نظم نشاطِ امید کی تشریح

1
اے مری امید میری جاں نواز
اے مری دل سوز میری کارساز
میری سپر اور مرے دل کی پناہ
درد و مصیبت میں مری تکیہ گاہ
عیش میں اور رنج میں میری شفیق
کوہ میں اور دشت میں میری رفیق

یہ بند الطاف حسین حالی کی نظم “نشاط امید” سے لیا گیا ہے۔اس نظم میں شاعر نے امید کو زندگی کا مرقع بنا کر پیش کیا ہے۔ اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے میری امید تم میری جان کو نوازنے والی ہو۔ شاعر کہتا ہے کہ میری امید ہی میرے درد انگیز و دلگداز دل کی چارہ گر ہے۔یہ امید ہی میرے دل کی محافظ ہے۔جب میں کسی مصیبت میں ہوتا ہوں تو یہ امید میرے لیے ایک یقین اور بھروسے کی کرن بن کر ابھرتی ہے۔خوشی ہو یا غم یہ میری دوست بن جاتی ہے۔پہاڑ ہوں یا جنگلات یہ امید ہی میری رفیق اور ساتھی بنتی ہے۔

کاٹنے والی غم ایام کی
تھامنے والی دل ناکام کی
دل پہ پڑا آن کے جب کوئی دکھ
تیرے دلاسے سے ملا ہم کو سکھ
تو نے نہ چھوڑا کبھی غربت میں ساتھ
تو نے اٹھایا نہ کبھی سر سے ہاتھ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اسی امید کے بھروسے ہم اپنے غم کے دنوں کو کاٹتے ہیں اور یہی ناکام دل کو حوصلہ عطا کرتی ہے۔دل جب بھی کسی تکلیف سے دوچار ہوتا ہے تو یہ امید کسی دلاسے اور تسلی دینے والے رفیق کی طرح ہماری ڈھارس بندھاتی ہے جسے ہمیں سکھ ملتا ہے۔غربت اور پریشانی کے دن ہی کیوں نہ ہوں یہ امید کبھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتی ہے اور نہ ہی ہمارے سر سے کبھی اپنا شفقت بھرا ہاتھ اٹھاتی ہے۔

جی کو ہو کبھی اگر عسرت کا رنج
کھول دیے تو نے قناعت کے گنج
تجھ سے ہے محتاج کا دل بے ہراس
تجھ سے ہے بیمار کو جینے کی آس
خاطر رنجور کا درماں ہے تو
عاشق مہجور کا ایماں ہے تو

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اگر کبھی ہمارے دل کو کوئی دشواری ، مفلسی یا پریشانی لاحق ہو تو یہ امید اپنی قناعت کے خزانے ہمارے لیے کھول دیتی ہے۔ یہ امید کسی بھی محتاج کی ناامیدی کو امید میں بدلنے کا باعث بنتی ہے۔بیمار شخص بھی ایک بھلی زندگی کی امید میں اپنے دن کاٹ رہا ہوتا ہے۔کسی بھی مفلس و بیماری میں موجود انسان کی چارہ گر (علاج/دوا) یہی امید بنتی ہے۔جدائی کے غم میں مبتلا عاشق کے لیے یہ امید ایمان بن جاتی ہے کہ اس کے سہارے وہ جی رہا ہوتا ہے کہ جلد اس کی جدائی کے یہ دن کٹ جائیں گے۔

نوح کی کشتی کا سہارا تھی تو
چاہ میں یوسف کی دل آرا تھی تو
رام کے ہمراہ چڑھی رن میں تو
پانڈو کے بھی ساتھ پھری بن میں تو
تو نے سدا قیس کا بہلایا دل
تھام لیا جب کبھی گھبرایا دل

