نظم ” آدمی نامہ کا ” خلاصہ

0

نظم “آدمی نامہ” میں نظیر اکبر آبادی نے آدمیت اور آدمیت کے مرتبے اور فلسفے کو ابھارا ہے۔اس دنیا میں آدمیت کا مرتبہ بہت افضل متعین کیا گیا ہے لیکن انسان نے اس کو فرقوں ، گروہوں اور طبقات میں تقسیم کر دیا۔ اسی پر بات کرتے ہوئے شاعر نظیر اکبر آبادی اس نظم میں آدمی نامہ کو بڑی خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں۔ سب انسان برابر و یکساں ہیں۔آدمی زندگی کے ہر موڑ پر آدمی ہی رہتا ہے۔

اس نظم میں شاعر انسان کی عظمت کا بھی ذکر کرتا ہے اور اس کی ذلت کا بھی، مگر ہر حال اسے آدمی ہی گردانتا ہے۔اگر آدمی ہونے کی شرط اس کی شکل و شباہت ہے تو چاہے جیسا بھی ہو پر ذات آدم ہی ہے۔پادشاہ ہو یا فقیر ہو،ٹکڑے پر گزر بسر کرنے والا ہو یا نعمتیں کھانے والا آدمی ہی ہوتا ہے۔آدمی اپنے اعمال سے آدمیت کے اعلیٰ مقام پر بھی پہنچتا ہے اور کچھ منکر ہوکر کفر تک بھی۔

شاعر کہتے ہیں کہ خالق کائنات نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ وہ اپنے زہد و ریاضت سے خالق سے بھی مل لیتا ہے۔شاعر نے فرعون،شداد،نمرود کی مثالیں پیش کی ہیں جنہیں خدا ہونے کا شوق تھا اور اس خدائی کی چاہ میں کسی نے خدائی کا دعویٰ کیا کسی نے بہشت بنائی۔آدمی رہبر بھی ہے آدمی رہزن بھی ہے۔شیطانیت کے خصائل رکھنے والا بھی آدمی ہی ہے۔ساری کارستانی آدمی کی ہے۔

آدمی عبادت کو مسجد بناتا ہے۔ آدمی خطبے سناتا ہے امام بھی ہے اور مقتدی بھی اور ان کی جوتیاں چرا لے جاتا ہے وہ بھی آدمی ہی رہتا ہے۔آدمی ہی آدمی کی جان لیتا ہے آدمی ہی آدمی پر جان دیتا ہے۔آدمی کو عزت آدمی ہی دیتا ہے۔ ذلت بھی آدمی کو آدمی سے ہی ملتی ہے گرچہ دنیا میں جو بھی تماشے آنکھوں کے سامنے نظر آتے ہیں وہ آدمی کی مرہون منت ہیں۔

خدمت گار آدمی اور خدمت کرانے والا بھی آدمی پکارنے والا بھی آدمی دوڑنے والا بھی آدمی۔جھوٹا ،سچا،ایماندار،بے ایمان،راجہ ،پرجا،خوش خوراک ،افلاس کا مارا،خوش لباس یا چیتھڑا لپیٹا ہوا تمام تر صورتوں میں آدمی ہی جلوہ گر ہے حتیٰ کہ جنازے پر لیٹا ہوا اور جنازے کو کندھا دینے والے سبھی آدمی ہیں۔کمینہ ، بادشاہ ، وزیر ، دل پذیر اور اچھا ، برا سب آدمی کے ہی روپ ہیں۔یہاں ہر جگہ اور ہر صورت میں آدمی جلوہ گر دکھائی دیتا ہے۔

یوں اس نظم میں شاعر “نظیر اکبر آبادی” کا ایک آفاقی پیغام بھی ملتا ہے کہ کوئی کسی کو حقیر نہ سمجھے۔ جتنے لوگ نظر آتے ہیں وہ سب ایک سا مرتبہ رکھتے ہیں اور ان میں سب سے اہم اور بنیادی مشترکہ خوبی یہی ہے کہ وہ سب آدمی یا انسان ہیں۔ باقی تمام مرتبے اور درجہ بندیاں دنیاوی ہیں مگر افسوس یہاں پر انسان کو بطور انسان نہیں جانچا جاتا ہے۔