نظم خاکِ ہند کی تشریح

0

چکبست نرائن کی نظم “خاک ہند” مسدس ہیت میں لکھی گئی ہے۔ اس کے ہر بند میں چھے مصرعے ہیں۔ یہ نظم کل نو (9) بندوں پہ مشتمل ہے۔ خاکِ ہند نظم بھی ان کی وطنیت کے ذیل میں کی گئی شاعری کی ایک کڑی ہے۔ اس نظم میں شاعر نے ہندوستان کے تاریخی اور تہذیبی پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔

اے خاک ہند تیری عظمت میں کیا گماں ہے
دریائے فیض قدرت تیرے لیے رواں ہے
تیرے جبیں سے نور حسن ازل عیاں ہے
اللہ رے زیب و زینت کیا اوج عز و شاں ہے
ہر صبح ہے یہ خدمت خورشید پر ضیا کی
کرنوں سے گوندھتا ہے چوٹی ہمالیا کی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے ہندوستاں کی سر زمین تیری عظمت اور سر بلندی پہ کسی شک کا کوئی گمان نہیں ہو سکتا ہے۔اس وطن کو اللہ تعالیٰ نے کئی قدرتی نعمتوں سے فیض یاب کیا ہے۔ یہ فیض کسی مقام پہ رکا نہیں بلکہ ہمیشہ سے رواں و دواں ہے۔اس سر زمین کی پیشانی سے نور اور حسن ہمیشہ سے ظاہر ہے اور آگے بھی دکھائی دیتا رہے گا۔اس کی خوبصورتی اور سج دھج اس کی شان و شوکت اور سر بلندیوں میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ہر صبح سورج اس کو روشن کرنے کی خدمت انجام دیتا ہے۔یہ سورج اس ہندوستان کی سرزمین میں موجود ہمالیہ کی چوٹیوں کو روشنیوں کی کرنوں سے منور کرتا ہے۔

اس خاک دل نشیں سے چشمے ہوئے وہ جاری
چین و عرب میں جن سے ہوتی تھی آبیاری
سارے جہاں پہ جب تھا وحشت کا ابر طاری
چشم و چراغ عالم تھی سر زمیں ہماری
شمع ادب نہ تھی جب یوناں کی انجمن میں
تاباں تھا مہر دانش اس وادی کہن میں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس وطن کی دلنشین خاک (مٹی ) سے کئی طرح کے چشمے جاری و ساری ہیں۔ یہ چشمے محض ہندوستان ہی نہیں چین و عرب کو بھی سیراب کرتے تھے( یہاں شاعر کی چشموں سے مراد علوم و فیوض کی برکات سے سیراب کرنے والی ہستیاں ہیں جن کے علم اور تعلیمات سے چین اور عرب نے بھی استفادہ کیا) شاعر کہتا ہے کہ جب ساری دنیا پہ وحشت کے بادل منڈلا رہے تھے اس وقت ان تاریکیوں کو روشنیوں میں بدلنے والے اسی سر زمین کے چشم و چراغ تھے جنھوں نے پوری دنیا کو روشن کیا۔یونان جس نے تعلیمی ترقی میں ایک عروج کا دور دیکھا جس وقت اس سر زمین پہ علم کی شمع روشن نہ ہوئی تھی اس وقت اس سرزمین یعنی سر زمین ِ ہند سے مہر و محبت اور علم و دانش کے روشن سوتے پھوٹ رہے تھے۔

گوتمؔ نے آبرو دی اس معبد کہن کو
سرمدؔ نے اس زمیں پر صدقے کیا وطن کو
اکبرؔ نے جام الفت بخشا اس انجمن کو
سینچا لہو سے اپنے راناؔ نے اس چمن کو
سب سوربیر اپنے اس خاک میں نہاں ہیں
ٹوٹے ہوئے کھنڈر ہیں یا ان کی ہڈیاں ہیں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس سرزمین کو گوتم بدھ جیسے لوگ ملے کہ گوتم نے یہاں کے پرانی عبادات کو بھی ایک نئی شان اور عزت عطا کی۔ سرمد نے اس سرزمین کے صدقے اپنے وجود کو کر کے اسے ہمیشگی عطا کی۔اکبر جیسے حکمرانوں نے اس سرزمین کو اپنی محبت کا جام پلایا۔ رانا جیسے نڈر سورماؤں نے اس سر زمین کو اپنے لہو کی قربانیوں سے پروان چڑھایا ہے۔ سب بہادر جودھا اس سرزمین کو ترقی دینے میں خوشی سے نہال ہیں۔لیکن اب ان کے مقبروں کو دیکھ کر ہی یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ کوئی ٹوٹے پھوٹے مندر ہیں یا ان کی ہڈیاں ہیں۔

دیوار و در سے اب تک ان کا اثر عیاں ہے
اپنی رگوں میں اب تک ان کا لہو رواں ہے
اب تک اثر میں ڈوبی ناقوس کی فغاں ہے
فردوس گوش اب تک کیفیت اذاں ہے
کشمیر سے عیاں ہے جنت کا رنگ اب تک
شوکت سے بہہ رہا ہے دریائے گنگ اب تک

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ان قربانیوں کا اثر اب تک یہاں کے درو دیوار سے ظاہر ہو رہا ہے۔ہماری رگوں میں بھی اب تک ہمارے انھی اجداد کا لہو رواں دواں ہے۔ابھی تک یہ فضا ان گھنٹیوں کی گونج میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس جنت نما سر زمین کا ایک ایک گوشہ اس کیفیت میں ہے کہ یہاں کوئی اذاں یا صدا گونج رہی ہو۔کشمیر جو کہ جںت نظیر خطہ ہے اس سے آج بھی اس سر زمین کا ایک ایک رنگ ظاہر ہو رہا ہے۔ یہاں کا دریائے گنگا اب بھی اسی شان و شوکت سے بہہ رہا ہے۔

اگلی سی تازگی ہے پھولوں میں اور پھلوں میں
کرتے ہیں رقص اب تک طاؤس جنگلوں میں
اب تک وہی کڑک ہے بجلی کی بادلوں میں
پستی سی آ گئی ہے پر دل کے حوصلوں میں
گل شمع انجمن ہے گو انجمن وہی ہے
حب وطن وہی ہے خاک وطن وہی ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس سرزمین کے پھولوں اور پھلوں میں اب بھی پہلے سی تازگی موجود ہے اور یہاں کے جنگلوں میں آج بھی مور رقصاں ہیں۔ اب تک بادلوں میں بجلی کی وہی پرانی کڑک محسوس کی جاسکتی ہے لیکن دل کے حوصلے پہلے جیسے جواں یا بکند نہیں رہے ہیں۔ اگر شمع(روشنی) ایک محفل ہے تو وہی ایک محفل ہے اور اس وطن کی محبت اور یہاں کی خاک کی محبت سے تازگی اب بھی پہلے کی سی ہے۔

برسوں سے ہو رہا ہے برہم سماں ہمارا
دنیا سے مٹ رہا ہے نام و نشاں ہمارا
کچھ کم نہیں اجل سے خواب گراں ہمارا
اک لاش بے کفن ہے ہندوستان ہمارا
علم و کمال و ایماں برباد ہو رہے ہیں
عیش و طرب کے بندے غفلت میں سو رہے ہیں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کچھ برسوں سے ہمارے وطن کی رت تباہ سی ہو رہی ہے۔اس کا وقت ایک برہم کیفیت کی ترجمانی کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اس سرزمین کا دنیا سے نام و نشان مٹتا جا رہا ہے۔ ہماری یہ غفلت بھری نیند کسی موت سے کم نہیں ہے ہمارا وطن ہندوستان ایک بے کفن لاش کی سی کیفیت میں جا رہا ہے۔یہاں موجود لوگوں کے کمالات ، ان کا علم اور ایمان مسلسل برباد ہو رہے ہیں۔ کیونکہ یہاں کے لوگ عیش و عشرت کی غفلتوں میں پڑ کر اس قدر غافل ہو چکے ہیں کہ گویا وہ سو رہے ہوں۔

اے صور حب قومی اس خواب سے جگا دے
بھولا ہوا فسانہ کانوں کو پھر سنا دے
مردہ طبیعتوں کی افسردگی مٹا دے
اٹھتے ہوئے شرارے اس راکھ سے دکھا دے
حب وطن سمائے آنکھوں میں نور ہو کر
سر میں خمار ہو کر دل میں سرور ہو کر

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے وطن سے محبت کے جادوئی صور اس خواب کو توڑ کر ہمیں غفلت کی نیند سے جگا دو اور وہ پیغام جو ہم بھلا چکے ہیں ہمیں اس کی پھر سے یقین دہانی کرائی جائے۔ ہماری طبیعتوں پہ جو افسردگی چھائی ہوئی ہے اس کو مٹا دیا جائے اور ہم جو ایک راکھ کی مانند بے جان اور ٹھنڈے ہو چکے ہیں اسی راکھ میں سے پھر سے کوئی شرلہ( شرارہ) بھڑک اٹھے۔اس وطن کی محبت ہماری آنکھوں میں نور بن کر سمائے اور ہمارے سروں میں یہ محبت ایک خمار جب کہ دلوں میں سرور بن کر ہم میں ولولہ پیدا کرے۔

شیدائے بوستاں کو سرو و سمن مبارک
رنگیں طبیعتوں کو رنگ سخن مبارک
بلبل کو گل مبارک گل کو چمن مبارک
ہم بے کسوں کو اپنا پیارا وطن مبارک
غنچے ہمارے دل کے اس باغ میں کھلیں گے
اس خاک سے اٹھے ہیں اس خاک میں ملیں گے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ باغ سے محبت رکھنے والے کو سرو سمن جیسے قد و قامت والے درخت مبارک ہوں جبکہ رنگین طبیعت کے لوگوں کو رنگ سخن مبارک ہوں۔ بلبل کو اس کا گل جبکہ گل یعنی پھول کو اس کا باغ مبارک ہو۔ لیکن ہمارے دل کی کلیاں محض وطن کی محبت سے ہی کھلیں گیں اور وطن کی اس مٹی سے ہی ہم اٹھائے گئے اور اسی مٹی میں ہم ملیں گے۔

ہے جوئے شیر ہم کو نور سحر وطن کا
آنکھوں کی روشنی ہے جلوہ اس انجمن کا
ہے رشک مہر ذرہ اس منزل کہن کا
تلتا ہے برگ گل سے کانٹا بھی اس چمن کا
گرد و غبار یاں کا خلعت ہے اپنے تن کو
مر کر بھی چاہتے ہیں خاک وطن کفن کو

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اب اس وطن کی روشنیوں کو دوبارہ سے بحال کرنا ایک مشکل ترین کام ہے لیکن اس وطن کی روشنیاں ہی ہماری آنکھوں کا جلوہ ہیں۔ اس وطن کا ایک ایک ذرہ خواہ وہ کتنا ہی پرانا کیوں نہ ہو محبت کی مثال ہے۔اس چمن یعنی وطن کے کانٹے بھی یہاں پھولوں کی پتیوں کے مول تلتے ہیں۔یہاں کا گردو غبار بھی ہمیں اس قدر عزیز ہے کہ یہ ہمارے جسم کے لیے لباس کی سی اہمیت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی شاعر وطن کی خاک میں دفن ہونے کی آرزو رکھتا ہے۔