Essay on Fateh Makkah in urdu

0

غزوہ فتح مکہ

غزوہ عربی زبان کا لفظ ہےجسکی لغت یہ ہے: “غزاَ، یغزُو، غزواً و مغزی” مصدر ہے، جسکا مطلب ہے- “ارادہ کرنا،طلب کرنا،
الغرض “مغزی الکلام یعنی کلام کا مقصد”
“الغزو والسیر الٰی القتالِ مع العدوِّ : یعنی دشمن کے ساتھ لڑنے کی غرض سے چلنا اور “غزوہ اس جنگ کو کہتے ہیں.جس جنگ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود شرکت کی ہو!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزواة کی تعداد صحیح قول کے مطابق 27 ہے۔جسمیں قتریباً 9 غزواة میں قتل و قتلال کی نوبت در پیش آئی۔ جنگ بدر، احد، خندق، بنی قریظہ، بنی مصطلق، خیبر، فتح مکہ، حنین ، طائف.

سبب فتح مکہ

مالک بن عبادہ حضرمی ایک مرتبہ مالِ تجارت لے کر بنوخزاعہ کی سرزمیں، میں داخل ہوا. قبیلہ بنو خزاعہ کے لوگوں نے اسے قتل کر دیا. اور اسکا تمام مال و اسباب ضبط کر لیا.اور چونکہ مالک بن عبادہ بنو بکر کا حلیف تھا.اسلیے قبیلہ بنو بکر کے لوگوں نے موقع پاکر اس اک حضرمی کے بدلے میں بنو خزاعہ کے ایک شخص کو قتل کر ڈالا ، قبیلہ خزاعہ نے اپنے ایک شخص کے معاوضہ میں بنو بکر کے تین لوگوں کو قتل کر ڈالا.
زمانہ جاہلیت سے زمانہ بعثت تک ان دونوں قبیلوں میں اختلافات چل رھے تھے.”کہ اسلام کی تبلیغ شروع ہو چکی ہے.اور سارے کفار اسلام کی مخالفت میں مشغول ہو گئے.اور یہ سلسلہ حدیبیہ میں ایک میعادی صلح ہو جانے کی وجہ سے منقطع ہو گیا تھا.اور دونوں قبیلے ایک دوسرے سے مامون اور بے خوف ہو گئے تھے.
. دوسری جانب بنو بکر نے اپنی دشمنی نکالنے کا موقع غنیمت سمجھا.چناچہ بنو بکر میں سے “نوفل بن معاویہ دیلی نے مع اپنے ہمراہیوں کے ،”رات کے وقت شب خون مارا یعنی (حملہ کیا) بنو خزاعہ کا ایک چشمہ تھا.جسکا نام “وتیر” تھا.وہاں بنو بکر نے قبیلہ بنو خزاعہ کےایک شخص کو مار ڈالا.قبیلہ بنو خزاعہ کے لوگوں نے بھاگ کر “مکہ مکرمہ”پہنچے اور” بدیل بن وقار” کے مکان میں پناہ لی. لیکن قبیلہ بنو بکر کے لوگوں اور رؤسائے قریش نے قبیلہ بنو خزاعہ کے لوگوں کو گھر میں گھس کر مارا،اور نہایت ہی ظلم و ستم کیا.اس طرح عملاً قریش نے حدیبیہ کے معاہدے کو توڑا.کیونکہ بنو خزاعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاہد تھے.اور یہی معاہدے کی خلاف ورزی
فتح مکہ کی وجہ تسمیہ بنی.

” فتح مکہ “
—————————————-

نبی کریم صلی اللہ علیہ السلام 10 رمضان المبارک بمطابق 8 ھجری چہار شنبہ یعنی بدھ کے روز تقریباً 10ہزار کا لشکرِ جرّار ہمراہ لے کر غزوہ فتح مکہ کے لیے مدینہ سے روانہ ہوے.آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی روزے سے تھے اور صحابہ اکرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین بھی ،
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے روزے کی حالت میں سفر کیا.جب مقام کدید پر پہنچے جو قدید اور عصفان کے درمیان ایک چشمہ ہے. تو آپنے پانی طلب کیا. اور لوگوں کو دکھلا کر دن کے وقت افطار کیا.

(معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جس وقت مدینہ سے روانہ ہوے تھے. تو اس وقت” آپ” اور تمام” آپکے” اصحاب روزے تھے.مکہ کے قریب اثناۓ سفر صحابہ اکرام کی مشقت کے خیال سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے افطار فرمایا اور صحابہ اکرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین نے بھی روزے توڑ دیئے.

اول تو سفر فی نفسہ باعث مشقت اور تکلیف دہ تھا.پھر یہ بھی کہ یہ سفر جہاد تھا. اسلیے آپنے افطار فرمایا.کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے میں ضعف وکمزوری سے جہاد فی سبیل اللّٰہ کے لیے نقصان ہو سکتا ہے.
اسی وجہ سے حدیثِ مبارکہ میں ہے
“لیسَ من البرّ الصیام فی السّفرِ” :-
(بخاری صفحہ نمبر 613)
ترجمہ :- یعنی سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں، ہاں اگر سفر میں کوئ مشقت نہ ہو تو روزہ رکھنا ہی افضل ہے.
اور ارشادِ باری تعالی ہے:-
” وان تصوموا خیرلکم ” یعنی مریض اور مسافر کے لیے افطار جائز ہے، لیکن روزہ رکھنا افضل ہے.اور یہی امام اعظم رحمہ اللہ کا مسلک ہے.کہ سفر میں اگر مشقت کا اندیشہ نہ ہو تو روزہ رکھنا افضل ہے).
ادھر قریش کو یہ خبر ملی کہ رسول اللہ مدینہ سے روانہ ہو چکے ہیں.اسلیے “ابو سفیان بن حرب اور حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء اس تلاش میں نکلے کہ حضور کا پتہ لگائے.جب یہ لوگ “مرالظہران پہنچے تو ایک لشکر نظر آیا.پھر دور ،دور تک آگ کی روشنی دیکھ کر گھبرا گئے.
“ابو سفیان نے کہا یہ کسکی جماعت ہے؟ بدیل بن ورقاء نے کہا کہ بنو خزاعہ معلوم ہوتے ہیں.”ابو سفیان نے کہا کہ بنو خزاعہ کے پاس اتنا لشکر کہا سے آیا؟
ادھر سے حضرت عباس رضی اللہ اپنے خچر پر گشت لگاتے ہوے آ نکلے.”ابو سفیان نے انکو دیکھ کر فرمایا افسوس اے “ابو سفیان یہ محمد اور انکا لشکر ہے…….اب قریش کی خیریت اسی میں ہے کہ آپکی اطاعت قبول کر لیں.”ابو سفیان نے کہا حضرت عباس رضی اللہ سے کہ اے “ابوالفضل”

(کنیت ہے حضرت عباس رضی اللہ کی) کہ تمہارے صدقہ جائے بتاؤ رہائی کی کیا صورت ہے؟ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ،کہ میرے اس خچر پر سوار ہو جاؤ ،میں تیرے لیے رسول اللہ سے امن طلب کرونگا! ابو سفیان خچر پر سوار ہو گیا.حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے اسکو رسول اللہ کے سامنے پیش کیا.مگر فورا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ حاضر ہوئے اور عرض کیا،
یا رسول اللہ اجازت دیجیے میں اس اللہ کے دشمن کو قتل کر دوں.حضرت عباس رضی اللہ نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے اسکو اپنی پناہ دی ہے.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، کہ اس وقت اسکو اپنے خیمہ میں لے جاؤ. اور صبح میرے پاس لاؤ.”ابو سفیان تو رات بھر حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے خیمہ میں رہیں.مگر حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء نے اسی وقت بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا.