اس بند میں شاعر کہتا تھا کہ اے امید حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا سہارا بھی تم ہی تھی کہ انھوں نے ایک امید کے سہارے اس کشتی کو پانی میں ڈال دیا تھا۔ جبکہ حضرت یوسف علیہ السلام کو جب کنویں میں ڈالا گیا تو وہاں ان کے دل کو آرام پہنچانے اور حوصلہ عطا کرنے والی بھی امید ہی تھی۔رام نے جب میدان جنگ میں قدم رکھا تو وہاں بھی اسے سہارا دینے والی امید تھی۔پانڈو نے جب بن باس لیا اور جنگلوں کی طرف رخ کی تو وہاں جنگلات میں اس کا سہارا بن کر اس کے ساتھ ساتھ پھرنے والی بھی امید ہی تھی۔شاعر کہتا ہے کہ اے امید ہمیشہ تم نے قیس کا دل بہلایا اور اسے جنگلوں میں مارے مارے پھرنے کا سہارا عطا کیا۔اس امید نے قیس کو تھام لیا کہ جب جب اس کا دل گھبرایا۔

ہو گیا فرہاد کا قصہ تمام
پر ترے فقروں پہ رہا خوش مدام
تو نے ہی رانجھے کی یہ بندھوائی آس
ہیر تھی فرقت میں بھی گویا کہ پاس
ہوتی ہے تو پشت پہ ہمت کی جب
مشکلیں آساں نظر آتی ہیں سب

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ فرہاد جس نے شیریں سے عشق کیا اور اسی عشق میں اسے موت نے آ لیا اور اس کا قصہ تمام ہو گیا۔لیکن وہ بھی اسی امید کی خوشی میں ہمیشہ فقروں کے حالات میں بھی خوش رہا۔اس امید نے ہی رانجھے کو بھی یہ آس لگوائی تھی کہ ہیر اس سے جدا اور دور ہوتے ہوئے بھی پاس محسوس ہوتی تھی۔اس لیے جب کسی انسان کے پسںِ پشت جب ہمت اور ڈھارس موجود ہو تو اسے اپنی ہر مشکل بھی آسان لگنے لگتی ہے اور اس کے اندر اس مشکل کو برداشت کرنے کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔

ہاتھ میں جب آ کے لیا تو نے ہات
سات سمندر سے گزرنا ہے بات
ساتھ ملا جس کو ترا دو قدم
کہتا ہے وہ یہ ہے عرب اور عجم
گھوڑے کی لی اپنے جہاں تو نے باگ
سامنے ہے تیرے گیا اور پراگ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جب امید آ کر انسان کا ہاتھ تھام لیتی ہے تو اسے سات سمندروں میں سے گزرنا بھی نہایت آسان دکھائی دیتا ہے۔ امید کا دامن تھامے جو دو قدم بھی چل لیتا ہے اس شخص کو عرب اور عجم کوئی مشکل نہیں بلکہ ایک سے دکھائی دیتے ہیں۔جب امید کسی گھوڑے کی باگ جو سنبھال لیتی ہے تو اس وقت گزرے ہوئے آنے والے دور دراز کے سفر اس مسافر کے لیے آسان اور ایک سے ہو جاتے ہیں۔

عزم کو جب دیتی ہے تو میل جست
گنبد گردوں نظر آتا ہے پست
تو نے دیا آ کے ابھارا جہاں
سمجھے کہ مٹھی میں ہے سارا جہاں
ذرے کو خورشید میں دے کھپا
بندے کو اللہ سے دے تو ملا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ عزم ، حوصلہ یا امید جب کسی کو کوئی جستجو بخشتی ہے تو اسے آسمان کی بلندیوں پر موجود گنبد بھی بہت نیچے یعنی پست دکھائی دینے لگتے ہیں۔امید نے جب آ کر اس جہان کو ابھارا اور حوصلے بلند کیے تو یہ انسان کو یہ سارا جہان ایک مٹھی میں دکھائی دینے لگا۔اس کے حوصلے بلند ہو گئے۔امید کی بدولت ہی ایک ذرے کو خورشید یعنی سورج کی روشنی بنا دیا گیا۔ یہ امید ہی انسان میں وہ جذبہ بلند کرتی ہے لوگ اپنے رب کا قرب حاصل کر لیتے ہیں۔یعنی یہ بںدوں کو اللہ سے ملانے کا وسیلہ بھی بنتی ہے۔

دونوں جہاں کی ہے بندھی تجھ سے لڑ
دین کی تو اصل ہے دنیا کی جڑ
نیکیوں کی تجھ سے ہے قائم اساس
تو نہ ہو تو جائیں نہ نیکی کے پاس
دین کی تجھ بن کہیں پرسش نہ ہو
تو نہ ہو تو حق کی پرستش نہ ہو

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ دنیا کی زندگی ہو یا آخرت کی دونوں ہی امید کی لڑی میں جڑی ہوئی ہیں۔دین کی اصلیت بھی یہ امید ہی ہے کہ جو ہمیں ثواب اور جنت ملنے کی امید میں نیک کام کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔جب کہ دنیا میں جس طور پہ ہم زندگی بسر کر رہے ہیں اس میں بھی بڑا دخل اسی امید کا ہے یہ ہمیں دنیا کی مشکلوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔نیکیوں اور نیک عمل کی بنیاد اسی سے جڑی ہے اگر نیکی کے بدلے اجر کی امید نہ ہوتی تو کوئی نیکی کے پاس بھی نہ بھٹکتا۔امید کے بنا کہیں پر دین کی عملداری بھی نہ کی جاتی اور اگر یہ امید نہ ہو تو کوئی بھی حق کی پرستش ںہ کرتا اور حق کی طرف مائل نہ ہوتا اور نہ ہی نیک کام کرتا۔

خشک تھا بن تیرے درخت عمل
تو نے لگائے ہیں یہ سب پھول پھل
دل کو لبھاتی ہے کبھی بن کے حور
گاہ دکھاتی ہے شراب طہور
نام ہے سدرہ کبھی طوبیٰ ترا
روز نرالا ہے تماشا ترا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس امید کے بنا تو عمل( کسی کام کو عملی طور پر کرنا) کا درخت بھی مکمل طور پر سوکھا ہوا تھا اس امید نے اس سوکھے درخت پہ پھل اور پھول لگا کر ان کو ہرا کیا۔کبھی یہ امید ایک خوبصورت حور بنا کر سب کے دلوں کو لبھاتی ہے تو ساتھ ہی یہ پاکیزہ شراب جیسا لطف بھی دیتی ہے۔کبھی یہ امید آسمان کی طرح بلند اور کبھی خوش خبری و خوشی کی طرح خوش کن کہلاتی ہے۔ روز اس کا ایک نیا روپ اور تماشہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

کوثر و تسنیم ہے یا سلسبیل
جلوے ہیں سب تیرے یہ بے قال و قیل
روپ ہیں ہر پنتھ میں تیرے الگ
ہے کہیں فردوس کہیں ہے سورگ
چھوٹ گئے سارے قریب اور بعید
ایک نہ چھوٹی تو نہ چھوٹی امید

اس بند میں شاعر جنت میں بہنے والی نہروں ، حوض اور چشمے کو بطور تلمیح استعمال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بے بحث و تکرار یہ سب تمھارے جلوے ہیں۔ ہر ایک راہ میں اس کے الگ الگ روپ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کہیں کسی مذہب میں یہ امید جنت کی صورت میں موجود ہے تو کسی مذہب میں اس کا نام سورگ ہے۔ ساری قریب اور دور ، پہلے اور بعد کو یم چھوڑ دیتے ہیں لیکن ایک چیز جو انسان کسی صورت نہیں چھوڑتا ہے وہ امید ہے۔ امید کا دامن انسان ہمیشہ تھامے رکھتا ہے۔

