نظم جاتری کی تشریح

0

میرا جی کی نظم “جاتری” نثری نظم کی ہیت میں لکھی گئی ہے۔52 سطور پر مشتمل اس نظم کی خوبی یہ ہے کہ نثری نظم کی ہیت میں ہونے کی باوجود اس کے مصرعوں کی اکائی کا تعین ممکن نہیں ہے۔ یہ نظم 1941ء میں لکھی گئی۔اس نظم کا عنوان ہی اس نظم کے بنیادی مسئلے کی طرف ایک مبہم اشارہ کر دیتا ہے۔جاتری یعنی مسافر سے جو کیفیت پیش منظر میں ابھرتی ہے، وہ ایک نوع کے عدمِ استقلال ، بے ثباتی اور اضطراب کی ہے۔گردوپیش میں پھیلی ہوئی پوری زندگی اس بے سکونی اور اضطراب کی زد پر ہے۔ کسی کیفیت کو نہ تو دوام ہے اور نہ ہی آرام۔ مسافرت کی حالت میں سبھی چیزیں رواں دواں اورآنی جانی ہوتی ہیں۔اس سفر کا المناک پہلو یہ ہے کہ یہ سفر بھی طے شدہ منزل کے لیے ہونے کے بجائے بے سمت اور لایعنی ہے۔

ایک آیا گیا دوسرا آئے گا دیر سے دیکھتا ہوں یوں ہی رات اس کی گزر جائے گی
میں کھڑا ہوں یہاں کس لیے مجھ کو کیا کام ہے یاد آتا نہیں یاد بھی ٹمٹماتا
ہوا اک دیا بن گئی جس کی رکتی ہوئی اور جھجکتی ہوئی ہر کرن بے صدا قہقہہ ہے
مگر میرے کانوں نے کیسے اسے سن لیا ایک آندھی چلی چل کے مٹ
بھی گئی آج تک میرے کانوں میں موجود ہے سائیں سائیں مچلتی ہوئی اور
ابلتی ہوئی پھیلتی پھیلتی دیر سے میں کھڑا ہوں یہاں ایک آیا گیا

اس بند کی سطور میں شاعر نے دو کرداروں کو کچھ اس انداز سے بیان کیا ہے کہ ایک کردار خود کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ میں یہاں کافی دیر سے کھڑا ہوں لیکن ایک آدمی آ کر چلا گیا۔ دوسرا ابھی آئے گا اور اسی طرح رات بیت جائے گی۔ بتاںے والی کی حالت اس نوعیت کی ہے کہ جیسے وہ کسی بس کے اڈے پہ موجود یو کئی لوگ وہاں آئیں اور آ کر چلے جائیں جبکہ کچھ لوگوں نے ابھی آنا ہو لیکن یہ شخص وہی کا وہی موجود رہے۔وہ شخص یہاں کیوں موجود ہے اسے یہ تک یاد نہیں کیوں کہ اس کی یاد کا دیا ٹمٹما رہا ہے۔شاعر کو اپنا بیتا ہوا وقت یاد آتا ہے۔گزرے دنوں کی ہوا کوئی دیا بن جائے اور اس دیے کی ٹمٹماتی کرن کبھی رکے اور کبھی ججکھے یہی اس ہوا کی مثال ہے۔شاعر کہتا ہے لیکن نجانے میرے کانوں نے اس مسکراہٹ کو کیسے اور کیوں کر سن لیا کہ ایک آندھی چلنے کے بعد ختم ہو گئی لہکن اس کی گونج آج تک اس شخص کے کانوں میں سنائی دیتی ہے اور وہ آواز ابلتے ہوئے پھیلنے لگ جاتی ہے۔مگر وہ شخص (مسافر) دیر سے اس جگہ پہ کھڑا ہے یہاں تک کہ کئی لوگ آ کر چلے بھی گئے۔

