نظم برکھارت کی تشریح

0
گرمی کی تپش بجھانے والی
سردی کا پیام لانے والی
قدرت کے عجائبات کی کاں
عارف کے لیے کتاب عرفاں

یہ اشعار الطاف حسین حالی کی نظم “برکھارت” سے لیے گئے ہیں۔ اس نظم میں شاعر نے گرمی کی شدت کو بیان کرتے ہوئے برسات کے آنے اور اس سے موسم میں ہونے والی تبدیلیوں کو بیان کیا ہے۔ شاعر اس بند میں برسات کی آمد کی بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ برسات گرمی کی تپش کو کم کرنے والی ہے اور یہ نہ صرف گرمی کی شدت کو مٹائے گی بلکہ اس کے ساتھ ایک پیام بھی ہوگا یعنی یہ سردیوں کی آمد کا پیغام کے کر آئے گی۔ یہ قدرت کے کرشموں کی ایک عجیب وجہ ہے جس کا راز محض صوفیوں و عارفوں کے لیے ہے یوں ان کے لیے یہ علم کی اور پوشیدہ رازوں کو جاننے کی ایک کتاب بن جاتی ہے۔

وہ شاخ و درخت کی جوانی
وہ مور و ملخ کی زندگانی
وہ سارے برس کی جان برسات
وہ کون خدا کی شان برسات

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ برکھا کی آمد شاخوں اور درختوں کے پھلنے پھولنے کی علامت ہے۔اس موسم کے آتے ہی درختوں اور شاخوں پہ جوانی اتر آتی ہے۔مور و ملخ میں زندگی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔ پورے سال میں کئی مہینے ہوتے ہیں لیکن پورے سال کی جان کہیں تو یہ صرف ایک مہینہ یعنی کہ برسات ہے۔ شاعر برسات کو خدا کی شان کہتا ہے۔

آئی ہے بہت دعاؤں کے بعد
وہ سیکڑوں التجاؤں کے بعد
وہ آئی تو آئی جان میں جاں
سب تھے کوئی دن کے ورنہ مہماں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ برسات کی آمد کے لیے نجانے کتنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھے اور آخر بہت سی دعاؤں اور سینکڑوں التجاؤں کے بعد اس کی آمد ہوئی۔ جیسے ہی برسات کی بوندیں زمین پہ برسیں تو سب کی جان میں جان آئی۔ اس سے قبل سب گرمی سے اس قدر بے حال ہو چکے تھے کہ یوں لگتا تھا کہ وہ اب کچھ ہی دنوں کے مہمان رہ گئے ہیں۔

گرمی سے تڑپ رہے تھے جان دار
اور دھوپ میں تپ رہے تھے کہسار
بھوبل سے سوا تھا ریگ صحرا
اور کھول رہا تھا آب دریا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ برسات سے قبل گرمی کی یہ حالت تھی کہ تمام جان دار خواہ وہ انسان ہوں یا چرند پرند اور حیوان سب گرمی میں تڑپ رہے تھے۔ پہاڑ بھی دھوپ میں جل رہے تھے اور صحرا گرم انگارے کی طرح تپ رہا تھا۔ دریا کا پانی گرمی کی شدت کی وجہ سے تپ چکا تھا اور تقریباً کھول رہا تھا۔

تھی لوٹ سی پڑ رہی چمن میں
اور آگ سی لگی تھی بن میں
سانڈے تھے بلوں میں منہ چھپائے
اور ہانپ رہے تھے چارپائے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ چمن یعنی باغ میں ایک لوٹ مچی ہوئی تھی اور جنگل میں آگ لگی ہوئی تھی۔ ایسی گرنی کی شدت میں جانور یعنی سانڈے اپنی بلوں میں منھ چھپا کر بیٹھے ہوئے تھے جبکہ تمام چوپائے گرمی کے آگے بے بس ہو کر ہانپ رہے تھے۔

تھیں لومڑیاں زباں نکالے
اور لو سے ہرن ہوئے تھے کالے
چیتوں کو نہ تھی شکار کی سدھ
ہرنوں کو نہ تھی قطار کی سدھ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ گرمی کا اثر جانوروں کو اس قدر بے سدھ کیے ہوا تھا کہ لومڑیاں بھی زبان نکال کر پھر رہی تھی اور لو کی شدت کی وجہ سے ہرن کملائے ہوئے اور کالے ہوے پھرتے تھے۔ چیتوں کو شکار کا کوئی ہوش نہ تھا جبکہ ہرنوں کو اپنی قطار بنانے کا خیال تک نہ تھا۔

تھے شیر پڑے کچھار میں سست
گھڑیال تھے رود بار میں سست
ڈھوروں کا ہوا تھا حال پتلا
بیلوں نے دیا تھا ڈال کندھا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ شیر کچھار میں سست ہو کر پڑے ہوئے تھے اور مگرمچھ بڑے دریا میں سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لیٹے تھے۔ ڈھور ڈنگروں کا گرمی کی شدت سے برا حال ہو چکا تھا۔ بیلوں نے بھی گرمی کے آگے بے بس ہو کر اپنے کندھے جھکا ڈالے تھے۔

کاٹو تو لہو نہیں تھا بدن میں
اور دودھ نہ تھا گئو کے تھن میں
گھوڑوں کا چھٹا تھا گھاس دانہ
تھا پیاس کا ان پہ تازیانہ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ سب جانداروں کی گرمی کی وجہ سے یہ حالت ہو چکی تھی کہ اگر انھیں کاٹیں تو ان کے بدن سے لہو کی ایک بوند بھی برآمد نہ ہو۔ گایوں کے تھنوں سے گرمی کی وجہ سے دودھ تک سوکھ چکا تھا۔ گھوڑوں کا دانہ پانی چھوٹ گیا تھا اور وہ کچھ بھی کھانے سے قاصر تھے۔ ان پر بس پیاس کی دھن سوار ہو چکی تھی۔

گرمی کا لگا ہوا تھا بھبکا
اور انس نکل رہا تھا سب کا
طوفان تھے آندھیوں کے برپا
اٹھتا تھا بگولے پر بگولا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ گرمی کی شدت یہ تھی کہ سب پہ گرمی کا بھبکا لگا ہوا تھا۔گرمی کی وجہ سے سب کا پیار اور لگاؤں تک نکل چکا تھا۔ آندھیوں کے طوفان اٹھ رہے تھے۔ ہر طرف سے گرمی کی وجہ سے آگ کے بگولے اٹھ رہے تھے۔

آرے تھے بدن پہ لو کے چلتے
شعلے تھے زمین سے نکلتے
تھی آگ کا دے رہی ہوا کام
تھا آگ کا نام مفت بد نام

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ گرمی کا یہ عالم تھا کہ جسم پر لو یوں محسوس ہوتی تھی کہ گویا لو کے آرے چل رہے ہوں جبکہ جسم میں سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے۔اس گرمی کے وقت چلنے والی ہوا بھی آگ کا کام کر رہی تھی۔ اس ہوا میں اس قدر تپش اور شدت موجود تھی کہ محسوس ہوتا تھا کہ آگ کا نام تو فضول میں بدنام ہے اصل جلانے کا کام یہ کرتی ہے۔

رستوں میں سوار اور پیدل
سب دھوپ کے ہاتھ سے تھے بے کل
گھوڑوں کے نہ آگے اٹھتے تھے پاؤں
ملتی تھی کہیں جو روکھ کی چھاؤں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ راستے پہ چلنے والے سوار اور پیدل افراد سب دھوپ کی شدت کی وجہ سے بے حال ہو چکے تھے۔ گرمی کا یہ عالم تھا کہ گھوڑوں کے قدم اٹھنا بھی دو بھر ہو چکے تھے۔ کسی جگہ پر اگر ان گھوڑوں کو درختوں کی چھاؤں میسر ہوتی تو ان کے قدم وہیں تھم جاتے تھے اور ان کا آگے بڑھنا مشکل ہو جاتا تھا۔

تھی سب کی نگاہ سوئے افلاک
پانی کی جگہ برستی تھی خاک
پنکھے سے جو نکلتی ہوا تھی
وہ باد سموم سے سوا تھی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ گرمی کی وجہ سے سب کی نگاہیں آسمان کی جانب اٹھی ہوئیں تھیں۔ لیکن آسمان جس سے پانی برسنا چاہیے تھا وہاں سے پانی کی جگہ پہ آگ برس رہی تھی۔ پنکھے کے آگے اگر کوئی ہوا کی خاطر بیٹھتا تھا تو پنکھے سے بھی ہوا کہ جگہ پہ لو نکل رہی تھی۔ اور ہوا لو کی طرح سے شدید گرم تھی۔

بجھتی نہ تھی آتشِ درونی
لگتی تھی ہوا سے آگ دونی
سات آٹھ بجے سے دن چھپے تک
جاں داروں پہ دھوپ کی تھی دستک

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ گرمی اس قدر شدید تھی کہ کسی صورت بھی اندرونی آگ نہیں بجھ پا رہی تھی۔ ہوا کی وجہ سے آگ پہلے سے بھی بڑھ کر لگ رہی تھی۔ ہر چیز میں شدت آ چکی تھی۔ صبح سات ، آٹھ بجے سے لے کر دن ڈھلتے تک مسلسل و متواتر دھوپ رہتی تھی اور یہ ہر وقت جانداروں پہ سایہ کیے رہتی تھی۔

ٹٹی میں تھا دن گنواتا کوئی
تہہ خانے میں منھ چھپاتا کوئی
بازار پڑے تھے سارے سنسان
آتی تھی نظر ، نہ شکلِ انسان

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کوئی ٹٹی کے سائے میں یا ٹٹی (ایک طرح کا پردہ ہے جو موسم گرما میں دروازوں کے آگے کمروں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے لگایا جاتا ہے) کے نیچے اپنا دن گزارتے ہیں۔ اسی طرح کوئی گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے تہہ خانے میں چھپا ہوا ہے۔لوگ چونکہ گھروں میں موجود ہیں جس کی وجہ سے سارا بازار سنسان ہو گیا ہے۔ کہیں بھی کوئی انسان کی شکل نہیں دکھائی دے رہی ہے۔

چلتی تھی جن کی دوکان دن رات
بیٹھے تھے وہ ہات پر دھرے ہات
خلقت کا ہجوم اگر کچھ تھا
یا پیاؤ یا سبیل پر تھا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ لوگ جن کی دوکانیں بازار کی رونق کی بدولت آباد تھیں اور دن رات وہاں گاہکوں کا ہجوم لگا رہتا تھا مگر اب وہ سب لوگ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہوئے تھے۔ اگرچہ کچھ لوگوں کا ہجوم بازاروں میں بھی موجود تھا لیکن وہ تمام ہجوم پانی پینے کی سبیل پہ لگا ہوا تھا۔

تھا شہر میں قحطِ آدمی زاد
سلطان کا اک کنواں تھا آباد
پانی سے تھی سب کی زندگانی
میلا تھا وہیں، جہاں تھا پانی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ شہر اور بازاروں میں آدمی / انسان کا قحط پڑ چکا تھا لیکن ایک جگہ جو کہ آباد تھی وہ سلطان کا کنواں تھا۔ (لاہور میں ایک سلطان کا کنواں ہوتا تھا جہاں پانی پینے والے لوگوں کا ہجوم جمع ہوتا تھا) ۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ سب کی زندگی کا محور محض پانی ہے۔وہیں پہ لوگوں کا میلہ اور ہجوم لگا ہوا تھا جس جگہ پہ پانی موجود تھا۔

تھیں برف پہ نیتیں لپکتی
فالودے پہ رال تھی ٹپکتی
پھل، پھول کی دیکھ کر تراوٹ
پاتے تھے دل و جگر تراوٹ

اس بند میں شاعر کہتا کہ لوگوں کی نیتیں برف والی جگہ پہ ہی لپک رہی تھیں اور فالودے کو دیکھ کر ان کی رال ٹپک وہی تھی کہ فالودہ بھی ان کی گرمی کو ختم کر سکتا تھا۔ بازار میں موجود پھلوں اور پھولوں کو دیکھ کر لوگوں کے دلوں اور آنکھوں کو ٹھنڈک اور سکون مل رہا تھا۔

کنجروں کی وہ بولیاں سہانی
بھر اتا تھا سن کے منھ میں پانی
تھے جو خفقانی اور مراتی
گرمی سے نہ تھا کچھ اُن میں باقی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کنجروں کی سہانی آوازیں بازار میں بلند ہوتی تھیں جنھیں سن کر لوگوں کے منھ میں پانی بھر رہا تھا۔وہ لوگ جو اونچے درجے کے یا نخروں میں رہ رہے تھے یا وہ لوگ جن کے اوسان پہلے سے خطا ہو چکے تھے گرمی نے انھیں بے حال کر رکھا تھا اور ان میں کچھ باقی نہ رہا تھا۔

کھانے کا نہ تھا انھیں مزا کچھ
آٹھ آٹھ پہر نہ تھی غذا کچھ
بن کھائے کئی کئی دن اکثر
رہتے تھے فقط ٹھنڈائیوں پر

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ گرمی کی وجہ سے لوگوں کو کھانے کا کوئی لطف بھی باقی نہ رہا تھا۔ آٹھ آٹھ پہر ان کے اندر کھانا نہیں جا رہا تھا۔ اکثر ان لوگوں کے کئی کئی دن بغیر کھائے گزر رہے تھے اور ان لوگوں کا گزر بسر محض ٹھنڈائیوں پہ ہو رہا تھا۔ جس کی وجہ گرمی کا شدید ہونا تھا۔

شب کٹتی تھی ایڑیاں رگڑتے
مر پیٹ کے ، صبح تھے پکڑتے
اور صبح سے شام تک برابر
تھا العطش العطش زباں پر

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ لوگوں کی راتیں ایڑیاں رگڑتے ہوئے گزر رہی تھیں اور رو دھو کر ان کی صبح ہوتی تھی۔ صبح ہونے کے بعد صبح سے شام تک ان کی زبان پہ ایک ہی ورد ہائے پیاس اور ہائے پانی دو جاری و ساری رہتا تھا۔

بچوں کا ہوا تھا حال بے حال
کملائے ہوئے تھے پھول سے گال
آنکھوں میں تھا ان کا پیاس سے دم
تھے پانی کو دیکھ کرتے مم مم

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ گرمی کی بدولت بچوں کا بھی برا حال ہو چکا تھا۔ ان کے چہروں کے پھول جیسے گال گرمی کی وجہ سے کملا چکے تھے۔ ان کی آنکھوں سے ان کی پیاس کی شدت کا اندازہ ہوتا تھا اور پیاس کی بدولت ان کی آنکھوں سے دم نکلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ بچوں ہو جہاں پانی دکھائی دے رہا تھا وہ پانی کو دیکھ کر مم مم پکار رہے تھے۔

ہر بار پکارتے تھے ماں کو
ہانٹوں پہ تھے پھیرتے زباں کو
پانی دیا گر کسی نے لاکر
پھر چھوڑتے تھے نہ منھ لگا کر

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ بچے پانی کو دیکھ جر ہر بار اپنی ماں کو پکارتے تھے اور ساتھ ہی پیاس کی شدت سے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے جا رہے تھے۔ اور اگر کوئی انھیں پانی لا کر پلا دیتا تو وہ ایک بار پانی کو منھ لگانے کے بعد اسے کسی صورت چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔

بچے ہی، نہ پیاس سے تھے مضطر
تھا حال بڑوں کا ان سے بد تر
تخصیص تھی کچھ نہ میری تیری
پانی سے کسی کو نہ تھی سیری

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ گرمی کی شدت کی وجہ سے محض بچے ہی پیاس سے بے حال نہیں تھے بلکہ بڑوں کی حالت ان سے بھی بری ہو رہی تھی۔ اس میں میرے اور تمھارے کا بھی کوئی فرق نہ تھا بلکہ سبھی کی حالت ایک جیسی تھی اور پانی سے کسی کی بھی طبیعت سیر نہ ہو پا رہی تھی۔

کل شام تلک تو تھے یہی طور
پر رات سے ہی سماں ہے کچھ اور
پروا کی دہائی پھر رہی ہے
پچھوا سے خدائی پھر رہی ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کل شام تک سب کی یہی حالت تھی کہ سب گرمی سے بے حال ہو رہے تھے لیکن جیسی ہی رات ہوئی تو سارا منظر یکسر بدل گیا۔ ہر طرف ایک ہی ضرورت کی پکار بلند ہو رہی تھی اور پچھم یعنی مغرب کی جانب سے خدائی کی جھلک پھرتی دکھائی دے رہی تھی۔

برسات کا بج رہا ہے ڈنکا
اک شور ہے آسماں پہ برپا
ہے ابر کی فوج آگے آگے
اور پیچھے ہیں دل کے دل ہوا کے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ پچھم کی طرف سے نظر آنے والی جھلک برسات کی آمد کے ڈنکے تھے اور اس بات کا اعلان ہو رہا تھا کہ برسات کی آمد آمد ہے۔ آسمان پر ایک ہی شور بلند ہو رہا تھا آگے اور پیچھے بادلوں کی فوجیں دوڑ رہی تھیں۔ ان بادلوں کی فوجوں کی پیچھے ہوا کے لشکر کے لشکر موجود تھے اور دوڑے چلے آ رہے تھے۔

