نظم بازگشت کا خلاصہ

0

شفیق فاطمہ شعری عہدِ جدید سے تعلق رکھنے والی شاعرہ ہیں۔ ان کی نظم “بازگشت” آزاد نظم کی ہیت میں لکھی گئی ہے۔جس میں شاعرہ نے زندگی کا درد بھرا نغمہ پیش کیا ہے۔اس نظم میں شاعرہ کہتی ہیں کہ ہم درد بھرے نغمے کی جانب اس رفتار سے چلے کہ ہمارا ایک لفظ تک نہ کچلا۔ جا سکے۔پیڑوں کی تنہائی میں سورج جھانک رہا تھا۔جبکہ پہاڑوں اور کہساروں میں اس جھکتی روشنی کا جشن جھلملا رہا تھا۔یوں ہی یہ جشن جاری و ساری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا۔

موتیوں اور سنگِ مرمر سے بھرا ہوا ہمارا دل اس کے قریب ہے اور اس کے علاوہ وہاں ایک روشن وجود بھی موجود ہے۔جہاں ہر طرف روشن اور سونے آسمان بکھرے ہوئے ہیں۔ اے نغمہ زاد ہم کہاں ہیں۔یہ نغمہ اتنا بے آواز ہے کہ جیسے روح اپنی صدائیں بہت آہستگی سے اور کوئی تکلیف دیے بغیر جسم کے ریشے ریشے سے کھینچ لے۔اس دوران جسم اور روح کی بہت دوری ہو۔ ہم کو بے دلی اور لا حاصلی بہت سست رفتار کر دیتی ہے۔جیسے بادل کا کوئی ٹکڑا اپنی چھاگل پیاسے ذروں کی طرف پھینکتا ہے ایسے ہی یہ ہلکے ہلکے اور آہستگی سے اپنے پھنگ اڑائے پھرتی ہے۔

رنگ کی ایک تحریر مٹتی اور بنتی ہے اور ایک ذرے کی سیر سے سب یہ پکار اٹھتے ہیں کہ وہ بلندیوں کا نا تجربہ کار اور ہلکا زرذ شعلہ کہاں ہے۔ہمیشہ رہنا ایک درد ہے اور اس کی سرخ نرمل روشنی اگرچہ سانس رک چکی ہے مگر ہر شکایت مٹ گئی ہے۔اس بے آرام مسکراتی موج میں جو سانس لیتے ہیں۔یہ بات میرے لبوں سے کیسے آزاد ہوئی کہ ہم میں کوئی طاقت موجود ہے۔

اگر ہمیں یوں کوئی شرمندہ کرکے ہنس سکے تو زندگی ہمیں آغاز سے ہی ختم کرنے پہ تلی ہوئی تھی۔چاہے پھر اس کا انجام کرنے والا خود ہی مجاور کیوں نہ بن جائے۔اس کا احتجاج مجھ میں ایک طاقت کی طرح موجود ہے۔کس قدر پر شور اور پرزور انداز میں۔زندگی کا یہ نغمہ مجھے درد سے آگے لے کر جاتا ہے۔ایسی فضاؤں میں جہاں پہ آواز ایک گیت بن جاتی ہے۔ جس طرح کہ سب ٹیلے اور چٹانیں ایک کہستاں کی طرح سے سانس کے چشمے میں شامل ہیں یہ سانس لیتے اور دھڑکتے ذی نفس ہیں جو کہ میرے ساتھی ہیں۔