صبح ہوتے ہی “ابو سفیان کو بارگاہِ رسالت میں پیش کیا. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے “ابو سفیان سے فرمایا بڑا افسوس ہے! کہ تجھ پر اب یہ بات ظاہر ہوئی ،کہ “اللّٰہ کے سوا کوئ معبود نہیں”! ابوسفیان نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان “آپ کیسے حلیم و کریم ہے،صلہ رحمی کا آپکو کتنا خیال ہے. بے شک اگر اللہ کے سواء کوئ معبود ہوتا ،تو ہم لوگوں کی امداد کرتا. پھر ابو سفیان نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گیا.
. حضرت عباس نے عرض کیا یا رسول اللہ ابو سفیان سرداران مکہ میں سے ہے ،فخر کو پسند کرتا ہے ،آپ اسکے لیے کوئ امتیازی بات عطاء فرمائے.اللہ کے رسول نے فرمایا، کہ ہاں جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوا،اسکو امن ہے، جو مسجد حرم میں داخل ہوا، اسکو امن ہے، اور جو اپنا دروازہ بند کر لے اسکو بھی امن ہے. پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ کو حکم دیا کہ ابو سفیان کو لے کر ایسی گزرگاہ پر روکے رکھو، کہ وہ لشکر اسلام کو بخوبی دیکھ سکے. چناچہ یکے بعد دیگرے قبائل گزرتے. تو ابوسفیان دنگ رہ جاتے اور دریافت کرتے کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ حضرت عباس رضی اللہ بتاتے کہ یہ قبیلہ غفار ہے، یہ قبیلہ جہنیہ ہے، یہ حضرات انصار کا دستہ ہے،پھر آخر میں کوکب نبوی نمودار ہوا.
قریش میں دس ہزار کے لشکرِ جرّار کا مقابلہ کرنے کے تاب نہ تھی.انکی جانوں کے لالے پڑ گیے. لیکن رحمت اللعالمین نے مکہ میں داخلہ کے وقت مسلمانوں کو حکم دے دیا :- کہ جب تک کوئ شخص خود آپ لوگوں پر حملہ آور نہ ہو، تب تک آپ کسی پر تلوار نہ اٹھائیں.
. مک مکرمہ میں داخلے کے بعد عام اعلان کر دیا ، کہ جو شخص حرم میں چلا جائگا، یا ابوسفیان کے گھر میں چلا جائگا،یا دروازہ بند کر لیگا ،تو وہ مامون و محفوظ ہے. صرف
چند لوگوں نے مزاحمت کی ،جنمیں دو مسلمان شہید ہوے.اور بارہ یا تیرہ کفار مقتول ہوے.َ
ساتھ ہی ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند گستاخِ اسلام مردوں اور عورتوں کے متعلق حکم دیا ،کہ جہاں کہیں بھی ملیں فوراً قتل کر دیے جائے،اگر چہ وہ استارِکعبہ
(کعبہ کا غلاف) پکڑے ہوئے ہی کیوں نہ ہو.انہی میں ایک “عبداللہ بن خطل” تھا.یہ مسلمان ہو گیا تھا. اسکو رسول اللہ نے صدقات وصول کرنے کے لیے عامل بنا کر بھیجا تھا.اور خدمت کے لیے ایک مسلمان کو بھی اسکے ساتھ کر دیا تھا، کام میں کچھ اسکی مرضی کے خلاف ہونے کی وجہ سے اسنے مسلمان خادم کو بھی قتل کر دیا.پھر قصاص کے خوف سے مرتد ہو گیا. اور صدقات کے جانوروں کو لے کر بھاگ گیا. پھر یہ بدبخت آنحضرت کی ہجو میں اشعار کہتا تھا.
اس بدبخت کے تین جرم تھے. اول :-ناحق قتل کیا،
دوم:- مرتد ہو گیا،
سوم :- آپکی ہجو میں اشعار کہتا تھا.
اعلان کے بعد معلوم ھوا ،کہ
ابنِ خطل استارِ کعبہ سے چمٹا ہوا ہے، آنحضور نے فرمایا کہ اسکو وہیں قتل کر ڈالو.چناچہ “ابو بُرزہ اسلمی اور سعد بن حریث رضی اللہ عنہما نے اسکو وہیں جا کر قتل کر دیا.
. “رہا یہ شبعہ کہ حرم میں قتل”؟ تو اسکا جواب ہیکہ اس روز اللّٰہ رب العزت نے اپنے نبی کے لیے صبح سے عصر تک حلال کر دیا تھا.(مزید تفصیل کے لیے بخاری شریف کتاب المغازی صفحہ نمبر 617 اور حدیث نمبر 307 ملاحظہ فرمائے).