ہیں رنگ برنگ کے رسالے
گورے ہیں کہیں، کہیں ہیں کالے
ہے چرخ پہ چھاؤنی سی چھاتی
اک آتی ہے فوج ، ایک جاتی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ بادلوں کے دستے کئی رنگ کے موجود تھےان میں کئی سرمئی یعنی گورے بادل بھی تھے تو کہیں کالے بادل شامل تھے۔ آسمان پہ ان بادلوں نے ایک چھاؤنی سی بنا رکھی تھی اور بادلوں کی فوجیں یہاں ایک کے بعد ایک آ اور جا رہی تھیں۔

جاتے ہیں مہم پر کوئی جانے
ہمراہ ہیں لاکھوں توپ خانے
توپوں کی جب کہ ہے باڑھ چلتی
چھاتی ہے زمین کی دہلتی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ان بادلوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھا کہ نجانےیہ کسی مہم پہ نکلے ہوں اور انھوں نے اپنے ہمراہ کئی توپ خانے اٹھا رکھے ہوں۔ لیکن توپوں اور ان کے گولوں کی جگہ یہ ایک سیلاب جاری کر رہے تھے جس کی وجہ سے زمین کا سینہ دہل دہل کر رہ جاتا تھا۔

مینھ کا ہے زمین پر دریڑا
گرمی کا ڈبو دیا ہے بیڑا
بجلی ہے کبھی جو کوند جاتی
آنکھوں میں ہے روشنی سی آتی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جیسے ہی ان بادلوں سے مینھ کی ایک برسات جاری ہوئی تو زمین پہ گرمی کا جو بیڑا اپنے عروج پہ تھا وہ ایک طرح سے ڈوب کر رہ گیا۔ آسمان پہ بجلی چمکنے لگ گئی تھی کبھی یہ بجلی ایک کوند کی طرح لپک کر آتی اور کبھی جاتی تھی۔اس بجلی کی کوند کی وجہ سے لوگوں کی آنکھوں میں ایک روشنی کی چمک سی لہرا جاتی تھی۔

گھنگھور گھٹائیں چھا رہی ہیں
جنت کی ہوائیں آ رہی ہیں
کوسوں ہے جدھر نگاہ جاتی
قدرت ہے نظر خدا کی آتی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ بارش کے برسںے کے بعد سے بھی آسمان پر گھنگھور گھٹائیں چھائی ہوئیں تھیں اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے جنت کی ہوائیں آ رہی ہوں کیونکہ بارش کی بدولت ہوا ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ دور دور تک جہاں بھی نظر جاتی تھی ہر جانب خدا کی قدرت کے نظارے بکھرے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔

سورج نے نقاب لی ہے منھ پر
اور دھوپ نے تہہ کیا ہے بستر
باغوں نے کیا ہے غسلِ صحّت
کھیتوں کو ملا ہے سبز خلعت

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ بارش آنے اور آسمان پہ بادل چھانے کے بعد یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے سورج نے کوئی نقاب اوڑھ لیا ہو اور دھوپ نے بھی اپنا بستر تہہ کر لیا ہو۔کیونکہ اب یہاں دھوپ اور سورج کا کوئی نام و نشان نہ تھا جبکہ بارش کے بعد سب کچھ دھل چکا تھا اور باغ ایسے نکھر گئے تھے کہ گویا باغوں نے غسلِ صحّت کیا ہو جبکہ کھیت ایسے سر سبز ہو چکے تھے کہ جیسے انھیں کسی نے سر سبز لباس عطا کیا ہو۔

سبزہ سے ہے کوہ و دشت معمور
ہے چار طرف برس رہا نور
بٹیا ہے نہ ہے سڑک نمودار
اٹکل سے ہیں راہ چلتے رہوار

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ پہاڑ ہوں یا جنگلات ہر جگہ پہ سبزہ چھا چکا تھا اور کائنات کی ہر ایک شے سے ہر جانب گویا نور برس رہا تھا۔ اس بارش اور ہریالی کی بدولت ایک طرح سے راستے بھی کھو چکے تھے سڑک اور پکڈنڈی کی کوئی تمیز باقی نہ رہی تھی اور جتنے لوگ بھی راستے پہ چل رہے تھے وہ اندازے کے مطابق ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہے تھے۔

ہے سنگ و شجر کی ایک وردی
عالم ہے تمام لاجوردی
پھولوں سے پٹے ہوئے ہیں کہسار
دولھا سے بنے ہوئے ہیں اشجار

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ پتھروں اور درختوں سب نے ایک طرح کا لباس زیب تن کر لیا تھا۔ تمام کائنات کا رنگ نیلا ہو چکا تھا۔ تمام باغ و جنگلات اس برسات کی آمد کے بعد سے پھولوں سے بھرے لہلہا رہے تھے اور درخت اتنے خوبصورت ہو چکے تھے کہ گویا یوں محسوس ہوتا تھا جہ وہ دولھا بنے ہوئے ہوں۔

پانی سے بھرے ہوئے ہیں جل تھل
ہے گونج رہا تمام جنگل
کرتے ہیں پیہے ، پیہو پیہو
اور مور چنگھاڑتے ہیں ہر سو

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ بارش اس قدر خوب برسی تھی کہ تمام جل اور تھل ایک ہو گئے تھے اور ہر جگہ پانی سے بھری ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ تمام جنگل پیہے کی پیہو پیہو کی آواز سے گونج رہا تھا۔ دوسری طرف ہر جانب مور کی چنگھاڑ سنائی دے رہی تھی یعنی سب کچھ موسمی کی تبدیلی کی وجہ سے مستی کی کیفیت سے دوچار تھا۔

