تغیر کے موضوع پر ایک مضمون

0

انسان تنوع پسند ہے اور تغیر پند بھی کبھی تو اس کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ اس کے دل کو بھا جانے والی ہر چیز کو بھی زوال نہ آۓ۔ پھول ہمیشہ کھلے رہیں ، بہار بھی لوٹ کر نہ جاۓ ، جوانی اور اس کی توانائیاں ہمیشہ ہمیشہ باقی و برقرار رہیں۔ حسن کا ہر مظہر سدا بہار رہے بلکہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ مصنوعی پھول بناتا ہے، زوال پذیر حسن کا میک اپ کرتا اور میک اپ کے سامان کے انبار لگاتا اور بیوٹی پارلر کھولتا ہے۔ انسانی فطرت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ تغیر پسند ہے۔ آج جس چیز کی تمنا اور اس کے حصول کے لیے تگ دو کرتا ہے، وہ مل جائے تو اس سے اکتانے لگتا ہے۔

سردیوں میں ، گرمیوں اور گرمیوں میں سردیوں کے آنے کی دعا کرتا ہے۔ ہر پسندیدہ غذا شوق سے کھاتا ہے مگر اس سے چند دن بعد تنگ آ جاتا ہے۔ کتنے کروڑ پتی بھی بن کر دنیا میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ فیشن بدلتے ہیں، اور ذہن بھی۔ ناشکرا انسان تو اللہ تعالی کی نعمتوں سے بھی منہ موڑ لیتا ہے۔ حتی کہ حضرت موسی کی قوم من و سلوئی میں بھی تبدیلی کی خواہاں ہو جاتی ہے۔

پسند اور ناپسند اپنی جگہ، حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا حسن اور دوام تغیر سے وابستہ ہے۔ علامہ اقبال نے یہ پتے کی بات ایک تمثیلی انداز میں بانگ درا میں سمجھائی ہے کہ حسن نے اللہ تعالی سے شکایت کی کہ اسے پیشگی کیوں نہ بخشی تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہ دنیا ایسا تصویر خانہ ہے جس کی پرچھائیاں مسلسل بدلتی ہیں اور حقیقت میں حسن کی قدر بھی تغیر سے وابستہ ہے۔ کائنات کا سارا نظام تغیر اور تبدیلی سے وابستہ ہے۔ دن رات بدلتے ہیں ،موسم تبدیل ہوتے ہیں۔سمندروں میں مد اور جزر باری باری آتے جاتے ہیں۔ ابھی تبدیلیوں سے پورا نظام فطرت بخوبی چل رہا ہے۔ نہ صرف مادی دنیا کا نظام بلکہ خود انسان بھی نظام فطرت کا ایسا کارکن ہے جو تغیر وتبدل کے لیے کوشاں رہتا ہے۔Advertisement

راحتیں اور آسائشیں تبدیلیوں سے ممکن ہیں۔ گرمیوں میں اے سی اور سردیوں میں کمروں کو گرم رکھنے کے خود کار نظام، گاڑیوں میں ائیر کنڈیشنر وغیرہ سب تبدیلیاں ہیں جو سہولیات دیتی ہیں۔ ذرا تصور کیجیے اگر دنیا میں سورج ہمیشہ چمکتا رہے، موسم بھی نہ بدلیں، سمندر میں پانی کا اتار چڑھاؤ ایک روپ لے لے تو کیا یہ دنیا تباہ شدہ نہ ہو جاۓ؟ اگر سارے انسان سدا جوان رہیں تو گرم خون کے طفیل فسادات پھیل جائیں گے۔ انسان یکسانیت سے اکتا جاۓ گا۔ تبدیلی کی خواہش مٹ جاۓ ، ترقی کا پہیہ جام ہو جاۓ گا۔ تغیر ہی حسن ، ترقی اور ارتقا کا ذریعہ ہے اور یہی کائنات کی خوبصورتی کا باعث ہے۔ یہاں دوام صرف ایک ذات یکتا کو ہے اور بس۔

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں