Nazam Definition And Types in Urdu | نظم کی صنفی شناخت اور اقسام

0

نظم کے لفظی معنیٰ پرونا ، لڑی ، کلامِ موزوں یا شعر کے ہیں۔ نظم یا شاعری اس کلام کو کہتے ہیں جسے اس زبان کے بولنے والے اپنے احساس آہنگ و ترنم کے مطابق موزوں سمجھتے ہیں۔ انسان اظہارِ خیال کے لیے دو مختلف طریقے استعمال کرتا ہے بعض اوقات وہ اپنے خیالات کا اظہار نثری انداز میں جب کہ بعض صورتوں میں وہ شاعری کو اس کام کے لیے موزوں سمجھتا ہے۔ ان دونوں طریقوں کا مجموعہ دراصل ادب کہلاتا ہے۔ یوں ادب کے دو بڑے زاویے ہیں نثر اور نظم۔

جس ادب میں انسانی زندگی کے تجربات، احساسات و تجزیات موجود ہوں صحیح ادب کہلانے کا حق دار ہوتا ہے۔ ادبی اصناف میں اگر نظم کی بات کی جائے تو نظم میں ہرطرح کے موضوع کو بیان کیا جاسکتا ہے، جو اظہار میں وسعت اور کشادگی کا باعث بنتا ہے۔

نظم کا لفظ عموماً نثری ادب کی تفریق کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی وہ تمام کلام جو نثر نہیں ہے نظم کہلاتا ہے۔ مگر اردو شاعری میں نظم ایک باقاعدہ صنف شاعری ہے۔ یہاں نظم کا استعمال نثری اصناف سے امتیاز کی بجائے غزل سے امتیاز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی غزل کے سوا باقی شاعری نظم کہلاتی ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ نظم شاعری کی ایک ایسی قسم ہے جو کسی ایک عنوان کے تحت کسی ایک موضوع پر لکھی جاتی ہے۔

نظم میں شروع سے آخر تک خیال کا ربط اور تسلسل ضروری ہے۔ اس کے لیے نہ تو کسی خاص موضوع کی کوئی قید ہوتی ہے اور نہ ہیئت کی۔ نظم زندگی کے کسی بھی واقعے ،مسئلے ، خیال اور جذبے کو بنیاد بنا کر کہی جاسکتی ہے۔ نظم غزل کی ہیئت میں بھی ہوسکتی ہے، مثنوی کی ہیئت میں بھی اور مخمس ،مسدس، ترکیب بند اور ترجیع بند کی ہیت میں بھی۔

نظم کے دائرے میں حمد ، مناجات ، نعت ، منقبت ، ریختی ، واسوخت ،قصیدہ ، مرثیہ، مثنوی ، شہر آشوب، تضمین ، گیت ، کافی ، سہرا اور پیروڈی جیسی اصناف بھی شامل ہیں لیکن موضوعاتی امتیاز اور جداگانہ خصوصیات کی وجہ سے بعض اصناف کے نام متعین کر دیے گئے ہیں۔ ہیت کی بنیاد پر نظم کی درج ذیل قسمیں ہیں:
پابند نظم ، طویل نظم،آزاد نظم،معرانظم،نثری نظم، سانیٹ ، ہائیکو، ثلاثی۔

پابند نظم :

  • پابند نظم میں وزن و بحر کے ساتھ ساتھ قافیوں اور ردیف کی پابندی بھی کی جاتی ہے۔ ابتدائی دور کی بیشترنظمیں پابند نظموں کے دائرے میں آتی ہیں مثلاً نظیر، حالی، اکبر، اقبال ، چکبست اور جوش کی نظمیں، چند پابند نظموں کے عنوانات درج ذیل ہیں:
  • آدمی نامہ’ برسات کی بہاریں روٹیاں ـ نظیر اکبر آبادی
  • مٹی کا دیا ، برسات ، مناجات بیوہ۔ الطاف حسین حالی
  • نئی تہذیب ، مس سیمیں بدن ، جلوۂ در بار دہلی ـ اکبر الہ آبادی
  • چاند اور تارے ، پرندہ اور جگنو، مکڑا اور مکھی، ماں کا خواب ، بچے کی دعا،پرندے کی فریاد۔۔۔علامہ اقبال
  • آوازۂ قوم ، رامائن کا ایک سین ،حب وطن ۔۔۔ چکبست
  • شکست زنداں کا خواب ، بدلی کا چاند۔۔۔ جوش ملیح آبادی

طویل نظم:

روایتی شاعری میں قصیدہ، مرثیہ اور مثنوی طویل نظم کے ذیل میں آتے ہیں۔ یہ طوالت اشعار کی تعداد پر منحصر ہے۔ قصیدے اور مرثیے میں یہ تعداد محدود ہوسکتی ہے۔ مثنوی کے اشعار واقعے کی طوالت کے پیش نظر قصیدے یا مرثیے سے زیادہ طویل ہو سکتے ہیں۔ طویل نظم کئی صفحات پر محیط ہوتی ہے۔ کسی موضوع یا خیال کی وحدت اسے مختصر نظموں کا مجموعہ ہونے سے بچا لیتی ہے۔

علامہ اقبال نے شکوہ ، جواب شکوہ اور ابلیس کی مجلس شوری وغیر و طویل نظمیں مسدس کی ہیئت میں لکھی ہیں۔ان نظموں کی فنی اور فکری اہمیت نے بعد کے نظریہ پسند شاعروں کو متاثر کیا۔ جوش بھی طویل نظم کے شاعر ہیں۔ سردار جعفری اور ساحر لدھیانوی نے بھی طویل نظمیں کہی ہیں۔ اپنے عہد کے دکھ اور اپنے خوابوں کی دنیا کو سردار جعفری نے نئی دنیا کوسلام اور ساحر نے پر چھائیاں جیسی نظموں کا روپ دیا۔ ان نظموں میں اظہار کی ضرورت کے پیش نظربحر اور وزن کی تبدیلی کو روا رکھا گیا۔

حرمت الاکرام کی کلکتہ : ایک زباب بھی اسی قسم کی ایک طویل نظم ہے۔ ن۔م۔ راشد، اختر الایمان ، وزیر آغا اور جعفر طاہر کی طویل نظموں میں موجودہ عہد کا کرب سمٹ آیا ہے۔ رفیق خاور اور عبدالعزیز خالد بھی طویل نظم کے شاعر ہیں۔ عمیق حنفی کی سند باد، شہہ زاد اور صلصلۃ الجرس طویل نظم کی عمدہ مثالیں ہیں۔ قاضی سلیم کی نظم کچوکے ضمیر کے میں مختلف بحروں کا استعمال کیا گیا ہے۔مثنوی کی روایتی ہیئت میں بھی قاضی سلیم نے باغبان وگل فروش اور زہر خند جیسی طویل نظمیں کہی ہیں۔

معرانظم:

انگریزی میں معرا نظم کو بلینک ورس کہتے ہیں۔ اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے معرانظم بھی پابند نظموں کے مشابہ ہوتی ہے۔ یہ نظم بھی کسی مخصوص بحر میں کہی جاتی ہے اور نظم کا عنوان بھی ہوتا ہے لیکن معرا نظم میں قافیہ نہیں ہوتا۔ معرا نظم کے اہم شعرا میں تصدق حسین خالد، میراجی ،ن ۔م۔ راشد، فیض احمد فیض ، اختر الایمان، یوسف ظفر ، مجید امجد ، ضیاء جالندھری کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ ن ۔م۔ راشد کی نظم زاد سفر دیکھیے:

اجنبی چہروں کے پھیلے ہوۓ اس جنگل میں
دوڑتے بھاگتے لمحوں کے در یچے سے کبھی
اتفاقاً تری مانوس شباہت کی جھلک
پردہ چشم تخیل پہ ابھر کر اے دوست
ڈوب جاتی ہے اس پل اس ساعت جیسے
تیز رو ریل کی کھڑکی سے ذرا دوری پر
کسی صحرا کی جھلتی ہوئی ویرانی میں
نا گہا ں منظر نگیں کوئی دم بھر کے لیے
اک مسافر کو نظر آۓ اور اوجھل ہو جاۓ

آزاد نظم:

آزاد نظم کا پہلا تجر بہ فرانس میں درس کے نام سے کیا گیا تھا۔ اس کے تحت غیر مساوی مصرعوں پرمشتمل نظمیں کہی گئیں۔ انگریزی میں اسے فری ورس کا نام دیا گیا اور یہی اصطلاح اردو میں آزاد نظم کے نام سے معروف ہوئی۔ آزاد نظم کا وہ تصور جو انگریزی اور فرانسیسی ادبیات میں ہے اردو میں ان معنوں میں نہیں ، بلکہ اس کی بنیاد بھی اردو شاعری میں مروج روایتی عروض پر رکھی گئی ہے۔

