Essay On Jahez In Urdu

0

جہیز کی لعنت

ہمارے سماج میں جہیز ایک بہت بڑی لعنت ہے۔ جہاں اور بہت سے بڑے رسم ورواج وقت کے ساتھ ختم ہوگئے۔ مثلاً ستی کی رسم،بچوں کی شادی اور کسی حد تک چھوت چھات وغیرہ کا خاتمہ ہوگیا مگر یہ جہیز کی رسم وقت کے ساتھ کچھ اور ہی زیادہ پروان چڑھ رہی ہے۔

پہلے زمانے میں یہ رسم کچھ اس طرح سے تھی کہ لوگ اپنی حیثیت کے لحاظ سے اپنی لڑکیوں کو جہیز دیتے تھے۔ ان کو اس قسم کا سامان دیتے تھے جس سے کہ وہ اپنا گھر بنا سکے۔ مگر رفتہ رفتہ جہیز دینا ضروری ہوگیا۔ اب لڑکا اور اس کے ماں باپ اپنی مرضی سے جہیز مانگتے ہیں اور یہ لوگ جہیز دینے کے بعد شادی طے کرتے ہیں۔

ویسے تو جیسا کہ میں نے لکھا ہے کہ رسم بہت پرانی ہے۔رامائن میں بھی بتایا گیا ہے کہ جب رام چندر جی اور ان کے بھائیوں کی شادیاں ہوئی تھیں تو ان کی بیویوں کے والدین ان کو تحفے دیتے تھے۔ ان کو تحفوں میں زیورات اور جائیداد بھی دیتے تھے۔ جہیز کا کاروان ہندوستان سے ختم نہیں ہو رہا اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہاں عورتوں کو مردوں کے مقابلے کم تر سمجھا جاتا ہے۔ لڑکی کا باپ لڑکے کے مقابلے میں اپنے آپ کو کمتر سمجھتا ہے اور لڑکے کا باپ اگر کسی کی لڑکی کو اپنے لڑکے کے لیے پسند کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ لڑکی کے باپ پر حسان کر رہا ہے اور اس احسان کا بدلہ چکانے کے لئے جہیز دیا جاتا ہے۔ اس بات کا احساس بہت کم لوگوں کو ہے کہ خدا کی نظر میں مرد اور عورت کی حیثیت ایک ہی ہے اور عورت کو مرد کے مقابلے میں کم سمجھنا گناہ ہے۔

عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں کم تر سمجھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عورتوں میں تعلیم بہت کم ہے۔ وہ اپنے حقوق کو نہیں سمجھتی ہیں۔ان کے سسرال کے لوگ جو باتیں انہیں بتاتے ہیں وہ انہیں پر چلتی ہیں اور اسے ہی اپنا فرض سمجھتی ہیں۔جہیز کا رواج نہ ختم ہونے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ مالی اعتبار سے بھی عورتیں مردوں کی آمدنی پر گزارا کرتی ہیں۔ مرد روپیہ کما کر روٹی کا انتظام کرتا ہے اس کا خیال ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسرے کی بیٹی کے لیے روٹی فراہم کرتا ہے اور اس وجہ سے وہ جہیز مانگتا ہے اور اس بات کو دیکھتے ہوئے لڑکی کا باپ جہیز دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

جو لوگ جہیز کی موافقت کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ باپ کی جائداد کا کچھ حصہ لڑکی کو ضرور ملنا چاہیے۔ ویسے ان لوگوں کے اس خیال میں پختگی نہیں ہے۔ شادی کے بعد لڑکی کو ایک نیا گھر ملتا ہے اور لڑکے کو بیوی ملتی ہے جو کہ اس کے گھر کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ دونوں کی ضروریات برابر کی ہیں جس میں دونوں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ مگر جہیز ہی کی وجہ سے عورتوں کو سماج میں وہ عزت حاصل نہیں ہوتی جو کہ مردوں کو ہے اور اسی وجہ سے اکثر عورتیں احساس کمتری کا شکار رہتی ہیں۔اس کا اثر ان کی پوری زندگی پر پڑتا ہے۔ ان کے گھروں کا سکون درہم برہم ہو جاتا ہے۔ آج کل جب اخبار اٹھائے تو آپ کو کوئی نہ کوئی خبر ایسی ضرور نظر آئے گی جس میں لکھا ہو گا کہ لڑکی نے سسرال والوں کے برے سلوک سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔ یہ سب کچھ جہیز کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب لڑکے والوں کو توقع سے کم جہیز ملتا ہے تو وہ لڑکی کو ہر طرح سے پریشان کرتے ہیں۔

ان کے برے سلوک سے تنگ آ کر اکثر لڑکیاں خود کشی کر لیتی ہیں۔ بعض لوگ اپنی بہو کو زندہ جلا دیتے ہیں اور ان کا قصور صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ زیادہ جہیز کیوں نہیں لائیں۔کچھ والدین اپنی لڑکی کا جہیز تیار کرنے کے لیے اپنی ساری جائیداد بیچ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی آمدنی ختم ہو جاتی ہے اور وہ اپنے بچوں کو تعلیم سے محروم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس طرح بہت سے ذہن ختم ہو جاتے ہیں۔ وہ ذہن آگے چل کر ملک کی ترقی میں بہت مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔یہ بات اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ وہ لوگ جن کے صرف لڑکیاں ہوتی ہیں اور لڑکے نہیں ہوتے وہ بدقسمت سمجھے جاتے ہیں اور جن کے محض لڑکے ہوتے ہیں اور لڑکیاں نہیں ہوتی خوش قسمت سمجھے جاتے ہیں۔ تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر اس رسم کو ختم کر دیا جائے تو ہمارے ملک اور سماج کو کتنا فائدہ ہو سکتا ہے۔

ویسے اب وقت آگیا ہے کہ ہم حالات سے فائدہ اٹھا کر ایسے ثابت قدم اٹھائیں جس سے کہ اس مصیبت سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارہ پایا جاسکے۔ اس سے چھٹکارہ پانے کا ایک ہی طریقہ ہوسکتا ہے کہ لڑکیوں میں تعلیم پھیلائی جائے، لڑکے اور لڑکیوں کو برابر کی تعلیم دی جائے۔ عورتوں کو ان کے حقوق کا احساس دلایا جائے اور ان کو اس بات کا بھی احساس دلایا جائے کہ سماج کو بنانے اور سنوارنے میں ان کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ عورتوں کو نوکریاں دی جائیں، عورتوں کے نوکریاں کرنے سے بھی جہیز کی رسم میں کمی آئے گی۔