نظم مفلسی کا خلاصہ

0

”مفلسی“ نظم نظیر اکبر آبادی کی ہے جس میں غربت یعنی مفلسی چھا جانے کے بعد ایک شخص جو کن حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے بیان کیا گیا ہے۔شاعر کہتا ہے مفلسی یعنی غربت ایسی بری چیز ہے کہ جب کبھی کسی انسان پر مفلسی طاری ہو جائے تو یہ غربت ا س کو کہیں طرح سے ستاتی ہے۔

غریب انسان کو کئی کئی روز تک بھوکا رہنا پڑتا ہے۔ محض دن کو ہی نہیں ایسے انسان کو اکثر اوقات رات کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا ہے اور پھر ایسے لوگوں کو یہ غربت راتوں کو بھی بھوکا سونے پر مجبور کرتی ہے۔ غربت یا بھوک کا دکھ کیا دکھ ہوتا ہے اس تکلیف کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے کہ جو اس غربت کے کرب سے دو چار ہوتا ہے۔

اگر کسی حکیم کی بات کی جائے تو کہنے کو بظاہر حکیم ایک شان اور مرتبے والا شخص ہے جس کی عزت تمام امیر اور مرتبے والے لوگ بھی کرتے ہیں اور غریب غربا بھی اس سے عزت و احترام سے پیش آتے ہیں۔لیکن اگر مفکسی کی بات کی جائے تو وہ تو حکیم لقمان کو بھی نہیں پہچانتی ہے۔اگر حضرت عیسیٰ جیسی شخصیت بھی موجود ہو جو معجزات رکھنے والی ہے وہ بھی اس غربت کا توڑ نہیں کر سکتی ہے۔

اگر مفلسی آ جائے تو حکیم کی حکمت کو بھی ڈوبنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔وہ لوگ جو علم و دانش رکھتے ہیں اور بڑے بڑے عالم اور فاضل کہلاتے ہیں ایسے لوگوں جو جب مفلسی ا کر گھیرتی ہے تو حالات اتنے گھمبیر ہو جاتے ہیں کہ ایسے لوگ کلمہ تک پڑھنا بھول جاتے ہیں۔ ایسے لوگ جو غریبوں کے لڑکوں کو پڑھاتے ہیں تو اگر وہ ہیں ہی مفلس تو ایسے لوگوں کو اتنا پڑھانے کے بعد بھی ایک طویل عمر تک ان لوگوں کی غربت دور نہیں ہو پاتی ہے۔

مفلس شخص اگر کسی محفل میں یا لوگوں کے سامنے آ کر اپنا حال بیان کرتا ہے تو سب کو یہیں محسوس ہوتا ہے وہ ایسا صرف مدد مانگنے کے لیے کر رہا ہے یعنی ایک طرح روٹی مانگنے کے لیے جال ڈال رہا ہے۔ایسا شخص جو مفلسی کا شکار ہوتا ہے اگر وہ گرے بھی تو کوئی اسے آگے بڑھ کر سنبھالنے والا نہیں ہوتا ہے۔ اور اگر مفلس شخص کوئی بہت زیادہ علم رکھنے والا عالم شخص ہو تو بھی مفلسی اس کے ساتھ یہی سلوک روا رکھتی ہے۔ یعنی آخر میں غربت سب کو مٹی میں ملا دیتی ہے۔

برے حالات میں مفلس کو مدد مانگنے پر بھی محض جھڑکیاں ملتی ہیں۔ امیروں میں چار تو غریب کو روٹی بھی ایک ہی۔ بانٹی جاتی ہے۔ مفکس شخص کی نظر ہر لمحہ روٹی پانے پہ ہوتی ہے جس طرح سے کتے ایک ہڈی کے پیچھے لڑتے ہیں یہ مفلسی بھی انسان کو اس حالت میں لا کر بھوک کے لیے لڑنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

مفلسی یا غربت لوگوں کے اس شرم و حیا کو بھی ختم کر دیتی ہے کہ انکے کیے صحیح و غلط کی تفریق مٹ جاتی مفلسی لوگوں کو ایسی تکلیف سے دو چار کرتی ہے کہ ان کے گھر سے رونے اور آہ و بقا کی آوازیں بغیر مردے کے ہی بلند ہوتی ہیں۔ یعنی وہ کسی کے مرنے پہ نہیں بلکہ اپنی بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر روتے ہیں۔ایسے لوگ اپنے مردوں کو بھی بنا کفن کے دفنانے پر مجور ہو جاتے ہیں۔مفلس کے گھر کا ںقشہ بھی کچھ یوں ہو جاتا ہے ہر طرف جالے اور مکڑیاں دکھائی دینے لگتے ہیں۔

غریب لوگوں میں سے جس کے پاس لکڑیاں خریدنے اور آگ جلانے کے لیے بھی پیسے موجود نہ ہوں تو ایسے لوگ مجبوراً اپنے مردوں کو دریا میں بہانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ مفلسی غریب کا سب کچھ بکا کر اسے ایک ایک اینٹ کھودنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ماہر مصور کو مفلسی آ گھیرے تو اس کے تمام رنگ پھیکے پڑ جاتے اور لوگ اس سے منھ موڑ لیتے ہیں۔مفلسی قیمتی حسن کو بھی کوڑیوں کے دام بکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ جبکہ مفلسی کسی عاشق کو گھیرے تو یہ عاشقوں کو تہمت و بدنامی کے دلدل میں دکھیل دیتی ہے۔

مفلسی ایک پیشہ ور عورت کو اپنے اشاروں پہ نچاتی ہے اور اسے چند ٹکوں کا محتاج کر دیتی ہے جس سے بمشکل اس کے پیٹ کا دوزخ بھر پاتا ہے۔مفلسی ایک کلاونت کو طنبورا لیے در در پھرنے پر مجبور کرتی ہے تو یہی مفلسی ایک غریب کو اس کے بچوں کی شادی کے لیے در در کا محتاج بناتی ہے۔ اس کے بیٹے کی بارات میں مفلس شخص اپنی غربت سے لڑتے ہوئے آگے آگے رواں دواں ہے اور پیچھے اس کی مفلسی اس پر تالیاں بجاتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے۔یہ غربت آ خر کار ایک شخص کو نکھٹو کے نام سے نواز دیتی ہے۔

ایک بلند مرتبہ شخص اگر مفلس ہو جائے تو بعد میں لوگ اس کی شکل پہچاننے سے بھی انکاری ہو جاتے ہیں۔ یہ مفلسی اس قدر انسان کو دوسروں کی نظر میں گرا دیتی ہے۔مفلس کا درد کوئی محسوس نہیں کرتا اور مفلسی انسان کو اس نوبت تک پہنچاتی ہے کہ جو باتیں اس شخص نے زندگی بھر نہیں سنی ہوتی ہیں غربت آ کر اس کو وہ باتیں بھی سنا ڈالتی ہے۔مفلس سب کے سامنے بے پردہ ہو کر رہ جاتا ہے۔

مفلس کی بیوی بھی سب کی بھابی بن جاتی ہے۔ یہ غربت اس شخص کے دل سے سب کی عزت اور کی عزت سب کے دلوں سے ختم کروا دیتی ہے۔ مفلسی انسان کو بے حال کر دیتی ہے۔اپنوں کی محبت اور غیر کی چاہت کو آپ کے دل سے ختم کر دیتی ہے۔یہ غربت آپ کی شرم و حیا اور عزت و تقدس کو ختم کر دیتی ہے۔ لیکن ایک چیز کو یہ مفلسی بڑھاتی ہے اور وہ آپ کے ناخن اور بال ہیں اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔یعنی ایک مفلس کا حلیہ بگڑ جاتا ہے اور وہ کتنا ہی عالی مرتبہ کیوں نہ ہو مفلسی اس کو بے حال بنا ڈالتی ہے۔

مفلسی آپ پر چور اچکے اور دغا باز جیسے کئی عیب بھی لگوا دیتی ہے۔آخر یہی مفلسی آپ کو بھیک مانگنے پر مجبور کرتی ہے۔اس دنیا میں چاہے کوئی امیر ہے یا غریب کوئی شاہ ہے یا فقیر اللہ کبھی کسی کو مفلسی جیسی لعنت سے دو چار نہ کرے۔ کیونکہ کہ یہ غربت و مفلسی پل بھر میں معزز لوگوں کو فقیر بنا ڈاکتی ہے۔ شاعر آخر میں اپنا تخلص استعمال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نظیر میں مفلسی کی کیا کیا خرابی بیان کروں اس کی تکلیف کو وہ شخص ہی سمجھ سکتا ہے جس نے اس تکلیف کو سہا ہے جو اس کرب سے دو چار ہوا ہو۔