آزاد نظم وہ ہے جس میں مختلف ارکان کی کمی بیشی سے شعر میں ایک خاص قسم کا آہنگ اور ترنم پیدا کیا جا تا ہے۔اردو میں آزاد نظم کے شعرا میں تصدق حسین خالد، میراجی ، ن۔م۔ راشد ، فیض احمد فیض ، سردار جعفری ، مخدوم محی الدین ، اختر الایمان اور قاضی سلیم کے نام اہم ہیں۔ مخدوم محی الدین کی نظم’ چاند تاروں کا بن’ اور ن م راشد کی نظم ‘زندگی سے ڈرتے ہو’ آزادنظم کی عمدہ مثالیں ہیں۔ نظم ‘ چاند تاروں کا بن’ سے بند ملاحظہ ہو:

موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن
رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن
رات بھر جگمگا تا رہا چاند تاروں کا بن
تشنگی تھی مگر
تشنگی میں بھی سرشار تھے
پیاسی آنکھوں کے خالی کٹورے لیے
منتظر مردوزن
مستیاں ختم ، مد ہوشیاں ختم تھیں ،ختم تھا بانکپن

نثری نظم:

نثری نظم ، معرا اور آزاد نظموں کے مقابلے میں زیادہ آزاد ہے۔ اس میں وزن، بحر، ردیف اور قافیے کی پابندی نہیں کی جاتی۔ نثری نظم کا ایک مرکزی خیال ہوتا ہے جسے تسلسل کے ساتھ چھوٹی بڑی نثری سطروں میں بیان کر دیا جا تا ہے۔ نثری نظم میں بھی ایک مخصوص قسم کا آہنگ اور شعریت کا عنصر موجود ہوتا ہے۔

جدید دور میں نثری نظموں کے چلن میں تیزی آئی ہے۔ سجادظہیر کا پچھلا نیلم اور افضال احمد سید کا چھنی ہوئی تاریخ ، نثری نظم کے نمائندہ مجموعے ہیں۔ خورشید الاسلام ، محمد حسن، احمد ہمیش ، کشور ناہید، زبیر رضوی، شہر یار، کمار پاشی ،عتیق اللہ، صادق ، وغیرہ نے منظوم شاعری کے ساتھ نثری نظمیں بھی لکھی ہیں۔مثال ندا فاضلی کی ایک نثری نظم :

بھوک کا کوئی جغرافیہ نہیں ہوتا
گھاس کا کوئی علاقہ نہیں ہوتا
پانی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا
جہاں اناج ہے
وہاں بھوک ہے
جہاں مٹی ہے
وہاں گھاس سے
جہاں پانی ہے
وہاں پیاس ہے

سانیٹ:

سانیٹ چودہ مصرعوں پر مشتمل انگریزی شاعری کی ایک اہم صنف ہے جو ایک مخصوص بحر میں لکھی جاتی ہے۔ اس کے مصرعوں میں قوافی کی ترتیب مقررہ اصولوں کے تحت ایک خاص انداز میں ہوتی ہے۔ سانیٹ میں صرف ایک خیال، جذبے یا احساس کی ترجمانی کی جاتی ہے۔ یہ خیال یا جذبہ اکثر نقطۂ عروج تک پہنچ جاتا ہے۔ وحدت خیال اور شدت احساس سانیٹ کے لازمی عناصر ہیں۔

سانیٹ اطالوی لفظ سانیٹ سے بنا ہے جس کے معنی مختصر آواز یا راگ کے ہوتے ہیں۔ اس کا آغاز اطالوی زبان میں ہوا۔ انگریزی میں بھی اسے مقبولیت ملی۔ بعض اطالوی اور انگریزی شاعروں نے سانیٹ کے چودہ مصرعوں کو آٹھ اور چھے مصرعوں کے دوبندوں میں تقسیم کر کے لکھا ہے۔ آٹھویں مصرعے کے اختتام پر ایک وقفہ ہوتا ہے اور نویں کا موڑ شروع ہوتا ہے جسے گریز کہا جا سکتا ہے۔ انگریزی میں شیکسپیئر ،ملٹن اور ورڈز ورتھ نے اس صنف کو خوب فروغ دیا۔ اردو میں اختر شیرانی نے اس صنف کی جانب خاص طور پر توجہ دی۔ ان کے سانیٹ کا مجموعہ ”شعرستان“ ہے۔ اردو کے سانیٹ نگاروں میں عظیم الدین احمد، حسرت موہانی ، اختر جونا گڑھی، ن۔م۔ راشد وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ سانیٹ کی ایک مثال :