کوئل کی ہے کوک جی لبھاتی
گویا کہ ہے دل میں بیٹھی جاتی
مینڈک جو ہیں بولنے پہ آتے
سنسار کو ہیں سر پر اٹھاتے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ باغ میں موجود کوئل کی کوک بھی دل کو خوش کررہی تھی۔ یہ آواز اتنی سریلی تھی کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا دل میں بیٹھی جا رہی ہو اور مینڈکوں نے جو ٹرٹرانا شروع کیا تو انھوں نے اپنی ٹر ٹر سے ساری دنیا کو سر پہ اٹھا لیا تھا۔

سب خوانِ کرم سے ہیں حق کے سیر
پانی میں مگر ، کچھار میں شیر
زردار ہیں اپنے مال میں مست
قلانچ ہیں اپنی کھال میں مست

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ سب لطف وکرم کے اس عام فیض سے سیر ہو رہے تھے۔ پانی میں موجود مگر مچھ اور کچھار میں موجود شیر دونوں ہی مست تھے۔ مال دار لوگ اپنے مال میں مست تھے۔ جبکہ چوکڑی بھرنے والے ہرن اور خرگوش بھی اپنی کھال کے اندر مستی کی سی کیفیت میں تھے۔

ابر ایا ہے گھر کے آسماں پر
کلمے ہیں خوشی کے ہر زبان پر
مسجد میں ہے دردِ اہلِ تقوی
یا رب لنا ولا علینا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جیسے ہی یہ بادل گھر کے آسمان پہ پہنچا تومارے خوشی کے ہر ذی روح انسان کی زبان پہ خوشی کے کلمات ادا ہونے لگے۔ لوگوں نے مسجد میں اللہ کا ذکر بلند کیا اور یا رب لنا ولا علینا کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ سب اہل تقوی عبادت اور بندگی میں مشغول ہو گئے۔

مندر میں ہے ہر کوئی یہ کہتا
کرپا ہوئی تیری میگھ راجا
کرتے ہیں گرو گرو گرنتھی
گاتے ہیں بھجن کبیر پنتھی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ لوگ جن کی عبادت گاہ مندر تھی وہ جا کر مندروں میں اپنے بھگوان کی پوجا کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اے بارش برسانے والے راجہ تمھاری ہم پہ کرپا ہوئی ہے۔ جبکہ گردوارے میں جانے والے بھی گرو گرنتھی میں مشغول ہو گئے اور کچھ لوگ خوشی سے کبیر کے بجھن (گیت) گا رہے تھے۔

جاتا ہے کوئی ملھار گاتا
ہے دیس میں کوئی گنگناتا
بھنگی ہیں نشہ میں گاتے پھرتے
اور بانسریاں بجاتے پھرتے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کوئی خوشی کے مارے ملھار گیت گا رہا تھا جبکہ کوئی اپنے وطن میں گنگناتا پھر رہا تھام بھنگ کے نشے میں ڈوبے ہوئے لوگ بھی اپنے نشے میں دھت گاتے پھر رہے تھے۔ اور ساتھ ہی بانسریاں بجاتے پھر رہے تھے۔

سرون کوئی گارہا ہے بیٹھا
چھیڑا ہے کسی نے ہیرا رانجھا
رکھشک جو بڑے ہیں جین مت کے
ڈھکنے ہیں دلوں پہ رکھتے پھرتے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کوئی سرون گیت گا رہا تھا تو کسی نے ہیر اور رانجھا کا قصہ چھیڑ رکھا تھا۔ جین مت کے ماننے والے اور اس مذہب کے بڑے پیروکار اپنے دلوں پہ ڈھکن رکھتے ہوئے پھررہے تھے۔

کرتے ہیں وہ یوں جیون کی رکھشا
تاجل نہ اٹھے کوئی پتنگا
ہیں شکر گزار تیرے برسات
انسان سے لے کے تا جمادات

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جین مت کے پیروکار زندگی کی حفاظت کچھ اس طرح سے کر رہے تھے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی بھی پتنگا جل کر مر جائے۔ سب برسات کی آمد پر شکر گزاری کے جذبات محسوس کر رہے تھے اور شکر گزاری کرنے والوں میں انسان سے لیکر حیوان اور کائنات کی جمادات سبھی شامل تھے۔

دنیا میں بہت تھی چاہ تیری
سب دیکھ رہے تھے راہ تیری
تجھ سے ہے کھلا یہ رازِ قدرت
راحت ملتی ہے بعدِ کلفت

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے برسات ہم سب ںے تمھاری چاہت بہت شدت سے کی تھی اور سبھی لوگ برسات کی راہ دیکھ رہے تھے۔ شاعر برسات کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ تیری آمد کی وجہ سے ہم سب پہ قدرت کا راز کھلا کہ ہر تکلیف یا مشکل کے بعد راحت ضرور ملتی ہے۔

شکریہ فیضِ عام تیرا
پیشانیِ دہر پر ہے لکھا
گلشن کو دیا جمال تو نے
کھیتی کو کیا نہال تو نے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے قدرت کی رحمت اور برسات ہم شکر گزار ہیں کہ تیری بدولت ہر جگہ ایک ہی فیض عام ہوا اور اس کائنات کے ہر ہر ذرے کی پیشانی پہ یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ تمھاری آمد نے اس دنیا/ گلشن کو جمال ور عطا کیا اور اسی نے تمام کھیتوں کو خوشی سے بے حال کیا۔

طاؤس کو ناچنا بتایا
کوئل کو الاپنا سکھایا
جب مور ہے ناچنے پہ آتا
آپے سے ہے اپنے گزرا جاتا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے برسات تمھاری آمد نے مور کو ناچ سکھایا اور کوئل کو ک الاپنا سکھایا۔ برسات کی بدولت جب مور ناچنے پہ آتا ہے تو وہ اپنے آپے میں نہیں رہتا اور مسلسل ناچتے چلا جاتا ہے۔

