Advertisement
Advertisement

کتاب”گلزارِ اردو” برائے نویں جماعت۔

Advertisement
  • سبق نمبر:09
  • صنف ادب:غزل۔
  • شاعر کا نام :خلیل الرحمٰن اعظمی۔

تعارف مصنف:-

خلیل الرحمٰن اعظمی 1927ء میں سرائے میر،ضلع اعظم گڑھ اتر پردیش میں پیدا ہوئے جبکہ طویل بیماری کے باعث 1978ء میں علی گڑھ میں ہی انتقال ہوا۔اعظم گڑھ سے ہائی سکول کا امتحان پاس کیا جبکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم پاس کی اور وہیں شعبہ اردو سے وابستہ ہوگئے۔خلیل الرحمن اعظمی نے غزلیں اور نظمیں دونوں لکھیں۔ ان کی غزلیں اپنے دھیمے انداز، درد مندانہ لہجے،فکری تجسّس اور احساس کی تازگی کے باعث زیادہ پسند کی گئیں۔آپ پرانی تشبیہات اور استعاروں سے گریز کرتے تھے۔آپ کا شمار نئی غزل کے اولین معماروں میں ہوتا تھا۔آپ کے کلام کے مجموعے “کاغذی پیرہن”، “نیاعہد نامہ” اور “زندگی اے زندگی” کے نام سے شائع ہوئے۔ نثری تصانیف میں “اردو میں ترقی پسند تحریک”،”مضامین نو” اور “فکر وفن” شامل ہیں۔ تین کتابیں” نوائے ظفر” ، “مقدمہ کلام آتش” اور “نئی نظم کا سفر” معہ مقدمہ مرتب کیں۔

اشعار کی تشریح:-

تری صدا کا ہے صدیوں سے انتظار مجھے
مرے لہو کے سمندر ذرا پکار مجھے

یہ شعر خلیل الرحمٰن اعظمی کی غزل سے لیا گیا ہے ا شعر میں شاعر اپنے آپ کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ اے میرے لہو کے سمندر مجھے صدیوں سے تمھاری صدا کا انتظار ہے۔مجھے پکارو کہ میں تمھاری پکار کا منتظر ہوں۔

Advertisement
میں اپنے گھر کو بلندی پہ چڑھ کے کیا دیکھوں
عروج فن مری دہلیز پر اتار مجھے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میرا فنی عروج وہ عروج کبھی نہ ہو کہ جو مجھے ایسی بلندی پر چڑھا دے کہ میں باقی سب حقیر جانوں بلکہ مجھے اپنے گھر کی بلندی پر چڑھ کر دیکھنے کی بجائے دہلیز کے پر اپنے فن کی بلندیوں کے ساتھ رہناہے۔

Advertisement
ابلتے دیکھی ہے سورج سے میں نے تاریکی
نہ راس آئے گی یہ صبح زر نگار مجھے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہر عروج کے ساتھ اس کا زوال پوشیدہ ہوتا ہے۔کہ وہ روشن سورج جسے ہم ناقابل تسخیر اور لازوال سمجھتے ہیں میں نے تو اس پر بھی تاریکی اترتے دیکھی ہے تو پھر یہ کیوں کر ممکن ہے مجھے یہ چمک دمک کی صبح راس آئے گی۔

کہے گا دل تو میں پتھر کے پاؤں چوموں گا
زمانہ لاکھ کرے آ کے سنگسار مجھے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس دنیا میں اور میری ذات پر میرے دل کا تسلط اور حکمرانی ہے اگر میرا دل مجھے کہے کہ میں پتھر کے پاؤں چوموں تو میں اس سے بھی گریز نہیں کروں گا۔چاہے پھر یہ زمانہ سزا کے طور پر مجھے سنگسار ہی کیوں نہ کردے۔

Advertisement
وہ فاقہ مست ہوں جس راہ سے گزرتا ہوں
سلام کرتا ہے آشوب روزگار مجھے

اس شعر میں شاعر اپنی بے روزگاری پر چوٹ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں تو اس قدر روزگار کی بد حالی کا ستایا ہوا ہوں کہ میں جس راستے سے بھی گزرتا ہوں تو وہاں کے آشوب روزگار بھی مجھے سلام کرتے ہیں۔

سوالوں کے جواب لکھیے:-

سوال نمبر01:مطلعے میں شاعر کو کس کی صدا کا انتظار ہے؟

مطلعے میں شاعر کو لہو کے سمندر سے صدا کا انتظار ہے۔

سوال نمبر02:شاعر اپنے گھر کو بلندی کی بجائے دہلیز پر اتر کر کیوں دیکھنا چاہتا ہے؟

کیوں کہ شاعر ایسی بلندی ہر گز نہیں چاہتا ہے کہ جو اس میں غرور و تکبر پیدا کر دے بلکہ وہ اپنے فن کی بلندی اپنے گھر کی دہلیز پر رہتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔

سوال نمبر03:درج ذیل شعر میں کیا کہا گیا ہے؟

کہے گا دل تو میں پتھر کے پاؤں چوموں گا
زمانہ لاکھ کرے آ کے سنگسار مجھے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس دنیا میں اور میری ذات پر میرے دل کا تسلط اور حکمرانی ہے اگر میرا دل مجھے کہے کہ میں پتھر کے پاؤں چوموں تو میں اس سے بھی گریز نہیں کروں گا۔چاہے پھر یہ زمانہ سزا کے طور پر مجھے سنگسار ہی کیوں نہ کردے۔

Advertisement

سوال نمبر04:غزل کے آخری شعر میں شاعر کس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے؟

غزل کے آخری شعر میں شاعر اپنی بے روزگاری اور زمانے کے بے روزگاروں کے ساتھ برتاؤ کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔

Advertisement

Advertisement