فتح کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجدِ حرام داخل ہوۓ.اور بیت اللہ کا طواف کیا. اس وقت یہاں 360 بت رکھے تھے. آپنے ان بتوں کو چھڑی سے گرانا شروع کیا. اور زبان البارک سے پڑھتے جاتے تھے.
“جاءَ الحق و زھقَ الباطل :-
حق آ گیا اور باطل مٹ گیا”
خانہ کعبہ کے اندر سے سارے بت نکال دیئے گئے. تمام شرک کی آلائشوں سے کعبہ کی تطہیر کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال اور حضرت اسامہ بن زید کے ساتھ اندر داخل ہوئے. اور نماز شکر اداء فرمائی. اسکے بعد بیت اللّٰہ کو توحید و تکبیر کی آوازوں سے منوّر کیا. پھر دروازہ کھول کر باہر تشریف لائے.تو کیا دیکھتے ہیں ،کہ مسجد حرام لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہے. سارے لوگ صف بستہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر تھے.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دروازے پر تشریف فرما ہوے اور اپنے یہ خطبہ دیا.جسکا خطاب نہ صرف عرب بلکہ صبح قیامت تک انے والے ہر مؤمن مرد و عورت کے لیے تھا.
. کہ اللّٰہ کے سواء کے کوئ معبود نہیں ،اسکا کوئ شریک نہیں ، اسنے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا کہ اسنے اپنے بندے کی مدد کی،اور دوشمنوں کی تمام جماعتوں کو تنہاء شکست دی، آگاہ ہو جاؤ کہ تمام مفاخر،سارے انتقامات و خوں بہائے قدیم سب لغو اور باطل ہیں ، مگر بیت اللّٰہ کی دربانی اور حاجیوں کو پانی پلانا حسبِ دستور برقرار رہینگے.

. اے کفارِ قریش اب جاہلیت کا غرور اور نسب کا افتخار خدا نے مٹا دیا ہے. “سب لوگ آدم سے ہیں ،اور آدم مٹی سے بنے تھے”. اسکے بعد اپنے قرآنِ کریم کی یہ ایت تلاوت فرمائ.
“یاایھاالناس انّ خلقنٰکم من ذکرٍ وانثٰی و جعلنٰکم شعوباً و قبائلَ لتعارفوا ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم ان اللّٰہ علیم خبیر” الخ

“اے لوگوں ہم نے تمکو مرد و عورت سے پیداء کیا ، اور تمہارے قبیلے اور خاندان بنائے ،تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو، اور در حقیقت اللّٰہ کے نزدیک سب سے زیادہ بزرگ وہی ہے،جو سب سے زیادہ خدا ترس ہو ،اللہ تعالٰی علیم و خبیر ہے”

اسکے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے قریش! تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کروں ؟
سب نے عرض کیا، یا رسول اللہ بھلائی کا، آپ خود شریف اور شریف بھائی کی اولاد ہیں ، حضور نے فرمایا :- کہ میں تم سے آج وہی کہتا ہوں “یوسف علیہ السلام” نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا.
“لا تثریب علیکم الیوم اذھبوا فانتم الطلقاء”:- یعنی آج تم پر کوئ ملامت نہیں،جاؤ تم سب آزاد ہو.
اور چند اشتہاری مجرموں کے علاوہ سب کو امان دے دی.جب نماز کا وقت ہوا،تو حضرت بلال رضی اللہ نے حضور کے حکم سے اذان دی.نماز سے فارغ ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوہِ صفاء پر تشریف لاۓ. اور بیت اللّٰہ کی جانب رخ کرکے دعا میں مشغول ہو گئے. دعا سے فارغ ہونے کے بعد کوہِ صفاء پر ہی تشریف فرما ہوۓ. اور کفار جوق در جوق آ کر بیعتِ اسلام سے مشرف ہوتے تھے. اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے باقی ایّام میں یہ اہتمام کیا. کہ مکہ کے اطراف میں جو بت تھے. انکو منہدم کیا جاۓ. چناچہ لات، منات، عزّیٰ، اور سواء منہدم کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرایّا روانہ کئے.