نکل کر جوئے نغمہ خلد زار ماہ و انجم سے
فضا کی وسعتوں میں ہے رواں آہستہ آہستہ
یہ سوۓ نوحہ آباد جہاں آہستہ آہستہ
نکل کر آ رہی ہے اک گلستان ترنم سے
ستارے اپنے میٹھے مدھ بھرے ہلکے ترنم سے
کیے جاتے ہیں فطرت کو جواں آہستہ آہستہ
سناتے ہیں اسے اک داستاں آہستہ آہستہ
دیار زندگی مدہوش ہے ان کے تکلم
یہی عادت ہے روز اولیں سے ان ستاروں کی
چمکتے ہیں کہ دنیا میں مسرت کی حکومت ہو
چمکتے ہیں کہ انساں فکر ہستی کو مٹا ڈالے
لیے ہے یہ تمنا ہر کرن ان نور پاروں کی
کبھی یہ خاکداں گہوارۂ حسن و لطافت ہو
کبھی انسان اپنی گم شدہ جنت کو پھر پالے
ن،م،راشد(ستارے)

ہائیکو:

ہائیکوا یک جاپانی صنف ہے۔ اردو شاعری میں اس کا رواج بہت بعد میں ہوا۔ ہائیکو تین سطروں پر مشتمل ایک مختصر نظم ہوتی ہے۔ یہ اپنی ہیئت کے اعتبار سے پہچانی جاتی ہے۔ ہائیکو کی بناوٹ پانچ، سات اور پانچ صوتی ارکان کے وزن پر قائم ہوتی ہے۔ ان عروضی ارکان کی ترتیب دیکھیے :

  • فعلن،فعلن ،فع
  • فعلن،فعلن،فعلن،فع

اس صنف کو اردو ادب میں سب سے پہلے شاہد احمد دہلوی نے اپنے رسالے ”ساقی“ کے جاپانی ادب نمبر مطبوعہ 1936 میں متعارف کرایا تھا۔ اس کے بعد دوسرے رسائل میں بھی ہائیکو پرکئی مقالات شائع ہوئے۔ ہائیکو کو پہلے جاپانی میں ہائی کائی یا ہوکو کہا جاتا تھا۔ پنجابی صنف ماہیے اور اردو میں گلاٹی ہائیکو سے مماثلت رکھتے ہیں لیکن عروضی اعتبار سے ان میں فرق ہے۔

ہائیکو میں عام طور پر مناظر فطرت کے مشاہدات و تجربات بیان کیے جاتے رہے ہیں لیکن آج یہ کسی ایک موضوع کی پابند نہیں ہے۔ اردو میں حمد میں اور نعتیں بھی ہائیکو میں کہی ہیں۔ جاپانی ہائیکو کی طرح اردو ہائیکو میں بھی عنوانات قائم کرنے کا رجحان عام ہے۔ اردو میں نادم بھٹی ، کرامت علی کرامت ، حنیف کیفی ، کوثر صدیقی اور علیم صبا نویدی وغیرہ نے ہائیکو لکھے ہیں۔ ہائیکو کا نمونہ دیکھیے :

وہ اتنا رویا
انساں تو خود انساں ہے
پتھر بھی پگھلا

ہیت کے اعتبار سے نظم کی اقسام

مصرعوں اور اشعار کی تعداد اور ان کی ترتیب کے اعتبار سے نظم کی درج ذیل ہیئتیں اردو میں رائج ہیں:

ترکیب بند،ترجیع بند ،مخمس، مسدس، مستزاد، ترجیع بند، مسبع،مسمط،مثمن، مثلث، مربع،متسع،معشر۔

ترکیب بند:

ترکیب بند نظم مختلف بندوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اگر یہ چھے مصرعوں کا بند ہے۔ بند کے پہلے چار مصرعے ہم روایف اور ہم قافیہ ہوتے ہیں اور بعد کے شعر میں مختلف قافیے لائے جاتے ہیں۔ اس کو ٹیپ کا شعر کہتے ہیں۔ اس طرح اس کا ایک بند مکمل ہوتا ہے۔ باقی کے بند بھی اسی اصول پر ترتیب پاتے ہیں۔ ترکیب بند میں بندوں کی تعداد مقرر نہیں ہے۔ حالی نے غالب کا مرتبہ ترکیب بند کی ہیئت میں لکھا تھا۔

ترجیع بند :

ترجیع کے معنی لوٹانے کے ہوتے ہیں۔ ترکیب بند میں ٹیپ کا شعر ہر بند میں نیا ہوتا ہے جب کہ ترجیع بند میں ٹیپ کے شعر کی تکرار ہوتی ہے۔ بعض نظموں میں ٹیپ کے شعر کے بجائے ٹیپ کا مصرع ہی بار بار دہرایا گیا ہے۔

مجاز کی نظم آوارہ ترجیع بند کی ایک مثال ہے۔ اس کے ہر بند کے آخر میں ”اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں“ کی تکرار ہوئی ہے۔ اسی طرح نظیر اکبر آبادی کی نظم برسات کی بہار میں بھی ترجیع بند میں ہے۔ اس کے ہر بند میں کیا کیا بچی ہے یاروں برسات کی بہار میں مصرع کی تکرار ہے ۔

مستزاد:

اس کے لغوی معنی ہیں زیادہ کیا گیا۔ اس میں غزل، رباعی یانظم کے مصرعوں کے آخر میں بعض موزوں الفاظ یا فقروں کا اضافہ کر دیا جا تا ہے۔ اس کے لیے کوئی بحر مخصوص نہیں ہے۔ عام طور سے جس بحر میں اشعار ہیں اس بحر سے متصل فقروں کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ کوئی حتمی اصول نہیں ہے اس سے انحراف کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ ایک شعر کی مثال دیکھیے:

جادو ہے نگہ، حچب ہے غضب، قہر ہے مکھڑا
غارت گردیں وہ بت کافر ہے سراپا
اور قد ہے قیامت اللہ کی قدرت (جرات)

مسمط:

لفظی معنی’’ پروئے ہوئے موتی‘‘ اصطلاحا (1) مثلث، مربع مخمس یا مسدس بندوں پر مشتمل نظم جس کے پہلے بند کے تمام مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور دوسرے بند کے آخری مصرعے میں پہلے بند کا قافیہ نظم کیا جاتا ہے یعنی نظم مثلث ( تین مصرعوں کے بند والی ) ہوتو پہلا بند ۱۱۱، دوسراب ب ا اور تیسرا ج ج ب قافیوں میں ہوتا ہے۔ (2) ایک لفظی صفت جس کی رو سے شعر میں (اصل قافیے کے علاوہ) تین مسجع یا ہم وزن فقرے یا قافیے مز یدنظم کیے جاتے ہیں مثلاً:

سنبھل، ایسے غرور میں ہے یہ خلل کہ گرے نہ الجھ کہیں منہ کے ہی بل
بس ، اب اس سے بھی آگے تو بڑھ کے نہ چل، تجھے رفعت عرش علا کی قسم (انشا)
جب وہ روز جمال دلفروز، صورت مہر نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منہ چھپائے کیوں (غالب)

پہلے شعر میں خلل، بل ، چل اور دوسرے شعر میں فروز ، روز ، سوز قافیے مسمط کی صفت پیدا کرتے ہیں۔

مثلث:

یہ عربی لفظ ہے جس کے معنی تین کے ہیں۔ اس میں ہر بند تین مصرعوں سے مکمل ہوتا ہے۔ پہلے بند کے تینوں مصرعوں کا قافیہ ایک ہوتا ہے۔ باقی کے بندوں میں پہلے دو مصرعوں کا قافیہ ایک جیسا اور تیسرے مصرعے کا قافیہ پہلے بند کا ہم قافیہ ہوتا ہے۔اختر شیرانی کی نظم چرواہے کی جنسی اس ہیئت کی مثال ہے۔

مربع:

یہ عربی لفظ ہے جس کے معنی چار کے ہیں۔ اس آیت کے ہر بند میں چار چار مصرعے ہوتے ہیں۔ پہلے بند کے چاروں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور بعد کے بندوں کے ابتدائی تین مصرعوں کا قافیہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ چوتھے مصرعے کا قافیہ پہلے بند کا ہم قافیہ ہوتا ہے۔ سودا کے بہت سے مرثیے مربع کی شکل میں ہیں۔