تیرے ہی دم سے کٹے جو دن تھے سخت
تیرے ہی صدقے سے ملا تاج و تخت
خاکیوں کی تجھ سے ہے ہمت بلند
تو نہ ہو تو کام ہوں دنیا کے بند
تجھ سے ہی آباد ہے کون و مکاں
تو نہ ہو تو ہے بھی برہم جہاں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ محض امید کے دامن سے ہی سخت دنوں کی سختی کٹی اور اسی کے وجود کے باعث لوگوں کو تخت و تاج حاصل ہوتے ہیں۔ خاک کے پتلے یعنی بنی نوع انسان کے حوصلے اسی امید کے سہارے بلند ہوتے ہیں یہ نہ ہو تو دنیا کے تمام کام بند ہو جائیں۔ اسی امید کے دامن سے یہ دنیا و جہان آباد ہے اگر یہ نہ ہو تو دنیا و جہاں تباہ و برباد ہو کر رہ جائے گا۔

کوئی پڑتا پھرتا ہے بہر معاش
ہے کوئی اکسیر کو کرتا تلاش
اک تمنا میں ہے اولاد کی
ایک کو دل دار کی ہے لو لگی
ایک کو ہے دھن جو کچھ ہاتھ آئے
دھوم سے اولاد کی شادی رچائے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کوئی تو یہاں پر رزق اور کام کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے تو کوئی اکسیر (ہمیشہ رہ جانے /پر اثر ) شے کی تلاش میں ہے۔ ایک انسان اگر صاحب اولاد ہونے کی خواہش رکھتا ہے تو دوسرے کو اپنے دل دار یعنی محبوب کی چاہت کی خواہش ہے۔ایک شخص کو کچھ پا لینے کی دھن سوار ہے تو دوسرا اپنی اولاد کے بیاہ کو دھوم دھام۔سے کرنے کا خواہش مند ہے۔

ایک کو کچھ آج اگر مل گیا
کل کی ہے یہ فکر کہ کھائیں گے کیا
قوم کی بہبود کا بھوکا ہے ایک
جن میں ہو ان کے لیے انجام نیک
ایک کو ہے تشنگیٔ قرب حق
جس نے کیا دل سے جگر تک ہے شق

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ایک شخص نے اگر آج یہاں پہ کچھ حاصل کر لیا ہے تو ساتھ ہی اسے کل کی فکر بھی لاحق ہے وہ کل کیا کھائے گا۔کوئی اپنی قوم کی فلاح و بہبود کے لیے فکر مند ہیں تو ایک طرف وہ لوگ ہیں جو ان کے نیک انجام کی تمنا رکھے ہوئے ہیں۔کوئی قرب حق یعنی قربِ الہی حاصل کرنے کی پیاس رکھتا ہے وہ قرب کہ جس سے اس کے دل سے جگر تک کو شق کرکے اس کی تشنگی کو مٹا دیا جائے۔

جو ہے غرض اس کی نئی جستجو
لاکھ اگر دل ہیں تو لاکھ آرزو
تجھ سے ہیں دل سب کے مگر باغ باغ
گل کوئی ہونے نہیں پاتا چراغ
سب یہ سمجھتے ہیں کہ پائی مراد
کہتی ہے جب تو کہ اب آئی مراد

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ہر شخص کی ایک نئی خواہش و تلاش ہے۔ لاکھوں دلوں کی لاکھوں ہی آرزوئیں ہیں۔مگر ہر ایک دل میں ایک شے مشترکہ طور پہ بھری ہے اور وہ امید ہے۔ یہ امید ہی ہے جو ان دلوں کا کوئی چراغ بجھنے نہیں دیتی ہے۔ سب کو یہ لگتا ہے کہ اب کی گھڑی وہ اپنی مراد یا خواہش کو پا لیں گے مگر ان کی خواہش جبھی پوری ہوتی ہے کہ جب امید یہ چاہتی ہے۔

وعدہ ترا راست ہو یا ہو دروغ
تو نے دیے ہیں اسے کیا کیا فروغ
وعدے وفا کرتی ہے گو چند تو
رکھتی ہے ہر ایک کو خورسند تو
بھاتی ہے سب کو تری لیت و لعل
تو نے کہاں سیکھی ہے یہ آج کل