دوسرا آئے گا رات اس کی گزر جائے گی ایک ہنگامہ برپا ہے دیکھیں جدھر
آ رہے ہیں کئی لوگ چلتے ہوئے اور ٹہلتے ہوئے اور رکتے ہوئے پھر سے
بڑھتے ہوئے اور لپکتے ہوئے آ رہے جا رہے ہیں ادھر سے ادھر اور ادھر سے
ادھر جیسے دل میں مرے دھیان کی لہر سے ایک طوفان ہے ویسے آنکھیں
مری دیکھتی ہی چلی جا رہی ہیں کہ اک ٹمٹماتے دئیے کی کرن زندگی کو پھسلتے
ہوئے اور گرتے ہوئے ڈھب سے ظاہر کیے جا رہی ہے مجھے دھیان
آتا ہے اب تیرگی اک اجالا بنی ہے مگر اس اجالے سے رستی چلی جا رہی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس دنیا میں جہاں کہیں دیکھا جائے ایک ہنگامہ جاری ہے۔ان سطور میں جس ہنگامے یا زندگی کے جس زاویے کو پیش کیا جا رہا ہے وہ جنسی نوعیت کا ہے۔ جیسے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کی کوئی مخصوص جہت نہیں ہے۔ ایک بے معنیٰ آمدورفت اسے اجتماع کے بجائے ایک بھیڑ میں تبدیل کر دیتی ہے۔ پھر طوائف کے کوچے میں جس طرح سے لوگ آتے ہیں، اس کی تصویر بھی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔کچھ لوگوں میں ایک جھجھک ہے، معاشرے کا خوف ہے۔ کبھی پائوں رکتے ہیں اور کبھی خواہش آگے بڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔جھجھکنا اور بڑھنا ان کے باطن کی ایک آویزش ہے جو ان مصرعوں میں نمایاں ہو گئی ۔ انھیں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو عادی ہو چکے ہیں اور اس کوچے میں بے تکلفی سے چل رہے ہیں۔ گویا ان کے لیے یہاں آنا کوئی نیا تجربہ نہیں ہے۔ اس منظر نے کردار کے ذہن میں خواہش اور یادوں کی ملی جلی کیفیت کے سبب ایک طوفان برپا کر دیا ہے اور وہ اپنے تخیل کی آنکھوں سے پوری تصویر اور اس پورے عمل کو دیکھ لیتا ہے جو طوائف کے بالاخانے پر ہو رہا ہے کہ چراغ کی کرنیں ایک خاص ہیئت میں زندگی کو خاص شکل میں ظاہر کر رہی ہیں.

ہیں وہ امرت کی بوندیں جنہیں میں ہتھیلی پہ اپنی سنبھالے رہا ہوں ہتھیلی
مگر ٹمٹماتا ہوا اک دیا بن گئی تھی لپک سے اجالا ہوا لو گری پھر اندھیرا سا
چھانے لگا بیٹھتا بیٹھتا بیٹھ کر ایک ہی پل میں اٹھتا ہوا جیسے آندھی کے
تیکھے تھپیڑوں سے دروازے کے طاق کھلتے رہیں بند ہوتے رہیں
پھڑپھڑاتے ہوئے طائر زخم خوردہ کی مانند میں دیکھتا ہی رہا ایک آیا
گیا دوسرا آئے گا سوچ آئی مجھے پاؤں بڑھنے سے انکار کرتے
گئے میں کھڑا ہی رہا دل میں اک بوند نے یہ کہا رات یوں ہی گزر جائے گی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس اجالے‘ یعنی تسکین میں امرت کے وہ قطرے رِس رہے ہیں، جو زندگی اوروجود کا بنیادی وسیلہ ہیںجنھیں یہ کردار اپنی ہتھیلیوں پر سنبھالتا ہے مگر ہتھیلی ان قطروں کے سبب ایسا چراغ بن گئی ہے جن میں آثارِ حیات کی کمی ہے بلکہ امرت کی یہ بوندیں اپنے مناسب محل میں استعمال نہ ہونے کے سبب ضائع اور رائگاں جاتی ہیں۔رائگانی کے اسی احساس کی وجہ سے زندگی کے اس چراغ کو بجھتے ہوئے ایک دیے سے تعبیر کرتا ہے۔شاعر کا کہنا ہے کہ زندگی کے تھپیڑوں سے اس کے دروازے کھلتے اور بند ہوتے رہتے ہیں۔لیکن میں ایک پھڑپھڑاتے زخمی پرندے کی مانند یہ دیکھتا ہی رہ گیا کہ ایک گیا اور دوسرا آئے گا اسی سوچ میں میرے قدم آگے نہ بڑھنے سے انکاری رہے اور میرے دل سے بھی ایک آواز آئی کہ یہ رات یونہی گزر جائے گی۔