مخمس:

یہ عربی لفظ ہے جس کے معنی پانی ہیں۔ اس کا ہر بند پانچ مصرعوں پرمشتمل ہوتا ہے۔ پہلے بند کے پانچوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں ۔ بعد کے بندوں کے ابتدائی چار مصرعوں کا قافیہ علاحدہ ہوتا ہے اور پانچو میں مصرعے کا قافیہ پہلے بند کا ہم قافیہ ہوتا ہے۔ نظیر اکبرآبادی کی نظم آدمی نامہ ، ‘برسات کی بہار میں اور اقبال کی نظم روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے جس کی مثالیں ہیں۔

مسدس:

یہ عربی لفظ ہے جس کے معنی چھے ہیں۔ مسدس سب سے مقبول ہیئت ہے۔ اس میں چھ مصرعوں کا ایک بند ہوتا ہے جس میں پہلے بند کے چھ مصرعے ہم قافیہ ہو سکتے ہیں۔ عام طور پر پہلے چار مصرعوں کا قافیہ الگ ہوتا ہے اور باقی کے دو مصرعے اپنا الگ قافیہ رکھتے ہیں۔ انیس ودبیر کے مرثیے ، حالی کی مد و جزر اسلام ، اقبال کی ‘شکوہ اور جواب شکوہ اور چکیست کی نظمیں زیادہ تر مسدس کی ہیئت میں لکھی گئی ہیں۔

مسبع:

یہ عربی لفظ ہے جس کے معنی ‘سات ہیں۔ اس کا ہر بند سات مصرعوں سے مل کر بنتا ہے۔ اس میں بھی پہلے بند کے بھی مصرعے آپس میں ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ باقی بندوں کے ابتدائی چھے مصرعوں کا قافیہ یکساں اور ساتویں مصرعے کا قافیہ پہلے بند کا ہم قافیہ ہوتا ہے۔اردو میں اس ہیئت کا استعمال بہت کم ہوا ہے۔

مثمن:

یہ عربی لفظ ہے جس کے معنی ‘ آٹھ ہیں۔ اس میں آٹھ مصرعوں کے بند ہوتے ہیں ۔ پہلے بند کے آٹھوں مصرعے آپس میں ہم قافیہ ہوتے ہیں۔بعد کے تمام بندوں میں ابتدائی سات مصرعوں کا قافیہ یکساں اور آٹھویں مصرعے کا قافیہ پہلے بند کا ہم قافیہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات پہلے چھ مصرعوں کا قافیہ ایک جیسا اور باقی کے دو مصرعوں کا قافیہ یکساں ہوتا ہے۔ دوسری مثال دیکھیے:

کل گھر میں وہ بیٹھے تھے سراسیمہ و حیراں
اس حال کے دیکھے سے ہوا حال پریشاں
نے کے سبب چپ نہ سکی پیش پنہاں
سمجھا میں کہ یوں بھی تو ہے مایوی و حرماں
انصاف کو رو، صبر کرے کب تلک انساں
ناچار کہا طعن سے میں نے کہ مری جاں
کس سوچ میں بیٹھے ہو، ذرا سر تو اٹھاؤ
گو دل نہیں ملتا ہے پر آنکھیں تو ملاؤ

متسع:

یہ عربی لفظ ہے جس کے معنی نو ہیں۔ اس ہیئت کے پہلے بند میں نومصرعے ہوتے ہیں اور سب ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ بعد کے بندوں میں ابتدائی آٹھ مصرعوں کے قافیے یکساں اور نویں مصرعے کا قافیہ وہی ہوتا ہے جو پہلے بند کا قافیہ ہے۔

معشر:

یہ عربی لفظ ہے جس کے معنی دس ہیں۔ یہ نظم کی وہ ہیئت ہے جس کے ہر بند میں دس مصرعے ہوتے ہیں۔اس ہیئت میں بھی پہلے بند کے دسوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور بعد کے بندوں کے ابتدائی نومصرعوں کا قافیہ یکساں اور دسویں مصرعے کا قافیہ پہلے بند کے قافیے سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ نظیر کی نظم’ عاشق نامہ اس کی ایک مثال ہے۔