Kab Tere Husn Se Inkar Kiya Maine | کب ترے حسن سے انکار کیا میں نے تشریح

0
  • کتاب “سب رنگ” برائے نویں جماعت
  • سبق نمبر10:نظم
  • شاعر کا نام: جاں نثار اختر
  • نظم کا نام: کب ترے حسن سے انکار کیا میں نے

تعارف شاعر:-

جاں نثار اختر کا پورا نام سید جاں نثارحسین رضوی تھا۔ آبائی وطن قصبہ خیر آباد (یو پی ) تھا۔ ان کی پیدائش گوالیار میں ہوئی۔ وہ ایک ایسے گھرانے کے چشم و چراغ تھے جو کئی نسلوں سے علم وادب کا گہوارہ تھا۔ ان کے والد مضطر خیر آبادی اپنے دور کے مشہور شاعر تھے۔ جاں نثار اختر کی تعلیم گوالیار اور علی گڑھ میں ہوئی۔ کچھ عرصے تک حمیدیہ کالج ،بھوپال میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیے۔ اس کے بعد میں چلے گئے اور ایک نغمہ نگار کے طور ممبئی کی فلمی دنیا سے وابستہ ہو گئے۔

ان کے کلام کے سات مجموعے سلاسل، تارگر یباں ، نذر بتاں ، جاوداں ، گھر آنگن، خاک دل اور پچھلے پہر شائع ہو چکے ہیں۔ انھیں سوویت دیس نہرو ایوارڈ اور ساہیتہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

اشعار کی تشریح:

کب ترے حسن سے انکار کیا میں نے
زندگی تجھ سے بہت پیار کیا میں نے

یہ اشعار جاں نثار اختر کے گیت سے لیے گئے ہیں۔اس شعر میں شاعر زندگی سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے زندگی تم بہت حسین ہو اور ہم کبھی بھی تیرے حسن سے انکاری نہیں رہے ہیں۔نہ کبھی تیرے حسن سے انکار کیا ہے۔اے زندگی ہم نے ہمیشہ تم سے بہت زیادہ پیار کیا ہے۔

مسکراتی ہے کبھی آنکھ میں کاجل بن کے
کبھی سینے میں دھڑک اٹھتی ہے آنچل بن کے
کبھی پھولوں کے کٹوروں سے جھلک جاتی ہے
کبھی شعلے کبھی شبنم سے لپک جاتی ہے

اس اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ زندگی کی منفرد اداؤں کی جھلک پیش کرتا ہے اور زندگی کی رعنائیوں اور حسن کو بیان کرتے ہوئے زندگی کو انسانی آنکھ میں موجود کاجل سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ کبھی تو یہ انسانی آنکھ میں موجود خوبصورت کاجل کی طرح دکھائی دیتی ہے اور کبھی یہ انسانی سینے میں آنچل کی دھڑک کا سماں پیش کرتی ہے۔ زندگی کی ادائیں کبھی پھولوں کے کٹوروں سے جھلکتی دکھائی دیتی ہے تو کبھی اس کی لپک شعلے اور شبنم میں موجود پائی جاتی ہے۔

کیسے کیسے تیرا دیدار کیا ہے میں نے
زندگی تجھ سے بہت پیار کیا ہے میں نے

شاعر کہتا ہے کہ اے زندگی تمہارے کیسے کیسے اور کن کن منفرد روپوں میں،میں نے دیدار کیے ہیں۔ اے زندگی میں نے تم سے بہت پیار کیا ہے۔

تو ہر اک رنگ میں ہر شے میں نظر آئی ہے
روشنی بن کے ستاروں سے اتر آئی ہے
تیرے جادو،تری خوشبو،تری مسکانوں کو
تیرے مچلے ہوئے امڈے ہوئے طوفانوں کو

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ زندگی کی جھلک اس دنیا کی ہر چیز میں دکھائی دیتی ہے۔کبھی یہی زندگی روشنی بن کر ستاروں میں اپنی جھلک دکھلاتی ہے تو کبھی یہ زندگی جادو،خوشبو اور مسکراہٹ بن کر جھلکتی ہے۔یہی زندگی کبھی طوفان بن کر مچلتی اور امڈتی ہے۔

