نظم حبِ قومی کی تشریح

0

“حب قومی” چکبست نرائن کی 12 اشعار پر مشتمل نظم ہے۔ یہ نظم 1894ء میں لکھی گئی۔اس نظم کا ہر شعر دو مصرعوں پر مشتمل ہے اور نظم میں وطن سے بے لوث محبت کا جذبہ پیش کیا گیا ہے۔

حب قومی کا زباں پر ان دنوں افسانہ ہے
بادۂ الفت سے پر دل کا مرے پیمانہ ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ آج کل وہ دور ہے کہ جب ہر ایک شخص کی زبان پہ ایک ہی افسانہ ایک ہی کہانی ہے اور وہ کہانی وطن سے محبت کی ہے۔ (نظم کے سن اشاعت کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ نظم اس وقت تحریر کی گئی جب نہ صرف ہندو ،مسلم متحد قوم تھے بلکہ انگریز ہم پہ قابض تھے۔ اس لیے یکجا طور پہ دونوں قوموں کی وطن سے محبت فطری ہے) شاعر کہتا ہے کہ جیسے شراب کا پیمانہ شراب سے بھر جاتا ہے اسی طرح میرے دل کا پیمانہ اپنے وطن کی محبت سے بھر چکا ہے۔

جس جگہ دیکھو محبت کا وہاں افسانہ ہے
عشق میں اپنے وطن کے ہر بشر دیوانہ ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہم جس جگہ جائیں یا جس جگہ دیکھیں وہاں ایک ہی بات زبان زد عام ہے اور وہ کہانی یا فسانہ کوئی اور نہیں وطن سے محبت کا ہے۔ یعنی ہر ایک شخص اپنے وطن کی محبت میں دیوانہ ہو چکا ہے اور وطن کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔

جب کہ یہ آغاز ہے انجام کا کیا پوچھنا
بادۂ الفت کا یہ تو پہلا ہی پیمانہ ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے یہ وطن سے محبت کا آغاز ہے اور آغاز میں ہی وطن سے محبت کا ایک والہانہ اظہار موجود ہے۔ اگر آغاز ایسا شاندار ہے تو انجام کی تو کیا ہی بات ہو گی۔ابھی وطن سے محبت کا یہ پہلا جام پیا جا رہا ہے اور پہلے جام سے ہی وطن کی محبت کا پیمانہ لبریز ہے۔

ہے جو روشن بزم میں قومی ترقی کا چراغ
دل فدا ہر اک کا اس پر صورت پروانہ ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس محفل میں جو وطن کی ترقی کا چراغ روشن ہے اس ترقی اور جدوجہد میں حصہ لینے والے ہر ایک فرد پر دل ایسے فدا ہے کہ جیسے پروانہ اپنے عشق کےلیے اپنے مرکز یعنی روشنی کے گرد چکر لگا کر جان قربان کر دیتا ہے۔ یہی جذبات شاعر کے وطن سے محبت کے لیے بھی ہیں کہ وہ پروانے کی مانند اس کی ترقی پہ جان نثار کرنے کو بھی تیار ہے۔

مجھ سے اس ہمدردی و الفت کا کیا ہووے بیاں
جو ہے وہ قومی ترقی کے لیے دیوانہ ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اپنے وطن کے لیے میں ایک خاص طرح کے جذبات رکھتا ہوں ان جذبات کو محبت کا نام دیا جائے یا ہمدردی کا میں ان جذبات کو بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ میں اپنے وطن کی ترقی کے لیے دیوانگی کے جذبات رکھتا ہوں۔

لطف یکتائی میں جو ہے وہ دوئی میں ہے کہاں
بر خلاف اس کے جو ہو سمجھو کہ وہ دیوانہ ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ وہ لطف جو ایک ذات سے محبت میں ہے وہ ہر گز دوئی میں نہیں ہے۔ یعنی اللہ کی ذات بھی واحد ہو یکتا ہے اس کی ذات سے محبت اور اسی کو واحد ق یکتا ماننے کا اپنا لطف ہے اور اس کی ذات کے ساتھ ہر گز کسی دوسری ذات کو شریک نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔جو اس اصول کے خلاف چلے یا وطن کی بجائے کسی اور محبت کو ترجیح دے تو سمجھ لو کہ وہ دیوانہ ہے۔

