ہمت مرداں مدد خدا مضمون

0

ہمت کرے انسان تو کیا ہونہیں سکت

ہمت، تحمل اور بردباری کا مطلب کسی کام کو پختگ ہے· ارادہ سے انجام دینا اور اس کام کو پایہ اور تکمیل تک پہنچانے میں جو دشواریاں اور مشکلات آئیں۔ انہیں برداشت کرکے ثابت قدم رہنا ہے۔ ہمت ہر مشکل کام کو آسان بنادیتی ہے۔ہمت کے استعمال سے گریز کرنے والا انسان سستی، کاہلی اور نکمے پن کو دعوت دیتا ہے۔ اللہ نے انسان کو جتنی بھی صلاحیتیں عطا کیں ہیں۔ اس کا صحیح استعمال انسان کو انسانیت کے عظیم درجے پر پہنچا دیتا ہے۔

مشکلے سنیت کہ آسان نشود
مرد باید کہ ہر اساں نشود دنیاکی ترقی، ایجادات، تحقیق ق تجسس، سائنس کے کارنامے، انجن، ریل گاڑیاں، مواصلاتی نظام، ٹیلیفون اور ایٹمی توانائی، انسان کی چاند تک پہنچ اور ہوا، آگ اور پانی پر حکمرانی سب ہمت کے کرشمے ہیں۔ اگر انسان ہمت کرے تو مٹی سے سونا پیدا کرسکتا ہے۔ تاریکیوں کا سفر ترک کرکے شہرت و دولت حاصل کرسکتا ہے۔ ہمت اور صحیح طریقے پر محنت کے بغیر کوئی شخص کامیابی حاصل نہیں کرسکتا


نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا، تب نگین ہوا ہمت، محنت، استقلال، اور بردباری کے ذریعے ہی بڑے بڑے سیاستدان، ڈاکٹر، ماہرین فن، موجد و مہ اور قلمکار اس مقامِ خاص تک پہنچے جہاں آج ہم انہیں کھڑا ہوا پاتے ہیں۔ تمام افراد جو کامیابی کے اس زینے تک پہنچے وہ مشکلات و مصائب کا مقابلہ ثابت قدمی سے کرتے ہوئے اپنے نصب العین کی طرف گامزن رہے اور بالآخر منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔ انسان کے کے لئے کوئی کام مشکل و ناممکن نہیں ہوتاسوائے ان کاموں کے جو اللہ تعالی کی ذات کے مخصوص ہیں۔ مثلاً تخلیقِ کائنات صرف خداوندِ کریم ہی کرسکتا ہے۔ کوئی دوسرا اس کا اہل نہیں ہوسکتا۔ آج کا انسان چاند تک پہنچ چکا ہے۔ زمین و آسمان، کوہسار و یگزار اور ہوا و پانی غرض ہر شے کو تسخیر کرچکا ہے۔ اور یہ سب کچھ صرف ہمت، محنت، لگن، استقلال اور عزمِ صمیم کی بدولت ہے۔


ہمت کے آگے نہ سمندر رکاوٹ بن سکتا ہے اور نہ پہاڑ ہمت میں لغزش پیدا کرسکتے ہیں اور نہ ہی دشت و صحرا آج تک انسان کا راستہ روک سکے ہیں۔ طارق بن زیاد نے اپنی ہمت و شجاعت کا عملی مظاہرہ کیا، جنگِ بدر میں مجاہدینِ اسلام نے اس کا عملی ثبوت دیا ، اندلس کی سرزمین مسلمانوں کی ہمت و عظمت کی گواہ ہے اور افغانستان سے روسیوں کا انخلاءعظم و ہمت کی منہ بولتی تصویر ہے۔


ابھی کل ہی کی بات ہے کہ مارے عظیم رہنما قائد اعظم نے ناممکن کو ممکن کردکھایا۔ ایک طرف انگریزوں کی مکاری اور چابازی تھی تو دوسری طرف ہندو کا تعصب تھا۔ ستم بالاستم اپنوں میں بھی بیگانے موجود تھے۔ قائدِ اعظم اور دیگر رہنما نے بشمول برصغیر کے تمام مسلمانوں نے ہمت اور عزم سے کام لیا اور ثابت قدم رہے۔ شجاعت و بردباری سے ایک مضبوط چٹان کی طرح دشمنوں کے سامنے ڈٹے رہے اور بالآخر خدا نے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اسی طرح دنیا کی دیگر بڑی بڑی ہستیوں کی سوانح حیات کا مطالعہ ہمیں ان کی کامیابی میں پنہاں راز تک پہنچا دے گا جو کہ ہمت و استقلال میں پوشیدہ ہے۔
قائدِ اعظم کا قول ہے کہ:

کسی کام کو کرنے سے پہلے سوبار سوچو کہ یہ کام ٹھیک ہے مجھے ایسا کرنا چاہئے۔ جب تمہارا ذہن فیصلہ دے دے کہ ہاں ایسا کرنا درست ہے۔ اس میں کوئی برائی نہیں تو اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مضمم ارادہ کرلو اور دم اس وقت لو جب اسے پورا کرلو۔ اس بات سے نہ گھبرا کے راستے میں مشکلات آئیں گی، رکاوٹیں ہونگی، دشمنوں کی مخالفت ہوگی۔ اپنی منزل کی طرف نگاہ کرکے آگے بڑھتے چلے جاو۔ انشاءاللہ کامیابی ضرور تمہارے قدم چومے گی۔ بقول شاعر
وہ کون سا عقیدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا