Essay On Patriotism In Urdu

0

حبِ وطنی پر ایک مضمون

حب وطنی کا مطلب اپنے ملک کے لئے وفادار ہونا ہے۔ جہاں ملک کی وفاداری کی بات آتی ہے تو سب سے پہلے ہمارے ملک کی سرحد کے سپاہیوں کا نام ہی آتا ہے، جو اپنے ملک کے لیے اپنی جان قربان کرکے اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے ہیں۔

ملک میں کچھ غدار بھی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ملک برباد ہونے کی کگار پر ہوتا ہے۔ کچھ لوگ چند روپیوں کے لیے دوسرے ملکوں سے مل کر خود کے دیش میں دنگے فسادات کرواتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک کے آپسی بھائی چارے اور ہندو مسلم اور دوسرے سبھی مذہبوں میں رنجشیں پیدا ہونے لگتی ہیں اور یہ لوگ ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے لگتے ہیں۔

بعض لوگ اپنے ملک کے لیے محبت تو جتاتے ہیں لیکن ملک کے لئے ان پر جو فرائض عائد کیے گئےہیں وہ انہیں صحیح طور پر پورا نہیں کرتے۔ملک سے محبت کرنے کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ آزادی والے دن کو بڑے ہی جوش وخروش کے ساتھ منایا جائے بلکہ ہر وہ بات جو اسپیچ کے دوران ہم دوسروں تک پہنچاتے ہیں اس کو سب سے پہلے اپنی زندگی میں اُتاریں۔ سب سے پہلے ملک کے بنائے ہوئے رولز یعنی قواعد و ضوابط خود اپنانے چاہیے اور کچھ بھی ہو جائے کبھی بھی ان قوانین کو توڑنا نہیں چاہیے۔

آج کے دور میں لوگ اچھے اچھے لکچر اور اچھے پوسٹر تو لگا لیتے ہیں مگر انہیں سمجھنا ہوگا کہ صرف اچھے پوسٹر یا اچھے لکچر دینے یا دیواروں پر اچھی لائینیں لکھنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اگر ملک سے واقعی محبت ہے تو انہیں سچے دل سے اپنے فرائض کو سرانجام دینا ہو گا۔آج اس دنیا میں دیش دیش کرنے والے تو بہت مل جائیں گے مگر سچی محبت کرنے والے بہت کم ہی ملیں گے۔

آج سے بہت سال آزادی سے پہلے ملک سے سچی محبت کرنے والے کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے ملک کی آزادی کے لیے اپنی جانیں تک قربان کر دیں اور اس ملک کو انگریزوں سے آزاد کروایا۔ جس کی وجہ سے ہماری زندگی خوش گوار بن گئی۔ ہمیں آزادی دلانے والے قوم کے ان رہنماؤں کی قدر کرنی چاہیے اور ان بتائے ہوئے احکامات اپنانے چاہیے۔

آج ہم کھلی ہوا میں آزادی سے سانس لے سکتے ہیں تو اس کی وجہ ملک کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمارے پیارے ملک کے لئے قربانی دی۔ ان میں چندر شیکھر آزاد، مہاتماگاندھی، بھگت سنگھ اور حسرت موہانی وغیرہ کا نام آتا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا بھر میں انقلاب کے نعرے لگائے اور ملک کو آزاد کروایا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں فرنگی لوگ خون کے آنسو رولاتے رہے، ظلم پہ ظلم کرتے رہے، مگر انہوں نے کسی طرح سے ہار نہیں مانی۔ کیونکہ واقعی یہ لوگ ملک کے ساتھ سچے دل سے محبت کرتے تھے۔ دیش کے لوگوں سے محبت کرتے تھے۔ اس لئے خود سولی پر چڑھ گئے اور ہم سب کو ایک آزاد زندگی دے گئے۔ہمیں ان ہونہار بہادروں پر فخر ہے۔

لیکن آج کے لوگ ان کے نام کی اور ان کی قربانی کی تو قدر کرتے ہیں مگر اس اس آزاد ملک کی قدر نہیں کر رہے ہیں۔ملک سے محبت کرنے والے سپاہی خود سرحد پر قربان ہو جاتے ہیں اور اپنے گھر کو اکیلا چھوڑ جاتے ہیں۔

اگر ملک کا ہر انسان اپنے ملک کے لیے وفادار بن جائے اور مذہب پر سیاست کرنا اور لڑنا بند کر دے تو ملک بھر میں جنگیں ہونی بھی بند ہو جائیں اور کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ:

“جنگ تو چند روز ہوتی ہے
زندگی برسوں تلک روتی ہے-“

ہمیں دیش بھر میں ہونے والی رنجشوں اور نفرتوں کو روکنا ہوگا۔ ملک کے بارے میں ہر وقت سوچنا اور ہمیشہ اپنا فرض نبھانا ہوگا۔ تب جا کر ہم ملک کے لیے واقعی وفادار ثابت ہوں گے۔اور ان سب کی شروعات ہم سب کو چھوٹے چھوٹے کاموں سے کرنی ہوگی۔

  • ملک میں شروع ہونے والے “سوچھ بھارت ابھیان” کا ساتھ دینا چاہیے۔
  • پانی کا کم سے کم استعمال کرنا چاہئے۔ کیونکہ پانی کی فضول خرچی سے دیش پریشانیوں میں آسکتا ہے۔
  • جب بھی ہمیں کہیں بھی سفر کرنا ہو، چاہے لمبا ہو یا چھوٹا بنا ٹکٹ کے نہیں کرنا چاہیے۔
  • ملک کے سبھی ٹیکس کو وقت پر دے دینا چاہیے۔
  • بجلی کا فضول استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ جتنا بجلی کا استعمال کم ہوگا دیش کو اتنا زیادہ فائدہ ہوگا۔
  • سرکاری نوکری ہو یا پرائیویٹ ،کبھی بھی اس میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔
  • ملک کے غداروں کا کبھی بھی ساتھ نہیں دینا چاہیے چاہے وہ اپنے مذہب کے ہوں یا کسی اور مذہب کے۔

تب جاکر ہم اس دیش کے سچے وفادار بنیں گے۔ تب جا کر یہ دیش ترقی کرے گا اور آسمان کی بلندیوں کو چھو پائے گا۔آج ہمارے دیش کی حالت بہت زیادہ خراب ہے۔ یہ تبھی ٹھیک ہوسکتی ہے جب ہم ہرطرح سے وفا داری نبھائیں گے۔

سالوں پہلے سونے کی چڑیا کے نام سے جانا جانے والا یہ ملک آج جیسے کھو سا گیا ہے۔ اگر ملک کے سبھی لوگ اس سے محبت کرنے لگیں اور ملک کے بنائے قانون کو ماننے لگیں تو ہو سکتا ہے ہمارا ملک پھر سے “سونے کی چڑیا” کہا جانے لگے۔