کوئل کو نہیں قرار اک پل
ایسی کوئی تو نے کوک دی کل
شب بھر میں ہوا سماں دگر گوں
کیا پڑھ دیا آکے توں نے افسوں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کوئل کو ایک بھی لمحے کا سکون نصیب نہیں ہو سک رہا تھا اے برسات تمھاری آمد نے کوئل کو ایسی کوک بخشی ہے۔ رات بھر میں سارا منظر ایسا تبدیل ہوا کہ نجانے تمھاری آمد نے کون سا جادو پڑھ کر پھونک دیا ہے۔

سوئے تو اساڑھ کا عمل تھا
اٹھے تو سماں ہے ماہ کا سا
لاہور میں شب ہوئی تھی لیکن
کشمیر میں پہنچے جب ہوا دن

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ گرمی کا یہ عالم تھا کہ جب سب لوگ سوئے تو اس وقت اساڑھ یعنی گرمی کا عالم تھا مگر جب سب اٹھے تو موسم اتنا بدل چکا تھا کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ سردیوں کی آمد ہو۔ یہ کیفیت کچھ ایسی تھی کہ گوئی آپ کو رات لاہور کی گرمی میں آئے اور آپ کی آنکھ کھلے تو خود کو دن کے وقت کشمیر کی ٹھنڈی وادیوں میں پہنچا ہوا پاؤ۔

امرت سا ہوا میں بھر دیا کچھ
اک رات میں کچھ سے کر دیا کچھ
دریا تجھ بن سسک رہے تھے
اور بن تیری راہ تک رہے تھے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ برسات نے کچھ ایسا جادو بھرا میٹھا رس ہوا میں کھول دیا کہ ایک ہی رات کے اندر سارا منظر نامہ کچھ سے کچھ میں تبدیل ہو کر رہ گیا۔ دریا جو بارش کے بنا سسک رہے تھے اور جنگل جو نجانے کب سے برسات کی راہ دیکھ رہے تھے۔

دریاؤں میں تو نے ڈال دی جان
اور تجھ اے بنوں کو لگ گئی شان
جن جھیلوں میں کل تھی خاک اڑتی
ملتی نہیں آج تھاہ ان کی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ لیکن جیسے ہی برسات کی آمد ہوئی تو گویا دریاؤں میں جان پڑگئی اور اے برسات تمھاری آمد نے جنگلوں کو بھی ایک نرالی شان عطا کی یہی نہیں وہ جھیلیں جن میں کل تک محض خاک اڑ رہی تھی اب وہاں پہ جگہ تک نہیں مل رہی تھی۔

جو دانے تھے خاک میں پریشان
سب آ کے چڑھائے تو نے پروان
دولت جو زمین میں تھی مخفی
اگے ترے اس نے سب اگل دی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ فصلیں جنھیں زمین میں بو دیا تھا اور پانی کی قلت کی وجہ سے یہ عالم تھا کہ گویا دانے خاک تلے پریشان حال تھے لیکن جیسے ہی برسات کی آمد ہوئی تو اس نے انھیں بھی پروان چڑھا دیا۔وہ دولت جو زمین میں چھپی ہوئی تھی برسات کے آتے ہی زمین نے اپنی وہ تمام دولت اس کے سامنے اگل کر رکھ دی۔

پڑتے تھے ڈلاؤ جس زمین پر
وہاں سبزہ و گل ہیں جلوہ گستر
جن پودوں کو کل تھے ڈھور چرتے
باتیں ہیں وہ آسماں سے کرتے

اس بند میں شاعر کہتا ہے وہ زمین جہاں خشکی کی وجہ سے گڑھے سے پڑ چکے تھے اب برسات کی آمد کے ساتھ ہی وہاں خوبصورت سبزہ اور کئی پھول اپنے جلوے بکھیر رہے تھے جبکہ وہ پودے جن کی بدتر حالت ہو جانے کی وجہ کل تک جانور ان کو چر رہے تھے اب وہی پودے تروتازہ ہو کر تیزی سے بڑھنے لگے تھے اور گویا آسمان سسے باتیں کر رہے تھے۔

جن باغوں میں اڑتے تھے بگولے
واں سینکڑوں اب پڑے ہیں جھولے
تھے ریت کے جس زمین پر انبار
ہیں بیر بہوٹیوں سے گلنار

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جن باغوں میں کل تک خاک کے طوفان اٹھتے تھے یعنی وہاں کوئی جانے کو تیار نہ تھا برسات کی ہریالی اور آمد کے ساتھ ہی وہاں پہ اب سینکڑوں جھولے موجود تھے اور لوگوں کا ایک نہ ختم ہونے والا ہجوم تھا۔ جس زمین پہ ریت کے ڈھیر لگ چکے تھے وہیں پہ اب خوبصورت بیر بہوٹیاں اپنے جلوے بکھیر رہی تھیں۔

کھم باغوں میں جا بجا گڑے ہیں
جھولے ہیں کہ سو بہ سو پڑے ہیں
کچھ لڑکیاں بالیاں ہیں کم سن
جن کے ہیں یہ کھیل کود کے دن

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ باغوں میں جگہ جگہ کیلیں گڑی ہوئی تھیں اور ان کے اوپر ہر طرف جھولے جھول رہے تھے۔ کچھ کم سن لڑکیاں ان جھولوں پی اپنے کھیل کود کے دن بے فکری سے کھیلتے ہوئے گزار رہی تھیں۔

ہیں پھول رہی خوشی سے ساری
اور جھول رہی ہیں باری باری
جب گیت ہیں ساری مل کے گاتی
جنگل کو وہ ہیں سر پہ اٹھاتی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ تمام لڑکیاں خوشی سے پھول رہی تھی اور سب اپنی باری آنے پہ جھولا جھولنے میں مصروف تھیں۔ جب یہ ساری لڑکیاں مل کر گیت گاتی تھیں تو گویا وہ اپنی سریلی آوازوں سے سارے جنگل کو سر پہ اٹھا لیتی تھیں۔