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ مید کا دلایا گیا وعدہ یا آسرا سچ ہو یا جھوٹ یہ امید ان کو کئی گنا بڑھاتی ہے۔ اگرچہ اس کے کیے گئے کچھ وعدے تو وفا ہو جاتے ہیں۔ یہ ہر ایک کو خوش و خرم اور مسرور رکھتی ہے۔ ہمارا جو کام آج پورا نہیں ہوتا اس سے ہم کل کی امید باندھ لیتے ہیں تو شاعر کہتا ہے کہ امید کی یہ ٹال مٹول اور حیلے بہانے سب کو اچھے لگتے ہیں نجانے اس نے یہ آج کل کہاں سے سیکھی ہے۔

تلخ کو تو چاہے تو شیریں کرے
بزم عزا کو طرب آگیں کرے
آنے نہ دے رنج کو مفلس کے پاس
رکھے غنی اس کو رہے جس کے پاس
یاس کا پاتی ہے جو تو کچھ لگاؤ
سیکڑوں کرتی ہے اتار اور چڑھاؤ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ امید تلخ کو میٹھا بنا دیتی ہے۔ سوگ کی محفلوں کو خوشیوں میں بدلنے کا ہنر جانتی ہے۔یہ کبھی کسی محتاج و نادار کے پاس تکلیف کو نہیں آنے دیتی ہے۔جس کے پاس امید کا دامن ہو یہ اسے ہمیشہ غنی بنائے رکھتی ہے۔ امید جب کبھی ناامیدی کا دھڑکا لگاتی ہے تو اس سے سینکڑوں اتاد چڑھاؤ واقع ہوتے ہیں۔

آنے نہیں دیتی دلوں پر ہراس
ٹوٹنے دیتی نہیں طالب کی آس
جن کو میسر نہ ہو کملی پھٹی
خوش ہیں توقع پہ وہ زر بفت کی
چٹنی سے روٹی کا ہے جن کی بناؤ
بیٹھے پکاتے ہیں خیالی پلاؤ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ امید دلوں پہ کبھی نا امیدی یا مایوسی کے سائے نہیں منڈلانے دیتی ہے اور طلب کرنے والے کی امید نہیں ٹوٹنے دیتی ہے۔ وہ امید کا دامن تھامے اپنی خواہش کے حصول کی امنگ کرتا رہتا ہے۔وہ لوگ جن کو ایک پھٹی ہوئی کملی/ چادر بھی نصیب نہیں ہوتی ہے وہ بھی محض اس امید کے سہارے سونے و ریشم کی تاروں سے بنے زر بفت کے مل جانے کی امید پالے ہوئے اور خوش ہیں۔ وہ لوگ جن کی حثیت محض انھیں چٹنی و روٹی کی اجازت دیتی ہے وہ بھی اپنی امیدوں کے سہارے خیالی پلاؤ (وہ خواب اور خیال جو پورے ہونے تو ممکن نہ ہو لیکن انسان وہ خواب بننے لگے) بناتے ہیں۔

پاؤں میں جوتی نہیں پر ہے یہ ذوق
گھوڑا جو سبزہ ہو تو نیلا ہو طوق
فیض کے کھولے ہیں جہاں تو نے باب
دیکھتے ہیں جھونپڑے محلوں کے خواب
تیرے کرشمے ہیں غضب دل فریب
دل میں نہیں چھوڑتے صبر و شکیب

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کچھ لوگوں کے پاؤں میں جوتی تک موجود نہیں ہے لیکن وہ یہ ذوق رکھتے ہیں کہ گھوڑا سبزے کی تلاش میں اور طوق نیلا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ایسا اثر و کرم عطا کیا وہ اس فیض کے وسیلے جھونپڑوں میں رہتے ہوئے بھی محلوں کے خواب آنکھوں میں سجا لیتے ہیں۔اللہ کی قدرت کے کرشمے ایسے حیران کن اور دل فریب ہیں کہ دل کبھی صبر کا دامن نہیں چھوڑتا ہے۔

تجھ سے مہوس نے جو شوریٰ لیا
پھونک دیا کان میں کیا جانے کیا
دل سے بھلایا زن و فرزند کو
لگ گیا گھن نخل برومند کو
کھانے سے پینے سے ہوا سرد جی
ایسی کچھ اکسیر کی ہے لو لگی