اپنی سانسوں میں گرفتار کیا ہے میں نے
زندگی تجھ سے بہت پیار کیا ہے میں نے

شاعر کہتا ہے کہ اے زندگی تمھیں میں نے اپنی آتی جاتی سانسوں میں گرفتار کر کے مقید کر رکھا ہے زندگی میں نے تجھ سے بہت پیار کیا ہے۔

تجھ کو چاہا تو مگر کوئی تقاضا نہ کیا
میں نےبھولے سے ترے پیار کو رسوا نہ کیا
تو بتا ! میں نے کبھی تجھ سے چرائیں آنکھیں
تیرے چہرے سے کہاں میں نے ہٹائیں آنکھیں

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ اے زندگی میں تیری چاہت میں ڈوب گیا لیکن اس چاہت میں بھی میں نے تجھ سے کوئی تقاضا نہیں کیا۔تجھ سے پیار کرنے کے بعد غلطی سے بھی اس پیار کو رسوائی کا سبب نہیں بننے دیا۔شاعر زندگی کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے کبھی بھی تم سے آنکھیں نہیں چرائیں نہ کبھی تمھارے چہرے سے میں نے اپنی آنکھیں ہٹائی ہیں۔

خود کو کب تیرا گنہ گار کیا ہے میں نے
ندگی تجھ سے بہت پیار کیا ہے میں نے

شاعر کہتا ہے کہ زندگی میں نے کبھی بھی تمھیں اپنا گنہہ گار نہیں کیا ہے اور میں نے ہمیشہ تم سے بہت پیار کیا ہے۔

موت آئے گی تو اک پل کی نہ مہلت دے گی
سانس لینے کی بھی کم بخت نہ فرصت ,
جیتے جی کسی لیے پھر آپ کو ناشاد کریں
زندگی ایک بھی پل کیوں ترا برباد کر یں

شاعر ان اشعار میں کہتا ہے کہ جب انسان کی موت آئے گی تو یہ زندگی اک لمحے کی بھی مہلت نہیں دے گی۔مگر ہم اپنی اس زندگی میں اس قدر مصروف ہو چکے ہوئے ہیں کہ ہمیں سانس لینے کی بھی کم ہی فرصت ہے تو پھر ہم اس زندگی میں جیتے جی کس لیے دوسروں جو خوش کرتے رہیں۔اے زندگی ہم تمھارا ایک لمحہ بھی کیوں برباد کریں۔

لمحہ لمحہ یہی اصرار کیا ہے میں نے
زندگی تجھ سے بہت پیار کیا ہے میں نے

شاعر کہتا ہے کہ اے زندگی میں نے لمحہ لمحہ اصرار میں گزارا ہے اور میں نے ہمیشہ تم سے بہت زیادہ پیار کیا ہے۔

سوچیے اور بتایئے:-

شاعر کو زندگی کس کس روپ میں نظر آتی ہے؟

شاعر نے زندگی کو کبھی آنکھ میں کاجل بن کر جھلکتے دیکھا تو کبھی سینے میں آنچل بن کر دھڑکتے۔زندگی پھولوں کے کٹوروں سے جھلکتی ہے تو یہی زندگی شعلہ اور شبنم بن کر بھی لپکتی ہے۔ زندگی روشنی بن کر ستاروں میں اتر آتی ہے اور اس زندگی کو امڈتے طوفانوں میں بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔

شاعر نے اپنی سانسوں میں کسے گرفتار کرنے کی بات کہی ہے؟

شاعر نے اپنی سانسوں کو زندگی سے پیار کر کے گرفتار کیا۔

شاعر زندگی کا ایک بھی پل کیوں بر بادکرنانہیں چاہتا ؟

زندگی ہر لمحہ مصروفیت کا نام ہے اور جب موت آتی ہے تو یہ انسان کو سانس لینے کی بھی مہلت میسر نہیں کرتی ہے اس لیے شاعر زندگی کا ایک بھی پل برباد نہیں کرنا چاہتا ہے۔

آنکھیں چرانے سے کیا مراد ہے؟

آنکھیں چرانے سے مراد حقیقت سے منھ موڑنا ہے۔

شاعر نے ہرلمحہ کیا اصرار کیا ہے؟

شاعر نے ہر لمحہ زندگی سے محبت کا اصرار کیا ہے۔