اک سب کو کھڑی جھلا رہی ہے
اک گرنے سے خوف کھا رہی ہے
ہے ان میں کوئی ملھار گاتی
اور دوسری پینگ ہے چڑھاتی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ایک لڑکی کھڑی سب کو جھولا جھلائے جارہی تھی۔ تو کوئی اس جھولے سے گرنے سے خوفزدہ ہو رہی تھی یہی نہیں ان میں کوئھ گیت گا رہی تھی تو دوسری پینگ کو اونچا چڑھاتی تھی۔

گاتی ہے کوئی ، کبھی ہنڈولا
کہتی ہے کوئی بدیسی ڈھولا
اک جھولے سے گری ہے وہ جا کر
سب ہنستی ہیں قہقہے لگا کر

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کبھی تو کوئی لڑکی ہنڈولا گاتی تھی تو ساتھ ہی کوئی دوسری دیسی ڈھولا گائے جارہی تھی۔ ایک لڑکی اگر جھولے سے گری تو سب اس کے گرنے سے لطف اندوز ہو کر قہقہے لگاتے ہوئے ہنستی جاتی تھیں۔

ندی نالے چڑھے ہوئے ہیں
تیراکوں کے دل بڑھے ہوئے ہیں
گھڑ ناؤ پہ ہے سوار کوئی
اور تیر کے پہنچا پار کوئی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ برسات کی آمد کی بدولت ندی نالے خوب لبالب بھرے ہوئے تھے جن کو دیکھ کر تیرنے کے ماہر لوگوں کے حوصلے بلند ہو رہے تھے۔ کوئی ان ندی نالوں کو پار کرنے کے لیے کشتیوں پہ سوار تھا جبکہ کوئی تیر کہ ہی ایک کنارے سے دوسرے کنارے جا پہنچا تھا۔

بگلوں کی ہیں ڈاریں آ کے گرتی
مرغابیاں تیرتی ہیں پھرتی
چکلے ہیں یہ پاٹ ندیوں کے
دن بھر میں ہیں بیڑے جا کے لگتے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس موسم کا لطف اٹھاتے ہوئے بگلوں کی بھی کئی ڈاریں ان نالوں کا رخ کر رہی تھی اور مرغابیاں بھی یہاں تیرتی پھر رہی تھیں۔ان ندیوں کے کنارے کافی چکنے ہو چکے تھے کہ دن بھر وہاں کئی بیڑے اس کے کنارے سے جا لگتے تھے۔

زوروں پہ چڑھا ہوا ہے پانی
موجوں کی ہیں صورتیں ڈراونی
ناویں ہیں کہ ڈگمگا رہی ہیں
موجوں کے تھپیڑے کھا رہی ہیں
ملاحوں کے اڑ رہے ہیں اوسان
بیڑے کا خدا ہی ہے نگہبان
منجدھار کی رو زور پر ہے
مچھلی کو بھی جان کا خطر ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ پانی اس قدر زوروں پہ تھا کہ اس کی موجیں خوفزدہ کیے جارہی تھیں۔ ان زور آور موجوں میں کشتیاں بھی ڈگمگا رہی تھیں اور یہ کشتیاں مسلسل ان موجوں سے تھپیڑے کھائے جارہی تھیں۔ یہ طوفانی صورت حال دیکھ کر تمام ملا حوں کے اوسان بھی خطا ہو چکے تھے اور وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ان کے بیڑے کا اللہ ہی محافظ ہے۔بیچ دریا کی لہریں اس قدر زور آور ہوئیں ہوئی تھیں کہ گویا مچھلیوں کو بھی اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو رہا تھا۔

بیزار اک اپنے جان و تن سے
بچھڑا ہوا صحبتِ وطن سے
غربت کی صعوبتوں کا مارا
چلنے کا نہیں ہے جس کو یارا
غم خور ہے کوئی اور نہ دل جو
اک باغ میں پڑا ہے لبِ جو

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ایک شخص جو پہلے ہی اپنے آپ اور اپنی کیفیت سے بیزار تھا اور اس کی بیزاری کی وجہ اپنے وطن اور پیاروں سے بچھڑا ہونا تھا۔ کیونکہ کہ وہ غربت کی مشکلات کی وجہ سے اپنے وطن سے دور رہنے ہر مجبور تھا۔ جس میں چلنے کی سکت بھی باقی نہ تھی اور نہ ہی کوئی اس کا غم سننے اور دل جوئی کرنے والا تھا وہ شخص ایک ندی کنارے ایک باغ میں پڑا ہوا تھا۔

ہیں دھیان میں کلفتیں سفر کی
آپے کی خبر ہے اور نہ گھر کی
ابر اتنے میں اک طرف سے اٹھا
اور رنگ سا کچھ ہو اکا بدلا
برق ا کے لگی تڑپنے پہیم
اور پڑنے لگی پھوار کم کم

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس شخص کے دھیان میں سفر کی تمام بے چینیاں اور تھکاوٹ کا اثر موجود تھا۔ اسے نہ تو اپنے آپ اور نہ ہی اپنے گھر والوں کی خبر تھی۔ انہی پریشانیوں میں وہ گھرا ہوا تھا کہ ایسے میں ایک جانب سے بادل اٹھا اور اس بادل کی وجہ سے ہوا کے مزاج میں بھی تبدیلی رونما ہوئی۔ اچانک سے کہیں سے آسمان پہ آکر بجلی چمکنے لگی اور ہلکی ہلکی پھوار برسنے لگی۔

آنے جو لگے ہوا کے جھونکے
تھے جتنے سفر کے رنج بھولے
سامان ملے جو دل لگی کے
یاد آئے مزے کبھی کبھی کے
دیکھے کوئی اس گھڑی کا عالم
وہ آ نسوؤں کی جھڑی کا عالم