اس بند میں شاعر کہتا ہے اے امید جب ایک کیمیا گر نے تم سے مشورہ لیا تو نجانے تم نے اس کے کانوں میں کیا بات پھونک دی۔پیسے کے پجاریوں یا دولت کی اولاد کو دل سے بھلایا کیونکہ دولت کی اس لالچ نے پھل دار درخت کو بھی گھن لگ گیا۔ کھانے پینے سے ایسے دل اٹھ گیا کہ جیسے کوئی بہت اکیسر یعنی ناقابلِ علاج دھن سوار ہو چکی ہو اور وہ دھن پیسہ بنانے اور دولت کے حصول کی دھن ہے۔

دین کی ہے فکر نہ دنیا سے کام
دھن ہے یہی رات دن اور صبح شام
دھونکنی ہے بیٹھ کے جب دھونکنا
شہہ کو سمجھتا ہے اک ادنیٰ گدا
پیسے کو جب تاؤ پہ دیتا ہے تاؤ
پوچھتا یاروں سے ہے سونے کا بھاؤ

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ دین و دنیا کے کاموں فکر مٹ چکی ہے اور دن رات بس ایک ہی دھن سوار ہے کہ دھونکنی کی طرح سے ایک ہی چیز کو ہوا دینا ہے اور اس آگ کو بھڑکانا ہے کہ جو ایک بادشاہ کو بھی ادنی فقیر سمجھنے لگتی ہے۔ یہ فقیر جب امیر ہونے کے بعد پیسے کو تاؤ دیتا ہے تو دوستوں یاروں سے سونے کے بھاؤ معلوم کرنے لگتا ہے۔ یعنی امید کی جوت انسانوں کے حالات بدلنے کی قدرت رکھتی ہے۔

کہتا ہے جب ہنستے ہیں سب دیکھ کر
رہ گئی اک آنچ کی باقی کسر
ہے اسی دھند میں وہ آسودہ حال
تو نے دیا عقل پہ پردہ سا ڈال
تول کر گر دیکھیے اس کی خوشی
کوئی خوشی اس کو نہ پہنچے کبھی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جب کوئی ایک کو دوسرے سے ہنستے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کو لگتا ہے کہ ایک تھوڑی سی کمی باقی رہ گئی تھی۔ وہ اسی حال اور اپنی اسی دنیا میں خوش ہے۔ اے امید تم نے بعض جگہوں پہ انسان کی عقل پہ کچھ ایسا پردہ ڈال دیا ہے کہ اگر اس کی خوشی کا تول کیا جائے تو اس کا کوئی حساب نہیں ہوتا ہے کہ اس سے قبل جیسے اسے کوئی خوشی کبھی نہ پہنچی ہو۔

پھرتے ہیں محتاج کئی تیرہ بخت
جن کے پیروں میں تھا کبھی تاج و تخت
آج جو برتن ہیں تو کل گھر کرو
ملتی ہے مشکل سے انہیں نان جو
تیرے سوا خاک نہیں ان کے پاس
ساری خدائی میں ہے لے دے کے آس

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کچھ محتاج اور سیاہ بخت لوگ ایسے مارے پھرتے ہیں کہ جن کے پیروں تلے کبھی بہت سے تخت اور تاج ہوا کرتے تھے۔ اب ان کی حالت ایسی ہے کہ آج اگر ان کے گھر میں کوئی برتن میسر ہے تو کل انھیں کھانے کو نان بھی مشکل سے میسر آتا تھا۔ اے امید تیرے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ موجود نہیں ہے کہ ساری خدائی میں ایک واحد امید ان کے لیے تم ہی ہوتی ہو۔

پھولے سماتے نہیں اس آس پر
صاحب عالم انہیں کہیے اگر
کھاتے ہیں اس آس پہ قسمیں عجیب
جھوٹے کو ہو تخت نہ یارب نصیب
ہوتا ہے نومیدیوں کا جب ہجوم
آتی ہے حسرت کی گھٹا جھوم جھوم

