انسان کو سب کچھ عطا کرنے والی ذات ہے۔ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ اس کی راہ میں ثابت قدم رہے۔وہی بہترین انسان ہے جس کی گردن اس کے رب کی رضا میں جھکی رہے۔

اور آپ کو تو کچھ بھی نہیں رنج کا مقام
بعد سفر وطن میں ہم آئیں گے شاد کام
ہوتے ہیں بات کرنے میں چودہ برس تمام
قائم امید ہی سے ہے دنیا ہے جس کا نام
اور یوں کہیں بھی رنج و بلا سے مفر نہیں
کیا ہوگا دو گھڑی میں کسی کو خبر نہیں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ رام جی نے اپنی ماں سے کہا کہ آپ کو غم کا کوئی موقع نہ ملے گا کہ میں سفر کے بعد کامیاب اپنے وطن کو لوٹوں گا۔ بات کرنے میں چودہ سال گزرتے ہیں اور امید ہی سے یہ دنیا بھی قائم ہے۔ ویسے بھی تکا لیف اور غم سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ اگلے ہی لمحے کیا ہو گا اس بات کی کسی کو کوئی خبر نہیں ہے۔

اکثر ریاض کرتے ہیں پھولوں پہ باغباں
ہے دن کی دھوپ رات کی شبنم انہیں گراں
لیکن جو رنگ باغ بدلتا ہے ناگہاں
وہ گل ہزار پردوں میں جاتے ہیں رائیگاں
رکھتے ہیں جو عزیز انہیں اپنی جاں کی طرح
ملتے ہیں دست یاس وہ برگ خزاں کی طرح

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جیسے باغ پھولوں کے باغباں ہوتے ہیں۔انھیں ان پھولوں کے لیے دن کی دھوپ اور رات کی شبنم بہت بری لگتی ہے۔لیکن جو باغ اچانک رنگ بدل جائے اس کے پھول ہزار پردوں میں بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔ لیکن جو انھیں اپنی جان کی طرح عزیز رکھیں وہ بھی اکثر خزاں کے پتے کی طرح افسوس سے اپنے ہاتھ مل رہے ہوتے ہیں۔

لیکن جو پھول کھلتے ہیں صحرا میں بے شمار
موقوف کچھ ریاض پہ ان کی نہیں بہار
دیکھو یہ قدرت چمن آرائے روزگار
وہ ابر و باد و برف میں رہتے ہیں برقرار
ہوتا ہے ان پہ فضل جو رب کریم کا
موج سموم بنتی ہے جھونکا نسیم کا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ رام چندر اپنی ماں سے کہتا ہے کہ لیکن جو پھول کسی صحرا میں کھلتے ہیں۔ان پر کسی باغ کی بہار کا انحصار نہیں ہوتا ہے۔یہ بھی قدرت کے کرشمے ہیں کہ یہ باغ بادل، ہوا ،برف ہر طرح کے موسموں میں اپنی بہار برقرار رکھتے ہیں۔ان پر جب ان کے پروردگار کا فضل ہو تو جھلسا دینے والی گرم ہوا بھی ان کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوتی ہے۔

اپنی نگاہ ہے کرم کارساز پر
صحرا چمن بنے گا وہ ہے مہرباں اگر
جنگل ہو یا پہاڑ سفر ہو کہ ہو حضر
رہتا نہیں وہ حال سے بندے کے بے خبر
اس کا کرم شریک اگر ہے تو غم نہیں
دامان دشت دامن مادر سے کم نہیں

شاعر اس بند میں کہتا ہے کہ رام چندر جی نے کہا کہ اگر خدا کی مدد اور اس کا کرم اس کے شامل حال ہے تو صحرا بھی اس کے لیے باغ ثابت ہوگا۔جنگل، پہاڑ اور سفر ہو یا آرام کی کیفیت وہ کسی صورت بھی اپنے بندے سے بے خبر نہیں رہتا ہے۔اگر اس کا کرم شامل حال ہے تو کیسا غم کہ اس صورت میں جنگل کا دامن بھی کسی ماں کی آغوش سے کم نہیں ہوتا۔