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ پھوار کے برسنے سے جو ہوا کے ٹھنڈے جھونکے آنے لگے تو اس شخص کی سفر کی جتنی تکالیف تھیں وہ یکسر مٹ گئیں اور وہ اپنے تمام دکھ بھول گیا۔اسے جب خوبصورت موسم کی صورت میں دل لگی کا سامان میسر ہوا تو اسے کبھی کبھی کا لطف اندوز ہونا بھی یاد آنے لگا۔ اس گھڑی کا منظر اگر کوئی دیکھتا تو برسات کے ساتھ ساتھ آنسوؤں کی ایک جھڑی بھی لگی ہوئی تھی۔

وہ آپ ہی آپ گنگناتا
اور جوش میں کبھی آ یہ گانا
اے چشمہ آبِ زندگانی
گھٹیو نہ کبھی تیری روانی
جاتی ہے تیری سواری
بستی ہے اس طرف ہماری

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ شخص اپنے آپ میں ہی گنگنانے لگا اور کبھی کبھی جوش میں آ کر یہ گاتا کہ اے زندگی کے چشمے تمھاری روانی میں کبھی کمی واقع نہ ہو اور جس جانب تمھاری یہ سواری جا رہی ہے اسی جانب ہماری بستی موجود ہے۔

پائے جو کہیں میری سبھا کو
دیتا ہوں میں بیچ میں خدا کو
اول۔ کہیو ! سلام میرا
پھر دیجیو یہ پیام میرا
قسمت میں یہی تھا اپنی لکھا
فرقت میں تمھاری آئی برکھا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ شخص زندگی کے رواں چشمے کو کہتا ہے کہ اگر راستے میں میری جماعت کو پاؤ تو خدا کو درمیان میں لاتے ہوئے پہلے انھیں میرا سلام کہو اور اس کے بعد انھیں میرا یہ پیغام پہنچانا کہ میری یہی لکھا تھا کہ مجھے یہ برکھا (برسات) تمھاری جدائی میں نصیب ہونا تھی۔

آتا ہے تمھارا دھیان جس دم
مرغابیاں تیرتی ہیں باہم
ہم تو یوں ہی صبح و شام اکثر
تالاب میں تیرتے تھے جا کر
جب سبزہ و گل ہیں لہلہاتے
صحبت کے مزے ہیں یاد آتے

اس بند میں شاعر کہتا ہے پریشان حال شخص موسم کو یہ پیغام دیتا ہے کہ میری جماعت کو یہ پیغام پہنچائے کی جس لمحے مجھے تمھارا خیال آتا ہے تو دریا ایک ساتھ مرغابیوں کو تیرتا دیکھ کر وہ دن یاد آتے ہیں جب ہم بھی اکثر ایک ساتھ تالاب میں جا کر تیرا کرتے تھے اور جب سبزہ و گل لہلہاتے ہیں تو مجھے تمھارے ساتھ گزارے خوبصورت لمحوں کی یاد تازہ کروا جاتے ہیں۔

ہم تم یوں ہی ہات میں دیے ہات
پھرتے تھے ہوائیں کھاتے دن رات
جب پیڑ سے آم ہے ٹپکتا
میں تم کو ادھر ادھر تکتا
آخر نہیں پاتا جب کسی کو
دیتا ہوں دعائیں بے کسی کو

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ہم بھی کچھ سبزہ و گل کی طرح ہاتھ میں ہاتھ دیے دن رات ایک ساتھ ہوائیں کھاتے پھرتے تھے اور جب کبھی میں کسی درخت سے آم کو ٹپکتا ہوا دیکھتاہوں تو میں تمھیں ادھر ادھر تلاش کرنے لگتا ہوں۔ آخر میں جب میں کسی کو موجود نہیں پاتا ہوں تو اپنی اس بے کسی اور لاچاری کو دعائیں دینے لگ جاتا ہوں۔

رت آم کی آئے اور نہ ہوں یار
جی اپنا ہے ایسی رت سے بیزار
تم بن جو ہے بوند تن پہ پڑتی
چنگاری سی ہے بدن پہ پڑتی
ہے سرد ہوا بدن کو لگتی
پر جی میں ہے آگ سی سلگتی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ آم کا موسم آئے اور اپنا دوست ساتھ نہ ہو ایسی رت اور موسم سے تو دل بیزار ہوتا ہے۔ تمھارے بغیر برکھا کی جو بوند جسم پہ پڑتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا جسم پہ کوئی چنگاری گری ہو۔ اگر جسم جو ٹھنڈی ہوا لگتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ٹھنڈی ہوا نہیں گویا کسی نے دک میں آگ کو سلگا دیا ہو۔

پردیس میں، سچ ہے، کیا ہو جی شاد؟
جب جی میں بھری ہو دیس کی یاد
نشتر کی طرح تھی دل میں چبھتی
فریاد یہ درد ناک اس کی
تھا سوز میں کچھ ملا ہوا ساز
پکڑا دل سن اس کی آواز

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اپنوں سے دور پردیس میں دل نے کیا خوش ہونا ہوتا ہے وہ بھی ایسی صورت میں کہ جب دل میں اپنے وطن کی یاد بھری ہوئی ہو۔ یہ یاد دل میں کسی تیر کی طرح سے چھبتی اور اس یاد کی درد ناک فریاد میں ایک ایسا درد اور سوز موجود ہوتا ہے کہ اس کو سن کر کوئی اپنا دل پکڑنے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔

حیرت رہی دیر تک کہ آخر
روڑا ہے کہاں کا یہ مسافر؟
پھر غور سے اک نظر جو ڈالی
نکلا وہ ہمارا دوست حالی

اس بند میں شاعر خود کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ تا دیر میں اس حیرت میں مبتلا رہا کہ یہ مسافر کہاں اور کس جگہ کا روڑا ہے لیکن اے حالی جب میں نے اس مسافر کو ایک پر غور نظر سے دیکھا تو وہ ہمارا اپنا دوست نکلا۔