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اکثر لوگ اس امید پہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہیں کہ اگر کوئی انھیں صاحب عالم کہے تو اس پر یہ عجیب وغریب طرح کی قسمیں کھانے لگتے ہیں۔ اے اللہ جھوٹے کو کبھی یہ تخت نصیب نہ ہو۔ جب ناامید لوگوں کا ہجوم جمع ہوتا ہے تو ان کی حسرتیں گھٹاؤں کی طرح جھوم کر سر اٹھاتی ہیں۔

لگتی ہے ہمت کی کمر ٹوٹنے
حوصلہ کا لگتا ہے جی چھوٹنے
ہوتی ہے بے صبری و طاقت میں جنگ
عرصۂ عالم نظر آتا ہے تنگ
جی میں یہ آتا ہے کہ سم کھائیے
پھاڑ کے یا کپڑے نکل جائیے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ناامید لوگوں کی ہمت جواب دینے لگتی ہے اور ان کی ہمت کی کمر جب ٹوٹنے لگتی ہے تو ان کا حوصلہ بھی پست ہونے لگتا ہے۔ اس دوران ان کی بے صبری اس عروج کو چھو لیتی ہے کہ ان کی بے صبری اور تخت کے درمیان ایک جنگ چھڑ جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا کا یہ عرصہ بھی تنگ دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس وقت انسان اس طرح سے مایوسی کا شکار ہوتا ہے کہ دل کرتا ہے کہ انسان زہر کھا لے یا دیوانوں کی طرح سے اپنے کپڑے پھاڑ کر کہیں باہر نکل جائیں۔

بیٹھنے لگتا ہے دل آوے کی طرح
یاس ڈراتی ہے چھلاوے کی طرح
ہوتا ہے شکوہ کبھی تقدیر کا
اڑتا ہے خاکہ کبھی تدبیر کا
ٹھنتی ہے گردوں سے لڑائی کبھی
ہوتی ہے قسمت کی ہنسائی کبھی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ امید جب ٹوٹتی ہے تو کسی ٹھنڈی پڑتی بھٹی کی طرح سے انسان کا دل بھی ڈوبنے لگتا ہے۔یہ نا امیدی اس انسان کو کسی چھلاوے کی طرح ڈرانے لگتی ہے۔ اسے کبھی اپنی تقدیر سے شکوہ و شکایت ہوتی ہے تو کبھی وہ تدبیر کے چکروں کا مذاق اڑانے لگتا ہے۔ کبھی تو وہ آسمان سے کڑنے لگتا ہے تو کبھی قسمت کی ستم ظریفی پہ ہنستا دکھائی دیتا ہے۔

جاتا ہے قابو سے آخر دل نکل
کرتی ہے ان مشکلوں کو تو ہی حل
کان میں پہنچی تری آہٹ جو ہیں
رخت سفر یاس نے باندھا وہیں
ساتھ گئی یاس کے پژمردگی
ہو گئی کافور سب افسردگی
تجھ میں چھپا راحت جاں کا ہے بھید
چھوڑیو حالیؔ کا نہ ساتھ اے امید

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ آخر کو اس کا دل اس کے بس سے باہر ہو جاتا ہے لیکن اے امید ایسے نا امید انسان کی مشکلوں کا واحد حل تو ہی ہے۔ جیسے ہی اسے امید کا کوئی سہارا ملتا ہے اور تیری آہٹ اس کے کانوں کو سنائی دیتی ہے تو وہیں وہ اپنے سفر کا سامان باندھنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کی ساری مایوسی اور انامید ی مٹ جاتی ہے اور کافور کی طرح سے اس کی ساری افسردگی بھی اڑ جاتی ہے۔ آخر میں شاعر خود کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے امید تیرے اندر اس دنیا کے سکون کا راز پوشیدہ ہےا س لیے کبھی حالی (شاعر کا تخلص) کا ساتھ مت چھوڑنا۔