دل کی اک بوند کو آنکھ میں لے کے میں دیکھتا ہی رہا پھڑپھڑاتے ہوئے طائر
زخم خوردہ کی مانند دروازے کے طاق اک بار جب مل گئے مجھ کو آہستہ آہستہ
احساس ہونے لگا اب یہ زخمی پرندہ نہ تڑپے گا لیکن مرے دل کو ہر وقت
تڑپائے گا میں ہتھیلی پہ اپنی سنبھالے رہوں گا وہ امرت کی بوندیں جنہیں آنکھ
سے میری رسنا تھا لیکن مری زندگی ٹمٹماتا ہوا اک دیا بن گئی جس کی رکتی ہوئی
اور جھجکتی ہوئی ہر کرن بے صدا قہقہہ ہے کہ اس تیرگی میں کوئی بات ایسی نہیں
جس کو پہلے اندھیرے میں دیکھا ہو میں نے سفر یہ اجالے اندھیرے کا چلتا
رہا ہے تو چلتا رہے گا یہی رسم ہے راہ کی ایک آیا گیا دوسرا
آئے گا رات ایسے گزر جائے گی ٹمٹماتے ستارے بتاتے تھے رستے کی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے لگا کہ شاید یہ زخمی پرندہ اب شاید دوبارہ کبھی نہیں تڑپے گا لیکن اس کی محروم اور حسرت زدہ زندگی کی یادیں اسے تاحیات بے چین رکھیں گی۔ یہ کردار امرت کی ان بوندوں کو اپنی ہتھیلی پر سنبھالے رکھنے کا ایک عہد کرتا ہے۔ یہ غالباً اشارہ ہے اس بات کی جانب کہ اسے جنسی تسکین کی خاطر کسی مصنوعی اور بے جان عمل پر ہمیشہ انحصار کرنا ہوگا۔ کردار کی زندگی ایک ایسا چراغ ہے جو آثارِ حیات سے محروم ہے اور جس کی روشنی خود کردار پر ایک ایسا طنزیہ قہقہہ ہے جس کی صدائیں اس کردار کے دل میں بجھتی ہیں لیکن یہ گونج دوسروں کو سنائی نہیں دیتی کیونکہ یہ قہقہہ بے صدا ہے۔ اندھیرے اور اجالے کا یہ سفر فطرت کا قانون ہے اور اس راستے کی رسم بھی یہی ہے کہ لوگ آتے جا تے رہیںگے اور زندگی معمول کے مطابق یوں ہی رواں دواں رہے گی۔

ندی بہی جا رہی ہے بہے جا اس الجھن سے ایسے نکل جا کوئی سیدھا منزل پہ جاتا
تھا لیکن کئی قافلے بھول جاتے تھے انجم کے دور یگانہ کے مبہم اشارے مگر وہ
بھی چلتے ہوئے اور بڑھتے ہوئے شام سے پہلے ہی دیکھ لیتے تھے مقصود کا بند
دروازہ کھلنے لگا ہے مگر میں کھڑا ہوں یہاں مجھ کو کیا کام ہے میرا دروازہ
کھلتا نہیں ہے مجھے پھیلے صحرا کی سوئی ہوئی ریگ کا ذرہ ذرہ یہی کہہ رہا ہے
کے ایسے خرابے میں سوکھی ہتھیلی ہے اک ایسا تلوا کے جس کو کسی خار کی نوک چبھنے پہ بھی
کہہ نہیں سکتی مجھ کو کوئی بوند اپنے لہو کی پلا دو مگر میں کھڑا ہوں یہاں کس لیے
کام کوئی نہیں ہے تو میں بھی ان آتے ہوئے اور جاتے ہوئے ایک دو تین
لاکھوں بگولوں میں مل کر یوں ہی چلتے چلتے کہیں ڈوب جاتا کے جیسے یہاں
بہتی لہروں میں کشتی ہر ایک موج کو تھام لیتی ہے اپنی ہتھیلی کے پھیلے کنول
میں مجھے دھیان آتا نہیں ہے کہ اس راہ میں تو ہر اک جانے والے کے بس
میں ہے منزل میں چل دوں چلوں آئیے آئیے آپ کیوں اس جگہ
ایسے چپ چاپ تنہا کھڑے ہیں اگر آپ کہیے تو ہم اک اچھوتی سی ٹہنی سے
دو پھول بس بس مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں اک
دوست کا راستہ دیکھتا ہوں مگر وہ چلا بھی گیا ہے مجھے پھر بھی

