عورتوں کی حالت پر ایک مختصر مضمون

0

کسی بھی ملک کی تعمیر وترقی میں عورتوں کا مردوں کے برابر حصہ ہوتا ہے۔ مردوں کے ساتھ عورتیں بھی سماجی اور اقتصادی میدان میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرکے آگے بڑھ سکتی ہیں، جن معاشروں میں ترقی کی رفتار سست ہوتی ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ ان میں عورتوں کو آگے بڑھنے کے پورے مواقع میسر نہیں ہیں۔

جہاں تک ہندوستان کے عام معاشرہ کا تعلق ہے تو اس میں عورتوں کی حصہ داری، دن بدن بڑھ رہی ہے۔اس سے قبل ہندوستان میں مغربی حکومت کے دوران بہت سی سماجی برائیاں موجودتھیں۔ مثلاً دخترکشی، نوعمری شادیاں، تعلیم نسواں پر پابندی، ستی پرتھاوغیرہ اوران برائیوں کا اثر اتنا تھاکہ عورت کا جینا محال تھا۔

سماجی اصلاحی پیروکار مسلسل اس کوششمیں لگے تھے کہ ان برائیوں کا سدا کے لئے خاتمہ ہومفکر اور مصلحین نے پوری کوشش کے ساتھ ان برائیوں کو دورکرنے کا بیڑا اپنے سراٹھایا اوربرائیوں کے خلاف کھل کر مخالفت کرنے لگے۔ انگریز حکمراں نے بھی دخترکشی اوررسمِ ستی جیسی برائیوں کو غیر انسانی قرار دیامگر پھر بھی یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا۔ راجارام موہن رائے نے چھوٹی عمر کی شادی کثیرازدواج اورستی کی رسم کی مخالفت کی اورخواتین کی تعلیم کی حمایت کی۔ اس ردعمل سے متاثر ہوکر انگریز حکمراں نے اس پر قانون لاگو کرکے اسے غیرقانونی فعل قرار دیا۔ راجا رام موہن رائے نے برہمو سماج کی بنیاد رکھی اور بعدمیں سماجی اصلاحی تحریک کی شکل اختیارکی۔ انہوں نے بیوہ کی شادی کے لئے بھی مثبت اقدام اٹھائے اور سماج میں دیگر بڑھی برائیوں اوررسومات کی پرزور مخالفت کی۔

انیسویں صدی میں سماجی تحریک کسی قدر بہترثابت ہوئی اوربہت برائیاں ختم ہوئیں خواتین کوتعلیم کا موقع ملا۔ یہاں تک کہ کچھ خواتین انگریزی نے بان کی طرف بھی متوجہ ہونے لگیں۔ بلند حوصلہ سے ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے سیاسی میدان تک اپنے پرچم لہرائے ۔ہندوستان آزاد ہونے کے بعد خواتین کے حالات میں اور زیادہ سدھار آیا اورمرد اساس نظام میں انھیں بھی مساوی حقوق دیئے گئے۔

عدم مساوات پرقدغن لگایا اورتانیثی تحریک کی کامیابی کا ثبوت یہ ہوا کے عورتوں کوبھی ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہوا دیگر قوانین بھی عورتوں کی سہولیات کے لئے بنائے گئے تاکہ سماج اورخاص کر طبقہ ٔ نسواں مختلف بورڈ، اداروں سے فیضیاب ہوسکیں۔ سیاسی اصلاح کا روں نے صورت حال کو مدنظرہوئے قوم کی چھوٹی چھوٹی برائیوں پربھی غوروفکر کرتے ہوئے۔ جہیز کی مانگ، شراب نوشی، جنسی استحصال کے خلاف بھی اقدام اٹھائے جس کے تحت عصمت دری، بچہ مزدوری، جرائم کو فروغ دینے والے دوسرے تمام افعال کے خلاف احتجاج کیا۔

تانثیت کوفروغ ملاجس سے عورتوں کی خودمختاری وجودمیں آئی اورانہوں نے کچھ حدتک اپنی ذمہ داری کی کمان اپنے ہاتھ میں لینے کا عزم کیا اوراپنے تمام مسائل پرجدوجہد شروع کی۔ ہندوستان میں تانیثیت کے رویے نے سماجی سطح پر عوامی بیداری اورخوداعتمادی کو جنم دیا۔ حالانکہ تانیثی تحریک کومردوں نے شروع کیا اس کے ساتھ عورتیں بھی شریک ہوئیں۔ اسی طرح کی تحریکات نے ہندوستان میں عورتوں کونئی پہچان دلائی اور جدوجہد کا سلسلہ جاری ہے۔

مذکورہ تحریکوں سے جو نتیجہ سامنے آیا وہ اعتماد پسند اور اطمینان پسند تھا جس نے خواتین کی محرومی اوران پر ہونے والے ظلم کو دورکرتے ہوئے خواتین کے کردار کو اجاگر کیا اور ملکی، غیرملکی سطح پر خواتین کو ایک نئی روشنی میں لاکرکھڑا کیا جہاں پروہ خودکو محفوظ اور پراعتماد محسوس کرے۔