نظم رامائن کا آخری سین کا خلاصہ

0

برج نرائن چکبست کی نظم “رامائن کا آخری سین” مسدس کی ہیت میں لکھی گئی نظم ہے۔ یہ نظم 22 بندوں پر مشتمل ہے۔ اس نظم میں رام کے رامائن کے لیے جانے کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔یہ نظم چکبست کی شاہکار نظم ہے۔

اس نظم کے لیے چکبست نے رامائن کے اس سین کا انتخاب کیا ہے جہاں رام راج پاٹ چھوڑ کر جوگی کا بھیس اختیار کرکے چودہ برس کے لیے بن باس جانے کی تیاری کرتے ہیں۔ نظم کا آغاز رام کے سفر پر جانے سے قبل ماں سے ملنے سے ہوتا ہے۔شاعر نے رام چندر جی کے اس کی ماں کو شیلا سے جدائی کے منظر کو بہت پر درد انداز میں بیان کیا ہے۔

رام چندر نے جب خدا کا نام لے کر اپنی منزل کی جانب جانے کا ارادہ کیایہاں پر اس کی منزل وفا تمام ہو چکی تھی۔ انھوں نے جانے سے قبل اپنی ماں کوشیلا سے ملنے کا ارادہ کیا۔یہ سوچتے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔وہ اپنی قمیض کے دامن سے اپنے آنسو خشک کرنے لگے اور دل ہی دل میں یہ بات کی کہ ماں کے سامنے اس کمزوری کا اظہار ماں پر ایک ظلم ہو گا اور وہ مجھے اس حالت میں دیکھ کر مزید اداس ہو جائے گی۔

رام چندر جب اپنے دل کی حالت پر قابو پاتے ہوئے اپنی ماں کے حضور پہنچا تو دیکھا کہ وہ ان کے خیال کی تصویر کی عکاس بنی ہوئی بہت خستہ حال ایک دروازے میں بیٹھی ہے۔دکھ کی شدت سے اس پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہے۔اس کا جسم ایسا زدر پڑا ہوا ہے کہ جیسے اس میں لہو کی ایک بوند بھی باقی نہ ہو۔گویا وہ کوئی انسان نہیں بلکہ پتھر کی کوئی مورتی ہو۔حسرت بھری نگاہوں سے اپنے بیٹے یعنی نور نظر کو دیکھا۔اس کے ہونٹوں میں ذرا سی جنبش ہوئی اور اس کے ہونٹوں سے ایک آہ جدا ہوئی۔اس کی آنکھوں کے کونوں نے اس کے بیٹے کے چہرے کو دیکھا۔ اس کے چہرے کا رنگ دیکھ کر اس کے دل کی حالت بدلنے لگی۔ اس کا رواں رواں زبان کی طرح بولنے لگا۔

بلاآخر ایک قیدی کی طرح بیٹے کی محبت میں اسیر ماں کے منھ کا تالا کھلا جس سے شکایات کا طویل دفتر کھل کر سامنے آ گیا۔آسمان پہ بھی مظالم وشکایات کا دفتر کھل گیا۔ رام چندر کی ماں نے رو کر اس سے یہ کہا کہ میری جان تم خاموش کیوں کھڑے ہو۔مجھے معلوم ہے کہ تم کس لیے یہاں کھڑے ہو۔اگر سب کی خوشی اسی میں ہے تو تم صحرا کی جانب روانہ ہو جاؤلیکن میں اپنے منھ سے جانے کی تمھیں ہر گز اجازت نہ دوں گی۔کہ میں کس طرح اپنے آنکھوں کے تارے کو خود سے دور بھیجوں۔اپنے شھزادے کو فقیر بنا کر روانہ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کا خون سفید ہو چکا ہے اور لوگوں کو زیادہ مال و دولت کی حوس اندھا کیے ہوئے ہے۔

