انسداد گداگری مضمون

0

ملک بھر میں ایک وبا کورونا کے نام سے پھیلتی جا رہی ہے، جس کا سدباب اب دریافت کر لیا گیا ہے۔ مگر ہماری اخلاقی گراوٹیں اس قدر پسماندگیوں کا شکار ہیں کہ ہم نے اس ایسی ایک اور وبا گداگری کے لیے آج تک کوئی اقدام نہیں کیا۔ آپ سگنل پر کھڑے ہو جائیں تو یہ لوگ برسات کی مینڈک کے ایسے زمین سے نمودار ہو جاتے ہیں اور گھیر کر آپ سے حق مانگنے کے ایسے پیسے طلب کرتے ہیں۔

اس پر ستم یہ کہ اپنی ڈیمانڈ کی رقم نہ ملنے پر بددعاؤں کا سہارا لیتے ہیں۔ سادہ لو ح انسان ان بددعاؤں سے ڈر کر ہراساں ہو کر ان کو بھتہ کی صورت رقم ادا کر دیتے ہیں۔ مگر یہ سراسر بدمعاشی کے زمرے میں آتا ہے۔ کہتے ہیں انسان سوال کرتا ہے تو اپنے لیے دوزخ مانگتا ہے۔ کسی مرد درویش کا لکھا پڑھا تھا کہ اندلس میں گداگروں کو اس عمل پر پکڑ کر لعن طعن کرتے ہیں۔ یہ رواج ایک بہترین سدباب کے طور پر ہم اپنے ملک میں متعارف کروا سکتے ہیں۔

اس سے نہ صرف جرم عام ہو رہا ہے، بلکہ حق دار و سفید پوش لوگوں کی حق تلفی ہو رہی ہے۔ ان کا حق چھینا جا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک بہت بڑا بگاڑ اس گداگری کے ناسور کا ہے۔ ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں اس طرح کا جرم سرعام ہو رہا ہے۔ مگر کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں۔ کم سن بچے اس کام پر لگا رکھے ہیں تو کہیں خواجہ سراؤں سے یہ کام لیا جا رہا ہے۔ بقول شاعر؀

شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے​
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی​

جی ہاں اس کام میں سرکاری اہلکار بھی شامل ہیں جو کہ اپنے اپنے حصے کا آگے ان سے وصولتے ہیں۔ اس پر کڑی سزائیں دی جائیں اور اس کی روک تھام کے لیے قانون بنایا جائے۔ ہماری مذہب اسلام میں بھی گداگری کی مذمت کی گئی ہے۔

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رض سے روایت ہے کہ ہم نو آٹھ یا سات آدمی آنخضرت کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ ﷺ نے ہم سے فرمایا :
”کیا تم خدا کے رسول ﷺ سے بیعت نہیں کرتے۔“ ہم نے فوراً ہاتھ بڑھایا لیکن چونکہ ہم چند دن پہلے ہی بیعت کر چکے تھے۔ ہم نے عرض کیا :
”یارسول اللہﷺ ! ہم تو ابھی بیعت کرچکے ہیں، آپ ﷺ ہم سے کس بات پر بیعت لیتے ہیں؟“ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
”اس بات پر کے اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو اور احکام الہی بجا لاؤ۔ پھر آہستہ سے فرمایا :
یعنی لوگوں سے کچھ نہ مانگو۔“