Essay On Uswa Hasana in Urdu

0

اُسوہ حسنہ پر ایک مضمون

  • جب انسان اس دنیا میں آتا ہے اور جیسے جیسے سوچنے اور سمجھنے لگتا ہے تو وہ اپنے اردگرد کے ماحول میں جن چیزوں کو اچھا سمجھتا ہے ان کو اپنے لیے نمونہ بنا لیتا ہے۔ اور جیسے جیسے وہ اور بڑا ہوتا ہے اپنے پڑوس میں رہنے والوں کو اپنے لیے نمونہ بنا کر ان کے جیسا بننے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔
  • بچے اپنے گھروں میں آکر اپنے والدین سے فرمائش کرنے لگتے ہیں کہ جیسا اس نے دوسرے بچے کو پہنے دیکھا ہے اسے ویسا ہی لباس چاہئیے۔ جیسا اس نے اپنے باہر کھیلتے بچے کو دیکھا ہے اس کو بالکل ویسا ہی کھلونا چاہیے۔ ہر طرح سے وہ اپنے باہری ماحول کی برابری کرنے لگتا ہے۔
  • انسان کی پیدائشی فطرت ہی ایسی ہے کہ جس کو بھی وہ پسند کرتا ہے ویسا ہی بننا چاہتا ہے۔ چاہے اس کو کسی کی صورت پسند آجائے یا کسی کا لباس پسند آجائے تو اس کو ویسا ہی لباس چاہیے اور ویسی ہی صورت بنانا چاہتا ہے جیسے اسے پسند ہے۔
  • اللہ تبارک و تعالی نے انسان کے اندر وہ چیز پیدا کی ہے کہ وہ جسے دل سے چاہے گا ویسا ہی بننا چاہے گا۔یہاں پر دیکھنا یہ ہے کہ ایک مسلمان ایک مومن جس نے لا الہ اللہ محمدرسول اللہ پڑھ کر ایک نئی زندگی کا آغاز کیا اس کوکیسا بننا چاہیے اور کس کو اپنا نمونہ بنانا چاہیے۔
  • ایک مسلمان کو اس کی اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی کو دیکھے اور اس کی طرح بننے کی خواہش کرے۔یہ مسلمان کو خود سوچنا ہے کہ وہ کون سی شخصیت کو پسند کرے اور کس کو نمونہ بنا کر اپنی زندگی میں ڈھال لے۔
  • جب انسان پہلا کلمہ پڑھنے کے بعد دوسرا کلمہ پڑھتا ہے تو اس میں وہ خود گواہی دیتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو عبداللہ کے بیٹے ہیں وہ اللہ کے رسول ہیں اور میرے رہنما ہیں۔ وہ جیسے جیسے کریں گے میں ویسا ویسا کرونگا اور جیسے بنیں گے ویسا ہی بنوں گا۔
  • مسلمان سیکڑوں بار کلمہ پڑھتا ہے لیکن یہ نہیں سمجھتا کہ اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی اپنی زندگی کا نمونہ بنانا چاہیے اور انکی ہی پیروی ہمیشہ کرنی چاہئے۔
  • اللہ تبارک و تعالی نے قرآن مجید میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوه کسی کا اسوہ اختیار کرنے کو نہیں کہا ہے۔ قرآن پاک میں ہے کہ جس نے اللہ کے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کر لی۔ یہ رتبہ اور یہ مقام کسی اور پیغمبر کو نہیں ملا کہ کوئی ان کی اطاعت کرے اور اللہ کی اطاعت ہو جائے۔ یہ مرتبہ صرف حضور اکرم ﷺ کو ملا۔
  • آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو کامل٬ اکمل اور بہترین و خوبصورت تھا۔ آپ کی زندگی کے کسی پہلو میں کوئی بھی کمی اور نقص نہیں تھا۔ آپ نے ہر ایک رشتے کے حقوق کو پوری طرح سے ادا کیا ہے۔
  • آپﷺ اپنی زندگی میں دوست بھی رہے اور پڑوسی بھی۔ آپ نے دوست کا بھی حق ادا کیا اور پڑوسی کا بھی۔ آپ کی تجارتی معاملات میں کافر اور مشرک بھی شریک تھے اور وہ یہ گواہی دیتے تھے کہ ہم نے آپ جیسا مجسمہ اخلاق کہیں نہیں دیکھا۔
  • آپﷺ حکمراں بھی تھے۔ آپ کے حکم سے مجرموں کو کوڑے بھی لگتے تھے۔ مجرموں کے ہاتھ بھی کاٹے جاتے اور سر بھی قلم کیے جاتے تھے۔ لیکن کوئی بھی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ نے کسی پر ظلم کیا کیونکہ آپ نے ہمیشہ سب کے ساتھ انصاف کا معاملہ کیا۔
  • آپﷺ ایک بے مثال مجاہد تھے جن کے حکم سے 100 سے بھی زیادہ جنگیں لڑی گئیں- آپ نے کبھی دشمنوں کے بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا۔
  • ایک جنگ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام حضرت عصامہ نے ایک شخص کو قتل کر دیا جس نے لا الہ الا اللہ کہہ دیا تھا۔ حضور نے عصامہ کو بلایا اور خوب ڈانٹا۔ تو حضرت عصامہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس نے موت کے خوف سے لا الہ الا اللہ کہا تھا۔ تو حضور نے کہا کہ آپ نے اس کے دل کو تو چیر کر کیوں نہیں دیکھا کہ وہ موت کا خوف تھا یا پھر سچ میں اُس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ پیارے نبی نے اللہ سے دعا کی کہ یااللہ میں عصامہ کے ظلم کرنے میں شریک نہیں ہوں اور عصامہ سے کہا کہ قیامت کے دن وہ شخص تمہارا دامن تھامے گا جس کا تم نے قتل کیا ہے۔ اور جس شخص کا قتل ہوا تھا حضور نے اس کے لیے دعا کی کہ اللہ اس سے راضی ہوجائے۔
  • حضور نبی کریم ﷺ کبھی غلط فیصلہ نہیں کرتے تھے۔ حضور سے بہتر کسی اور کی پیروی ہو ہی نہیں سکتی۔ وہ ہر طرح سے قابل تعریف ہیں۔ اس لئے ہم سب کو چاہیے کہ کسی اور کی پیروی نہ کر کے حضور کی پیروی کریں، تبھی اللہ پاک ہم سے راضی ہوگا-