اس راز سے سبھی نا واقف ہی کہ آخر ان کا کیا انجام ہو گا۔اگر انسان اس انجام کو سوچے تو بید کی چھڑی کی طرح انسان کا جسم کانپ کر رہ جائے گا۔کیا انھیں موت کا خوف نہیں۔ماں کہتی ہے کہ اگر میں کسی کی فقیر کے گھر جنم لیتی تو میری جان کو یہ روگ نہ لگتے۔یہ شان و شوکت اور رعب داب مجھے نہ ڈستے۔ میرے جگر گوشے تم میرے لیے کسی سلطنت اور ریاست سے کم نہیں ہو۔ اگر میرے تخت و تاراج کو کوئی آگ بھی لگا دے تو میں خوش ہوں کہ جہاں تم موجود نہیں ہو وہاں یہ تخت و تاج بامعنی ہیں۔میں نے اپنی زندگی کے سال اور مہینے کن کوششوں میں گزارے ہیں۔لیکن جب تمھاری صورت میں اولاد میری جھو لی میں آئی تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میری شادی کا خواب پورا ہو گیا ہو۔

مگر اس پہ بھی یہ مصیبت آئی کہ جب میرے بال سفید ہوئے اور میں اپنے بڑھاپے میں ہوں تو جس کے واسطے میں نے یہ فقیری اپنائی تھی آج وہ ہی مجھ سے جدا ہو رہا ہے۔کیا میری ساری قربانیاں اسی لیے تھیں.اس دنیا میں بہت سے ایسے نامراد بھی دکھائی دیں گیں کہ جن کے گھر ہمیشہ اندھیرے میں بنا چراغ کی آہوں سےبھرتے رہے ہیں۔ اگر میرا درخت بھی بغیر پھل کے رہتا تو لیکن یہ شاید میرے صبر کا امتحان ہے یا میری دعاؤں میں اثر باقی نہیں رہا ہے کہ میرا نصیب بننے کے بعد بگڑ گیا اور میری خوشیوں ،امیدوں کا باغ پھل لانے کے بعد اجڑ گیا۔

مجھے اولاد ملنے کے بعد مجھ سے میرا بیٹا چھن گیا۔مجھے نہیں معلوم کہ مجھ سے کیا غلطی سرزر ہوئی ہے۔جو یوں میں مشکلات کے طوفان میں گھر چکی ہوں۔مجھے اس مشکل سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ اب اگر موت کی صورت میں،میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں تو ہمیشہ رہنے والی دنیا میں ہی مجھے پناہ مل سکتی ہے۔ میری یہ خطا مجھے تخلیق کرنے والا خالق ہی معاف کرسکتا ہے اور موت ہی میری یہ مشکل آسان کر سکتی ہے۔رام چندرنے جب اپنی ماں کی یہ دلخراش فریاد سنی تو گویا اس کے دل پر کسی نے تلوار چلا دی ہو۔اس وقت اس کی کیفیت یوں تھی کہ انکھوں سے آنسو بہنے کے قریب تھے۔

مگر ہزار کوشش کے باوجود بھی وہ ان کو روک نہ پا رہا تھا۔اس نے یہ سوچا کہ خود سے عاجز آئی ماں یہ صورت حال اور اپنے بیٹے کو نا خوش پا کر جان سے ہی نہ گز جائے۔رام چندر نے اپنی ناخوش ماں کے حضور یہ درخواست کی کہ اے ماں تم نہ خوش نہ ہو اور اتنا زیادہ دکھ مت کرو۔اس بزرگی میں یہ صدمہ ضرور ہے۔بے شک دل سے بے چینی اور بے قراری کو ختم نہ کرو۔لیکن۔ہو سکتا ہے کہ اسی غم کے ساتھ خوشی پوشیدہ ہو۔اسی خزاں کے بعد کوئھ بہار دکھلائی دے۔اسی میں پروردگار کی کوئی مصلحت پوشیدہ ہوگی۔یہ دھوکے، فریب ، سازشیں یہ ہنگامے اور فتنے یہ سب معاملات شروع سے آخر تک طے شدہ ہیں اور ان کے لیے بس کسی بہانے کی دیر باقی ہے۔

ظاہری اسباب کی بدولت ان پہ ہر گز توجہ نہ دو کہ قدرت بہتر جاننے والی ہے کہ اس نے قسمت میں کیا رکھا ہے۔اس کی مصلحت کو کوئی پہچان نہیں سکتا ہے۔ہمیں سکون ملے یا غم اور خوشی ملے کہ بے چینیاں ہمیں ہر حال میں اپنے عطا کرنے والے پرودگار کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ بس وہی ذات تمام عجائبات اور روزگار پہ قدرت رکھنے والی ہے۔ اس دنیا کے ماتم کدے میں اس دنیا کے لاکھوں لوگ غم زدہ ہیں۔ ان میں سے بعض لوگوں نے کبھی زمانے کی کوئی سختی نہ جھیلی تھی اور نہ کوئی کڑی مشکل سے دوچار ہوا تھا۔زمانے نے اس بھی زیادہ کئی طرح کے انقلاب دیکھے ہیں جن کی نظر کئی بے گناہ لوگ بھی ہوئے۔ان کے درد اور تکالیف سے گویا ہمارے سینے جل کر کباب ہو گئے۔ کسی کی بادشاہت ختم ہوئی تو کسی کی جوانی کا شباب گیا۔

جب انسان کا نصیب بگڑ جائے تو اس کی کوئی کوشش کام نہیں آتی ہے۔ وہ لوگ جن کے دم سے ان کے والدین کی امیدیں قائم تھیں ان کے والدین ان کا منھ ہی دیکھتے رہ گئے۔ وہ لوگ جن کے دامن پہ کبھی گرد تک ںہیں گری تھی اور کبھی خواب میں بھی ان کو کسی نے پھول کی چھڑی تک سے نہ مارا تھا۔ ایسے لوگوں جب زندگی کی نعمت سے محروم ہوئے تو ان کو اپنے ہاتھوں سے جلا کر مٹی میں ملایا گیا۔لوگ ان لوگوں کے ماں باپ کا غم دیکھ کر کہتے تھے کہ اب ان کا جینا یا بچنا نا ممکن ہے۔ لیکن یہ خدا کی قدرت ہے کہ وہ کئی ماہ و سال سے جی رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کے دلوں سے خود ہی جدائی کا خیال مٹتا گیا۔ کچھ عرصہ تو ان لوگوں نے ماتم کیا اور غم منایا مگر آخر کو یہ لوگ رو کر تھک ہار کر بیٹھ گئے۔

رام چندر نے اپنی ماں کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ جس انسان پر غم کا بوجھ پڑتا ہےاس کو پاک پروردگار ہی صبر عطا کرتا ہے۔ مایوسی چونکہ کفر ہے اس لیے وہ انسان کو گناہ کی جانب لے جاتی ہے۔ اللہ کی ذات ہی انسان کو سب کچھ عطا کرنے والی ذات ہے۔ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ اس کی راہ میں ثابت قدم رہے۔وہی بہترین انسان ہے جس کی گردن اس کے رب کی رضا میں جھکی رہے۔ماں آپ کو غم کا کوئی موقع نہ ملے گا کہ میں سفر کے بعد کامیاب اپنے وطن کو لوٹوں گا۔

بات کرنے میں چودہ سال گزرتے ہیں اور امید ہی سے یہ دنیا بھی قائم ہے۔ ویسے بھی تکا لیف اور غم سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ اگلے ہی لمحے کیا ہو گا اس بات کی کسی کو کوئی خبر نہیں ہے۔جیسے باغ پھولوں کے باغباں ہوتے ہیں۔انھیں ان پھولوں کے لیے دن کی دھوپ اور رات کی شبنم بہت بری لگتی ہے۔لیکن جو باغ اچانک رنگ بدل جائے اس کے پھول ہزار پردوں میں بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔ لیکن جو انھیں اپنی جان کی طرح عزیز رکھیں وہ بھی اکثر خزاں کے پتے کی طرح افسوس سے اپنے ہاتھ مل رہے ہوتے ہیں۔لیکن جو پھول کسی صحرا میں کھلتے ہیں۔ان پر کسی باغ کی بہار کا انحصار نہیں ہوتا ہے۔

یہ بھی قدرت کے کرشمے ہیں کہ یہ باغ بادل، ہوا ،برف ہر طرح کے موسموں میں اپنی بہار برقرار رکھتے ہیں۔ان پر جب ان کے پروردگار کا فضل ہو تو جھلسا دینے والی گرم ہوا بھی ان کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوتی ہے۔رام چندر جی نے کہا کہ اگر خدا کی مدد اور اس کا کرم اس کے شامل حال ہے تو صحرا بھی اس کے لیے باغ ثابت ہوگا۔جنگل، پہاڑ اور سفر ہو یا آرام کی کیفیت وہ کسی صورت بھی اپنے بندے سے بے خبر نہیں رہتا ہے۔اگر اس کا کرم شامل حال ہے تو کیسا غم کہ اس صورت میں جنگل کا دامن بھی کسی ماں کی آغوش سے کم نہیں ہوتا۔