Superstition Essay In Urdu

0

توہم پرستی پر ایک مضمون

پہلے کسی بات کے بارے میں بے بنیاد خوف، اندیشے اور خیال پر یقین کرلینے کو توہم پرستی کہا جاتا ہے۔توہم پرستی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی زندگی کے ارتقاء کی۔ قدیم زمانے کے غیر مہذب اور وحشی انسان کے لئے وسیع کائنات کی ہر چیز پراسرار تھی۔ موسم کی تبدیلیاں سورج اور ستاروں کی گردش، زلزلے، آندھیاں، دریا، سمندر، وحشی اور خونخوار جانور یہ سب چیزیں اس کی عقل اور فہم سے بالاتر تھیں۔ ان کو تنہا ان سب کا مقابلہ کرنا تھا وہ تنہا بھی تھا اور ان سب سے کمزور بھی۔ اس کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ یہ سب کیا ہے؟ کیوں ہے؟ اور وہ ان سے کس طرح مقابلہ کرے۔

اس لیے وہ ہر طاقتور چیز سے خوف کھانے لگا۔ خوف نے اسے ان کی پوجا کرنے پر مجبور کیا۔ وہ اپنے گردوپیش کی چیزوں کی اصلیت سے لاعلم تھا اس لئے اس کے دماغ نے خیالی عقیدے تراشے اور وہم کی ابتدا ہوگئی۔

سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ عہد جہالت کے بہت سے توہمات ختم ہوتے گئے۔ انسان اپنے ماحول کو بہتر طریقے سے جان گیا بلکہ بہت سی قدرتی قوتوں کو بھی اس نے اپنے قابو میں کر لیا۔ لیکن پسماندہ ملکوں میں جہاں علم کی روشنی ابھی ٹھیک سے نہیں پھیل سکی ہے، لوگ بے بنیاد توہمات میں اب بھی یقین کرتے ہیں۔زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ ان کی توہمات کی شکلیں بھی بدلی ہیں۔ اب یہ پتہ لگانا بھی مشکل ہوتا ہے کہ کسی خاص وہم کی ابتدا کیوں کر اور کب ہوئی؟

توہم پرستی کی ہزاروں شکلیں ہیں۔ ہر ملک اور طبقے کے لوگوں میں مختلف قسم کے توہمات پائے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہی چیز کے بارے میں دو مختلف مقامات پر بالکل مختلف عقیدے پائے جاتے ہیں ایک چیز جو کہ ایک مقام پر مقدس سمجھی جاتی ہے۔ دوسری جگہ منحوس اور بری مانی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر عیسائیوں میں جمعہ کے دن کام شروع کرنا منحوس سمجھا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کے نزدیک یہ بہت مبارک دن ھوتا ھے۔

ھندوستانی عقیدے کے مطابق الو کا کسی مقام پر آواز لگانا تباہی اور موت کی علامت ہے لیکن انگریز الو کو فلسفی پرندہ کہتے ہیں اور اچھی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہمارے ملک کے اندر ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں توہمات کی شکلیں بدلی ہوئی ملتی ہیں۔ یوپی میں صبح صبح بھنگی کا نظر آ جانا منحوس علامت ہے لیکن پنجاب میں یہ ایک اچھی علامت ہے۔

یوں تو ہمارے ملک میں ہزاروں طرح طرح کے عقیدے اور شگون پائے جاتے ہیں لیکن ان میں سے خاص یہ ہیں۔ راہ چلتے میں بلی کا راستہ کاٹا جانا اس بات کی علامت ہے کہ ضرور کوئی ناخوشگوار حادثہ پیش آئے گا۔ سفر کے لئے روانہ ہوتے وقت چھینک آجائے تو سفر نا مبارک ثابت ہوگا۔ شکار جاتے وقت کوئی چاکو کا نام لے لے تو شکار ہاتھ نہیں آتا۔ صبح صبح کسی کانے یا بیوہ کی شکل نظر آجائے تو دن خراب گزرے گا۔

جمعرات کے دن علاج شروع کیا جائے تو مریض زندہ نہیں بچتا۔ خواب میں سانپ نظر آئے تو دولت ملتی ہے۔ صبح صبح کوے کا بولنا کسی مہمان کے آنے کی پیشن گوئی ہے۔ الو کا بولنا یا کتے کا رونا تباہی یا موت کا پیغام لاتا ہے۔

بالکل پسماندہ اور جاھل لوگوں کے توہمات کی فہرست اور بھی طویل ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا ان کی زندگی کی ہر چیز توہمات سے وابستہ ہے۔

جادو، ٹونا، ٹونکا، گنڈے تعویذ، بھوت پریت ان چیزوں پر ان کا اتنا ہی پختہ عقیدہ ہوتا ہے جتنا ہم اور آپ رات کے بعد دن آنے پر رکھتے ہیں۔اگرچہ تعلیم یافتہ لوگ ان توہمات میں یقین نہیں رکھتے پھر بھی یہ وہم ہمارے دماغ میں اس طرح رچ بس گئے ہیں کہ اگر ان علاقوں میں سے کوئی علامت پیش آجائے تو ایک قسم کی بے چینی ضرور ہوتی ہے کہ ایسا نہ ہوتا تو اچھا تھا۔

مغربی ممالک میں توہمات اتنے عام تو نہیں لیکن تھوڑے بہت ہیں۔ انگریز لوگ اب بھی تیرہ کے ہندسے کو منہوس سمجھتے ہیں۔ سیڑھی کے نیچے سے گزرنا بھی نامبارک مانتے ہیں۔ ایک ہی دیا سلائی کی تیلی سے 3 سگریٹ جلانا برا سمجھتے ہیں۔

توہمات کے بے شمار نقصانات ہیں۔ ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ انسان توہمات کو حقیقت مان کر بیٹھ جائے تو اصل حقیقت جاننے کے لیے کوشش چھوڑ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ نئی ایجادات اور انکشافات کے لیے جدوجہد نہیں کرتا۔

پس انسانی ترقی میں توہمات نے جتنی رکاوٹیں ڈالی ہیں وہ شاید کسی دوسری چیز نے نہیں ڈالی۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ سائنس اور فلسفے کے انکشافات اور ایجادات کرنے والوں کو توہمات نے جادو گر ٹھہرایا اور جہالت نے آگ میں جھونک دیا۔ یہ ایک حقیقت ہے۔