بہت سے قافلے اس راستے پر ایسے بھی گزرے ہیں جنھوں نے منزل تک پہنچنے کی راحت نہیں پائی لیکن شام ہونے سے پہلے پہلے ان کے لیے بھی مقصود کا بند دروازہ کھلنے لگا ہے اور وہ سخت مشقت اور محرومی کے بعد کامرانی کی مسرت سے ہم کنار ہوئے ہیں۔زندگی پھیلا ہوا ایک صحرا ہے جہاں زندگی کے آثار دور دور تک نہیں ہیں۔چاہے اور چاہے جانے کی خواہش سے محرومی کا اس سے زیادہ درد انگیز بیان اور کیا ہوگاکہ راستے میں پھولوں کی راحت تو کیا،کانٹوں کی نوک بھی اس کے حسرت زدہ دل کو میسر نہیں آتی۔یہ کردار لاکھوں لوگوں میں شامل ہوکر ایک بے معنیٰ سفر کرتا اور راہ میں ہی کہیں ڈوب جاتا ہے۔اس عالم یاس میں اسے اپنی سوکھی ہتھیلی ایسے کنول کی مانند محسوس ہوتی ہے جو بہتی لہروں میں کھلا ہے۔ گویا اس کی یہی ہتھیلیاں اس کی تنہاجائے پناہ اور واحد سہارہ ہیں۔ اسی ذہنی کشمکش میں بازارِ حسن کا ایک دوسرا کردار نظم کے متکلم سے مخاطب ہوتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ آپ چپچاپ تنہا کیوں کھڑے ہیں۔ یہ جگہ تو ناامیدی اور مایوسی کی نہیں۔اس کوچے میں ہر شخص کامیاب اور بامراد ہے۔آپ جو کانٹوں کی حسرت میں تنہا کھڑے مایوسی سے دوچار ہیں۔فقط آپ کے حکم کی ضرورت ہے۔ اگر کہیں تو آپ کی خدمت میں بے مثال نرم و نازک ٹہنی پیش کی جا سکتی ہے جو آپ کے دل سے کانٹوں کی حسرت کو ہمیشہ کے لیے دور کر سکتی ہے۔کردار اس کے جواب میں اس پیش کش کو نا منظور کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں یہاں اس غرض سے نہیں آیا۔میںاپنے کسی دوست کا انتظار کر رہا ہوں۔

تسکین آتی نہیں ہے کہ میں ایک صحرا کا باشندہ معلوم ہونے لگا ہوں خود
اپنی نظر میں مجھے اب کوئی بند دروازہ کھلتا نظر آئے یہ بات ممکن نہیں ہے
میں اک اور آندھی کا مشتاق ہوں جو مجھے اپنے پردے میں یکسر چھپا لے
مجھے اب یہ محسوس ہونے لگا ہے سہانا سماں جتنا بس میں تھا میرے
وہ سب ایک بہتا سا جھونکا بنا ہے جسے ہاتھ میرے نہیں روک سکتے
کہ میری ہتھیلی میں امرت کی بوندیں تو باقی نہیں ہیں فقط ایک پھیلا ہوا
خشک بے برگ بے رنگ صحرا ہے جس میں یہ ممکن نہیں میں کہوں
ایک آیا گیا دوسرا آئے گا رات میری گزر جائے گی

شاعر خود کو کسی ایسے صحرا کا باشندہ سمجھتا ہے جہاں کسی ٹہنی یا پھول کا ملنا نا ممکن ہے۔اس کا گوہرِ مراد شاید اسے کبھی دستیاب نہ ہو سکے گا۔ اسے حسرت اس بات کی ہے کہ محبت کی کوئی تیز آندھی اس کے وجودکی بنیادوں کو ہلا دے ، اسے اپنے محفوظ پردوں میں چھپا لے۔زندگی کے سہانے منظر کسی بہتے ہوئے ہوا کے جھونکے کے مانند اس کی گرفت سے آزاد ہو چکے ہیں ۔ امرت کی وہ بوندیں جو اس کی ہتھیلی پر وقتی مسرت کا واحد وسیلہ تھیں وہ بھی خشک ہو چکی ہیں اور نظم کے آخر میں کردار بے معنویت کے شدید احساس سے افسردہ اور دل گرفتہ ہے اس کی آنکھوں کے سامنے ایک ایسا مہیب صحرا ہے جس میں نہ تو کوئی رنگ ہے نہ زندگی کے آثار ہیں جو خشک اور بے برگ ہے۔یہ صحرا اتنا ویران اور دل کو دہلا دینے والا ہے کہ کردار یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ ’ ایک آیا گیا ،دوسرا آئے گا ۔رات میری گزر جائے گی‘ گویا وقتی اور مصنوعی تماشے بھی دل کی تسکین کے لیے اس صحرا میں دستیاب نہیں ہیں۔