نخل الفت جن کی کوشش سے اگا ہے قوم میں
قابل تعریف ان کی ہمت مردانہ ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس ملک میں جن کی کوششوں سے محبت کا باغ اگا ہے۔ ان شخصیات کی یہ کوششیں اور وطن سے ان کی محبت کے یہ جذبات نہ صرف قابلِ تعریف ہیں بلکہ وہ ایک مردانہ ہمت رکھتے ہیں جو سراہے جانے کے قابل ہے۔

ہے گل مقصود سے پر گلشن کشمیر آج
دشمنی نااتفاقی سبزۂ بیگانہ ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ایک آرزو مند پھول سے پورا باغ بھرا ہوا ہے اور یہ باغ گلشن کشمیر کا نظارا پیش کر رہا ہے۔ اس باغ میں صرف منزل کو پانے اور وطن سے محبت کے پھول کھلتے ہیں۔ اس باغ (وطن) میں دشمنی اور نا اتفاقی جیسے جذبات کی مثال ایک سبزہ بیگانہ یعنی خود بخود اگنے والی جڑی بوٹیوں کی سی ہے۔ یعنی یہ جذبات وطن میں سر اٹھاتے رہتے ہیں لیکن باقاعدہ جدوجہد اور محبت سے اگائے پھولوں کے سامنے ان جڑی بوٹیوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

در فشاں ہے ہر زباں حب وطن کے وصف میں
جوش زن ہر سمت بحر ہمت مردانہ ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس وطن میں ہر ایک شخص کی زبان وطن سے محبت کے جذبات کا اظہار کر رہی ہے اور ہر زبان سے وطن کی محبت کے لیے موتیوں جیسے خوش گفتار الفاظ رواں دواں ہیں۔ وطن کے لیے یہ جذبات محض مردوں میں ہی نہیں دیکھے جا سکتے بلکہ عورتوں کا جوش و خروش بھی دیدنی ہے اور وہ مردانہ وار ہمت کی صورت میں ان جذبات کا اظہار کر رہی ہیں۔

یہ محبت کی فضا قائم ہوئی ہے آپ سے
آپ کا لازم تہ دل سے ہمیں شکرانہ ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس آپ سے اس وطن میں یہ محبت کی فضا قائم ہوئی ہے یہاں شاعر کی مراد ہر وہ شخص ہے جو اس وطن کی ترقی کے لیے پیش پیش ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ وطن میں محبت کی فضا کے قیام کے لیے آپ کی محبت کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہیں۔( اس سے مراد جوشِ زن بھی لیا جا سکتا ہے جو مردانہ وار وطن کی ترقی کے لیے کوشاں ہے)

ہر بشر کو ہے بھروسا آپ کی امداد پر
آپ کی ہمدردیوں کا دور دور افسانہ ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہر ایک شخص کوآپ کی وطن کی ترقی میں امداد پیش کرنے پر بھروسہ ہے۔ (یہاں عورتوں کی ملک کی ترقی کے لیے مدد مراد لی جا سکتی ہے) آپ کی وطن سے محبت اور ہمدردی کے جو جذبات تھے ان جذبات کا شہرہ دور دور تک سنا جا سکتا ہے۔

جمع ہیں قومی ترقی کے لیے ارباب قوم
رشک فردوس ان کے قدموں سے یہ شادی خانہ ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ وطن کی ترقی کے لیے اس قوم کے کئی اصحاب جمع ہیں۔ وطن کی خدمت کے لیے ان کے ان اقدام پہ جنت بھی رشک کرتی ہے کہ ان کی بدولت یہ وطن خوشیوں کا کس گھر بنا ہوا ہے۔