نظم بازگشت کی تشریح

0

شفیق فاطمہ شعری عہدِ جدید سے تعلق رکھنے والی شاعرہ ہیں۔ ان کی نظم “بازگشت” آزاد نظم کی ہیت میں لکھی گئی ہے۔جس میں شاعرہ نے زندگی کا درد بھرا نغمہ پیش کیا ہے۔

نغمہ زار درد کی جانب چلے ہم
ایک بھی ذرہ نہ کچلا جائے اس رفتار سے
نغمہ زار درد کی جانب چلے ہم
کنج میں پیڑوں کے سورج جھانکتا تھا
کوہساروں سبزہ زاروں میں جھمکتی روشنی کا جشن تھا
جشن جاری ہی رہے گا تا ابد
جاری رہے
نغمہ زار درد کی جانب چلے ہم
لعل و مرمر سے گندھا قالب
اور اس کے ماورا اس کے قریب
بجلیوں جیسا مصفا اک وجود
چار سو بکھرے ہوئے خاموش سونے آسماں
ہم کہاں ہیں ہم کہاں نغمہ زار درد ہے یہ ہم کہاں

اس بند میں شاعرہ کہتی ہیں کہ ہم درد بھرے نغمے کی جانب اس رفتار سے چلے کہ ہمارا ایک لفظ تک نہ کچلا۔ جا سکے۔پیڑوں کی تنہائی میں سورج جھانک رہا تھا۔جبکہ پہاڑوں اور کہساروں میں اس جھکتی روشنی کا جشن جھلملا رہا تھا۔یوں ہی یہ جشن جاری و ساری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا۔موتیوں اور سنگِ مرمر سے بھرا ہوا ہمارا دل اس کے قریب ہے اور اس کے علاوہ وہاں ایک روشن وجود بھی موجود ہے۔جہاں ہر طرف روشن اور سونے آسمان بکھرے ہوئے ہیں۔ اے نغمہ زاد ہم کہاں ہیں۔

اتنا بے آواز جیسے
آتما اپنی شعاعیں
ریشے ریشے سے بدن کے کھینچ لے
آہستگی سے بے گزند
اور دوری بے فغاں ہو جسم کی اور روح کی
کیا سبک رفتار کر دیتی ہے ہم کو بے دلی بے حاصلی
جیسے اک بادل کا ٹکڑا
اپنی چھاگل پھینک دے اونچی فضا میں
پیاسے ذروں کی طرف
پھر ہلکے پھلکے پنکھ پھیلائے اڑے
ہلکورے لے
اک مٹتی بنتی رنگ کی تحریر سی
سیراب ذرے اس کو دیکھیں
اور پکار اٹھیں
وہ کافوری سا شعلہ عظمت نا رس

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ نغمہ اتنا بے آواز ہے کہ جیسے روح اپنی صدائیں بہت آہستگی سے اور کوئی تکلیف دیے بغیر جسم کے ریشے ریشے سے کھینچ لے۔اس دوران جسم اور روح کی بہت دوری ہو۔ ہم کو بے دلی اور لا حاصلی بہت سست رفتار کر دیتی ہے۔جیسے بادل کا کوئی ٹکڑا اپنی چھاگل پیاسے ذروں کی طرف پھینکتا ہے ایسے ہی یہ ہلکے ہلکے اور آہستگی سے اپنے پھنگ اڑائے پھرتی ہے۔رنگ کی ایک تحریر مٹتی اور بنتی ہے اور ایک ذرے کی سیر سے سب یہ پکار اٹھتے ہیں کہ وہ بلندیوں کا نا تجربہ کار اور ہلکا زرذ شعلہ کہاں ہے۔

دوام درد ہے وہ سرخ نرمل روشنی
لو سانس کے سرچشمے سوکھے ہر شکایت مٹ گئی
کیا شکایت سانس کے سر چشمہ سے ان کو رہی
جو سانس لیتے ہیں یہاں
موج بے ہنگام خندہ
کیسے پھوٹی میرے لب سے
کوئی شکتی ہم میں ہے
جو یوں ہمیں پامال کر ہنس سکے
یہ ہمیں آغاز ہی سے ختم کرنے پر تلی تھی
چاہے پھر خود ہی مجاور بن سکے انجام کار
احتجاج اس کا جو اک شکتی ہے مجھ میں
کس قدر پر شور ہے
کس قدر پر زور ہے

اس بند میں شاعرہ کہتی ہے کہ ہمیشہ رہنا ایک درد ہے اور اس کی سرخ نرمل روشنی اگرچہ سانس رک چکی ہے مگر ہر شکایت مٹ گئی ہے۔اس بے آرام مسکراتی موج میں جو سانس لیتے ہیں۔یہ بات میرے لبوں سے کیسے آزاد ہوئی کہ ہم میں کوئی طاقت موجود ہے۔اگر ہمیں یوں کوئی شرمندہ کرکے ہنس سکے تو زندگی ہمیں آغاز سے ہی ختم کرنے پہ تلی ہوئی تھی۔چاہے پھر اس کا انجام کرنے والا خود ہی مجاور کیوں نہ بن جائے۔اس کا احتجاج مجھ میں ایک طاقت کی طرح موجود ہے۔کس قدر پر شور اور پرزور انداز میں۔

نغمہ زار درد سے آگے لئے جاتا مجھ کو
ان فضاؤں میں جہاں
بازگشت اک گیت بن جاتی ہے اس کی
جیسے سب ٹیلے چٹانیں اور کہستاں
سانس کے چشمے میں شامل ہیں
دھڑکتے ذی نفس اور ہم نوا

اس بند میں شاعرہ کہتی ہے کہ زندگی کا یہ نغمہ مجھے درد سے آگے لے کر جاتا ہے۔ایسی فضاؤں میں جہاں پہ آواز ایک گیت بن جاتی ہے۔ جس طرح کہ سب ٹیلے اور چٹانیں ایک کہستاں کی طرح سے سانس کے چشمے میں شامل ہیں یہ سانس لیتے اور دھڑکتے ذی نفس ہیں جو کہ میرے ساتھی ہیں۔